قوسِ قزح کی زنجیریں

ایم زیڈ کنولؔ ۔لاہور

\"10698404_511210752315664_1270161800884273003_n\"

فِطرت کے اُجیارے
رنگوں کی سنگت میں
میں نے لکھنا سیکھا تو
سب طائر میرے لفظوں کو
سُن سُن کر چہکا کرتے تھے
اُن کی اِس چہکار پہ سب
اشجار بھی مہکا کرتے تھے
جھومتے جھومتے خوشیوں کی
بانہوں میں جھولا کرتے تھے
پھر اُن خوشیوں کے آنگن میں
خوشبوئیں یوں درآئیں
کہ ہر سو دھرتی کے مخمل میں
خوشبوئیں ہی اگنے لگیں
سب اپنے پرائے
خوشبو کے دامن میں
بسیرا کرنے لگے
پھر ایسا ہوا
اس خوشبو کو
کچھ قّزاقوں نے لوٹ لیا
وہ بغض وعداوت
مکرورِیا کے
پھول اُگانے آئے تھے
میرے لفظوں نے
اُن پھولوں کو
اِک آن میں آکر نوچ لِیا
اب میں ہوں
اور خوشبوئیں ہیں
اور
اُلفت کے مِضراب پہ گاتی
قوسِ قزح کی ز نجیریں ہیں

Leave a Comment