ذکیہ مشہدی کے نمائندہ افسانوں کا تجزیاتی مطالعہ

\"\"
احمد رشید

گلی رہٹ والا کنواں،سرائے رحمن، علی گڑھ
\"\"

ذکیہ مشہدی اپنے ڈھب کی الگ فنکار ہیں جن کی قلم میں روانی بھی ہے اور موضوعات کی تازگی بھی۔وہ جن موضوعات پر قلم اٹھاتی ہیں اُس کا پورا پورا حق ادا کرتی ہیں۔ان کے تاہنوز چھہ افسانوی مجموعے اشاعت سے ہمکنار ہوچکے ہیں جو درج ذیل ہیں:
۱۔ پرائے چہرے ۱۹۸۴ء
۲۔ تاریک راہوں کے مسافر ۱۹۹۳ء
۳۔ صدائے بازگشت ۲۰۰۳ء
۴۔ نقش ناتمام ۲۰۰۸ء
۵۔ یہ جہانِ رنگ وبو ۲۰۱۳ء
۶۔ آنکھن دیکھی ۲۰۱۷ء
مندجہ بالا مجموعوں میں شامل افسانوں کی تعداد مجموعی طور پر اکیاسی[۸۱] بنتی ہے ۔ان میں دو ناولٹ ’قصہ جانکی رمن پانڈے‘اور’پارسا بی بی کا بگھار‘بھی شامل ہے۔آخر الذکر ناولٹ الگ سے کتابی صورت میں بھی منظر عام پر آچکی ہے۔ذکیہ مشہدی کا قد ہمعصر افسانے میں بڑھتا ہوا نظر آتا ہے۔انھوں نے مختلف موضوعات پر کئی اہم کہانیاں تخلیق کی ہیں۔ضرورت اس بات کی ہے کہ ان کے تمام افسانوں کا تفصیلی مطالعہ کیا جائے لیکن پھر بھی یہاں چند نمائندہ افسانوں کا تجزیہ پیش کیا جارہا ہے۔
بھیڑیئے سیکولر تھے
مابعد جدید افسانے نے وحدت تا ثر کے تصورکو توڑنے کی کوشش کی جب کہ مغربی افسانہ نگار’’ایڈگر ایلن پو‘‘نے افسانے کے عناصر ترکیبی میں وحدت تاثر کو اہم عنصر قرار دیا ہے اور اردو افسانہ نے ایک عرصہ تک اس کی پابندی کی ۔آج کے افسانہ نے اس شرط کو قبول کرنے سے انکار کردیا ہے۔ افسانہ نگارا پنے افسانوں کو ترفع بنانے کی سعی کرتا ہے ۔ذکیہ مشہدی کے افسانہ’’بھیڑیئے سیکولر تھے‘‘سے مختلف ڈائمنشن(Dimenssions)نکلتے ہیں۔
ذکیہ مشہدی نے انسانی نفسیات کی گرہیں اپنے افسانوں میں کھولی ہیں۔ خصوصی طور سے ان کا مرغوب موضوع عورتوں کی نفسیات کا مطالعہ اور اس کی خانگی زندگی کے معاملات کو پوری درد مندی کے ساتھ پیش کرنا ہے۔عورت کے رشتوں کی عظمتوں کو بیان کرنے پر ان کو ملکہ حاصل ہے ۔عورتوں کے مختلف رشتوں کی صورتیں مثلاً ساس ،بہو، نند، بھوجائی، ماں،بیٹی کے جذباتی کیفیتوں کو بڑی ہمدردی اور دلجوئی سے بیان کرتی ہیں۔
مذکورہ کہانی کی شروعات ہی ساس سسر اور بہو کے رشتے کی تلخی سے ہوتی ہے۔ ساس سسر مزاجاً ترش ہیں جو بہو کے ساتھ نہایت سختی سے پیش آتے ہیں۔’’اے حرامجادی بھک‘‘منگوں کی بیٹی! بچے کا بہانہ لے کر کب تک وہیں بیٹھی رہے گی۔برتن باسن صاف کرے گا تیرا باپ۔‘‘یہاں ساس حقہ گڑگڑا رہی ہے اور بہو(سروجا) کے خاندان کو کوستی نظر آرہی ہے جنہوں نے ایسی پھوہڑ زبان دراز کا م چوربیٹی اس کے گھربیاہ دی تھی۔یہ توساس کا رویہ ہے سسر کا برتائو بھی کم ظالمانہ نہیں ہے۔ چونکہ ایک دن ذراسی کرکری دانتوں میں آنے پر سسر نے کھانے کی تھالی اٹھاکر پھینک دی تھی۔اس کا ذکر مصنفہ نے اس لیے کیا ہے کہ سروجا بتھو ئے کے ساگ چننے اور اسے ٹھیک سے دھونے میں مصروف ہے کہ مٹی کی کسکساہٹ ختم ہوجائے۔تھوڑی دیر پہلے بھینس کی سانی اور پانی سے فارغ ہوئی تھی اور اب دوپہر کا کھانا تیار کر ے گی کیونکہ مردوں کو کھیت پر بھیجنے کے لیے روٹی اور لال مرچ کی چٹنی بنائے گی۔
دیہی زندگی کے ماحول کو مصنفہ نے بہت قریب سے دیکھا ہے۔ یہی سبب ہے گابھن، ٹٹر،پلنگڑی جھونپڑا،سانی ،تسلہ،اوسارہ، کھیت،کھلیان، تھالی،ٹوکرہ، مینڈو غیرہ کا ذکر افسانہ میں پڑھ کر دیہات کا پورا منظر نامہ آنکھوں کے سامنے گھوم جاتا ہے ۔ساتھ ہی دیہی علاقوں کی خانگی زندگی سے واقفیت اُن کو بھر پور ہے ۔چولہا ،چکلہ،روٹی،ساگ چٹنی کی جزئیات ان کے قوی مشاہدہ کی دلیل ہے۔عام طور سے دیہاتوں میں کھیتوں پر کام کرنے والے کسانوں کی بیویاں دوپہر کا کھانا پہنچاتی ہیں۔ آج بھی یہ رواج گائووں میں دیکھنے کو ملتا ہے۔ہندوستان کی تقریباً اسی ۸۰ فیصد آبادی دیہاتوں پر مشتمل ہے۔ سچ بات تو یہ ہے کہ دیہات ہمارے دیش کی پہچان ہے۔مابعد جدید افسانہ نگاروں کا ایک اہم کا رنامہ یہ بھی ہے کہ انہوں نے افسانے کو ارضیت اور اپنی مٹی سے جوڑنے کی کوشش کی۔ ان کا سارا زور مقامیت اور علاقائیت پرہوتا ہے۔اس میں کوئی شبہ نہیں صنف افسانہ مغرب کی دین ہے لیکن اردو افسانہ ہندوستانی رنگ وروپ میں رچ بس کر مقامی مزاج سے اس طرح ہم آہنگ ہوا کہ اس کی وضع سے یہ فرق کرنا کہ یہ غیر ملکی صنف ادب ہے، مشکل ہوگیا۔اگلی نسلوں میں ہندوستان کے دیہی ماحول میں بہوئوں کے ساتھ نوکرانی جیسا سلوک ہوتا تھا آج بھی بعض علاقوں میں عورتوں سے بد سلوکی کا ماحول دیکھنے کو ملتا ہے۔اسی بہوکو تھوڑا بہت درجہ حاصل ہوتا ہے جو گھریلو کاموں میں مشاق اور محنت کش ہو۔ خانگی کام کاج میں ہوشیار اور ڈھنگ سے کام کرنا جانتی ہو،ساس سسر کے بنائے ہوئے پیمانوں پر کھری اترتی ہو، وہی سگھڑ بہو کہلاتی تھی۔ اگر ان کی نظر میں وہ کھری نہ اترے تو وہ طعنہ اور تشنع کا نشانہ بنتی ہے ہروقت ساسیں کو ساکاٹی کرتی ہیں۔بہوپر گھریلوکاموں کا بوجھ اس قدر ہوتاہے کہ اسے اپنے بچے کی صحیح طریقے سے دیکھ ریکھ کرنے کی فرصت بھی نہیں ملتی ۔اسی منظر کو ذکیہ مشہدی نے بیان کیا ہے:
’’چولہے پر ساگ چڑھا کر روٹیاں پکاتی ہیں۔کم از کم پچیس روٹیاں اور لال مرچ کی چٹنی بنانی ہے۔بچہ آرام سے سوتا رہے تو کام چین سے نمٹ جائے۔دوپہر تو بڑی مشکل ہوگئی تھی۔بھینس کی سانی پانی، مردوں کو کھیت پر بھیجنے کے لیے روٹی۔‘‘(۱۷)
افسانہ کی ابتدا گھریلو زندگی سے ہوتی ہے۔اس کا ذکر مصنفہ کے لیے اس لیے بھی ضروری تھا کہ ساس کی آواز سن کر سروجا بچے کو تھپکتی ہوئی ہڑ بڑا کر اندر بھاگی۔تین مہینہ کا مہیش ابھی سویا تھا۔بچے کو سوتا چھوڑ کر ساگ دھوکر جب وہ واپس ہوئی تو گہراتی شام کے اندھیرے میں بھیڑ یا بجلی کی سی سرعت کے ساتھ بچے کو اپنے مضبوط جبڑوں میں لے کر چھلانگ لگاچکا تھا اور سروجا چیختی پکارتی رہ گئی۔
پانچو(شوہر کا نام)کے پہلوٹھی کے بیٹے کو پچھل پیری اٹھاکر لے گئی۔سویرا ہوتے ہوتے یہ خبر پورے گاؤں میں گشت کرگئی تھی۔خانگی زندگی کا یہ معاملہ جو سروجا،پانچو اور ساس سسر کا تھا،یہیں ختم ہوجاتا ہے۔جو افسانہ کے خاتمہ تک کہیں نظر نہیں آتے۔اسی طرح ایگر اور بھی کردار اِس افسانے میں اپنے الگ الگ واقعات لے کر نظر آتے ہیں جو اپنے اپنے حصے کا رول ادا کرکے غائب ہوجاتے ہیں۔کسی بھی کردار کا ایک دوسرے سے رشتے کی بنیاد پر کوئی سلسلہ نہیں ہے۔صرف ایک دوسرے سے علاقائی رشتہ ضرورہے۔اسی طرح ترتیبی نقطۂ نظر سے کہانی کے درمیان کوئی منطقی ربط بھی نہیں کس کی Paraphrasingکی جا سکے یا نامیاتی بنیاد پر کہانی کہہ سکیں کیوں کہ افسانہ کی اجزائے ترکیبی میں ایک اہم عنصر پلاٹ بھی ہوتا ہے۔پر لطف بات یہ ہے کہ پوری کہانی میں ایک تجسس آخر تک برقرار رہتا ہے جو قاری کو پڑھنے کے لیے مجبور کرتا ہے۔اس کی دلچسپی بنی رہتی ہے یہ سوچ کر کہ اب کیا ہونے والا ہے۔ایک ہولناک فضا خاتمہ تک قائم رہتی ہے اور یہ تجسس اس لیے برقرار رہتا ہے کہ گاؤں میں ہونے والے مختلف واقعات کو ایک کڑی میں جوڑ کر افسانہ کی تعمیر کی گئی ہے جب کہ نوعیت کی بنیاد پر کسی بھی واقعہ کا دوسرے واقعہ سے واقعاتی سطح سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ذکیہ مشہدی کے مذکورہ افسانہ کی بھی فنی خوبی قابل تحسین ہے۔
ایک اہم واقعہ جواس افسانہ کی ترکیب میں شامل ہے۔سات سال پہلے گائوں میں واقعہ رونماہوا۔رام بابوا ہیر کی جوان،ہٹی کٹی بیوی پھول متی کو اس کے پٹی داروں نے مار کر بسو اڑی میں گاڑدیا تھا۔رام بابو کی پھول متی سے کوئی اولاد نہیں تھی۔ اس کے پاس پانچ بیگھہ زرخیز زمین اور اعلیٰ نسل کی تین گائیں تھیں۔شادی کے بارہ برس ہوگئے تھے ۔دونوں میاں بیوی اپنی زندگی میں بڑے خوش خرم اور مست تھے ۔پٹی داروں کی بری نیت کو بھانپ کر پھول متی نے زبردستی رام بابو کادوسرا بیاہ اپنی چھوٹی بہن سے کرادیا۔اس جرم کی یاداش میں پھول متی پر ڈائن ہونے کا الزام لگاکر پٹی داروں نے گائوں کے اوجھا کے ساتھ سازش کر کے اسے مارڈالا اور لاش بسواڑی میں دفن کرادی۔ اس کی بہن پاروتی کے ڈائن ہونے کا ایک اور ثبوت انہوں نے یہ کہہ کر گڑھ لیا کہ رام بابو تو نامرد ہے ۔پھول متی ڈائن بن کر اپنی بہن کی کوکھ میں آبیٹھی ہے۔لوگوں نے ایک سازش رچی اور پاروتی کو بھی بسواڑی میں مار کر دفنا دیا گیا۔رام بابو نیم پاگل ہوگیا گایوں کے دودھ سے بھرے تھن یوں ہی چھوڑ کر وہ بسواڑی کے آس پاس گھومتا پھرتا۔اسی طرح افسانہ ایک واقعہ ساجاپوری چاچی سے منسوب ہے۔ساجا پوری چاچی کانام شاہ جہاں پور میکہ ہونے کی وجہ سے ملا تھا۔گرچہ وہ گائوں میںوی ایل ڈبلو مقررہوئی تھیں اور انہیں بڑی سخت ہدایت تھی کہ لوگوں کو لڑکے لڑکی میں فرق نہ کرنا سکھائیں ایک چرچہ کے بیچ وہ کہتی ہیں:
’’ہاں جی۔لڑکیوں کا کوئی کیا بگاڑ سکے ہے۔دندناویں ہیں چھاتی پے یہ ہماری تیسری۔ اسے دودھ بھی پورا نہ ملاتو بھی دن دونی رات سوائی بڑھی جاوے ہے۔نموتیاہوا’’لوٹ پوٹ کے اٹھ بیٹھی۔‘‘(۱۸)
وی ایل ڈبلو نے یہ رد عمل اس وقت ظاہر کیا جب پانچوں کے پہلو ٹھی کے بیٹے کو پچھل پیری اٹھاکر لے گئی۔اس طرح چار ماہ کے وقفے میں ایک کے بعد ایک تین بچے گائوں سے اٹھائے گئے۔ اتفاق سے وہ تینوں ہی لڑکے تھے جوگائوں کے اکثریتی طبقے سے تعلق رکھتے تھے۔ان بچوں کی ہڈیا پھٹے اور باقیامت بسواڑی کے آس پاس پائی گئیں۔گائوں والوں پر بسواڑی کا ایسا خوف طاری ہوا کہ ادھر سے گزرنے والوں کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے۔ دھیرے دھیرے لوگ بانسوں کے جھنڈ سے دس بانس دور سے کتراکر نکلنے لگے۔
اس جدید دور میں بھی دیہی علاقوں میں رہنے والے لوگ بیہودہ رسومات اور تو ہمات میں مبتلا ہیں۔تعویز گنڈے کرنے والے مولوی پنڈت اور اوجھائوں پر اندھے ہو کر یقین کرتے ہیں۔سر وجا کاشوہر پانچو کا پہلو ٹھی کاتین ماہ کا بچہ مہیش کو بھیڑیا رات کے اندھیرے میں اٹھاکر لے جاتا ہے تو ڈھونڈ تے وقت اس کو گلے کا تعویز ملتا ہے جسے دیکھ کر وہ اندازہ نہیں لگاپاتا ہے کہ آپایہ اس کے بچے کا تعویز ہے یا کسی اور کاکیونکہ گائوں میں تعویز بہت لوگ پہناکرتے تھے کبھی مولوی صاحب سے لاکر تو کبھی رام سینی اوجھا سے لے کر آتے۔ یہ چھوٹے بچوں کو بھیڑیا اٹھاکر لے جاتا تھا لیکن گائوں والوںکا خیال تھا کہ یہ کام یاتو بری آتما کرتی ہے اور ایک شبہہ اقلیتی طبقہ پر بھی تھا کیونکہ اتفاق سے ان کے علاقے سے کوئی بچہ غائب نہیں ہوا تھا۔
آج بھی ہمارے دیہی سماج میں لڑکے اور لڑکی کی پرورش،تعلیم و تربیت ،یہاں تک کہ کھان پان میں تفریق کی جاتی ہے۔لڑکوں کو لڑکیوں پرہر طرح سے ترجیح دینے کا رواج آج بھی ہے ۔وی ایل ڈبلو کی زبان سے بھی ظاہر ہوتا ہے جب کہ اس کی ڈیوئی اس امتیاز کو ختم کرنے کی تھی ۔معلوم ہوا کہ ہماری تہذیبی سرشت میں داخل ہے ۔لڑکوں کو لڑکیوں پرفوقیت دینا۔چونکہ ساجاپوری چاچی گائوں کے باہر کی رہنے والی تھی اس لیے طرح طرح کے اوصاف سے اسے متصف کیا جاتا تھا اس کے لیے یہ بھی مشہور تھا کہ وہ کل جبھّی یعنی کالی زبان کی ہے۔ ادھر اس نے لڑکیوں کو ٹوکا ادھر بنسی کمہار کی چھ سالہ بچی اٹھالی گئی ۔بنسی کمہار کے یہاں بیٹیاں کی بہت قدرتھی شاید اس لیے کہ چھ لڑکوں کے بعد وہ پیداہوئی تھی۔ رات کے وقت بچی ماں کے پاس سوئی تھی کہ اس نے باپ کے پاس جانے کی ضد کی ۔ماں نے پیٹھ پر ہاتھ ما ر کر کہا’’مرباہر جاکے‘‘باپووہیں ہے آئو ے کے پاس‘‘دبلی پتلی چھوٹے قد کی گیہوں کی سنہری بالیوں جیسی رنگت والی لڑکی آنکھیں ملتی ہوئی باہر آنکلی۔ ایک مٹکے کے پاس بچی ذرا ٹھٹکی۔ اچانک اندھیرے میں جیسے پگھل کر معدوم ہوگئی۔اس کی آدھی پونی کھائی گئی لاش بسواڑی کے پاس ملی،بسواڑی کے بارے میں مشہور تھا کہ وہاں چڑیلیں رہاکرتی ہیں۔بسواڑی کے تعلق سے یہ واقعہ بھی مشہور ہے کوئی سات سال پہلے گائوں کے رام بابو اہیر کی جوان ہٹی کٹی بیوی پھول متی کو اس کے پٹی داروں نے ما کر بسواڑی میں گاڑ دیا تھا۔رام بابو کے پاس پانچ بیگھہ زرخیز زمین تھی اور اعلیٰ نسل کی تین گائیں ۔البتہ شادی کے بارہ برس بعد بھی پھول متی کے کوئی اولاد نہیں ہوئی لیکن رام بابو کو اس کی زیادہ فکر نہیں تھی۔ وہ سارا کچھ بھگوان کے ذمہ چھوڑ کر کھیت ،گیہوں اور اپنی خوبصورت عورت میں مگن تھا۔
وی ایل ڈبلو کے علاوہ گائوں میں تعلیم بالغان کا سینٹر چلانے والی آشابھی ہے جو عرف عام میں نرس دیدی کہلاتی تھی کیونکہ اس نے مڈوائف کی ٹریننگ لے رکھی تھی۔لوگ بلاتے تو زچگی میںمدد کرنے کو جھٹ سے دوڑ جاتی تھی۔آشا بھاگیر تھ سے بہت گھبرائی تھی۔ دراصل بھاگیرتھ سے گائوںکے بڑے بڑے گھبراتے تھے۔آشا جیسی بے بضاعت عورت کی بساط ہی کیا تھی اسے دیکھ کر وہ خاموشی سے سرپر پلوڈال کر سینٹر کی طرف سرک جاتی ۔
’’بچوں کے اٹھنے کے سلسلے میں گائوں میں چرچہ ہورہی تھی‘‘۔
’’چیتا‘‘ تیندواادھر کے جانور نہیں ہیں۔بھیڑیا کہئے تو مانتے ہیں۔مگر پچھلے پچاس برس سے بھیڑیا اندر نہیں آیا ہے‘‘
’’جنگل کٹ رہے ہیں ۔گائوں اندر ہی اندر جنگل میں رینگتا جارہا ہے۔پیڑ پہلے اتنا بڑا کہاں تھا؟‘‘گائوں میں تعلیم بالغان کا سینٹر چلانے والی آشانے کہا۔
’’بھاگیرتھ نے اسے گھورکردیکھا ‘‘دوچار اچھر پڑھ لیے تو سسری اپنے آپ کو پنڈتائن سمجھنے لگی ــ‘‘وہ اس طرح بدیدایا کہ کم از کم آشا ضرور سن لے۔‘‘(۱۹)
یہ وہ واقعات ہیں جن میں منطقی ربط قائم کر کے افسانہ کی بنت کی گئی ہے۔ دوسرے دیہی زندگی کی حقیقی تصویر ،تہذیب وتمدن، بودوباش، رہن سہن،رسمیات اور تو ہمات ابھر کر ہمارے سامنے آتے۔مقامیت اور ارضیت افسانہ کے پس منظر میں پوشیدہ ہے ۔
جیسا کہ میں عرض کر چکا ہوں کہ گائوں میں اکثریتی طبقہ کے تین چار بجے اٹھنے سے اقلیتی طبقہ کے خلاف غلط فہمیاں اور شکوک وشبہات پیدا ہوگئے۔بچوں کو اٹھانے والے بھیڑئیے تھے لیکن اکثریتی طبقہ کا خیال تھا کہ یہ سب حرکتیں اقلیتی طبقہ کرارہا ہے۔حالانکہ ڈسٹرکٹ ایڈمنسٹریشن کی تفتیش پر معلوم ہوا کہ بھیڑیئے معصوم بچوں کو اٹھاکر لے جاتے ہیں۔تلاش کرنے پر ایک نر بھیڑئیے کو ماردیا گیا تھا۔کچھ دن گائوں میں امن وسکون رہا لیکن ہندوومسلمانوں کے دریان منافرت اور غلط مہمیاں اپنی جگہ برقرار ہیں۔اس کی ایک وجہ ایک دوسرے کے خلاف افواہوں کا گرم ہونا بھی ہے۔لیکن افسانہ کے وسط میں اس راز کا انکشاف ہوتا ہے کہ بھیڑیئے کی مادہ کسی طرح سے زندہ رہ گئی تھی جو اپنے بچوں کے ساتھ بساڑی کے آس پاس چھپی تھی۔ اس نے اب کی بار اقلیتی علاقے کے بچوں کا شکار کرنا شروع کردیا تھا۔
ہندو اور مسلمانوں کے بیچ منافرت کے بارے میں اگر غور وفکر کیا جائے تو اس نتیجے پر پہنچیں گے کہ کچھ لوگ اپنے ذاتی مفادات کو پورا کرنے کے لیے ہر حد سے گزر جاتے ہیں۔ اس قول وفعل میں سیاسی پارٹیوں اور حکومت کے اپنے مفادات ہوتے ہیں جو’’ پھوٹ ڈالو اور حکومت کرو ‘‘کا تصور کی تکمیل کے لیے ایسا کرنا ان کے لیے ضروری ہوتا ہے۔حصول مقاصد کی خاطر دونوں مذاہب کے درمیان شکوک وشبہات پیدا کئے جاتے ہیں۔پاکستان کے بننے کے بعد ہجرت کے موقع پر بھیانک فسادات ہوئے، یہ خود تاریخ کی ایک بہت بڑی غلطی تھی۔غلط فہیوں کے پیچھے افواہیں اور قیاس آرائیاں بھی اپنا اپنا رول ادا کرتی ہیں۔
مذکورہ افسانہ ’’بھیڑئیے سیکولر تھے‘‘ کابنیادی موضوع پندومسلمان کے درمیان پیداہونے والی منافرت اور غلط فہمیوں کی وجوہات کی تلاش ہے جو افسانہ کے خاتمہ میں مستترہے:
’’روشنی میں حملہ آور کو اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا اور اس کی شناخت کی تھی۔وہ بھیڑیا ہی تھا نر کہ مادہ اس کی پہچان تو پل بھر میں نہیں ہو سکی لیکن وہ ایک نہایت سیکولر بھیڑیا تھا۔وہی کیوں ،بھیڑیئے تو سبھی سیکولر ہوتے ہیں۔شکار کا مذہب کبھی نہیں پوچھتے۔‘‘(۲۰)
ذکیہ مشہدی کے افسانوں کے اختتام زیادہ ترترفع Multi Dimessionalہوتے ہیں۔ مذکورہ افسانہ کاخاتمہ بھی افسانہ ’’ماں‘‘ کی طرح ترفع ہونے کی بہترین مثال ہے۔
افسانہ کا عنوان ’’بھیڑیئے سیکولر تھے‘‘ خود اپنے اندرون میں پراسرار یت رکھتا ہے ۔ عنوان کی معنیاتی سطح ہندوستانی سماج پر ایک بھر پور طنز بھی ہے۔ہندوستانی جمہوریہ کا ہر شہری جوسیکولر ہونے کا دعویدار ہے وہ بظاہر ایک ڈھونگ ہوکر رہ گیا ہے جو اپنے باطن میں نہایت متعصب ہے جس کے رگ وریشے میں فرقہ واریت کا زہر سرایت کر چکا ہے خصوصی طور سے اکثریتی طبقہ اس مرض کا شدت سے شکار ہے۔ وہ ملک کی بڑی اقلیت کو شک وشبہ کی نگاہوں سے دیکھتا ہے اور اسے حقارت سے نظر انداز کر کے قومی دھارا(Main Stream)سے علیحدہ کرنے کی تاک میں ہے جب کہ ہم آہنگی ،قومی اتحاد میں ہی اس ملک کی ترقی کاراز پوشیدہ ہے۔ گنگا جمنی تہذیب کا وصف جوہماری قومی تہذیب کی وراثت ہے اسے ہم بھلا بیٹھے ہیں ۔اس کی تلاش بہت ضروری ہے جو اپنے دل میں قومی ایکتا کے ٹوٹنے کاغم رکھتے ہیں تب ہی ’’بھیڑیئے سیکولر تھے‘‘ جیسا افسانہ تخلیق ہوتا ہے۔
٭٭٭٭٭٭
بدّنہیں مری
افسانہ ’’بدّ نہیں مری‘‘بیانیہ انداز میں لکھا ہوا ایک خوبصورت افسانہ ہے جو فنّی اور تخلیقی بنیاد پر حقیقت کے قریب افسانہ ہے۔مصنفہ کے افسانوں کی بنیادی اساس دیہی علاقوں کی سچائی بیان کرتا ہے۔مذکورہ افسانہ کا بھی محور بھی بہار کا ایک روایتی گائوں ہے۔ہندوستان کے روایتی گائووں کی بیشتر آبادی مزدوروں اور کسانوں پر مشتمل ہوتی ہے جومل جل کر محبت اور اتحاد سے رہتے ہیں۔ہم آہنگی اور ایکتاان کا بنیادی مزاج ہے۔ایک ساتھ میلے ٹھیلوں میں جانا موج مستی کرنا ان کا شیوہ ہوتا ہے۔ایک دوسرے کے رنج وغم اور خوشیوں میںشریک ہونا، مذہبی تیوہاروں کو اس طرح منانا کہ یہ پتہ ہی نہیں چلتا کہ تیوہار ہندو کا ہے یا کہ مسلمانوں کا۔چھوٹے بڑے بچے ایک ساتھ کھیلتے ہیں ،شوروغل کرتے ہیں۔پورا ہندوستان گنگاجمنی تہذیب کا علم بردار ہوتا ہے۔خصوصی طور سے آج سے قبل ہندوستان کا اسی ۸۰ فیصد حصہ جو دیہاتوں پر مشتمل ہے۔ان میں ہندو مسلمانوں کے درمیان مذہبی فرق کا محسوس کرنابہت مشکل تھا چونکہ ان کی بول چال، علاقائی زبان، رسمیات اور روائج میں ایسی یکسانیت تھی کہ یہ پتہ لگانا دشوار تھا کہ کون سیر سم کس مذہب میں رائج ہے۔
افسانہ کی ابتدابھی گائوں کی مشترکہ تہذیب کی منظر نگاری سے ہوتی ہے۔دیہاتی بچے باہر گلی میں کبڈی کھیل رہے ہیں اور شور مچارہے ہیں خوشی اور مسرتوں سے بھر پور اس ماحول میں ہم آہنگی اور ایکتا کا پہلو بھی پوشیدہ ہے۔مثال کے طور پر:
’’املی کے پتا، نوانو وپتا، کھڑارہو بیٹا،دلّے چھو، دلے چھو، دلے چھو۔
کمبخت درجنوں کے حساب سے تھے اور ایسا شو رمچا رہے تھے جیسے میدان حشر میں کھڑے ہوں۔مخالف ٹیم کا ایک کھلاڑی مارلیا گیا تو اور غل مچاہو،ہو،ہو۔‘‘(۲۱)
نومبر کی خنک ہوا کا چلنا، مستی کا مہینہ نہ سخت سردی اور نہ گرمی کا ہونا، ایسا مستی بھرا موسم جس میں جانور بھی مست ہوجاتے ہیں،پھر یہ تو انسانوں کے بچے تھے۔رات ہوگئی ہے اور سڑک پرکبڈی کھیل رہے ہیں اندر گھر میں شوروغل کی ساری آوازیں داخل ہورہی ہیں۔توے پراماں کی باریک چپاتی پھول کر غبارہ ہواٹھی ہے۔ وہ اسے چمٹے سے اتارتی ہوئی بڑبڑاتی ہے ’’شیر کی چربی کھا رکھی ہے کم بختوں نے سردی بھی نہیں لگتی کہ گھر جائیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔نہ اماں کو فکر نہ اباکو‘‘مانوبوڑھی اماں بھی غصہ کی آگ سے غبارہ کی طرح پھول گئی ہو، اس پر صفیہ کا کھل کھلاکر ہنس کرکہنا’’سب کی فکر میں اماں ہی دیوانی رہاکرتی ہیں۔ اپنے بچوں کو ڈرسے میںمرغیوں کی طرح بند رکھنا،دوسرے بھی ان کا فلسفہ مانیں۔
صفیہ افسانہ کا بنیادی کردار ہے جس کے ارد گرد کہانی گھومتی ہے۔صفیہ مسلم ماحول سے تعلق رکھتی ہے۔ اس کی سہیلی ودھیاعرف بداکو بھی افسانہ میں مرکزی حیثیت حاصل ہے جو ہندو گھرانہ کی پروردہ ہے دونوں میںگہری دوستی ہے۔بظاہر دوخاندانوں پر مشتمل یہ کہانی پورے علاقہ کی تہذیب کو اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہے۔اگر کہاجائے تو کہانی کا پہلا حصہ بیانیہ ہے اور وسط میں کہانی صفیہ کے فلیش بیک میں جاکر حال میں واپس ہوتی ہے جہاں افسانہ کا خاتمہ رنج وملال پرہوتا ہے جس میں گنگاجمنی تہذیب ،ملنساری،میل جول کے ٹوٹنے کا احساس ہوتا ہے لگتا ہے۔ دو تہذیبوں کے درمیان بس ایک اجنبی لاتعلق کا جذبہ ابھر کر ہمارے سامنے آتا ہے۔صفیہ سسرال سے جب اپنے پیہرآتی ہے تو وہ بدا کے چھوٹے بھائی کا لو سے ملنے اس کے گھر جاتی ہے لیکن وہ اس سے اجنبیوں جیسا سلوک کرتا ہے:
’’چائے نہیں پینی ہمیں‘‘۔صفیہ کی آوازمیں غم و غصہ دونوں تھے’’کالو،ہم تم سے ملنے آئے تھے‘‘وہ اٹھ کھڑی ہوئی___۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔’’پاپا__پاپاہو___ای ہمار پھوا لاگیں۔ صفیہ کے بہت قریب آکر اس نے صفیہ کو چھوکر کہا اور اس کے چہرے کے نقوش میں بدا جیسے اچانک زندہ ہواٹھی۔‘‘(۲۲)
اگر افسانہ کی Paraphraisingکی جائے تو کہانی اس طرح ہے کہ بہار کا ایک گائوں ہے جو ہندو اور مسلمانوں کی آبادی پر مشتمل ہے ۔ہندوستان کے اکثر صوبوں میں ایسے گائوں ملیںگے جنہیں ہندوآبادی کم اور مسلمانوں کی زیادہ آبادی یا مسلمانوں کی زیادہ اور ہندوئوں کی آبادی کم ہے لیکن آبادی کی اکثریت یا اقلیت کے ہونے کا ا ثران کی یکجہتی اور ہم آہنگی پر نہیں پڑتا ۔دونوں مذاہب کے لوگ مل جل کر امن اورشانتی سے رہتے ہیں۔ایک دوسرے کے دکھ سکھ کے ساتھی ہوتے ہیں۔ مذہبی تیوہاروں کو ایک ساتھ مل کر مناتے ہیںخواہ کسی بھی مذہب کا تیوہار ہو، اُن کے رہن سہن میںکوئی بھید بھائو نہیں ہوتا۔ایک ساتھ کھاناپینا،اٹھنابیٹھنا ان کامعمول ہوتا ہے۔ایک دوسرے کی شادی بیاہ میں شریک ہو کر نہ صرف خوشیاں مناتے ہیںبلکہ مدد کرتے ہیں اور کام کاج میں ہاتھ بٹاتے ہیں۔
اس گائوں میں صفیہ عرف سپھواور ودھیا عرف بدا دونوں آپس میں گہری سہیلیاں تھیں آپس میں خاندانی تعلقات بھی تھے۔ دونوں میں اس قدر گہرے تعلقات تھے کہ اکثر ودھیا صفیہ کے گھرآتی اس کے کام کاج میں ہاتھ بٹاتی، ساگ بنانا، دھونا کاٹنا اس طرح وہ اس کی مدد کرتی ۔صفیہ کی پینٹنگ بہت اچھی تھی اس لیے بدا بھیا دوج اور دیوالی کے موقع پر گھروندا رنگنے اور آرٹ بنانے کے لیے لے جاتی۔اس کا بنایا ہوا گھروندا محلے کا سب سے شاندار گھروندا ہوتا ۔ بد اکی شادی ہوگئی تھی لیکن گونا ابھی نہیں ہوا تھا اس لیے صفیہ سے اکثر اپنے پتی کو چٹھی لکھوانے آتی کیونکہ بدا زیادہ پڑھی لکھی نہ تھی اور صفیہ آٹھواں پاس کر چکی تھی۔بدا کا چھوٹا بھائی کالو نہایت شریر اور دھماچوکڑی کرنے والا تھا۔صفیہ اس کو چھیڑ خانی کرتی ،اسے کا لو بھالو خالو کہہ کر چڑاتی اس لیے اس کی ایک آنکھ نہ بنتی تھی۔دونوں آپس میں جھگڑتے رہتے۔بدا کی ودائی کے وقت بہن کے غم میں کالو بلک بلک کرروتا ہے ۔صفیہ اس کے سرپر ہاتھ رکھتی ہے۔کچھ عرصہ کے بعد صفیہ کی بھی شادی ہوجاتی ہے صفیہ کی رخصتی پر صفیہ کے سرپر کالونے ہاتھ رکھاتھا۔ ایک بھائی کے محبت بھرے لمس کو وہ زندگی بھرنہ بھول سکی۔
شادی ہونے کے کافی عرصہ بعد صفیہ جب اپنے آبائی گائوں یعنی پیہر کولوٹتی ہے تو گائوں کا منظر نامہ بالکل بدل جاتا ہے۔ حالانکہ سفر کے دوران اس کے خواب وخیال میں پرانے گائوں کی تصویر گھوم رہی تھی۔لیکن اب حالات بدل چکے تھے۔لوگوں کے نظریات بدل گئے تھے۔ گائوں میں چارو طرف مذہبی جھگڑا پھیل گیا تھا۔ دو خاندانوں کے درمیان نفرت کی دیوار کھڑی ہوگئی تھی۔مذہبی جھگڑے شروع ہوگئے۔ لوگ سہمے سہمے رہتے تھے خصوصی طور سے اقلیتی طبقہ خوف وہراس میں ڈوبارہتا۔بدلتے منظر نامہ کو دیکھ کر صفیہ کو بہت دکھ ہوا۔اپنے بھائی اور بھابھی کی مرضی کے خلاف وہ کالو سے ملنے کی غرض سے اس کے گھر جاتی ہے ۔گھر عالیشان بن گیا۔ اس نے بدا کی موت کی خبر سن کر افسوس کا اظہار کیا۔لیکن کالونے صفیہ کی ملنساری اور ہمدردی پر کوئی توجہ نہیں دی۔امید کے خلاف اس کی تنگ نظری کے رویہ کو دیکھ کر وہ حیرت زدہ رہ گئی۔ یہی وہ چھوٹا سا کالو ہے جس کی محبت کے ہاتھ کا لمس وہ آج بھی محسوس کرتی ہے جس نے رخصتی کے وقت اس کے سرپرہاتھ رکھا تھا۔اس کابرتائوں بھی غیروں جیسا تھا۔کالو اب ایک بڑابزنس مین ہوگیا تھا لیکن انسانیت کے نقطۂ نظر سے وہ بہت چھوٹا ہوگیا تھا۔سیاست میں بھی اس کا دخل تھا۔مسلمانوں کے خلاف اس کے اندر حقارت تھی جو موجودہ دور کی سیاست کا خاصہ ہے چونکہ ہندوؤوٹ کو پولرائزکرنے کا یہی ایک ہتھیار ہے جس کے نتیجہ میں مسلمانوں کے خلاف اکثریتی طبقہ کے اندر نفرت اور گڑھنا کا زہر گھل گیا تھا۔ نفرت کی سیاست میں پوراگائوں ڈوب گیا تھا۔ اسی حقارت اور نفرت کی وجہ سے کالو نے صفیہ اور اس کی محبت کی کوئی عزت نہیںکی۔نتیجتاً وہ مایو س ہوجاتی ہے اور سوچتی ہے کہ گائوں کی وہ پرانی تہذیب کو کیاہوگیا کہ تمام لوگ ،پریم ومحبت اور یکجہتی سے رہتے تھے اب’’دیوالی‘‘صرف ہندوئوں کی ہوکر رہ گئی ہے جو صرف اپنے ہی ہم مذہب لوگوں کے ہی بیچ منائی جاتی ہے۔
اس بدلے ہوئے ماحول سے بھی مصنفہ مایو س نہیں ہے۔صفیہ کی نسل کے ذہنوں میںہندوستان کی پرانی تہذیب ابھی زندہ ہے اور محفوظ ہے۔کالو کے بعد آنے والی نسل ابھی معصوم ہے۔اس کے ذہن شیشے کی طرح شفاف ہیں اس لیے ان کے ذہنوں میں ہندوستان کی گنگاجمنی تہذیب کے نقوش ابھارنے کی ضرورت ہے اور گنجائش بھی کیونکہ کالو کی معصوم بچی کی صورت میں صفیہ کو آنجہانی بدا کی شکل نظرآتی:
’’لیکن دوسرے ہی لمحہ بادلوں سے جھانکتے سورج کی کرنوںجیسی شرمیلی مسکراہٹ پورے چہرے کو روشن کرگئی۔گول مٹول چہرے کے بھرے بھرے گالوں میں دوبے حد مانوس ننھے ننھے گھڑے۔کالی کجراری آنکھیں،عین مین بدا۔
’’پاپا۔پاپا۔ای ہمار پھوالاگیں۔‘‘صفیہ کے بہت قریب آکر اس نے صفیہ کو چھو کر کہا اور اس کے چہرے نقوش میں بدا جیسے اچانک زندہ ہواٹھی۔‘‘(۲۳)
’’بدّا نہیں مری‘‘کہانی کا عنوان ہے افسانہ کے عنوان کا تعلق ’’خاتمہـ‘‘سے اپنے آپ جڑ جاتا ہے۔کہانی کا عنوان پر معنی اس لیے بھی ہے کہ بدا ہندوستان کی جنگا جمنی تہذیب کی علامت بن کر ہمارے سامنے آتی ہے۔بھلے ہی موجودہ حالات کتنے ہی بدلے ہوںیا بگڑے ہوںلیکن آج بھی ہندوستان کے بیشتر علاقوں میں پرانی تہذیب کے نمونے دیکھنے کو مل جاتے ہیں۔بدا اس لیے زندہ ہے کہ وہ ہمارے ذہنوں میںمحفوظ ہے آنے والی نسل ہماری تہذیبی وراثت کو زندہ کرنے اور فروغ دینے میں معاون ہوگی۔
تکنیکی سطح پرافسانہ کا پہلا حصہ بیانیہ ہے۔ دوسرے حصہ میں مصنفہ نے شعور کی روکی تکنیک کا استعمال کیا ہے۔کہانی کبھی فلیش بیک میںجاتی ہے اور کبھی موجودہ زمانے میں لوٹ آتی ہے۔گذشتہ دور کے واقعات اور معاملات کا سلسلہ جاری رہتا ہے اور موجودہ دور میں خاندان کے ساتھ مکالماتی کیفیت کا سلسلہ بھی جاری رہتا ہے ۔کہیں کہیں صفیہ پرانے اور نئے منظر نامہ کاتقابل کرتی ہے ۔پچیس تیس سال بعد صفیہ ایئر انڈیا کے جمبوجیٹ کے دلی ہوائی اڈے پر اترتے وقت ائیر ہوسٹس کی شستہ انگریزی بول رہی تھی اور دیہات کا منظر صفیہ کے دماغ میں گھوم رہاتھا۔ملاحظہ ہوں دو اقتباسات:
’’شستہ انگریزی میںنہ جانے کہاںسے ان دیہاتی بچوں کی آوازیں آکر مل گئی تھیں۔پچیس تیس سال پرانی آوازیں ۔۔یہ گلی میں اب بھی گونجتی ہوں گی’’ جاسوری کے بارے میں ماں(جاسور کے بارے میں) اور بدا دیوالی میں گھر وندے سجاتی ہوگی۔‘‘(۲۴)
’’دلی سے لے کر گھر کے سفر کے دوران ریل گاڑی کی چھک چھک میںبھی کوئی کبڈی کھیلتا رہا۔ کھڑکی سے باہر بھاگتے مناظر میں صفیہ کو بچے دکھائی دیتے رہے جو برسہابرس سے اس کے اردگرد گھوم رہے تھے۔ ٹرین نے خاک وطن کو چوماتھا تو اس نے جلدی جلدی گردن لمبی کرک کے پلیٹ فارم کے پاس لگے گل مہر کے درخت کو دیکھنا چاہا۔درخت وہیں تھا اور بہت بڑا چھتنار ہوگیا تھا۔‘‘(۲۵)
تحریر کردہ دونوں اقتباسات افسانے کے دوسرے حصہ سے لیے گئے ہیں۔ گائوںوہی ہے پلیٹ فارم کے پاس لگاگل مہر کا درخت بھی اپنی جگہ ہے بس بڑا چھتنار ہوگیا ہے۔گائوںکی منظر کشی اپنی جگہ ہے لیکن تبدیلی جو آئی ہے۔ وہ انسانوں کے مزاج اور رہن سہن میں ڈھیٹ کالو کا بچپن چلاگیا ہے اور بچپن کے ساتھ ساتھ اس کی معصومیت اور بھولا پن بھی ناپید ہوگیا ہے۔اب ایک نئے کالو راجہ رام کے نام سے جنم لیا ہے جو نہایت متعصب اور کٹر ہے۔اور یہ کٹرپن حالات کی دین ہے جس نے آج کی نسل کے ذہن اور مزاج کو بگاڑ کر دکھ دیا ہے۔
گائوں پہنچتے ہی جب صفیہ اپنے گھرپر اترتی ہے تو اپنے بھائی الطاف کی زبانی موجود گائوں کی روداد سنتی ہے اس کے ذہن میں سجاہوا خواب چکنا چور ہو جاتا ہے۔حالات بدل چکے ہیں اب پرانا جیسا گائوں نہیںرہا۔ ماہ و سال بدلنے کے ساتھ دلوں سے محبتیں ختم ہوچکی ہیں۔قومی یکجہتی کا تصورٹوٹ کر بکھر گیا ہے۔افواہوں کا بازار گرم ہے۔سہمی سہمی اور خوف زدہ زندگیاں ہیں۔ دونوں فرقوں کے بیچ شک وشبہات پیدا ہو گئے ہیں۔ جن کو دور کرنا ناممکن ہوگیا ہے۔اس کا اندازہ اس وقت ہواجب صفیہ کالو سے ملاقات کرنے گئی۔ ہندومسلمان کا فرق ہونا اپنی جگہ لیکن کالو تو مہمان نوازی کے جذبہ سے بھی عاری نظر آیا جو کہ انسانی تہذیب کی اہم قدر ہے۔اسی لیے الطاف صفیہ کو اس کے گھر جانے کے لیے روکتا ہے:
’’الطاف کے منع کرنے کے باوجود صفیہ کالو کے یہاں جانے پر تلی رہی۔راجہ رام (کالو)اب یہاں نہیں آتا۔الطاف نے بتایا تھا۔بس کہیں دکھائی دیتا ہے تو دعا سلام ہوجاتا ہے۔ کئی بار تو محسوس ہوا ہم دونوں ہی دعاسلام سے بھی کترارہے ہیں۔‘‘(۲۶)
افسانہ کے پہلے حصے میں مصنفہ نے گنگا جمنی تہذیب کو بہت ہی عمدگی سے بیان کیا ہے جو حقیقت کے قریب ہے اور دیہات کا سماجی منظر نامہ قاری کے سامنے ابھر کر آتاہے:
’’صفیہ کو اس سچھو سے تپنگے لگتے تھے ۔کتنی بار اس نے بدا کاتلفظ صحیح کرنے کی کوشش کی تھی۔مگر کمبخت کے منھ سے کبھی’’ف‘‘صحیح ادانہ ہوا۔ویسے تو اس کا بھی صحیح نام ودیا تھا۔ لیکن خود اس کے گھروالے اسے بداکہتے تھے۔‘‘(۲۷)
بدا صفیہ کے گھر آتی ہے اور وہ پسر کر بیٹھ گئی ہے۔صفیہ کے چنے ہوئے ساگ میں ملے اکادکا ڈنٹھل الگ کرنے لگتی ہے:
’’ارے سب گل جائیںگے ،ایک دورہ بھی گئے تو کیاہوا۔ صفیہ نے منھ لٹکاکر کہا ’’چراتو جائے بکری کے ہاتھ گوڑ جون تو کھات ہو، ملا ساگ توڑے کا تریکہ جائے‘‘(گل جائیںگے بکری کے ہاتھ پیر بھی جو تم کھاتی ہو، مگر ساگ توڑنے کا طریقہ بھی کوئی چیز ہے)‘‘(۲۸)
صفیہ بدا کی شرارت بھری حرکتوں سے کھسیا جاتی ہے اور دل میں سوچتی ہے کہ وہ بدا کا گھروندا رنگنے ہر گز نہیں جائیںگی۔ لیکن دوسرے دن دروازے پر صفیہ کے پکارنے پر تیر کی طرح اس کے گھر پہنچ جاتی ہے۔گائوں میں لب سڑک چبوترے پر سراٹھائے دومنزلہ چونے سے لپا پتا گھروندا اپنا سراٹھائے کھڑا تھا۔صفیہ بدا کے گھر پہنچتی ہے۔ڈرائینگ کا خداداد شوق تھا اور صلاحیت بھی۔منٹوں میں دیوی دیوتائوں کی تصویر یں،کمل کاپھول،بطخ، نکلتاسورج،پیڑ پودے، چڑیاں سب کے سب بدا کے گھروندے پر منھ سے بول رہے اٹھے اور ہر سال کی طرح اس سال بھی اس کا گھروندا محلے کا سب سے شاندار گھروندا ہوگیا۔ جئے میری سپھو۔
اس ظاہر حقیقت کے پیچھے ہندوستانی تہذیب کا وہ پہلو ہے جسے گنگاجمنی کلچر کہتے ہیں۔ صفیہ کا بدا کے گھر میں ہندودیوی دیوتائوں اور مذہبی نشانیاں جیسے کمل کا پھول، بطخ، نکلتا سورج کی تصویر کشی کرنا اس بات کی علامت ہے کہ ہندو اورمسلمان شیروشکر ہوکر اس ملک میں رہتے آئے ہیں۔افسانہ کے پہلے حصے میں گزشتہ ہندوستان کے تہذیبی اور سماجی پس منظر کو اجاگر کیا گیا ہے۔صفیہ کی بدا کے چھوٹے بھائی کالو سے ایک آنکھ نہیںبنتی تھی ہڑ کمپ مچانا کالو کا مزاج تھا اور صفیہ کوتنگ کرنا اس کی عادت تھی لیکن جب بدا کی شادی ہوئی اس منظر کو مصنفہ نے اس طرح نقشہ کھینچا ہے کہ حقیقت کاگمان ہوتا ہے:
’’بداپر ہر وقت مرکھنڈے بیل کی طرح سینگ چلانے والا کالو سبک سبک کررورہاتھا۔ پہلی باربار صفیہ کو احساس ہوا کہ گندمی رنگت اور موٹی موٹی آنکھوں والا عمر میں اس سے دوبرس چھوٹا یہ لڑکا کبھی ایسا بھی لگ سکتا ہے کہ اس پر پیار آسکے اس نے جاکر اس کے سر پر ہاتھ رکھ دیا۔گھنے بالوں کا ریشم جیسا لمس بہت دن تک ہتھیلی پر یوں ہی رہ گیا تھا۔تازہ اور نیا اور ایساہی ایک لمس تازہ رہ گیا تھا کالو کی ہتھیلی پر جب کئی برس بعد ا س نے صفیہ کی رخصتی پر صفیہ کے سر پر ہاتھ رکھا تھاــ۔‘‘(۲۹)
یہ لمس کسی ہندو اور مسلمان کانہیں تھا بلکہ انسانی تہذیب کا تھا ۔جس دور میں ہندو اور مسلمان بھائی بھائی کی طرح اس ملک میں رہتے تھے ۔اسی کو مذکورہ افسانہ میں مصنفہ نے ابھارا ہے۔
مصنفہ نے’’بدانہیںمری‘‘میںاودھی محاوروں کا بھی استعمال اور بہار کے دیہاتوں کی علاقائی زبان کے علاوہ وہاں کے محاورات کا بھی برمحل استعمال کیا ہے جیسے ’’ارے کل مونہے،پوتھی پھینکتا ہے۔پڑھنا کیسے آئے گا‘‘فیض آباد میں بولا جانے الا اودھی محارہ ہے اسی طرح’’چراتو جائے بکری کے ہاتھ گوڑ جو تو کھات ہو ،ساگ توڑے کا تریکہ بائے‘‘(گل جائیں گے بکری کے ہاتھ پیر بھی جو تم کھاتی ہو، مگر ساگ توڑنے کاک طریقہ بھی کوئی چیز ہے)’’کلو مٹلو کے دوئی بکرا۔کھانست ،چھینکت جیئو نکرا،‘‘(کلو مٹلو کے دو بکرے ۔کھانس چھینک کے مرگئے۔
٭٭٭٭٭٭

Leave a Comment