اختر الایمان کی نظم کا ڈرامائی اسلوب

٭ارم صبا (ریسرچ اسکالر پی ایچ۔ڈی )
شعبہ اردو
وفاقی اردو یونیورسٹی برائے فنون سائنس اور ٹیکنالوجی اسلام آباد
ای میل: irumsaba1122@gmail.com

Abstract:
Dramatic style (Drama,s elements)which have been integrated into western poetry have also been adopted in urdu poetry.There have been found traces of drama in classical urdu poetry.Akhtar al emaan a wel know poet of urdu also used dramatic techniques(story,character,dialogue,monologue etc)in his poems.His poems revolve around urban and rural issues,political unstablity,social injustice,social etiquettes etc.Dramatic style used by Akhtar al emaan adorned and embelished his poem

اردو نظم کی معتبر آوازوں میں سے ایک اہم آواز اختر الایمان کی ہے۔ اختر الایمان ترقی پسند تحریک سے متاثر ہونے والے شعراء میں سے ہیں۔اس تحریک سے متاثر ہونے کے باوجود بھی وہ اپنے لئے الگ راستہ منتخب کرتے نظر آتے ہیں۔انہوں نے حلقہ ارباب ذوق کی جدیدیت کی تحریک سے بھی استفادہ کیا۔وہ ادب برائے زندگی کے قائل تھے۔ان کی شاعری ترقی پسند نظریات اور حلقہ ارباب ذوق کے داخلی احساسات،دونوں رخ پیش کرتی ہے۔ اختر الایمان کی نظموں میں متنوع موضوعات ملتے ہیں۔ان موضوعات کے بیان کے لئے اختر الایمان کئی اسالیب اپناتے ہیں۔کہیں وہ علامتی انداز میں سماجی مسائل کی نشاندہی کرتے ہیں تو کہیںتمثالوں سے کام لیتے ہیں۔کہیں تشبیہ و استعارہ کا سہارا لیتے ہیں تو کہیں براہ راست صحافتی انداز میں بات کرتے ہیں۔قصہ ،کردار ،مکالمات،منظر نگاری جیسے ڈرامائی حربے ان کی نظموں میں اکثر دکھائی دیتے ہیں۔یہ عناصر ڈرامے کے اہم اجزاء ہیں۔ڈرامے کے یہ اجزا اختر الایمان کی نظموں کو حسن عطا کرتے ہیں۔
ڈرامے کے یہ عناصر اردو نظم کی ابتدا ہی سے نظم کا حصہ ر ہے ہیں۔گولکنڈہ و بیجا پور کی ریاستوں میں پروان چڑھنے والی اردو نظم کی اہم اصناف مثنوی،مرثیہ اور قصیدہ تھیں۔مثنوی میں کہانی بیان کی جاتی ہے۔جس صنف میں کہانی ،قصہ کا عمل دخل ہو گا وہاں ڈرامائی عناصر کا در آنا لازمی امر ہے۔کہانی کے بیان کے لئے کرداروں کا سہارا لیا جاتا ہے اور کرداروں کے احساسات و جذبات کے بیان کے لئے مکالمات ادا کروائے جاتے ہیں یا خود کلامی کی تکنیک استعمال کی جاتی ہے۔مرثیے میں واقعہ کربلا بیان کیا جاتا ہے۔واقعہ،کردار اور مکالمات سے المیہ کی فضا جنم لیتی ہے۔ارسطو کے نزدیک المیہ ڈرامے کا اہم جز ہے۔حالی و آزاد کی شاعری میں بھی کردار،مکالمہ اور خود کلامی کا ڈرامائی عنصر نظر آتا ہے۔بیسویں صدی کی نظم نگاری میں اہم نام اقبال کا ہے۔اقبال کی تقریبا ہر دوسری نظم میں کرداراور مکالمات کی تکنیک استعمال کی گئی ہے۔راشد،میرا جی اور مجید امجد نے بھی ڈرامے کی ان تکنیکس سے بخوبی فائدہ اٹھایا۔اختر الایمان نے بھی اسی اسلوب کو نظم کا حصہ بنایا۔ان کی نظموں میں ملکی سیاسی و سماجی حالات کی تصویر کشی کے لئے،تاریخی واقعات کے بیان کے لئے اور اپنے جذبات و احساسات کو شاعری میں ڈھالنے کے لئے اختر الایمان ڈرامائی اسلوب کا سہارا لیتے ہیں۔وہ انقلاب کی آواز بھی بلند کرتے ہیں اور پرانی تہذیبوں کے کھو جانے کا نوحہ بھی پڑھتے ہیں۔
اختر الایمان کی نظم’’موت‘‘ایک چھوٹا سا منظوم ڈراما ہے جس میں تین کردار ہیں۔ایک مرد،عورت اور دستک۔کہانی کا پہلا کردار ایک بیمار مرد ہے جو زندگی سے مایوس ہو چکا ہے ۔عورت اس کی محبوبہ اس کی مایوسی کی باتیں سن کر اس سے مخاطب ہوتی ہے۔دونوں کے مکالمات سے نظم ترتیب پاتی ہے۔دورازے پر مسلسل دستک ہوتی رہتی ہے۔ اختر الایمان’’ آب جو ‘‘ کے دیباچے میں اس نظم کو منظوم ڈراما قرار دیتے ہیں:
’’موت ‘‘ایک چھوٹا سامنظوم ڈراما ہے۔جس میں تین کردار ہیں۔
مرد،عورت اور دستک۔مرد بیمار ہے بستر مرگ پر ہے اور نزع کے عالم
میں ہے۔عورت اس کی محبوبہ ہے اورمرد کے ذہن کوموت کے اس
خیال سے باز رکھنا چاہتی ہے جو اس پر حاوی اور مسلط ہے اور دستک
ایک ایسی آواز ہے جو مسلسل دروازے پر سنائی دے رہی ہے اور
ماحول کی ہیبت میں اضافہ کر رہی ہے۔(۱)
نظم کے تینوں کردار علامتی ہیں۔بیمار مرد کہنہ نظام کی علامت ہے ۔محبوبہ اسی نظام سے وابستہ فرد کی علامت ہے۔مسلسل دستک وقت کی آواز ہے جو کبھی بند نہیں ہوتی۔زندگی کے دروازے کو ہمیشہ کھٹکھٹاتی رہتی ہے۔اگر مکین وقت کی اس آواز کو نہیں سنتا تو یہ آواز دروازی توڑ ڈالتی ہے۔اور اس کی جگہ نیا مکان تعمیر کرتی ہے۔بستر مرگ پر موجود آدمی پرانی قدرو ں کا علامیہ ہے جو اب مر رہی ہیں۔( ۲) نظم کا آغاز ڈرامائی انداز میں ہوتا ہے۔یہ نظم موضوع اور ساخت دونوں حوالوں سے اختر الایمان کی خوب صورت نظموں میں شمار کی جاسکتی ہے۔ بیمار مرد اپنی محبت اور اپنی زندگی کی کم مائیگی کا اعتراف کرتا ہے۔بیمار مرد اپنی محبوبہ سے مخاطب ہے۔:
میرے سینے میں الجھنے لگی فریاد مری
زنگ آلود محبت کو تجھے سونپ دیا
کھٹکھٹاتا ہے کوئی دیر سے دروازے کو
ٹمٹماتا ہے مرے ساتھ نگاہوں کا چراغ(۳)
محبوبہ اس مکالمے کے جواب میں بیمار مرد سے مخاطب ہوتی ہے اور اسے کہتی ہے:
اس قدر ہوش سے بیگانہ ہوئے جاتے ہو؟
مرد مسلسل مایوس ہے اور محبوبہ سے کہتاہے تم چلی جاو۔ یہ کم بخت جو دروازہ کھٹکھٹا رہا ہے دورازہ توڑ ہی ڈالے گا اور میں اس ڈھیر میں دب کے مر جاوں گا۔میں بہت تھک گیا ہوں امید کا دن بیت گیا اور شام ہو گئی ہے۔محبوبہ اس کی نا امیدی کی باتوں سے تنگ آ کر کہتی ہے:
کہہ چکے ہو تو خدا کے لئے خاموش رہو
بیمار مرد اپنی محبوبہ سے التجا کرتا ہے کہ وہ ایک بار جا کر دروازے پر دیکھ تو آئے کون ہے۔نظم کی مکالماتی فضا نظم کو ڈرامائی تاثر عطا کرتی ہے :
زلزلہ اف یہ دھمکا یہ مسلسل دستک
کھٹکھٹاتا ہے کوئی دیر سے دورازے کو
کون آیا ہے ذرا دیکھ ،اک نظر دیکھ تو لے
توڑ ڈالے گا یہ کم بخت مکاں کی دیوار
اور میں دب کے اسی ڈھیر میں رہ جاوں گا ( ۴)
اختر الایمان نے ایک خوب صورت موضوع کو ڈرامائی اسلوب کے سہارے بیان کیا ہے جس سے نظم کے حسن میں اضافہ ہوا ہے۔نظم’’مسجد‘‘میں شاعر مکالمہ کی ڈرامائی تکنیک استعمال کرتا ہے اور علامت کے سہارے اپنی بات بیان کرتا ہے۔نظم میں تین کردار ہیں جو علامتی ہیں۔مسجد مذہب کا علامیہ ہے،ندی نئی اقدار کا اور رعشہ زدہ ہاتھ مذہبیت کی علامت ہیں۔مسجد کی شکستہ حالت مذہب کی زبوں حالی کی علامت ہے۔یہ نظم انسان کی تنہائی کے کرب کو علامتی انداز میں بیان کرنے کی کامیاب کوشش ہے۔اختر الایمان اپنے عصر کے انسان کو نظم کا موضوع بناتے ہیں ۔یہ انسان دوہرے تشخص،دوہرے عذاب اور ذہنی اذیت میں مبتلا ہے۔نظم ’’ایک لڑکا‘‘میں دو کردار ہیں ۔ مرکزی کردار’’ایک لڑکا‘‘ہے۔یہ کردار انسانی ضمیر کی علامت ہے۔نظم کے دونوںکردار انسانی شخصیت کے دو پہلووں کی نمائندگی کرتے ہیں۔اختر الایمان لکھتے ہیں:
میں نے مختصر نظمیں کبھی پلان کر کے نہیں لکھیں اس کے بر عکس طویل
نظمیں ہمیشہ پلان کر کے کہی ہیں۔نظم ـ’’ایک لڑکا‘‘پہلی بار میں
نے موضوع کے طور پر محسوس نہیں کی تھی،تصویر کی شکل میں دیکھی
تھی ۔مجھے اپنے بچپن کا ایک واقعہ یاد ہے وہ واقعہ ہی اس نظم کا
محرک بنا۔ہم ایک گاوں سے منتقل ہو کے دوسرے گاوں جا رہے
تھے۔اس وقت میری عمر تین چار سال کی ہو گی۔ہمارا سامان ایک
بیل گاڑی میں لادا جارہا تھا۔میں اس گاڑی کے پاس کھڑا س منظر
کو دیکھ رہا تھا۔میرے چہرے پر کرب اور بے بسی تھی۔اس لئے کہ
میں اس گاوں کو چھوڑنا نہیں چاہتا تھا۔۔۔۔۔وہ لڑکا جس کی تصویر
کبھی میرے ذہن میں تھی وہ اختر الایمان ہے۔۔۔۔اختر الایمان
کی شخصیت دو حصوں میں تقسیم ہو گئی تھی۔ایک یہ لڑکا جو معصوم تھا اور
دوسرا وہ جس نے دنیا کے ساتھ سمجھوتا کر لیا تھا۔(۵)
نظم میں شاعرخود راوی کے روپ میں سامنے آتا ہے۔اور ایک لڑکے کا تعارف کرواتا ہے۔پہلے منظر میں یہ لڑکا ہمیں آم کے باغوں میں ،کھیتاں میں،میلوں میں اور تتلیوں کے تعاقب میں بھاگتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔نظم کی ابتدا میں ہی کہانی کا عنصر نظم میں در آتا ہے ۔نظم ڈرامے کی طرح منظر بہ منظر آگے بڑھتی ہے۔ نظم کے اگلے منظر میں دونوں کرداروں کا مکالمہ ہے۔جو نظم کو مکمل ڈرامائی اسلوب عطا کرتا ہے:
یہ لڑکا پوچھتا ہے ،اختر الایمان تم ہی ہو؟
یہ لڑکا پوچھتا ہے جب تو میں جھلا کہ کہتا ہوں
وہ آشفتہ مزاج ،اندوہ پرور،اضطراب آسا
جسے تم پوچھتے رہتے ہو کب کا مر چکا ظالم
اسے خود اپنے ہاتھوں سے کفن دے کر فریبوں کا
اسی کی آرزوں کی لحد میں پھینک آیا ہوں
میں اس لڑکے سے کہتا ہوں وہ شعلہ مر چکا جس نے
کبھی چاہا تھا خاشاک عالم پھونک ڈالے گا
یہ لڑکا مسکراتا ہر،یہ آہستہ سے کہتا ہے
یہ کذب و افترا ہے جھوٹ،دیکھو میں زندہ ہوں (۶)
نظم کی ساخت طنزیہ ہے۔دور جدید کے انسان کو نظم میں طنز کا نشانہ بنایا گیا ہے۔اس کا ڈرامائی اسلوب بھی طنزیہ ہے۔اس نظم کو ساختیاتی طنز اور ڈرامائی طنز دونوں کا نمائندہ قرار دیا جا سکتا ہے۔(۷) نظم میں ڈرامے کے عناصر موجود ہیں جو نظم کو ڈرامائی ساخت عطا کرتے ہیں۔نظم میں دو کرداروں کا مکالمہ ہے ۔بقول گوپی چند نارنگ :
’’۔۔۔۔دو کرداروں میں گفتگو ہے۔یا ہم زاد یا ضمیر ہے۔ہم کلامی ہے
یا دوسرے لفظوںمیں خود کلامی ہے۔جس میں راوی ہم زاد کے ہاتھوں
انکشاف ذات سے دوچار ہے۔‘‘(۸)
نظم’’ایک لڑکا ‘‘کا موضوع ضمیر ہے جسے ایک لڑکے کی علامت کے ذریعے پیش کیا گیا ہے۔’’سب رنگ‘‘اختر الایمان کی طویل ڈرامائی نظم ہے۔نظم کے تمام کردار انسانی شخصیت کے کسی نہ کسی پہلو کو علامت کے طور پر پیش کرتے ہیں۔یہ نظم جس دور میں لکھی گئی ہندوستا ن پر انگریزوں کا راج تھا۔اس دور کی ظلم و بربریت کے وحشیانہ رقص کی تصویریں تاریخ کی کتابوں میں آج بھی زندہ ہیں۔ایسی صورت حال میں ایمائی ،علامتی طریقہ اظہار ہی مناسب تھا۔جنگل کے تمام جانورآرام کی زندگی گزار رہے تھے کہ اچانک ایک بہت بڑا طوفان (انگریز)آیا۔جس نے سب کو اپنا غلام بنا لیا۔سانپ جو سیاسی راہنما تھا ،کی صدارت میں اس طوفان سے نمٹنے کے لئے اجلاس منعقد ہوتا ہے۔پہلا کردار گدھا(ایک لٹا پٹا شہزادہ)اپنا مکالمہ ادا کرتا ہے اور کہتا ہے ہمیں سویرا چاہیے۔یہ کردار ابھی اپنی بات مکمل نہیں کر پاتا کہ بندر (ناقص العقل سیاست دان)اعتراضات اٹھاتا ہے اور پوچھتا ہے کہ سانپ کو صدر کس نے بنایا ہے۔نظم میں آگے چل کر آدم کی آمد ہوتی ہے۔نظم میں تمام جانوروں کے مکالمے ناموں کے ساتھ تحریر کئے گئے ہیں۔ اختر الایمان ہر منظر کا عنوان بھی تحریر کرتے ہیں۔افتتاحیہ،پہلا رنگ،دوسرا رنگ،تیسرا رنگ،چوتھا رنگ اور اختتامیہ کے عنوانات سے نظم کے ہر منظر کو بیان کرتے ہیں۔ایسا محسوس ہوتا ہے کہ شاعر نے ایک ڈراما تحریر کیا ہے جس کے ہر نئے منظر سے قبل ذیلی عنوانات تحریر کیے گئے ہیں۔ نظم کا آغاز شاعر نے ایسے کیا ہے جیسے کوئی ڈراما تحریر کر رہا ہو:
تماشائی: شجر و حجر
وقت: اندھیرے ،اجالے کے درمیان کا
زمانہ: ہمارا ،آپ کا
کردار: زمان و مکاں،آدم،سانپ،گدھا،بندر،چڑیا،خچر،گینڈا،
بیل،ہدہد،کتا ،الو،قوت حیات ونمو او رکچھ دوسرے
افتتاحیہ: زمان و مکان برسوں کا گرد و غبار چہرے پر
لیے نمودار ہوتے ہیں۔( ۹)
زمان و مکان کے طویل مکالمے سے نظم کا آغاز ہوتا ہے۔شاعرپہلے مکالمے کے اختتام پراور دوسرا مکالمہ شروع کرنے سے پہلے اگلے منظر کے بارے میں بیان کرتا ہے۔جو نظم کو ڈرامے کے قریب تر کر دیتا ہے:
’’ایک وسیع میدان میں جنگل کے تمام جانور جمع ہیں۔مسلہ زیر بحث یہ
ہے کہ آدم کی تمام قوت کا دارومدار ہم پر ہے ۔اس کے باو جود بھی وہ اپنے
آپ کو ہمارا آقا اور اشرف المخلوقات اور نہ جانے کن کن ناموں سے
یاد کرتا ہے۔اس کے اس دعوے کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرنی
چاہیے۔سانپ صدر محفل ہے ۔گدھا بولنے کے لئے حاضر ہوتا ہے:
گدھا: تمام حضرات سن رہے ہیں؟
مجھے یہ کہنا ہے اہل محفل
بہت گزری ہے سو کے ہم نے
ہمیں ولے غفلتوں کا حاصل
ملا بھی کچھ ہے تو اک اندھیرا (۱۰)
نظم کے تمام کردار اسٹیج پر آ کر اپن اپنا مکالمہ ادا کرتے ہیں ۔آخر میں پھر زمان و مکاں اسٹیج پر نمودار ہوتے ہیں اور ان کے طویل مکالمے پر نظم کا اختتام ہوتا ہے۔’’۔کالے سفید پروں والا پرندہ اور میری شام‘‘کا اسلوب بھی ڈرامائی ہے۔یوں محسوس ہوتا ہے شاعر نظم میں چھوٹی چھوٹی کہانیاں بیان کر رہا ہے۔(۱۱)نظم میں ڈرامے کے عناصر موجود ہیں۔ نظم بیانیہ انداز میں لکھی گئی ہے۔پہلا منظر نصف شب کا ہے۔شاعر بیٹھا سوچ رہا ہے۔دوسرے منظر میں شعور کی رو کا استعمال کیا گیا ہے۔اگلے مناظر میں شاعر اپنے ماصی میں جھانکتا ہے جب عید پر وہ لٹھے کی شلوار پہن کر ہمسایوں کے گھر سویاں دینے گیا تھا:
عید کے دن ہم نے لٹھے کی شلواریں سلوائی تھیں
اور سویوں کا زردہ ہمسایوں کے گھر بھجوایا تھا
سب نیچے بیٹھک میں بیٹھے تھے
میں اوپر کے کمرے میںبیٹھا
کھڑ کی سے زینب کے گھر میں پھولوں کے گچھے پھینک رہا تھا
کل زینب کا گھر نیلام ہو رہا ہے
سرکاری تحویل میں تھا اک مدت سے(۱۲)
آخری منظر میں پتوں کے گرنے کی آواز سے ماضی کی باز گشت کا سلسلہ منتشر ہو جاتا ہے۔ڈرامائی اسلوب کے حوالے سے یہ نظم ایک دلکش اور کا میاب نظم ہے۔فنی نقطہ نظر سے جس میں طنز و تضاد،ڈرامائی و نیم ڈرامائی کرداروں،پیکر و تجسیم کے علاوہ قصوں کے تفاعل اور ماجرائی و نثری انداز کو خاص اہمیت حاصل ہے۔’باز آمد۔ایک مونتاج‘‘ ہلکی پھلکی رومانوی نظم ہے۔یہ ایک ڈرامائی،مکالماتی،بیانیہ شکل میں لکھی گئی نظم ہے۔ (۱۳) باز آمد ماضی اور محبت کی داستان ہے۔شاعر موسم بہار سے لطف اندوز ہوتا ہوا بے خیالی میں خواتین کی محفل میں چلا جاتا ہے۔کچھ خواتین سلائی میں مصروف ہیں،کچھ چرخا لئے بیٹھی ہیں ،کچھ جھولا ڈال رہی ہیں۔نظم کا مرکزی کردار خواتین کی پاس جا کر اپنی محبوبہ کے متعلق دریافت کرتا ہے۔یہاں سے نظم میں مکالمے کا آغاز ہوتا ہے۔مونتاژ کی تکنیک میں لکھی گئی یہ نظم بیانیہ اسلوب کی حامل ہے۔کہانی کی طرح نظم میں کردار بھی وضع کئے گئے ہیں۔نظم کے ڈرامائی اسلوب کے متعلق محمد آصف زہری رقم طراز ہیں:
نظم میں کرداروں کی آمد بڑی حد تک ڈرامائی انداز میں ہوتی ہے۔
یہاں محض بیانیہ انداز کو ہی نہیں اپنایا گیابلکہ بیانیہ کو برتنے والی مخصوص
صنف ادب:کہانی اور اس کے تمام عناصر مثلا مکالمہ،کردار،انجام،
جزئیات،وقوعے اور ترجیع وغیرہ سب موجود ہیں۔۔۔نظم کی زبان
بھی فطری اور کہانی کی زبان ہی لگتی ہے۔(۱۴)
نظم’’ڈاسنہ سٹیشن کا مسافر‘‘رومانوی بیانیہ نظم ہے۔جس کے بین السطور میں کہانی کئی حقیقتوں سے نقاب کشائی کرتی ہے۔نظم میں متحرک تصاویر سے مونتاژ کی شکل بنتی ہے۔نظم کا آغاز شاعر بنا کسی تمہید کے کرتا ہے۔پہلے منظر میں دو کرداروں کا مکالمہ ہے۔ٹرین ایک سٹیشن ہر رکتی ہے اور شاعر اپنے ہم سفر سے پوچھتا ہے کہ یہ کون سا سٹیشن ہے جواب میں ڈاسنہ کا نام سن کر شاعر کا ذہن ماضی میں کھو جاتا ہے۔ نظم کے آغاز میں دو مسافروں کا مکالمہ نظم کی کہانی کا دیباچہ بنتا ہے۔نظم میںمتن کی سطح پر بیانیہ کی کئی پرتیں موجود ہیں:
کون سا سٹیشن ہے؟
ڈاسنہ ہے صاحب جی
آپ کو اترنا ہے؟
جی نہیں، نہیں ، لیکن
ڈاسنہ تو تھا ہی وہ
میرے ساتھ قیصر تھی
یہ بڑی بڑی آنکھیں
اک تلاش میں کھوئی
رات بھر نہیں سوئی
جب میں اس کو پہنچانے
اس اجاڑ بستی میں
ساتھ لے کے آیا تھا
میں نے ان سے پھر پو چھا
آپ مستقل شاید
ڈاسنہ میں رہتے ہیں؟
جی یہاں پہ کچھ میری
سوت کی دکانیں ہیں
کچھ طعام خانے ہیں (۱۵)
ڈاسنہ کا نام سنتے ہی شاعر ماضی میں یادوں میں کھو جاتا ہے ۔بیانیہ انداز میں نظم آگے بڑھتی ہے ۔فلیش بیک کی نظم کو دل کشی عطا کرتی ہے۔نظم ’’ایک کہانی‘‘بھی ڈرامائی نظم ہے ۔ڈرامے کی طرح شاعر نظم کے آغاز میں کرداروں کی فہرست مرتب کرتاہے۔نظم کے کرداروںمیںماضی،آدمی،محبوبہ،باغی،باغیوںکاگروہ۔۱،باغیوںکا گروہ۔۲،مستقبل۔شاعر ڈرامے کی طرح نظم کا آغاز کرتا ہے ۔نظم کی ابتدا میں ماضی کا مکالمہ ہے:
محل وقوع:تاریک سیارے کا ایک ملک
زمانہ: حال
تماشائی: من و تو
ماضی:کچھ دن بیتے اس دھرتی پر دیس تھا اک
پھولوں سے پیارا(۱۶)
بیانیہ اسلوب،کردار اور مکالمات نظم کو ڈرامے سے قریب کرتے ہیں۔ نظم ’’زندگی کے دروازے پر ‘‘کا آغاز شاعر نے ڈرامائی انداز میں کیا ہے :
پا برہنہ و سراسیمہ سا اک جم غفیر
اپنے ہاتھوں میں لئے مشعل بے شعلہ و دود
مضطرب ہو کے گھروندوں سے نکل آیا ہے
جیسے اب توڑ ہی ڈالے گا یہ برسوں کا جمود(۱۷)
’’ راہ فرار ‘‘میں تنبیہ کا انداز ہے۔نظم’’بیٹے نے کہا‘‘میں باپ اور بیٹے کا مکالمہ نظم کو ڈرامائی آہنگ عطا کرتا ہے۔ ’’خاک و خون (ایک مکالمہ )‘‘میں کردار اور مکالمے کا ڈرامائی حربہ نظم کو ڈرامے کے قریب کرتا ہے۔’’زمستاں سرد مہری کا‘‘سوانحی انداز میں لکھی گئی نظم ہے۔نظم شاعر کی داخلی خود کلامی ہے۔نظم’’کل کی بات‘‘ڈرامائی اسلوب میں لکھی گئی نظم ہے۔نظم کہانی بیان کرتی ہے۔کردار معاشرے کے عام دیکھے بھالے کردار ہیں۔شبانہ اپنی سمندھن کے پان بھرے منہ سے باتین سن کر جھنجھلا تی ہے۔،،نظم ’’تاریک سیارہ‘‘مکالماتی نظم ہے۔’’تاریک سیارہ‘‘میں دو آوازیں دو کرداروں کا
رو پ دھارتی ہیں۔اختر الایمان کی شاعری روایتی رومانیت سے عاری دکھائی دیتی ہے۔اختر کے ہاں معاصر انسان سے مایوسی،خود غرضی،جارحیت،اور روحانی اقدار کے زوال سے نفرت کا احساس پایا جاتا ہے۔ان کی شاعری کا واحد متکلم ایک ایسا شخص ہے جس نے دنیا میں امن محبت ،عافیت اور یگانگت کی تمنا کی ہے۔یہ واحد متکلم جہاندیدہ ہے اور اس کے لہجے میں وقار ہے۔اسے کوئی رومانی فریب متاثر نہیں کرتا۔یہ واحد متکلم ایک حساس شخص ہے۔اختر الایمان اس شخص کے احساسات کی ترجمانی کرتے ہیں۔اختر الایمان انسان کے کرب کو اس کی شدتِ درد کی انتہا پر پہنچ کر محسوس کرتے ہیں۔انہیں انسان کی بے چارگی،کم مائیگی اور بے بسی کے ساتھ ہمدردی ہے۔
بڑے شہر،تشدد،عصری معاشرہ ،دہشت،عامیانہ پن،شکست و ریخت،ان سب کی تصاویر،ان سے وابستہ استعارے،علامتیں،ڈرامائی صورتیں غرض ایک پورا جہانِ رنگ و بو اختر لاایمان کی نظموں میں موجود ہے۔ بیانیہ انداز،کردار،مکالمہ،خود کلامی اور ڈرامائی طرزِ تخاطب ان کی نظموں کے حسن وتاثیر میں اضافے کا موجب بنتا ہے۔ڈرامے کے یہ عناصر نظم کی ساخت کو نقصان پہنچائے بغیر موضوع کو ایسی دل کشی عطا کرتے ہیںکہ قاری اس سے محظوظ ہوئے بنا نہیں رہ سکتا۔

حوالہ جات
۱۔ اختر الایمان،آب جو،(دیباچہ)،لاہور،نیا ادارہ،س۔ن، ص۸
۲۔ اختر الایمان،آب جو،(دیباچہ)،لاہور،نیا ادارہ،س۔ن، ص ۹
۳۔ اختر الایمان،نظم ،آب جو،لاہور،نیا ادارہ،س۔ن، ص۲۵
۴۔ اختر الایمان،نظم ،آب جو،لاہور،نیا ادارہ،س۔ن، ص۲۶
۵۔ اختر الایمان،کلیات(مرتبہ سلطانہ ایمان،بیدار بخت)دہلی،ایجوکیشنل بک ہاوس،۲۰۰۸ء،ص ۲۸
۶۔ اختر الایمان،آب جو،لاہور،نیا ادارہ،س۔ن، ص۷۸
۷۔ گوپی چند نارنگ،ڈاکٹر،اختر الایمان کی نظم کی داخلی ساخت اور کہانی کا تفاعل،مشمولہ
معیار،اختر الایمان نمبر،دہلی،معیار پبلی کیشنز،۲۰۰۰ء،ص۸۵۔۸۶
۸۔ گوپی چند نارنگ،ڈاکٹر،اختر الایمان کی نظم کی داخلی ساخت اور کہانی کا تفاعل،مشمولہ
معیار،اختر الایمان نمبر،دہلی،معیار پبلی کیشنز،۲۰۰۰ء،ص۸۸
۹۔ اختر الایمان،سرو سامان،بمبئی ،رخشندہ کتاب گھر،۱۹۸۳ء،ص۸۴۔۸۵
۱۰۔ اختر الایمان،سرو سامان،بمبئی ،رخشندہ کتاب گھر،۱۹۸۳ء،ص۸۸
۱۱۔ محمد آصف زہری،اختر الایمان کی دس نظمیں(تجزیاتی مطالعہ)،دہلی،وائز پبلی کیشنز،
۲۰۱۰ء اشاعت دوم،ص۶۶
۱۲۔ اختر الایمان،سرو سامان،بمبئی ،رخشندہ کتاب گھر،۱۹۸۳ء،ص۴۷۱
۱۳۔ محمد آصف زہری،اختر الایمان کی دس نظمیں(تجزیاتی مطالعہ)،دہلی،وائز پبلی کیشنز،
۲۰۱۰ء اشاعت دوم،ص۱۷۳
۱۴۔ محمد آصف زہری،اختر الایمان کی دس نظمیں(تجزیاتی مطالعہ)،دہلی،وائز پبلی کیشنز،
۲۰۱۰ء اشاعت دوم،ص۱۷۵
۱۵۔ اختر الایمان،سرو سامان،بمبئی ،رخشندہ کتاب گھر،۱۹۸۳ء،ص۴۹۸
۱۶۔ اختر الایمان،سرو سامان،بمبئی ،رخشندہ کتاب گھر،۱۹۸۳ء،ص۳۰۲
۱۷۔ اختر الایمان،سرو سامان،بمبئی ،رخشندہ کتاب گھر،۱۹۸۳ء،ص۶۱

 

Leave a Comment