یونس ایمرے ترکش کلچرل سنٹر کی تعارفی تقریب

\"phpThumb_generated_thumbnailjpg\"
لاہور (اسٹاف رپورٹر)
یونس ایمرے ترکش کلچرل سنٹر لاہور کی تعارفی تقریب 26 اگست 2017 ایوانِ اقبال میں منعقد ہوئی۔ یہ تقریب تصویری نمائش اور سیمینار کی شکل میں ترتیب دی گئی تھی جس کا عنوان اردو اور ترکی زبانوں کے حوالے سے زبان و ادب تک، پاکستان اور ترکی کی دوستی اور بھائی چارے کا سفر\” تھا۔ تصویری نمائش کا افتتاح عطاءالحق قاسمی چیئر مین پاکستان ٹیلی ویژن کارپوریشن نے کیا۔

تصویری نمائش میں ایک سو بیس تصاویر کے ذریعے پاکستان اور ترکی کے تعلقات کی تاریخ پیش کی گئی۔ سیمینار کی صدارت تبسم کاشمیری نے کی۔ مہمانانِ خصوصی میں ڈاکٹر قاسم بگھیو چئیرمین اکادمی ادبیات پاکستان، امجد اسلام امجد، ڈاکٹر اصغر ندیم سید اور فاروق عادل مشیر صدر پاکستان شامل تھے۔ تلاوتِ کلام پاک کی سعادت ظاہر اور نعتِ رسول مقبول ﷺ کی سعادت عبد المجید چٹھہ نے حاصل کی۔ نظامت کے فرائض ڈاکٹر ضیاءالحسن کے ذمے رہے۔ ابتدا میں ڈاکٹر حلیل طوقار ڈائریکٹر یونس ایمرے کلچرل سنٹر نے اس سنٹر کے اغراض و مقاصد پیش کیے اور مہمانوں کو خوش آمدید کہا۔ انہوں نے کہا کہ میں گزشتہ تیس سال سے اردو زبان و ادب کی تدریس اور پاکستانی ثقافت کو ترکی میں متعارف کروانے میں مصروف رہا ہوں لیکن اب مجھے اہلِ پاکستان کو ترکی زبان و ادب اور ثقافت سے آگاہ کرنے کی ذمہ داری تفویض ہوئی ہے اور میں انشاءاللہ اس ذمہ داری کو ادا کرنے میں اپنی پوری صلاحیتیں وقف کر دوں گا۔
ڈاکٹر ذکائی کارداش نے اپنے مضمون میں ترکی میں اردو کی تدریس کے مراکز کا تعارف پیش کیا۔ انہوں نے بتایا کہ انقرہ ، استنبول اور قونیہ میں اردو زبان و ادب کے شعبے قائم ہیں۔ حمیدہ شاہین نے اپنے مضمون میں ایجاز و اشعار سے ترکی اور پاکستان کے ثقافتی روابط اور ترکی اور اردو ادب میں اشتراکات پر بات کی خصوصاً یونس ایمرے کی ادبی خدمات پر روشنی ڈالی۔ ڈاکٹر محمد کامران نے ترکی اور پاکستان کے لوگوں میں مثالی دوستی پر گفتگو کی۔ یہ دوستی اور تعلق تحریکِ خلافت کے زمانے سے قائم ہے اور ہمیشہ قائم رہے گا۔ انہوں نے ترکی اور ڈاکٹر حلیل طوقار کے حوالے سے اپنی دو نظمیں بھی سنائیں۔ ڈاکٹر سعادت سعید کئی سال انقرہ یونیورسٹی میں اردو کے استاد کے طور پر خدمات انجام دے چکے ہیں اور ترکی ادب کا اردو میں ترجمہ کرتے رہے ہیں۔ انہوں نے ترکی شاعری کے کچھ ترجمے سامعین کی نذر کیے اور ترکی ادب کے باری میں سیر حاصل گفتگو کی۔ ڈاکٹر عطیہ سید نے اپنے مخصوص شگفتہ اسلوب میں ترکی اور پاکستان کے تعلق پر روشنی ڈالی۔
مہمانانِ خصوصی میں سب سے پہلے صدر پاکستان کے مشیر فاروق عادل نے اپنے خیالات کا اظہار نہایت ادبی زبان میں ترکی کے سفر نامے کی صورت میں کیا۔ انہوں نے ترکی کے لینڈ سکیپ کے حسن کو بیان کرنے کے ساتھ ترک مسلمانوں کے باطنی حسن کو بیان کیا۔ ڈاکٹر اصغر ندیم سید نے بتایا کہ ان کا ایک ڈرامہ ترکی زبان میں ڈب کرکے ترکی میں پیش کیا گیا اور ترکی کے کے لوگ انہیں اس حوالے سے پہچانتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ ان کی صاحبزادیوں نے سال بھر میں تیاری کرکے ترکی کا سفر اختیار کیا جس سے پتہ چلتا ہے کہ ہر پاکستانی ترکی جانے کا کس قدر خواہش مند ہے۔ امجد اسلام امجد نے کہا کہ ہم ترک جمہوریہ کے ہر دل عزیز صدر طیب اردگان کے اس قول سے پوری طرح متفق ہیں کہ ترک اور پاکستانی ایک قوم ہیں جو دو ریاستوں میں بستے ہیں۔ جس طرح پاکستانیوں کو ترکی جا کر اجنبیت کا احساس نہیں ہوتا، اسی طرح ترکی کے لوگوں کو پاکستان آکر بھی اپنائیت کا احساس ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یونس ایمرے ترکش کلچرل سنٹر کو تراجم کے ذریعے دونوں ملکوں کے عوام کو ایک دوسرے کے ادب سے زیادہ سے زیادہ روشناس کروانا چاہیے۔
ڈاکٹر قاسم بگھیو نے بتایا کہ ترکی میں 36 سے زیادہ زبانیں بولی جاتی ہیں ۔ 75 فیصد لوگ ترکی زبان بولتے ہیں لیکن دوسری زبانیں بولنے والے لوگ ترکی زبان بھی ضرور جانتے ہیں۔ اس اعتبار سے ترکی زبان سو فیصد لوگوں کی زبان ہے۔ انہوں نے کہا کہ وہ چاہتے ہیں کہ ترکی سے اردو سیکھنے والے ادیب پاکستان اور پاکستان سے ترکی زبان سیکھنے کے لیے پاکستانی ادیب ہر سال ترکی جائیں اور ایک دوسرے کی زبانیں سیکھ کر ادب کو براہِ راست ترکی سے اردو اور اردو سے ترکی زبان میں منتقل کریں۔ تاکہ دونوں ملکوں کے لوگ ایک دوسرے کے ادب سے واقفیت حاصل کر سکیں۔
ڈاکٹر تبسم کاشمیری نے اپنے خطبہء صدارت میں بتایا کہ ساٹھ کی دہائی میں حکیم نیّر واسطی نے اپنے گھر میں ترک کلچرل سنٹر قائم کیا تھا جس کی تقریبات 1981 تک منعقد ہوتی رہیں۔ اب ترک حکومت نے یہ کلچرل سنٹر قائم کیا ہے تو امید کی جاسکتی ہے کہ یہ ترکی اور پاکستان کے لوگوں کو مزید ایک دوسرے کے قریب لانے اور دونوں ملکوں کے تعلقات کو مزید برادرانہ اور خوشگوار بنانے میں کردار ادا کرے گا۔ تقریب کے آخر میں میزبان ڈاکٹر حلیل طوقار نے مہمانوں میں پھولوں کے تحائف پیش کیے۔

Leave a Comment