ہے بساطِ سخن کا ناقدسلیم محی الدین

٭ ڈاکٹر محبوب ثاقب
اسوسی ایٹ پروفیسر
شعبہ اردو ، شیواجی کالج، اودگیر ضلع لاتور ،مہاراشٹر

\"\"
’’ مضمون تازہ ‘‘پروفیسر سلیم محی الدین کے مزاجِ تنقید کی نمائندہ تصنیف ہے۔پروفیسر سلیم محی الدین نہ صرف شاعر ہیں بلکہ ایک کامیاب محقق بھی ہیں اور منجھے ہوئے نقاد بھی۔سلیم محی الدین جس دور میں ادبی دنیا سے ’ وابستہ ‘ ہوئے اس وقت ایک طرف قاضی سلیم،اخترالزماں ناصرؔ، بشر نوازؔ،حمایت علی شاعرؔ،احسنؔ یوسف زئی،میر ہاشمؔ، وحید اخترؔ،جے پی سعیدؔ، عصمت جاوید شیخ،عرفانؔ پربھنوی، قمرؔ اقبال ،شاہ حسین نہریؔ،سحر سعیدیؔ،اسلمؔ مرزا،یوسف عثمانیؔ،یونسؔ فہمی،جاوید ناصرؔ،عتیق اللہ ، صادقؔ،فہیمؔ صدیقی،عارف خورشید،رؤف صادقؔ جیسے اسیرانِ غزل کی وجہ سے ، ’ مراٹھواڑہ میں اردو غزل ‘ کا جادو سرچڑھ کر بول رہا تھا، تودوسری جانب نثرنگاری میںابراہیم اختر، حمید سہروردی ،رشید انور،رفعت نواز ،الیاس فرحت ،محمود شکیل ،نعیم زبیری،حمید اللہ خاں، اثر فاروقی،، نورالحسنین ،عارف خورشید،عظیم راہی،وغیرہ جیسے فدائین کہانی کی بدولت افسانہ اور ’ اردو ناول تنقید و تجزیے‘کے دور سے گزر رہے تھے۔اُ ردو ادب کے ایسے سنہرے دور میںشاعر سلیم محی الدین میدانِ تنقید میں ’ میزان ‘ لے کر’ مضمون تازہ ‘ کے ساتھ نمودار ہوئے ۔جس کی تازگی اور مہک نے مشاہیرادب سے نہ صرف داد و تحسین حاصل کی بلکہ اسے ادبی تنقید کے میدان میں’’ مستحسن ا قدام ‘‘ بھی قرار دیا ۔
پروفیسرسلیم محی الدین کا قلمی سفرتقریباََ چالیس برسوں پر محیط ہے۔اس عرصے میں ان کی پانچ کتابیں منصہ شہود پر آئیں۔پیشہ ٔ تدریس سے وابستگی نے انھیںنہ صرف تحقیق کے دقیق صحرا سے گزارا بلکہ تنقیدکے دشت و دریا میں غوطہ زنی کا مزہ بھی چکایا ۔ نتیجہ یہ کہ تخلیق ، تحقیق اورتنقید تینوں میدانوں میں انہوں نے اپنی صلاحیتوں کے جلوے بکھیرے ہیں۔دنیا بھر کے معروف ادبی رسائل و اخبارات میں ان کی تخلیقات شائع ہوتی رہتی ہیں ۔دیدہ ور(باسٹن) جدید ادب (جرمنی) اردو دنیا (دہلی) فکر و تحقیق (دہلی) تحریرِ نو(ممبئی) جیسے معیاری رسائل میں میں نے ان کی تحریرں پڑھی ہیں۔ موصوف نے بہت کم لکھا لیکن جو لکھا انتخاب بن گیا ۔ان کامطالعہ نہایت وسیع ہے ۔شعر نگاری میں قمر ؔاقبال سے شرف تلمذ حاصل رہا ہے۔تحقیق و تنقید میں بشر نواز ؔجیسے فن کار فیض حاصل کرتے رہے۔بر صغیر کے معروف مشاہیرِادب نے ان کی صلاحیتوں کا اعتراف کیا ہے۔ناصر عباس ،عتیق اللہ ،نورالحسنین ،ارتکاز افصل ،اسلم مرزا ، وغیرہ نے انکی تخلیقات پر اظہار ِ خیال کیا ہے۔انھیں نہ صرف قومی سطح کے سمینارس میں مدعو کیا جا تا ہے بلکہ بین الاقوامی سمینارس اور کانفرنسیس میں بھی بڑے عزت و احترام سے بلا یا جا تا ہے ۔اس سلسلے میں وہ ترکی ،چین ، ازبکستان وغیرہ ممالک کی سیر بھی کرچکے ہیں ۔حج کی سعادت بھی نصیب ہوئی۔ دہلی ،لکھنو،بھوپال،الہ آباد، کشمیر وغیرہ شمالی ہند کے تمام اردو مراکز میں ان شہرت کے چرچے ہیں ۔ مجھے موصوف کے ساتھ جہاں جہاں سمینارس میں شرکت کرنے اور مضامین پڑھنے کا موقع ملا میں نے دیکھا کہ اکثر وہ اپنے مضامین رات کے آخری حصہ میں لکھتے ہیں ۔یہی نہیں اگر کل صبح مقالہ پڑھنا ہو تو آج رات بھر جاگ کر مقالہ تیار کرتے ہیں ۔کبھی کبھی یقین نہیں ہوتا کہ وہ کل مقالہ پیش کریں گے بھی یا نہیں لیکن دوسرے دن ان کا مضمون تیار رہتا ہے۔صبح وہ مضمون جب تک کسی نہ کسی کو سناتے نہیں انھیں اطمینان نہیں ہوتا ۔پھر سامع چاہے ان سے چھوٹا ہو یا بڑا اس کی پروہ نہیں کرتے ‘ با صلاحیت ہوناضروری خیال کرتے ہیں۔اس کی رائے طلب کرتے ہیں ۔اس کے بعدمقالہ محفل میں پیش کرتے ہیں ۔بعد ازاں اس کی اشاعت سے پہلے بھی کسی نہ کسی سے چیک کراتے ہیں ۔اس کی نوک پلک سوارتے ہیں ۔اس کے بعد اشاعت کے لیے ارسال کرتے ہیں
تنقید میں ان کی نگاہ ِ انتخاب صرف ادب تک محدود نہیں ہے بلکہ ان کے احاطہ ٔ اِنتقاد میں اردو زبان اور متعلقاتِ زبان بھی شامل ہیں۔اس سلسلے میں ’’ زبانِ اورنگ آبادی اور دبستانِ اورنگ آباد ‘‘ ، ’’ اردو کی ابتدائی نشونما میں ترکوں کا حصہ‘‘، ’’ عالم کار معاشرہ ، میڈیا اور زبان و ادب‘‘ ان کی تحقیقی و تنقیدی صلاحیتوں کے نمائندہ مضامین ہیں۔ سطر ِ بالا میں مذکور پہلے مضمون میں انہوں نے اورنگ آباد کودبستان قرار دینے کی مقدور بھر کوشش کی ہے جس پر کافی بحث ہوئی ہے ۔انھوں نے اس سلسلے میں اہم سوال قائم کیا ہے جس نے بحث کا دروازہ کھول دیا ۔ملاحظہ فرمائیں:
’’ مراٹھواڑہ آج بھی زبان و ادب اور لب و لہجہ کی سطح پر اس ’’ زبان ِ اورنگ آبادی ‘‘ کے زیر اثر نظر آتا ہے۔زبان و اد ب کی
ایسی فقید المثال خدمات کے عوض ہی کسی علاقے کے ادب کو ’’ دبستان ‘‘ سے موسوم کیا جاتا ہے۔جب گولکنڈہ اور بیجاپور
کو دبستان قرار دیا جاسکتا ہے تو اورنگ آباد کو کیوں نہیں؟ ‘‘
(مضمون ِ تازہ ،سلیم محی الدین ،ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس دہلی، ص۱۴۔۱۵)
’اردو کی ابتدائی نشونما میں ترکوں کا حصہ ‘ اس لیے اہم مضمون ہے کہ اس میں انھوں نے ہندوستان کے ترک بادشاہوں اور انکی اردو دو ستی و سرپرستی کو موضوع بنایا ہے ترکی سلاطین اور ان کی ادب نوازی کو کھوج کھوج کر اس طویل تر مضمون کا حصہ بنایا ہے ۔یہ مضمون انھوں نے ترکی میں منعقدہ بین الاقوامی سمینار میں سنایا ہے۔
پروفیسر سلیم محی الدین جدید ذرائع ابلاغ سے نہ صرف واقفیت رکھتے ہیں بلکہ اس کے استعمال میں اردو حلقوں میں بڑے معروف بھی ہیں اور ہمیشہ تروتازہ رہتے ہیں۔فیس بک ، واٹس اپ ،انسٹاگرام ،ٹیلی گرام ہو یا ای میل ، متنی چاٹنگ ہو یا بصری چاٹنگ ،وہ کسی میں بھی کم نہیں ہے اور کیوں نہ ہو کہ فی زمانہ بچہ ہو بوڑھا یا پھر نو جوان ہر کے ہاتھ میں ملٹی میڈیا موبائل ہے۔اسی تجربے نے ان سے ایک مضمون ’عالم کار معاشرہ ، میڈیا اور زبان و ادب‘ لکھوایا ۔جس میں انہوں نے سوشل میڈیا اور اس کے اردو پر ہورہے منفی اور مثبت اثرات سے بحث کی ہے۔اس میں انھوں نے سو شل میڈیا پر منعقد کئے جا رہے طرحی مشاعروں اور ادبی مذاکروں کا ذکر بھی کیا ہے۔یعنی اب ہزار کوس دور پیٹھ کر اردو کے چھوٹے بڑے ہر قسم کے شاعر اپنے کلام کو عوام الناس تک نہ صرف پہنچا رہے ہیں بلکہ سوشل میڈیا ہی پر کلام پر گرہ بھی لگائی جا رہی ہے اور کلام کی اصلاح بھی کی جا رہی ہے جو ایک خوش آ ئند اقدام ہے۔
تاثر ،تبصرہ ،تجزیہ ،تشریح وغیرہ تنقید کے اورزار ہیں ۔ان میں امتیازکرنا ضروری ۔ سلیم محی الدین نے ایک مضمون ’ تبصرہ ،تعارف یا تنقید ‘ کے عنوان سے تحریر کیا ہے۔ جو ان کے فکر و فن اور تنقیدی مزاج کا غماز ہے۔اس مضمون میں انہوں نے تنقید تعارف اور تبصرہ پر اچھی بحث کی ہے وہ تعارف کو تبصر ے کا ہی ایک حصہ کہتے ہیں اور تنقید و تبصرے کے فرق کی اس طرح نشاندہی کرتے ہیں :
’’ اپنی بات کو زیادہ واضح اور آسان فہم بنانے کے لیے یہی کہہ سکتا ہوں کہ مبصر وہ مشاطہ ہے جس
کاکام رشتہ داری ہونے سے قبل لڑکی یا لڑکے کی ایک عدد پاسپورٹ سائز فوٹواور بایو ڈاٹا فریقین
تک پہنچاے جبکہ نقاد وہ قاضی ہے جس کے عمل پر فریقین ( یعنی مصنف اور قاری ) کی مستقبل کی
زندگی کا دار و مدار ہے۔‘‘ ( مضمون ِ تازہ ، ص ۳۹)
سلیم محی الدین نے سراجؔ اورنگ آبادی ، حالیؔ ،اقبال ؔ ، فیض ؔ مخدوم محی الدین ،اخترالایمان ،بشر نواز ؔ اور ندا فاضلی ؔ جیسے اردو کے نابغۂ روزگار شعرا اور ا ن کے فن پر اظہار ِ خیال کیا ہے ۔سراجؔ کی شاعری میں انھوںنے عشق و تصوف کے امتزاج کو کھوجا ہے ۔اقبال کی غزلوں میں پیکر تراشی کی نشاندہی کی ہے۔حالی ؔ کو وہ تہذیب ِ جذبات کا شاعر قرار دیتے ہیں ۔مخدوم ؔ کو تحریک آزادی کا علم بردار شاعر بناتے ہیں ۔فیض ؔ کی غزلوں میں غیر سیاسی حوالے ڈھونڈتے ہیں ۔اختر الایمان کی شاعری میں ہئیت اور اسلوب کے تجربے کی تلاش کرتے ہیں ۔ایک مضمون میں کہتے ہیں غزل کہو کہ یہ موسم بشر نواز کا ہے۔ندا فاضلی ؔ کا انتقال ہو اتو سلیم محی الدین کو ان کی شخصیت اور فن میں گاؤں کی مٹی اور اس کی بو باس شہر میں بکھیرنے کی بات یاد آگئی ۔اس لیے شہر میں بسا گاؤں : ندافاضلی ؔ ، کے عنوان سے مضمون لکھا ۔
سلیم محی الدین تنقید میں آسان اور عام فہم زبان کے قائل ہیں ۔ انہیں شکایت ہے کہ آج ہمارے تخلیقی ادب سے زیادہ تنقید ی ادب ،ترسیل کی ناکامی کا شکار ہوگیا ہے لکھتے ہیں :
’’ بنیادی طور پر ایک تخلیقی فن کار ہونے کے ناطے میں تحقیق و تنقید کو بھی اسی نظر سے دیکھتا ہوں ۔ یار لوگوں نے
اصطلاحات کی بھر مار اور غیر مانوس بقراطی زبان کے استعمال کے باعث ان شعبہ ہائے ادب کو خاصہ ادق ،
خشک اور غیر مقبول بنا دیا ہے۔ آج تخلیقی ادب سے زیادہ ہماری تنقید تر سیل کے المیے کا شکار ہے جبکہ میرے
نزدیک تنقید و تحقیق ، تخلیقی ادب کے ،مقابل زیادہ سہج اور سرل ترسیل کے متقاضی ہیں۔ ‘‘ ( مضمون تازہ ،ص۹)
بلا شبہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ ابہام شاعر ی کا حسن ہے لیکن یہی ابہام اگر تنقید میں در آئے تو نقص بن جاتا ہے۔تنقید قاری کو تخلیق کی تہہ میں اترنے میں معاون ثابت ہوتی ہے ۔فن پارے کی تفہیم میں تنقید قاری کو بھٹکنے سے روکتی ہے۔قاری کی سوچ کو سمت و رفتار عطا کرتی ہے۔بہر حال تنقید میںکامیاب ترسیل لازمی ہے۔
مقام ِ حیرت ہے کہ سلیم محی الدین نے اپنی تنقید کو شعری ادب تک ہی محدود کررکھا ہے۔پتہ نہیں کیوں انھوں نے اب تک نثر نگاروں اور اصناف ِ نثر پر کوئی تنقیدی یا تحقیقی مضمون نہیں لکھا حالانکہ ان کے مطالعے میں تمام ادبی اصناف رہی ہیں ۔ انہوں نے نہ صرف ’ سرسید احمد خان: افکار و نظریات‘ کے عنوان سے قومی مذاکرہ بھی منعقد کروایا ہے بلکہ چند برس قبل’ اردوا فسانہ‘ پر بھی ایک قومی سطح کا شاندار مذاکرہ منعقد کیا ہے۔اس کے باوجود ان کا کوئی مضمون نثر ی ادب پر نہیں ہے۔لیکن جہاں چاہ وہاں آہ ،امید ہے کہ وہ آئندہ اس طرف توجہ کریں گے کیونکہ سلیم محی الدین کے قلم کی سیاہی ابھی سوکھی نہیں ۔جس طرح انھوں نے شعری ادب میں اپنی جولانیِ طبع کے جو ہر دکھائے ہیں اسی طرح حیات ِ آئندہ میں نثری اصناف پر بھی ان کا زرخیر ذہن فکرو فن کے جوہر دکھائے گا۔
سلیم محی الدین کے تنقید کی خوبی یہ ہے کہ وہ جس موضوع پر مقالہ یا مضمون لکھتے ہیں اس کا باریک بینی سے مطالعہ کرتے ہیں ۔اردو ہی نہیں انگریزی اور دیگر زبانون کی کتابوں سے بھی حوالے جمع کرتے ہیں ۔تحقیق میں حوالوں کا مستند ہونا کامیابی کی علامت ہے ۔وہ اس سلسلے میں کافی محنت و مشقت سے کام لیتے ہیں ۔جہاں کہیں سے ہو مواد ایکجا کرتے ہیں ۔کالج کا کتب خانہ ہو یا شہر کا ،اس سے استفادہ کرتے ہیں ۔ان کا اپنا ذاتی کتب خانہ ہے بھی کچھ کم نہیں ہے۔ یو ں لگتا ہے علی گڑھ کے کوئی پروفیسر کے گھر کا کتب خانہ ہے۔
الغرض ! پروفیسر سلیم محی الدین کی تنقید میں شفافیت ہے ۔موضوع کی مناسبت سے عنوان کا انتخاب کرتے ہیں ۔ان کے تقریبا َ مضامین کی ایک خوبی یہ ہے کہ مضمون کا آغاز چونکا دینے والے جملے سے کرتے ہیں ۔پورے مضمون کو ایک سمت میں آگے لے جاتے ہیں ۔قاری کی توجہ ادھر ادھر بھٹکتی نہیں ۔جب دعوہ کرتے ہیںتو پورے وثوق سے کرتے ۔پھر مستند حوالے پیش کرتے ہیں ۔جس کی وجہ سے قاری کو ان کا قائل ہونا پڑتا ہے۔تخلیقی صلاحیت ،مطالعے کی وسعت ،فکر کی گہرائی اور قوتِ فیصلہ نے ان کی تنقید کو توازن عطا کیا ہے ۔یہی وہ تمام خوبیا ں ہیں جو کہتی ہیں :
ہے بساط سخن کا ناقد سلیم محی الدین !!!
\"\" \"\"
Dr.Shaikh Maheboob (Maheboob Saqib)
Associate Professor , Department of Urdu,Shivaji College,Udgir-413517
Cell:7588977543

Leave a Comment