لندن کی ڈائری
٭ فہیم اختر، لندن
سوموار 7؍ نومبر کو برطانوی وزیر اعظم تھریسا مے ہندوستان کے تجارتی دورے پر پہنچیں۔وزیر اعظم تھریسا مے جب دلّی پہنچیں تو ان کا استقبال کالے گھنے آلودگی فضاسے دوچار دلّی نے کیا جو پچھلے کئی روز سے ہندوستان میں خبروں کی سرخیاں بنی ہوئی ہے۔ (Brexit)
بر یکسٹ کے بعد وزیر اعظم تھریسا مے کا یہ ایک اہم تجارتی دورہ ہے جس کو کئی معنوں میں اہم مانا جارہاہے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ کئی سوالات بھی پوچھے جارہے ہیں جس کا جواب زیادہ تر سیاستدان اور ماہرین نہیں دے پارہے ہیں ۔ لگتا ہے (Brexit)بر یکسٹ (یوروپین یونین چھوڑنے والوںکا گروپ) ان کے حلق کی ہڈی بن گیا ہے۔اس حوالے سے برطانیہ کے تمام اخبارات میں روزانہ خبریں شائع ہو رہی ہیں اور ریڈیو ،ٹیلی ویژن پر بحث مباحثہ بھی ہو رہا ہے۔
ویسے تو تھریسا مے کے اس دورے کو ایک اہم اور تجارتی دورہ مانا جا رہا تھا لیکن جوں جوں وقت بیتا سیاسی ماہرین نے تھریسا مے پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ایسا لگ رہا ہے کہ اس دورے کا اہم مقصد تجارت نہیں بلکہ ویزا میں آسانی پیدا کرنا ضروری بن گیا ہے ۔تاہم تھریسا مے نے اس بات کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ ان کے اس دورے کا ویزا کو آسان بنانے اور اس معاملے پر بات کرنا کا کوئی ارادہ نہیں ہے البتہ وہ پیشہ ور ماہرین کے لئے ویزا دلانے میں آسانی ضرور پیدا کریں گی تا کہ ان کو برطانیہ آکر کام کرنے میں آسانی ہو۔ لیکن ان کے ساتھ اور بھی کئی شرائط ہوں گی،جن پر انہیں اور ان کی کمپنی کو عمل کرنا ہوگا۔
تھریسا مے نے ان تمام قیاس آرئیوں کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ان کا ہندوستانیوں کے لئے ویزا کو آسان کرنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے ۔ اس کے بر عکس انہوں نے کہا کہ برطانیہ میں کام کرنے کے لئے ویزا سسٹم فی الحال کافی اچھا ہے اور دس میں سے نو ویزا کے درخواست قبول کئے جاتے ہیں۔۔ انہوں نے مزید کہا کہ برطانیہ ہمیشہ ہونہار اور قابل پیشہ وارنہ لوگوں کو ترجیح دیتا ہے جو فی الحال برطانیہ کے معیشت میں عمدہ رول نبھا رہے ہیں۔
تھریسامے نے یہ اعلان کیا کہ برطانیہ ہندوستان کے امیر ترین بزنس کمپنیوں کے ایکزیکیوٹیوزلئے ضرور ویزا میں آسانیاں پیدا کرے گا۔تھریسا مے نے یہ کہا کہ ہندوستان کا دورہ میرے لئے اس لئے اہمیت کا حامل ہے کیوں کہ ہم یورپ چھوڑنے والے ہیں اورہم دنیا کو یقین دلانا چاہتے ہیں کہ برطانیہ کئی معنوں میں بزنس اور سرمایہ کاری کے لئے اب بھی ایک عمدہ ملک ہے۔اس کے علاوہ ہزاروں ہندوستانی جو ورک ویزا پر برطانیہ میں کام کرتے ہیں ان کے لئے ایک نئے سسٹم Registered Travellers Scheme کا آغاز کیا جا رہا ہے جس کے تحت انہیںبرطانیہ پہنچنے پر یو کے بارڈر کنٹرول سے باہر جانے میں زیادہ انتظار نہیں کرنا پڑیگا۔
وزیر اعظم تھریسا مے نے ایک انٹرویو کے دوران کہا کہ ہم لوگ برطانیہ کو یورپ سے باہر ایک نئے دور کا آغاز کرتے دیکھنا چاہتے ہیں۔ ہندوستان سے برطانیہ کا ایک تاریخی رشتہ رہا ہے جو اب بھی کئی معنوں میں اہم ہے۔ برطانیہ ایک دہائی سے(Brussel) براسلز کی بیرو کریسی اور غیر منصفانہ پالیسیوں سے پریشان رہا ہے اور برطانیہ اس مشکل سے نکل کر ہندوستان کے ساتھ ایک نئے باب کا آغاز کرنا چاہتا ہے جو کہ دنیا کی تیز اور ترقی یافتہ معیشت والا ملک ہے۔
لیکن ان تمام باتوں کے باوجود ہندوستانی بزنس لیڈر الجھن میں ہیں ،جس کی ایک وجہ برطانیہ کایوروپین یونین سے نکلنے کا اعلان نہ کرنا ہے۔ اس کے علاوہ کسی کو یہ سمجھ میں نہیں آرہا ہے کہ جب برطانیہ یوروپین یونین سے مکمل طور پر باہر ہوجائے گا تو اس کی کیا حیثیت ہوگی؟تاہم اس کام کو مکمل ہونے میں لگ بھگ دو سال لگ سکتے ہیں۔زیادہ تر ہندوستانی بزنس مین کا کہناہے کہ برطانیہ اگر ہندوستان سے اچھے تجارتی تعلقات قائم کرنا چاہتا ہے تو اسے اپنے ویزے کی پالیسی میں نرمی لانی ہوگی۔ اس کے علاوہ ہندوستانی حکومت بھی ایسا ہی چاہتی ہے اور ہندوستانی طالب علموں اور کام کرنے والوں کے لئے ویزا کو آسان بنانے کی خواہش مند ہے۔ ان باتوں کے پیش نظرکہا جا رہا ہے کہ وزیر اعظم تھریسا مے کا تجارتی دورہ کہیں ویزا کا مسئلہ نہ بن جائے اور یہ دورہ اسی مسئلے میں الجھ کر نہ رہ جائے۔
حال ہی میں ہندوستانی وزیر اعظم نریندر مودی نے ایک ٹیکنالوجی سَمٹ میں کہا تھا کہ’ وہ چاہتے ہیں کہ ہندوستان کے نوجوانوں کو اعلیٰ تعلیم کے لئے بیرون ممالک میں مواقع دینا چاہئے۔ انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ تعلیم نوجوانوں کے لئے بہت ضرورری ہے جس سے ان کا مستقبل بنتا ہے اور اسی لئے ہم چاہیں گے کہ ہمارے نوجوان بیرون ممالک آسانی سے تعلیم اور ریسرچ کے لئے جا سکیں‘۔
آفیسل یو کے اعداد و شمار کے مطابق جون 2010تک پانچ سالوں میں 68,238طالبعلموںکو برطانیہ میں تعلیم حاصل کرنے کے لئے ویزا دیا گیا تھا یہ تعداد پانچ سالوں میں گھٹ کر 11,864رہ گئی ہے۔
(Cobra Beer) کوبرا بئیر کے مالک لارڈ بلیموریا نے کہا کہ ہندوستانی طالب علموں کو تعلیم ختم کرنے کے بعد برطانیہ میں مزید نہ رکنے دینے کی وجہ سے پچھلے پانچ سالوں میں ان کی تعداد گھٹ کر آدھی ہوچکی ہے۔انہوں نے کہا کہ کسی بھی تجارتی مذاکرات کو کامیاب کرنے کے لئے لوگوں کی نقل و حرکت معیشت کے لئے اہم ہوتی ہے جس کو برطانوی حکومت نظر انداز کر رہی ہے۔لارڈ کرن بیلیموریا کا یہ بھی کہنا ہے کہ تھریسا مے جب برطانیہ کی ہوم سیکریٹری تھیں تو انہوں نے ویزا پر سختی کرتے ہوئے طالب علموں کو بھی نہیں بخشا جو کہ ایک خطرناک بات ہے۔انہوں نے کہا کہ تھریسا مے چالاکی دکھا رہی ہیں اور لوگوں کوبرطانیہ داخل ہونے کے اعداد و شمار کو غلط طور پر پیش کر رہی ہیں۔اس سے وہ سیاسی مقصد حاصل کر رہی ہیں۔
وزیر اعظم تھریسا مے اپنے اس دورے میں اپنے ساتھ انٹرنیشنل ٹریڈ سیکریٹری لیام فوکس اور ٹریڈ منسٹر گریگ ہینڈس کے ساتھ ہندوستان گئے ہیں ۔ اس دورے میں جن باتوں پر مذاکرات ہونے والے ہیں وہ ہیں ریل پراجیکٹ کے لئے £1.2میلین کاایک پلانٹ کی تعمیر کرنا ہے۔ Lyca Health UKکے ذریعہ £15میلین کا چنئی میں ایک تشخیص سینٹر قائم کرنا ہے اور کوچی میں £350میلین کا ایک ہائی ٹیک الیکٹرانک صنعت قائم کرنا ہے۔
ان تمام باتوں کے باوجود سب ایک بات کے منتظر ہیں کہ برطانیہ یوروپین یونین سے کب الگ ہوگا؟ 23؍ جون 2016کو برطانیہ میں یورپ کے ساتھ رہنے اور چھوڑنے کے سوال پر اس وقت کے وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون نے ریفرنڈم کر وایا تھا۔ جس میں 52%فی صد لوگوں نے (Brexit)بر یکسٹ(یوروپین یونین چھوڑنے والوںکا گروپ) کی حمایت میں ووٹ دیا تھا۔ تب سے برطانیہ میں سیاسی اور معاشی طور پر ایک زلزلہ آیا ہوا ہے جو کچھ حد تک تو تھم گیا ہے لیکن اب بھی (Brexit)بر یکسٹ کا بھوت گاہے بگاہے کسی نہ کسی بہانے نمودار ہو رہا ہے جس سے سیاستداں سے لے کر عام آدمی تک سب نروس اور پریشان ہیں۔
ابھی حالات اس حد تک ساز گار نہیں ہوئے ہیں ۔ برطانیہ کی نئی وزیر اعظم تھریسا مے اپنی پوری کوشش کر رہی ہیں کسی طرح برطانیہ کے لوگوں اور دنیا والوں کو یقین دلائیںکہ برطانیہ یورپ سے نکل کر بھی ایک مستحکم اور مضبوط معیشت والا ملک ہے ۔ لیکن 3؍ نومبر کو ہائی کورٹ نے حکومت کو یہ آرڈر دے ڈالا کہ (Brexit)بر یکسٹ کی کاروائی کی پارلیمنٹ سے منظوری لی جائے۔اس فیصلے میں حکومت سے کہا گیا ہے کہ (Brexit)بر یکسٹ کے سلسلے میں پارلیمنٹ کو فیصلہ کرنا ہوگا کہ برطانیہ کو یورپ چھوڑنے کی تاریخ کب اور کس طرح مقرر کرنی چاہئے۔یہ کیس جینا میلر ایک انوسٹمنٹ منیجر نے (Brexit)بر یکسٹ کی کاروائی اور حکومت کے خلاف دائر کیا تھا۔ جس کا نتیجہ آتے ہی برطانیہ کی سیاست میں ایک بار پھر بھونچال سا آگیا ہے۔ حکومت کا کہنا ہے کہ وہ اس فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل کریگی۔ حکومت یہ بھی کہہ رہی ہے کہ ان کا موقف صاف ہے کہ وہ مارچ 2017میں آرٹیکل 50کے تحت یوروپین یونین کو نکلنے کا نوٹس دے د ے گی اور جس کے لئے حکومت نے تیاری بھی شروع کر دی ہے۔
یوں تو برطانیہ کی سیاسی صورتِ حال کا اندازہ لگانا کافی مشکل ہے کیونکہ) (Brexitبر یکسٹ کے بعد تمام سیاسی پارٹیاں ریفرنڈم کے نتیجے سے برہم ہیں ۔ اس کی کئی وجوہات ہیں۔ جن میں ایک وجہ معیشت ہے جس سے بزنس کمیونٹی کافی نروس ہیں۔ لیکن اس کے علاوہ ایک طبقہ اس بات سے پر امید ہے کے (Brexit)بر یکسٹ سے ملک کی حالت بہتر ہوگی اور امیگریشن پر کنٹرول ہوگا۔
وزیر اعظم تھریسا مے کا ہندوستان کا دورہ اس معنوں میں اہم سمجھا جا رہا ہے کہ وہ یوروپین یونین سے نکلنے کے بعد تیز رفتار معیشت کے حامل ممالک سے رشتہ استوارکرکے برطانیہ کی معیشت کو مظبوط بنانا چاہتی ہیں تو وہیں اس بات کابھی قیاس کیا جارہاہے کہ وزیر اعظم تھریسا مے اپنے ملک کی سیاسی اتھل پتھل سے بھی پریشان ہیں۔ایک طرف تو وہ برطانیہ کی معیشت کو بہتر بنانے میں کوشاں ہیں تو دوسری طرف برطانیہ کی سخت ویزا پالیسی کو بھی وہ برقرار رکھنا چاہتی ہیں، جس سے کہیں نہ کہیں اس بات کا اندازہ ہوتا ہے کہ وہ برطانیہ کے شدت پسند لوگوں سے خوفزدہ ہیں ۔اب معاملہ چاہے کچھ بھی ہو (Brexit)بر یکسٹ برطانیہ کے حلق میں اٹک سا گیا ہے اور فی الحال اس کا حلق سے نکلنا نا ممکن لگ رہا ہے۔
fahimakhteruk@yahoo.co.uk
www.fahimakhter.com