بازارِ حسن کے شب و روز

(سفر نامہ۔قسط سوم)

\"\"
٭پروفیسرشہاب عنایت ملک

رابطہ نمبر:9419181351

پروفیسر یوسف عامر نے دوران ملاقات ہمیں پورٹ سعید جانے کا مشورہ دیا تھا۔ پورٹ سعید بھی مصر کاایک معافضا ہے جو قاہرہ سے تقریباً 260 کلومیٹر کی دوری پر واقع ہے۔ یہی وہ جگہ ہے جہاں دریائے نیل اور بحر متوسط کا پانی بغلگیر ہوتاہے۔ اللہ کی قدرت دیکھئے کہ دونوں دریائیوں کا پانی ایک ساتھ ملنے کے باوجود بھی اپنا رنگ تبدیل نہیں کرتاہے۔ اس بات کا ذکر قرآن شریف میں بھی آیا ہے۔ 19فروری کو ہم صبح 8 بجے پورٹ سعید کے لیے روانہ ہوئے۔ گاڑی پروفیسر یوسف عامر نے ہی فراہم کر دی تھی۔ڈرائیورکا نام ابراہیم تھا۔ ابراہیم صاف وشفاف سڑک پر گاڑی تیزی سے چلا رہا تھا۔ راستے میں تنتا اور منصورہ شہر دیکھنے کا موقعہ ملا۔ تنتا اور منصورہ دونوں مصر کے معافضات ہیں۔ تنتا میں ایک یونیورسٹی بھی ہے۔ اور اس میں اُردو زبان کا شعبہ بھی ہے۔ ڈاکٹر بسنت شوکری اسی شعبہ میں اردو کی استاد ہیں جبکہ شہر منصورہ سے پروفیسر یوسف عامر کا تعلق ہے۔دونوں شہر خوبصورت ہیں۔ پورٹ سعید ہم تقریباً ڈیڑھ بجے پہنچے۔پورٹ سعید کی پوری آبادی تقریباً پچیس ہزار ہے۔ یہ ایک سیاحتی مقام بھی ہے۔ یہاں سمندر کے کنارے مصر کے مختلف علاقوں کے امیر لوگوں نے کشمیری طرز پر دو دو منزلہ مکانات بھی تعمیر کیے ہیں۔ گرمیوں میں سیاحوں کے علاوہ مصر کے لوگ بھی اس جگہ چھٹیاں گزارنے کثرت سے آتے ہیں۔ یہاں دو دریاؤں کا ملاپ ایک عجیب منظر پیش کرتا ہے۔ سمندر کی لہریں،سمندر کے کنارے بنا ہوا دلفرب ہوٹل،دلکش بازار،ایک ہی طرز کے بنے ہوئے مکامات پورٹ سعید کی خوبصورتی میں بے پناہ اضافہ کرتے ہیں۔ یہاں سے سوینر کنال صرف 50کلومیٹر کی دوری پر واقع ہے۔ ہم نے یہاں خوب تفریح کی۔بازار کے ایک ریستوران میں دوپہر کا کھانا کھایا۔ کھانے میں بھنی ہوئی سمندری مچھلی،کشمیری اور مصری روٹی کھائی۔ کشری مصر کی ایک معروف ڈش ہے۔ جسے دال،سبزی،پیاز اور چاول کو ملا کر بنایا جاتاہے۔ یہ ڈش کھانے میں نہایت ہی لذیز ہوتی ہے۔ جس طرح جموں میں راجما اور چاول کثرت سے کھائے جاتے ہیں اسی طرح مصر کے عوام کشری خوب کھاتے ہیں۔ پورے مصر میں کشری کی دکانیں جگہ جگہ دکھائی دیتی ہیں۔ 4بجے ہم واپس قاہرہ کی طرف روانہ ہوئے۔ ابراہیم ٹیکسی تیزی سے چلا رہا تھا لیکن قاہرہ کاا بھی دور دور تک نام و نشان نہیں آ رہا تھا۔ معلوم ہوا کہ ابراہیم گاڑی کسی غلط راستے پرلے گیا ہے۔ ہم جس راستے پر جا رہے تھے وہ سکندریہ کا راستہ تھا۔ جب معلوم ہوا تو تقریباً 200 کلومیٹر کی مسافت واپس قاہرہ جانے کے لیے طے کرنا پڑی اور یوں رات دس بجے ہم واپس قاہرہ پہنچے۔
پروگرام کے مطابق 20 فروری کو ہمیں مہفیوم کا سفر کرنا تھا۔مفہیوم بھی مصر کا ایک معافضا ہے جو قاہرہ سے 93کلو میٹر کی دوری پر واقع ہے۔حضرت ابراہیم علیہ سلام کا دولت خانہ اسی علاقے میں تھا۔ صبح 10بجے ہم ابراہیم کے ساتھ فہیول کے لئے روانہ ہوئے۔ ہمارے ساتھ آج ہندوستانی طالب علم نہیں جا رہے تھے بلکہ اس سفر میں مصری طالب علم حسام نے ہماری رہنمائی کی۔ حسام فہیوم ہی کا رہنے والا ہے اور ازھر یونیورسٹی میں شعبہ اسلامک اسٹڈیزکا طالب علم ہے۔ آہستہ آہستہ تھوڑی بہت اردو بھی بول لیتاہے۔ ابراہیم فہیوم کے راستے پر گاڑی تیز رفتار ی سے چلا رہا تھا۔ ریگستان کے بیچوں بیچ صاف اورشفاف سڑک،سڑک کے دونوں طرف دور دور تک صحرا ہی صحرا،یہ حسن الگ طرح کا منظر پیش کر رہا تھا۔ سڑک کے دونوں طرف دور دور تک بجلی کے کھمبے نصب کیے گئے ہیں۔ ریگستان ختم ہونے کے بعد آبادی والا علاقہ شروع ہو جاتاہے جہاں ہر طرف ہریالی ہی ہریالی نظر آتی ہے۔ سبزیوں کے کھیت،کھجور کے درختوں کے باغات اور عمدہ عمارتیں،خوبصورت مسجدیں یہ سب اتناحسین ہے کہ انسان دنگ ہوکررہ جاتاہے۔ان وادیوں میں قاہرہ کی طرح زندگی رواں دواں نظر آتی ہے۔ شہر فہیوم بھی ایک عمدہ اور دلکش شہر ہے۔ یہاں کا وسیع بازار، عربی زبان میں تحریر کردہ سائین بورڈ،پارک اور عمدہ دکانیں ہر کسی کو اپنی طرف متوجہ کر تی ہیں۔ یہاں عورتوں کی اچھی خاصی تعداد برقعہ پہنے ہوئے دکھائی دیں۔ویسے پورے مصر میں برقعہ کا رواج بہت کم ہے۔نوجوان لڑکیاں جینس تو پہنتی ہیں لیکن ان کے مغربی طرز کے اس لباس سے کہیں بھی بے حیائی کی جھلک نظر نہیں آتی ہے۔ جینس کے ساتھ وہ سر کو ایک خاص قسم کے اسکارف سے ڈھانپ لیتی ہیں۔ بعض عورتیں ابایہ کا استعمال کرتی ہیں لیکن جوان لڑکیوں میں جینس پہننے کا رواج عام ہے۔ فہیوم کے مختلف بازاروں اور مختلف گاؤں کا مشاہدہ کرتے ہوئے ہم بحیر قارون پہنچے۔یہی وہ بحیر ہے جہاں قارون کا خزانہ اور محلات غرق ہوئے تھے۔ قارون کو اپنی دولت پر بے حد گھمنڈ تھا۔ اس علاقے میں اس کے لا تعداد محلات تھے جو اس بحیر میں اس طرح غرق ہوئے کہ اب ان کا نام و نشان بھی دکھائی نہیں دیتا ہے۔ حضرت یوسف علیہ اسلام اس علاقے کے امیر بھی رہے ہیں۔ یہاں ایک بڑا قصبہ ہے جو قصبہئ قارون کے نام سے اب بھی جانا جاتا ہے۔
\"\" \"\"

Leave a Comment