ہندوستانی زبان کا جشن ریختہ اور اردو

\"\"
٭وسیم احمد علیمی

میں اردو ہوں، جب میں بڑی ہو رہی تھی تب میرے بہت سے نام تھے، کبھی ریختہ، کبھی ہندوستانی، کبھی ہندی اور ہندوی۔ لیکن عمر کے ایک حصہ تک پہنچتے پہنچتے میرے آدھار کارڈ، پین کارڈ، راشن کارڈ یہاں تک کہ سند ولادت میں بھی میرا صرف ایک نام رہ گیا”اردو“۔ آریوں کی آمد سے لے کر سنسکرت، پراکرت، اب بھرنش اور پالی وغیرہ مختلف لسانی تبدیلیاں جھیلتی ہوئی آج میں اس مقام تک پہنچی ہوں۔ غیر منسقم ہندوستان کے تقریبا سبھی بڑے مفکرین کی میں منظور نظر تھی۔ آزادی بعد میرے وجود پر خطرہ منڈلانے لگا۔ کبھی رسم الخط کی تبدیلی کا کبھی نفرتوں کی آندھی کا۔ حکومت میری بقا اور فلاح کے لیے بہت سے اداروں کو خوب روپیے پیسے دیتی ہے،لیکن ادھر کچھ برس سے ایک تجارتی انسان نے مجھے اپنی منہ بولی بہن بنا لیا ، میری خوب خاطر داری کرنے لگا۔ میں خوش تھی ، چلو کوئی تو خلوص والا ملا۔ لیکن اب وہی تجارتی انسان مجھے میرے پرانے نام سے پکارنے لگا۔ جبکہ اب میرا موجودہ نام اور رسم خط ہی میری شناخت ہے۔ مجھے خوف ہے اگر ملک بھر میں این آر سی ہوا تو میری شہریت مشکوک ہو جائے گی۔
سنو میرے خیر خواہو! اس تقریب میں مت جانا جہاں مجھے کسی اور نام سے پکارے جانے کی تیاری چل رہی ہے۔
ڈاکٹر رضوان احمد صاحب کا یہ مضمون بھی دیکھ لیں جس میں میرا جشن منانے والوں کے ارادوں کا جائزہ لیا گیا

Leave a Comment