’’لڑکی‘‘ (متوسط گھرانے کی مسلم لڑکیوں کی کہانی )

\"\"
٭صالحہ صدیقی
(جامعہ ملیہ اسلامیہ ،نئی دہلی)
Email: salehasiddiquin@gmail.com

میں ایک لڑکی ہوں ……..
جس کے پیدا ہونے پر ،خوشی سے پہلے
جہیز تصور میں آیا
جس کے کھلونے ہمیشہ
بھائی کے کھلونے کے بعد خریدا گیا
جسے قلم سے پہلے
بیلن پکڑنے کا ہنر سکھایا گیا
جسے بچپن میں ہی گھٹنے سے نیچے
فراق پہننے کی تمیز سکھائی گئی
کیونکہ
میں ایک لڑکی ہوں ……..
جسے سر جھکا کر ادب سے رہنے
زیادہ نہ بولنے
زیادہ نہ ہنسنے
زیادہ نہ رونے
اونچی آواز میں بات نہ کرنے
زبان درازی نہ کرنے
بڑوں کی غلط بات پر بھی
جواب نہ دینے
ہر بات پر خاموش رہنے
بڑوں کے بیچ بیٹھ کر بات نہ سننے
اپنا مشورہ نہ رکھنے
جو کچھ بھی کہا جائے
خاموشی سے سننے
ظلم برداشت کرنے
درد سہنے
اپنی تکلیفوں کو خود تک رکھنے
سر پر ہمیشہ دوپٹہ رکھنے
نگاہ نیچی رکھنے
زبان پر قابو رکھنے جیسے
نہ جانے کتنے ناپ تول
نہ جانے کتنے
نہ ختم ہونے والے مشورات وہدایات
بندشیں اور
لوازمات کی بیڑیوں میں
مجھے جکڑا گیا
کیونکہ
میں ایک لڑکی ہوں ……..
جسے جوانی کی سگ بگاہٹ سے پہلے
گھر کی چہاردیواری میںقید کر دیا گیا
جسے قلم پکڑتے ہی قلم چھین لی گئی
جسے سسرال کے نام پر کالج نہیں جانے دیا گیا
جسے اپنا جہیز بنانے کے لیے
سوئی ،دھاگہ،ریشم ،فریم دے دیا گیا
جسے شوہر کی خدمت کرنے کی تعلیم دی جانے لگی
جسے بچہ پیدا کرنے اور اسکی پرورش کی سیکھ دی جانے لگی

جسے مستقبل کا خواب دیکھنے سے پہلے
ذہن میں سسرال کی زندگی کا بیج بو دیا گیا
کیونکہ
میں ایک لڑکی ہوں ……..
جسے اپنی خواہشات کو مار کر
اپنوں کے لیے جینے کا سبق سکھا یا گیا
جسے سسرال جانے کے بعد
بہو،بیوی،ماں جیسے نہ جانے کتنے رشتوں میں جکڑا گیا
میں کون ہوں ؟
ہاں ! میں ایک لڑکی ہوں……..
جسے لڑکی ہونے کا شرف کبھی نہ حاصل ہوا
جسے ہمیشہ حاشیے پر رکھا گیا
جسے خود کچھ نہیں سیکھنا پڑا
جسے خود نہ کچھ کرنے دیا گیا
جو اتنی پابندیوں کے بعد بھی بھروسہ نہیں جیت پائی
جسے طے شدہ راستوں پر چلنے کے لیے مجبور کیا گیا
جسے پیدا ہوتے ہی
سماج کے بندھے ٹکے سانچے میں
قید کر دیا گیا
کیونکہ
میں ایک لڑکی ہوں……..
صدیاں کتنی ہی کروٹیں بدل لے
سائنس کتنی ہی ترقی کیوں نہ کرلے
ٹکنالوجی کتنی ہی آگے کیوں نہ بڑھ جائے
دنیا کتنی ہی ترقی کیوں نہ کر لے
پیسہ دنیا کی چکا چوندھ میں
کتنی ہی اضافے کرلے
یہ سماج یہی کہے گا
تم ایک لڑکی ہو…….
ہاں میں ایک لڑکی ہوں
اورلڑکی ہی رہونگی
لیکن میرے سینے میں کچھ سوال دفن ہے
کیا گھورتی نظریں میرا پیچھا چھوڑیں گی؟
کیا کبھی رسم و رواج کا بندھن ٹوٹے گا؟
کیا میری بیڑیاں کبھی کھلیں گی؟
کیا میری چیخیں سنی جائیں گی ؟
کیا مجھے کبھی انصاف ملے گا؟
کیا میرے اندر کا طوفان کبھی تھمے گا؟
کیا میری سسکیاں کبھی سنی جائیں گی ؟
کیا میرا حق مجھے دیا جائے گا؟
کیا مجھے ’’میں ‘‘ رہنے کا حق ملے گا؟
کیا میں بھی تازہ ہواؤں میں سانس لے پاؤنگی ؟
کیونکہ
میں ایک لڑکی ہوں …….

Leave a Comment