ہندوستانی فکر سراسر فلسفہ پر مبنی ہے۔پروفیسر شریف حسین قاسمی

\"_20161021_202912\"
الہ آباد،(اسٹاف رپورٹر)
شعبہ عربی و فارسی ،الہ آباد یونیورسٹی میں عبد الستار صدیقی میموریل لکچر کا انعقاد کیا گیا۔جلسے کی صدارت ڈاکٹر صالحہ رشید نے کی اور معروف استاد زبان و ادب فارسی ،سابق صدر شعبئہ فارسی و ڈین فیکلٹی آف آرٹس،دہلی یونیورسٹی پروفیسر شریف حسین قاسمی مقرر خاص تھے۔واضح ہو کہ گذشتہ ہفتہ ہی ’انجمن آثار و مفاخر فرہنگی‘ایران نے پروفیسر قاسمی کو فارسی ادب کی گراں مایہ خدمات کے لئے اعلیٰ انعام سے سرفراز کیا۔یہ کسی بھی ہندوستانی کے لئے بہت بڑا اعزاز ہے۔ جلسے کا آغاز محمد قاسم کی تلاوت قرآن پاک سے ہوا۔صدر شعبہ نے ڈپارٹمنٹ کی جانب سے مہمان خاص کی شال پوشی کی اور گلدستہ پیش کیرنے کے بعد مفصل تعارف کرایا۔بعد ازاں پروفیسر قاسمی نے فارسی سبک شاعری پر تفصیلی گفتگو کی ۔ انھوں نے ایران پر مسلم حکومت،اس کے بتدریج اثرات،زبان کی تبدیلی اور اس کے نتیجہ میں وجود میں آنے والے ادب پر روشنی ڈالی۔انھوں نے بتایاکہ عربوں کے حملے کے وقت ایران میں پہلوی زبان رائج تھی،جو خط میخی میں لکھی جاتی تھی۔اس کی خوبی یہ تھی کہ اگر شہنشاہ لکھنا ہے تو تین سطریں میخی خط کی بنانی پڑتی تھیں ،تب جا کر کہیں لفظ شہنشاہ لکھا جاتا تھا۔ مشکل یہ تھی کہ حکمران عرب تھے اور رعایا ایرانی ۔بادشاہ کے دفتر میں کام کرنے والے سب ایرانی ۔اس طرح بادشاہ کی زبان الگ اور رعایا کی زبان الگ۔ضروروت محسوس ہوئی کہ بادشاہ جو حکم صادر کر رہا ہے اسے رعایا سمجھے۔ یہ دو بڑی وجہیں تھی کہ ایرانیوں نے عربی زبان کی خصوصیات پر غور کرنا شروع کیااور انھوں نے عربی رسم الخط اپنا لیا۔ دور جاہلیت سے ہی عربی شاعری کی روایت مستحکم تھی۔بالخصوص اعلیٰ پایہ کے قصیدے لکھے جاتے تھے۔فارسی ادب نے اس روایت کو اپنا لیا۔ ایرانیوں نے عربی زبان میں بھی وافر ادب تخلیق کیا۔ ان کے مطابق جہاں کہیں ادبی مراکز رہے،سبک کو اسی جگہ کے نام سے موسوم کیا گیا۔مثلاً بلخ جو خراسان کا ایک حصہ تھا ،وہ علم و ادب کا ایک بڑا مرکز تھا۔جہاں ۱۵۰ مدارس اور ۴۰ سے زیادہ مسجدیں تھیں۔ یہاں لوگوں کو تعلیم دی جاتی تھی۔اس خطہ میں جس طرح کے ادب کی تخلیق ہوئی اسے سبک خراسانی کا نام دیا گیا۔ اسی طرح جب ادبی مرکز عراق عجم منتقل ہوا تو اس نواح میں جس طرز پر ادب لکھا گیا اسے سبک عراقی جانا گیا ۔یہ دونوں ہی سبک سادہ تھے۔ آگے چل کر جب ایران پر صفویوں کی حکومت قائم ہوئی اور شعرا ء و ادباء کی آزادی خیال مجروح ہوئی تو اتفاق سے اس وقت ہندوستان میں اکبر جیسا آزاد فکر بادشاہ حکومت کر رہا تھا۔شاعروں اور ادیبوں کو تخلیق ادب کے لئے یہاں بہتر فضا نظر آئی اور ان کی بڑی تعداد ہندوستان آ پہونچی جہاں کی ہوا میں فلسفہ تیرتا ہے۔فارسی ادب کا مرکز یہاں قائم ہواتوادب میں بھی فلسفہ داخل ہو گیا۔ اس زمانے میں ادب جس نہج پر لکھا گیا اسے سبک ہندی کا نام دیا گیا۔اس سبک پر فلسفہ کا غلبہ ہے۔ہندوستان بہت شروع سے فلسفے کا دیس رہا ہے۔یہاں کا ادب زندگی جینے کے آداب سکھاتا ہے۔پنچ تنتر اس کی عمدہ مثال ہے۔یہ فقط جانوروں کی زبانی کہی گئی کہانیاں نہیں ہیںبلکہ ان کا مقصدبادشاہ کے حکم پر شاہزادے کو زندگی جینے اور بادشاہت کے آداب سکھانا تھا۔ آج کی فارسی شاعری کو ہم سبک جدید کے زمرے میں رکھتے ہیں۔ آج شاعری سماج کے ہر چھوٹے بڑے مسائل بیان کرنے کا ذریعہ بن چکی ہے۔یہ عوام کی زبان میں سادہ طریق پر کی جا رہی ہے۔ اس کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ اس نے ایرانی سیاست کے الٹ پھیر میں بہت بڑا رول ادا کیا۔انقلاب کی پہل شعراء و ادباء نے کی ۔عوام بعدمیں ان کے ساتھ ہو لی ۔ایران میں نیا نظام قائم ہونے کے بعد شعراء اور ادباء کو عتاب کا نشانہ بھی بننا پڑا۔جلسے میں شعبہ کے تمام اساتذہ اور طلباء موجود رہے جو پروفیسر قاسمی کے مخصوص طرز بیان سے محظوظ ہوئے۔

Leave a Comment