صحافی سمیر چودھری دیوبندکی حافظ عاصم قاسمی سے تفصیلی گفتگو

مدارس کے نصاب میں تبدیلی یا مقاصد میں وسعت اس پر غور وفکر کیاجانا چاہئے !
موجودہ دور میںعوامی علماء تیار کرنااور ان کے معاشی مسائل حل کرنا وقت کی اہم ترین ضرورت
تمام مذاہب و طبقات کے لوگوں کی انسانی بنیادوں پر خدمت کرنا ملک و ملت کی ترقی کا ذریعہ
جس سماج میں نوجوانی اور مایوسی جمع ہوجاتی ہیں اس کی تبائی کو کوئی نہیں روک سکتا
اگر 68؍ سال سے پیدا ہورہے خلا کو پرُ نہیںکیاگیا تو اس میں مزید گہرائی آئے گی

\"Sameer
دیوبند:سمیر چودھری کی رپورٹ
خانوادہ قاسمی کوخالق کائنات نے بڑی عزت و منزلت بخشی ہے ،اس خاندان کے افراد کو یہ شرف حاصل ہے کہ اللہ پاک نے انہیں ادارہ سازی اور افراد سازی کے لیے منتخب کیا ہے۔ دارالعلوم دیوبند عالم اسلام میں غیر معمولی تاریخی حیثیت کاحامل ہے جس کی ایک طویل تاریخ ہے جس کی بنیا اور قیام و ترقی میں،اس کے بانی حجۃ الاسلام حضرت مولانا محمد قاسم نانوتویؒ کا کردار محتاج تعارف نہیں ہے۔ دارالعلوم دیوبند دنیا بھر میںہزارہا ہزارمدارس کے قیام کی نظیر ہے ،دارالعلوم وقف دیوبند سمیت متعدد اداروںکے قیام کا شرف بھی اسی خانوادہ کو حاصل ہے۔ دینی اداروںکے ساتھ ساتھ اس خاندان کے افراد اب طبی ،سماجی، رفاہی اور عصری تعلیمی اداروںکے قیام میں بھی سرگرم ہیں ،جن میں ایک اہم نام خطیب الاسلام مولانا محمد سالم قاسمی کے چھوٹے بیٹے حافظ محمد عاصم قاسمی ہیں۔ حافظ عاصم قاسمی کی ہمہ گیر سماجی ،رفاہی اور فلاحی خدمات اپنے دادا مرحوم حکیم لاسلام قاری محمد طیبؒ کے نام سے منسوب ’’ طیب ٹرسٹ ‘‘کے پلیٹ فارم سے عام ہورہی ہیں۔ اس حوالہ سے نامہ نگار سمیر چودھری نے حافظ عاصم قاسمی سے تفصیلی گفتگو کی ۔ جس کے چنداقتباسات قارئین کی خدمت میں پیش ہیں۔
سوال :موجودہ حالات میں آپ سماجی خدمات کی کس قدر ضرورت اور اہمیت سمجھتے ہیں؟
جواب : انسانی خدمت کی تاریخی اتنی ہی قدیم ہے جتنی کہ انسانی تاریخ ۔اسلام نے ہمیشہ حسن اخلاق اور خدمت کا پیغام دیاہے اور اسلام کے اسی آفاقی پیغام نے اسلام کو دنیا کاسب سے بڑا مذہب بنایا ہے،ہم نے ہمیشہ سماجی خدمت کی اہمیت و ضرورت کو سمجھا ہے اور کرتے بھی آئے ہیں ،اب باضاطہ طورپر طیب ٹرسٹ کے نام سے ایک پلیٹ فارم قائم کرکے منظم طریقہ سے خدمت کا کام انجا دیاجارہاہے ۔
سوال : طیب ٹرسٹ کا قیام کب اور کیوں کیاگیا؟
جواب :طیب ٹرسٹ کاقیام 2010 میں کیاگیا تھا اور اس کے قیام کی ایک بنیادی وجہ صحت کے میدان میں منظم طریقہ سے کام کرناہے، تاکہ غرباء اور علاج معالجہ کے اخراجات کو برداشت نہ کرنے والوں کو ایک بہترمتبادل میسر آسکے۔آج دنیا میں ہرجگہ علاج کے خرچ میں بہت زیادہ اضافہ ہوگیا ہے جو عام آدمی کی دسترس سے باہر ہوتا جارہا ہے ،حکومت جو بھی کوششیں کررہی وہ ناکافی ہے، خصوصاً دیہات و قصبات میںآمدنی کے ذرائع بہت کم ہیں لیکن علاج کے اخراجات بڑے شہروںجیسے ہی ہیں، جبکہ بڑے شہروں میں آمدنی زیادہ ہے۔ حکومت نے انشورینس اسکیمیں تو چلائیںلیکن وہ اس طرح یہاں تک نہیں پہنچ پارہی جیسے پہنچنی چاہیے تھیں۔علاج معالجہ کے معاملہ میں یہ ایک خلاہے جو نہ صرف ہندوستان بلکہ پوری دنیا کے سامنے سنگین مسئلہ ہے۔ ہندوستان ان چند ممالک میں سے ایک ہے جہاں زچہ بچہ کی اموات سب سے زیادہ ہے، جن کا بڑا سبب غذائی کمی ہے ،اس معاملہ میں کئی جگہوں پر تو ہندوستان بہت سے افریقی ممالک، بنگلہ اور پاکستان سے بھی پیچھے ہے ،حالانکہ ہندوستان میں بڑے اسپتال اور بہتر ڈاکٹرز ہیںلیکن ضرورتمندوں تک ان کی رسائی ابھی بھی نہیں ہو پائی۔
دوسری بڑی وجہ یوبند ہے جہاں علماء کرام اور ان کی عورتوں کے لیے ولادت کا مسئلہ زیادہ اہم ہوجاتاہے ،تقریباً تیس چالیس سال سے علماء کرام کی کوششیں رہی ہیں کہ کسی طریقہ سے دیوبند میں ایک اسپتال کاقیام کیاجائے لیکن ان کے دوسرے مسائل میں الجھنے کے سبب یہ عمل میں نہ آسکا ۔ میرے والدکی طرف سے مجھے حکم ہوا اور اس حکم کی تعمیل میں طیب ہاسپٹل کی بنیاد رکھی گئی ۔
سوال : صحت کے علاوہ اور کیا مشن ہے طیب ٹرسٹ کا ؟
جواب :بے روزگاری کا خاتمہ کرنا اور آمدنی کے ذرائع بڑھاناہمار ا اہم مشن ہے ۔غربت کا خاتمہ اور آمدنی کے ذرائع کا تعلق تعلیم اور روزگار سے ہے۔ اس لیے بہت غور وفکر کے بعد یہ فیصلہ کیا گیا ہم چار حصوں میں کام کرینگے جس میںاول صحت،دوسرے تعلیم و ہنر اور اس سے روزگار کو جوڑنا، تیسرے غذائی فراہمی ،ایسے لوگوں کو جو بھوک سے مارے ہوئے ہیں،ان کو غذا فراہم کرنا کیونکہ غذا نہ ہوگئی توصحت خراب،صحت خراب تو تعلیم نہیں ، تعلیم نہیں تو ہمارے تمام پروگرام فیل ہوجاتے ہیں ، چوتھا اور اہم مقصد ہمارا ریلیف ہے۔
سوال: ریلیف پہنچانے کا کیاطریقہ کار ہے اور اس کادائرہ کیاہے؟
جواب : ہمارا پہلا مقصد پروفیشنلی ریلیف پہنچاناہے جس کے لیے نہ تو سماجی تنظیموںمیں تیاری ہے اورنہ ہی حکومت کی تیاریاں اس جانب ہیں ،زلزلہ،حادثات، فسادات بڑھ رہے ہیں،ایسی صورت میں تیاری ضروری ہے جو لوگ اس قسم کی تکالیف سے گزرتے ہیں ،ان کی طبی امداد، غذائی امداد، گھر فراہم کرنا،باز آبادی کاری کی کوششیں کرنا،ان چاروں شعبوں میںکام کیاجانا چاہئے ،جہاں ہم کام کررہے ہیں۔ اتراکھنڈ،مظفرنگر ،چنئی اورنیپال میںطیب ٹرسٹ کے ذریعہ کئے گئے ریلیف کاموںکی بھرپور ستائش ہوئی ہے۔
سوال: پانچ سال کے بعد آپ اپنے مشن کو کہاں تک کامیاب دیکھتے ہیں؟
جواب: آپ خود ہمارے کامیابی وناکامی کافیصلہ کرسکتے ہیں۔ہم نے جومعیار کامیابی طے کیاتھااس میں ضرور ترقی دیکھی، میرے ساتھ علماء کرام ،میڈیا ، صحافیو ں اور حکومت نے بھرپور تعاون کیا۔ ہم نے جن لوگوں کی مدد شروع کی تھی وہ آج تک جاری ہے کبھی ہم نے ان کو اکیلا نہیں چھوڑا ،ہمارا مظفرنگر کامشن ابھی تک جاری،ان کی بستیوں کی تعمیر کے ساتھ ان کو سرکارسے منظوری دلائی ،ان کے راشن کارڈ بنوائے،روزگار کے مواقع فراہم کرائے ،بچوں کی تعلیم کا بندوبست کیا ،مظفرنگر میں کو ئی کیمپ اور پروجیکٹ ایسا نہیں ہوا جسے حکومت سے منظورمل گئی، ہماری بستی سنیہٹی کے 315؍گھروں کو حکومت سے باقاعدہ منظور مل گئی ہے،جہاں بنیادی ضروریات کے تمام کام کیے ہیں ۔ 550؍ گھر بنائے مزید500 بنارہے ہیں ،طیب ہاسپٹل محض دوسال میں کھڑا ہوگیاہے،ہر سال دو سے تین ڈپارٹمنٹ کااضافہ ہورہاہے ۔یہاںایم بی بی ایس ڈاکٹر ہیں،لوگ علاج سے مطمئن ہورہے ہیں، دوسری کامیابی کی دلیل ،ہم نے دیوبند سے باہر نکل کریوپی اور پھرپورے ہندوستان میں مشن کیساتھ کام کیا۔ بڑی کامیابی ہم یہ بھی سمجھتے ہیں کہ میرے ساتھ تعلیم یافتہ نوجوان آئے ہیںجو کامیاب بڑی علامت ہے ۔
سوال: صحت کے متعلق درپیش سنگین مسائل سے نمٹنے کے لئے کیا آپ شاخیں قائم کرینگے؟
جواب: اگر ہماری ضرورت ہوگی تو ہم کرینگے۔ لیکن میرے ہر کام کے پیچھے ایک پیغام ہے ،میرے کام سے دوسرے سیکھیں ، طریقہ ہم بتائیں گے، انہیں بڑھاوا دینگے،ہر وہ انسان جو گاؤں،دیہات،قصبات میں ان بنیادوں پر کام کرنا چاہ رہاہے ،ٹریننگ، پریٹکل،کہاں کہاں سے فائنس مل سکتاہے یہ تمام معلومات فراہم کرائی جائینگی۔ ایک آدمی اگر اچھا کام کرے تو ضروری نہیں تمام کام وہی کرے۔جن بنیادوں پر دارالعلوم دیوبند کی پوری تاریخ ہے یہاں خلوص کے ساتھ ایک ادارہ قائم ہوا اسی راستہ پر دیگر مدارس کا قیام ہوا اور ہورہا ہے، یہی طیب ٹرسٹ کا مشن ہے،مجھے زیادہ خوشی ہوگی کہ اگر کوئی دیگر اس کام کوکرے ۔
سوال: آپ کو خاندانی نسبت کافائدہ پہنچتاہے ؟جو دیگر ان کے حصہ میں نہیں ۔
جواب :یہ ایک غلط فہمی ہے میں نے کبھی اپنے خاندان کانام اپنے کام کے ساتھ شامل نہیںکیا،جوادارے میرے ساتھ آئے ہیں وہ میرے خاندان سے واقف نہیں ہیں اور نہ ہی میں کبھی میں نے اس کی کوشش کی ، میری ویب سائٹ اور لٹریچر پر کہیں خاندان کا کوئی ذکر نہیں ہے ۔ لوگوںنے مجھے میرے کام سے جانا اور آج میری پہنچان میرے کام کے سبب ہی ہے ،یہ لوگوں کی ایک غلط فہمی ہے ،کوئی بھی خلوص کے ساتھ محنت کرے گا ، اللہ پاک اسے کامیابی سے سرفراز فرمائینگے،یہ ضرور ہے اس خاندان کا ایک فرد ہونے کے ناطے ہماری نظر گلوبل ہے،دیوبند سے لیکر امریکہ تک کے سفرنے میرا ذہن کھولا اور وہی ذہنی وسعتیں میرے کام آئی۔ ہمارے خاندان سے بڑے نام والے لوگ ہندوستان میں ہیں لیکن ہر ایک خاندان نے ادارہ سازی نہیں کی ۔ اللہ کا شکر ہے کہ ادارہ سازی کے لئے اللہ نے ہمارے بڑوں کو منتخب کیا ۔
سوال:تعلیم اور روزگا ملک وقوم کا بڑا مسئلہ ہے ،آپ کے مشن میں بھی شامل ہے ،اس کے لیے کیا کررہے ہیں ؟
جواب:اس وقت ہندوستان ان چنندہ ممالک میں ہیں جہاں نوجوانوںکی اکثریت ہے ، اتنی بڑی تعداد ہے کہ کسی بھی ملک میں نوجوانوں کی نہیں ہے،اگر انہیں روزگار سے جوڑدیا جائے تو ہندوستان بڑی طاقت بنے گا لیکن اگر انہیں ٹریننگ نہ دی گئی تو بے روزگار وں کی اتنی بڑی تعداد ہندوستان میں ہوجائے گی کہ انسانیت کی تاریخ میں اس کی مثال بھی نہیں ملے گی۔ جس سماج میں نوجوانی اورمایوسی مل جاتی ہیں اس سماج میںکتنی برائیاں پیدا ہوتی ہیںاس کااندازہ ہم آپ نہیںکرسکتے ہیں ،اسلئے ہمیں اپنے نوجوانوں کو ہنر سے جوڑناہے، جس پر حکومتیں بھی توجہ دے رہی اور اسی ایجنڈے کے تحت ہم اپنے طورپرجو کرسکتے ہیں وہ کررہے ہیں، اس سے سال بڑا بجٹ بھی ہم نے اپنے طورپراس کے لئے مختص کیا ہے، ہمارے پاس کوئی بھی غریب نوجوان آئے ہم اس کاتعاون کرینگے۔
سوال : غرباء کے غذائی مسئلہ کو کس طرح حل کررہے ہیں؟
جواب :ہمارا مقصد بیوہ اور یتیموں پر خاص توجہ دینا ہے،جس خطہ میں ہم رہ رہے ہیں یہاں پر بیواؤں اور یتیموں پر لوگوں کی توجہ بہت کم ہے،اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ جو لوگ یہ کرسکتے تھے،ان کی پوری توجہ مدارس پر ہے ااورایک نتیجہ یہ ہوا کہ مدارس کی بہتات اس علاقہ میں ہوگئی اور حالات یہ ہوگئے کہ مدارس کا بجٹ بھی پورانہیں ہورہاہے،جس میں غرباء، بیوہ ، یتیماء کہیں پیچھے چھوٹ گئے اور ہمارے سماج کا یہ کمزور حصہ نظر انداز ہوگیا اس پر میری پوری توجہ ہے جس کے لئے ہم کام کررہے اور باقاعدہ سروے کی بنیاد پر ان کی مدد کی جارہی ہے۔ معذرورین کیلئے ٹرائی سائیکل شاپ،انہیں مضبوط اور باروزگار بنانے کے لئے مستقل کام کیا جارہاہے جس سے انکی سماج میں مضبوط حصہ داری ہوسکے۔
سوال : کیاآپ کو لگتا ہے کہ آپ کا ادارہ انٹر نیشنل ادارہ کے طورپر خدمات انجام دے سکتاہے؟
جواب:ہندوستان میں ایسا قانون نہیں ہے کی یہاں کی سماجی تنظیمیں انٹر نیشنل سطح پر کام کرسکے۔ لیکن اب ہندوستان بڑی طاقت بن چکا ہے اس طرف توجہ دی جانی چاہئے۔ہندوستان اتنی بڑی طاقت ہوگئی کہ یہاں کی تنظیمیں بین الاقوامی سطح پر کام کرسکتی ہیں اور شاید حکومت بھی اس پر غور کررہی ہے لیکن ابھی اس میںقانونی رکاوٹیں ہیں۔
سوال :کام کے دوران موجودہ ملکی حالات یعنی کبھی تعصب کاسامنا بھی کرناپڑا ؟
جواب: اس کا میں دوسرے انداز سے جواب دیتاہو ںکہ جو بھی لوگ ہندوستان میں متعصب قسم کے ہیں وہ بہت تھوڑے ہیں بھلے ہی وہ خبروںمیں کتنے ہی آتے ہو، لیکن اس کے باوجود ان کی تعداد بہت کم ہے اور بڑی تعداد محبت کرنے والوں کی ہے۔اس میں دوسری اہم بات یہ بھی ہے تعصب دونوں طرف سے ہوتاہے بھلے ہی اس کامعیار الگ ہو۔ اگر ہمارے سامنے کبھی کوئی اس طرح کا عمل آتا بھی ہے تو ہم اس پر کوئی اعتراض نہیں کرتے ہیں بلکہ ہم اسے تعصب نہیں ناواقفیت سمجھتے ہیں، اسے ہمارے بارے میں پتہ نہیں اگر اسے پتہ چل جائے تو یہ تعصب ختم ہوجائے گا۔ ہم نے اپناکام چھوڑدیا، دین کو ان تک نہیں پہنچایا، دین کی وسعتیں ان تک نہیں پہنچائی، رحمت کی وسعتیں پر کام نہیں کیا،اسلئے اس میں بڑا ہاتھ ہماراہی ہے ہم اس کے ذمہ دار ہیں ہم نے اپنا پیغام صحیح ڈھنگ سے نہیں پہنچایا ۔ یہ یاد رکھنا چاہئے کہ جب 15فیصد لوگ 85؍ لوگوں کی مدد کے لئے آگے آئینگے تو پھر85؍ فیصد لوگ ہمارے ساتھ ہونگے۔
سوال :لیکن ان تمام باتوں کے باوجود سرکاری سطح پر یہ صورت حال سامنے آتی رہتی ہے ؟
جواب : آئین میںہم موجودہیں آئین میں تعصب نہیںہورہاہے ،ووٹ اور عدالت ہماری بڑی طاقت ہے۔ یہ یاد رکھنا چاہئے کہ بڑے بڑے ترقی یافتہ ممالک میں یہی معاملہ ہے ،اکثریت نے ہمیشہ اقلیت کے ساتھ امتیازی سلوک کیاہے،جس کے سبب اقلیتوں کو محنتیں زیادہ کرنی پڑتی ہیں، امریکہ میں گورے کالے، افریقہ میں اب ختم ہواہے ،عرب میں بھی عربی اور عجمی کامعاملہ ہے ، جب کوئی طاقت میں ہوتاہے تو وہ ایساہی کرتا ہی ہے ،ہمار ا چیلنج بڑا، زیادہ محنت کرنی پڑتی ہے ،جس کو ملازمت نہیں ملتی ہے وہ شکایت کرتاہے لیکن جس کو ملتی ہے وہ کبھی کچھ نہیں بتاتاہے۔لاکھوں مسلم بچے سرکاری سطح پر کام کرتے ہیں، چیلنج بڑا ہے لیکن ناممکن نہیں ہے ،تھوڑی محنت زیادہ کرنی پڑے گی۔
سوال :دیوبند مدارس کا مرکز ہے یہاں کے فضلاء کے لئے آپ کی کیا پروگرامنگ ہے ؟
جواب: میرا خواب یہ ہے کہ مدارس کے طلباء جو ہمیں اپنی زندگی کے بہترین سال دے رہے ہیں،بہت ایمانداری کے ساتھ محنت کرکے ایک عالم دین بنتے اور اپنی زندکی تمام توقعات ہم پر قائم کرتے ہیں ،انہیں روزگار سے جوڑنا اوران کے معاشی مسائل کو حل کرنے کے سلسلہ میںنہ تو کبھی جائزہ لیا گیا اور نہ ہی اس کی فکرہے۔ میں ان عالم دین کامکمل احترام کرتے ہوئے انہیں سماج میں ان کا معیار دلانا چاہتاہوں اور ان نوجوانوں کے لئے ایساکچھ کرنا چاہتا ہوں تاکہ وہ دینی و دنیاوی دونوں میدانوں کے ماہر ہوسکیں۔
سوال : کہیں آپ کے کہنے کامطلب مدارس کے نصاب میںتبدیلی تو نہیں ؟
جواب: نصاب میں تبدیلی ہو یا مقاصد میں وسعت یہ وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔ مثلاْدعوت کا میدان ،خدمت ،اصلاح ،عربی زبان تمام میدانوں اور بالخصوص کمپیوٹر کے ذریعہ عوام تک پہنچانے کے مقاصد پر توجہ نہیں دی جارہی ہے بلکہ پوری توجہ فقہی معاملات پر ہے، آج کے دورمیں مدارس میں اکیڈمک تیار ہورہے ہیں جو بہت اچھے اکیڈمشنز تو ہیں لیکن عوام سے ان کا کوئی ربطہ نہیں ہے۔ عوامی مسائل سے ان کا ربط قائم نہیں کیاجارہاہے ،اگر ہم ان کو عوام سے جوڑ دیں تو جتنے مدرسے ہیں وہ کم پڑجائینگے۔دارالعلوم دیوبند اور حضرت مولانا محمد قاسم نانوتویؒ کا مشن تھا کہ انہوں نے دارالعلوم کی بنیاد رکھ کر علماء جو خواص کاحصہ تھے انہیں عوام سے جوڑا،یہی ان کاکارنامہ ہے اور یہی ان کا مشن ہے ،کہیں نہ کہیں ہم اس مشن سے ہٹے او ر پھرعوام سے ہٹ کر خواص کاحصہ بن گئے۔،علماء کی تحریریں علماء پڑھ رہے ہیں، علماء کی تقاریر علماء سن رہے ہیں،عوام کی رسائی علماء تک نہیں ہورہی ہے،عوامی علماء تیار کرنا ،ان کو لوگوں سے جوڑنا اور ان کے معاشی مسائل کو حل کرنا وقت کی اہم ترین ضرورت بن گئی ،جس پر غوروفکر کیاجانا چاہئے ۔
سوال : آزادی کے68؍ سال کے بعد ملک کی مسلم قیادت کوکہاں دیکھتے ہیں ؟
جواب : ہمارے یہاں آزادی کے بعد سے علماء اور سیاستدانوں کی لیڈر شب کی تعداد میں انٹلوکچل طبقہ نظر انداز کیاگیا ،جو عملی میدانوں میں حصہ دار تھے،تعلیم یافتہ تھے ،حکومت میںکام کاتجربہ رکھتے تھے لیکن انہیں پیچھے چھوڑا گیا جس کے سبب اب ہم ایسے دور میں آگئے کہ جہاں مسلمانوں کوخود سمجھ میں نہیں آرہاہے کہ وہ حکومت سے کیسے اپنے حقوق مانگے ،علماء بھی ایک تذبذب کی کیفیت میں ہیں کیسے اپنی بات رکھیں ،لیکن ابھی بھلے ہی کتنے بھی کوششیں کیونہ ہوں ، لیکن ایک خلا ضرور پیدا ہوگیا ۔ یہ یاد رکھنا چاہئے کہ حکومت کے بغیر عوام نہیں چل سکتی ہے۔ لیکن موجودہ حالات میں سیاسی لیڈران سے لیکر علماء تک تمام ہی حکومت سے دور ہیں ۔ جس کے سبب عوام مایوسی کی کیفیت میں ہے۔
اسلئے میں سمجھتا ہوں کہ علماء قیادت کے بجائے رہنماء کا کام کریں اورقیادت ان قائدین کو دیں ،جو سیاست میں حکومت کے ساتھ یا حقوق کی بازیابی کے لئے بہتر طورپر کام سکتے ہیں ، علماء کو شرعی بنیادوں پر ہماری رہنمائی کرتے رہنا چاہئے ، ،اگر 65؍ سالہ کے اس خلا کو پر کرنے کے لئے ہم نے کوئی لائحہ عمل نہیں بنایا تو شاید اس میں مزید گہرائی آئے گی۔
سوال : آپ کے کاموں سے دوسرے لوگ کس طرح ترغیب لے سکتے ہیں ؟
جواب : ہماری ترقی سے اگر کوئی کچھ سیکھناچاہتاہے تو وہ یہ ضرور سیکھے کہ ہم نے تمام مذاہب وملت کے لوگوں کے ساتھ انسانی بنیادوں پر کام کیا ،لوگ کہتے ہیں لیکن ان سب کو نظریہ پر لانا بڑی مشکل کام ہے میرا یہ یقین ہے اگر اس پرکام کیا جائے تو تمام مذاہب کے لوگ ایکساتھ آسکتے ہیں ،یہی ایک اسٹیج ایسا ہے جس پر سب متحد ہوسکتے ہیں اور ایک مضبوط ہندوستان بن سکتاہے اور ہم ملک کی بہتر خدمت کرسکتے،ہم نے تقاریر نہیں بلکہ خاموشی سے کام کرکے دکھایا اور بات دور تک پہنچی اور اس کا اثر بھی ہوا۔اسی نظریہ پر کام کیاجانا چاہئے۔
سوال :نوجوانوں کے لئے آپکا کیا پیغام ہے ؟
جواب: میرا نوجوانوں کو ہمیشہ یہی پیغام ہے کہ اپنے بزرگوںکااحترام کریں اور دیگر نوجوانوں کے ساتھ تال میل بڑھاکر قومی بنیادوں پر ایک دوسرے کا ساتھ کام کریں۔اپنے ملک و اپنی قوم سے محبت کریں اور انسانی بنیادوں پوری انسانیت سے محبت کرکے خدمت کے خلق کے جذبہ کوفروغ دینے کے لئے اپنے معمولات میں سے روزانہ کچھ نہ کچھ وقت خدمت خلق کے لیے ضرور صرف کریں۔
\"Guftago

Leave a Comment