٭ڈاکٹرسید نجی اللہ
اسسٹنٹ پروفیسر شعبہ نظم ونسق عامہ ،مانو حیدرآباد۔
ای میل:syednajiullah@gmail.com
رابطہ نمبر: 9705704939
کتابوں کی اشاعت علم کو عام کرنے کا ایک اہم ذریعہ ہے۔ دراصل پرنٹنگ مشین کی ایجاد سے علم کی دنیامیں انقلابی تبدیلیاں رونما ہوئیں۔ بڑے پیمانے پر کتابوں کی اشاعت سے علم خواص کے گھروں سے نکل کر عام لوگوں تک پہنچا۔ اس سے کتابوں کے موضوعات کا دائرہ بھی وسیع ہوگیا۔ مذہب اور ادب کے علاوہ سائنس اور سماجی علوم میں بھی کتابیں لکھی جانے لگی۔ البتہ ہندوستانی زبانوں میں شائع ہونے والی کتابوں پر مذہب اور ادب کا غلبہ رہا۔اردو میں بھی ادب اور اسلامیات پر کتابوں کا بہت بڑا زخیرہ موجود ہے۔ لیکن علمی کتابوں کے متعلق یہ بات نہیں کہی جاسکتی۔ اسکا مطلب یہ نہیں ہے کہ اردو میں سائنس اور سماجی علوم میں کتابیں بلکل نہیں ہیں۔ ۱ردو ادب میں تاریخ اور سماجی مسائل پر بھی تحریریں ملتی ہیں۔ اردو میں صحافت کی شروعات سے سماجی و سیاسی مسائل پرلکھا جانے لگا۔ 1822ء میں اردوکا پہلا اخبارجام جہاں نما کولکتہ سے ہری ہردت کی ادارت میں شائع ہواا ور اردو میں سیاسی اور سماجی مسائل پر مضامین لکھنے کا سلسلہ شروع ہوا۔ اسکے بعد شائع ہونے والے اخبارات جیسے دہلی اردو اخبار، دکن گزٹ، زمیندار، مخزن اورالہلال میں سیاسی اور سماجی مسائل پرلکھا جانے لگا۔
1918ء میں عثمانیہ یونیورسٹی میں اردو ذریعہ تعلیم کے آغازسے درس و تدریس کا کام شروع ہوا اور سائنس، طب جیسے موضوعات پر اردو میں کتابیں لکھی گئیں۔ اردو میں علمی کتابوں کے تراجم کی اشاعت کے لئے دارالترجمہ قائم کیا گیا۔ اسکے تحت 1919 ء سے 1950ء کے درمیان 426 کتابیں مختلف زبانوں سے ترجمہ کی گئی اور مختلف مضامین پر 31کتابوں کومرتب کیا گیا۔ ان میں سے 27 کتابوں کو شائع کیا گیاتھا۔۱؎
ٍٍ آزادی کے بعد 1960 اور70ء کے دہے میں مرکزی حکومت کی مدد سے کئی ریاستوں میں علاقائی زبانوں میں علمی و درسی مواد کو شائع کرنے کی کو ششیں کی گئیں۔ اس کے لئے ریاستی سطح پرادارے قائم کئے گئے۔ مثلاً 1968ء میں کیرلا میں اسٹیٹ انسٹیٹیوٹ آف لینگویجس قائم کی گئی جس کے تحت 2400 درسی وعلمی کتابیں مختلف موضوعا ت پر شائع کی گئیں۔ اسی طرح اوڑیسا میں اسٹیٹ ٹیکسٹ بک پریپریشن اینڈ پروڈکشن بیورو، تامل ناڈو میں ٹیکسٹ بک کارپوریشن، مدھیہ پردیش میں ہندی گرنتھ اکاڈمی اور آندھرا پردیش میں تلگو اکاڈمی کے تحت ان علاقائی زبانوں میں نصابی کتابیں شائع کی جا رہی ۲؎۔اردو میں اس طرح کی کوششیں بہت کم ہو رہی ہیں۔
اس وجہ سے اردو میں نصابی کتابوں کی اشاعت میں بڑا خلاء پایا جاتا ہے۔ حالانکہ جموںو کشمیر میں اردو سرکاری زبان ہے آندھرا پردیش، اتر پردیش، بہاراور تلنگانہ جیسی ریاستوں میں اسے دوسری سرکاری زبان کا درجہ حاصل ہے۔ ان میں سے کئی ریاستوں میں اردواکاڈمی بھی کام کر رہی ہیں۔ یہ اکاڈمیاں اردو میں شائع کتابوں کو انعامات تو دیتی ہیں مگر اردو میں نصابی کتابیں شائع کرنے کی زحمت نہیں کرتیں۔ البتہ قومی کونسل برائے فروغ اردوزبان دہلی نے اردو ادب کے علاوہ سائنسی وسماجی علوم و دیگر علوم پر مضامین اور کتب شائع کی ہیں۔ اسی طرح ایجوکیشن پبلی کیشنز ہاؤس دہلی جیسے خانگی ادارے بھی ادبی اور علمی کتابیں شائع کر رہے ہیں۔ حیدرآباد کا نصاب پبلشرس صرف نصابی کتابوں کو ہی شائع کرتا ہے۔ اس تناظر میںاس مقالہ میں اردو میں شائع کی گئی نصابی کتا بوں پربالخصوص نظم نسق عامہ پر موجود نصابی مواد کا جائزہ لیا گیا ہے۔
1. NTM Survey 2009, Regional Language Knowledge Text Scenario:An Assessment, National Translation Mission, Central Institute of Indian Languages, Mysore, 2009, p.265
2. Ibid, P.6
اردو میں نظم ونسق عامہ کی نصابی کتب:
نظم و نسق عامہ کاآغاز و ارتقاء امریکہ میں ہوا ہے اس بناء پر،اس مضمون کا زیادہ تر مواد انگریزی میں ہی دستیاب ہے۔ اس موضوع پردیگر زبانوں میں بہت کم موادموجود ہے۔ خاص کر اردو میں اس موضوع پرنصابی مواد محدود ہے۔ 1938ء میں عثمانیہ یونیورسٹی نے نظم و نسق عامہ میں ڈپلوما کا کورس شروع کیا۔ 1956ء میں جب شعبہ نظم و نسق عامہ کا قیام عمل میں آیا تب تک یونیورسٹی میں اردو ذریعہ تعلیم نہیں رہا۔ البتہ کئی ریاستوں میں اسکول اورکالج کی سطح پراردو میں تعلیم جاری ہے۔ 1998ء میں مولانا آزاد نیشنل اردویونیورسٹی کے قیام کے ذریعہ پھر سے اردو میں اعلیٰ تعلیم کی راہ ہموار ہوئی ہے۔ 2006ء میں اس یونیورسٹی میں شعبہ سیاسیات ونظم و نسق عامہ کے تحت نظم و نسق عامہ میں ایم اے کاکورس شروع کیاگیا۔ اس ضمن میں اردو میں نظم و نسق عامہ کی نصابی کتب کی عدم دستیابی سب سے اہم مسئلہ بنی رہی ۔
آصف جاہ سابع میر عثمان علی خاں کے دور میں رپورٹ نظم ونسق: ممالک محروسہ سرکارنظام الملک آصف جاہ بہادر کے عنوان سے اردو میں ایک رپورٹ 1941ء میں شائع ہوئی۔ جس میں حکومت کے تمام امور جیسے وصول محاصل، حفاظت، پیداوار، رسل و رسائل، صحت عامہ، تعلیم، مالیات اور امور دستوری کی تفصیل پیش کی گئی ہے۔ اس کتاب سے ریاست حیدرآباد کی نظم نسق کی تاریخ کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔ مگر اسے نظم نسق کی نصابی کتابوں میں شمار نہیں کیا جاسکتا۔
اردو میں نظم و نسق عامہ پر موجود نصابی کتابوں کے جائزہ کے لئے قومی کونسل برائے اردو زبان، این سی ای آر ٹی، نیشنل بک ٹرسٹ، امبیڈکر اوپن یونیورسٹی حیدرآباد، مولانا آزاد نیشنل اردویونیورسٹی حیدرآبادکے علاوہ ایجوکیشن پبلی کیشن ہاوس دہلی، نصاب پبلشرس اور دیگر ادروں کی شائع کردہ کتابوں کا احاطہ کیا گیا ہے۔
حبیب قادر کی اصول نظم و نسق عامہ کے عنوان سے1966ء میں شائع کی گئی کتاب غالباً اس موضوع پر اردو میں لکھی گئی پہلی نصابی کتاب ہے۔ اسے تلگواردو اکیڈیمی برائے سائنس و تاریخ نے شائع کیا ہے۔ اس کتاب کے پیش لفظ میں اس اکیڈیمی کے صدر نشین بی را ماکرشنا راؤ جو ریاست حیدرآباد کے وزیر اعلی اور اتر پردیش کے سابق گونررہے ہیں، نے تحریر کیا ہے کہ ’میرے معلومات کی حد تک اردو میںاس موضوع پر یہ پہلی کتاب ہے‘۔۳؎ اس کتاب میں مصنف نے نظم و نسق عامہ کی وسعت، ماہیت اوراہمیت کے علاوہ تنظیم اور انتظامیہ، نظام عملہ، نظم و نسق عامہ پر نگرانی اور مالیاتی نظام کا بھی احاطہ کیا ہے۔ اسی ادارے نے ہندوستان کا دستور اور اسکی مختصر شرح بھی اردو میں شائع کی ہے، جسے ہارون خاں شیروانی نے تحریر کی ہے۔
قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان دہلی نے کوٹلیہ کا ارتھ شاستر اورمیکاولی کا دی پرنس جیسے کتابوں کااردومیں ترجمہ شائع کیا ہے۔ لیکن ان کتابوں کا شمار نظم و نسق عامہ سے زیادہ سیاسیات میں کیا جاتا ہے۔ خالص نظم و نسق عامہ پراس ادارے سے کوئی کتاب شائع نہیں ہوئی ہے۔ البتہ اس ادارے نے نظم ونسق عامہ کی اصطلاحات کوفرہنگ انتظامیہ کے نام سے ضرورشائع کیاہے۔ اس کے علاوہ بھارت کا آئین بھی اردو میں شائع کیاگیاہے۔
ین سی آرٹی نے بھی اسکولی نصاب کی کتابیں انگریزی کے ساتھ ساتھ اردومیں بھی شائع کی ہے۔ اس ادارے کی جانب سے شائع کردہ ہندوستانی آئین اورانتظامیہ ،سیاسیات اورنظم ونسق عامہ دونومیںپڑھائی جاتی ہیں۔ انگریزی سے اردومیں جوں کاتوں ترجمعہ کر نے کی وجہ سے اس میں کئی غلطیاں پائی جاتی ہیں۔ جیسا کہ انڈین کانسٹیٹیوشین اٹ ورک کا ترجمہ ہندوستانی آئین اورکام کیاگیا ہے۔ اسی طرح ایڈمنسٹریشن کوانتظامیہ کہا گیا ہے، جبکہ اس کے لئے نظم ونسق کی اصطلاح رائج ہے اورانتظامیہ کالفظ مینجمنٹ کے لئے استعما ل کیاجاتاہے۔ یہ کتابیں آن لائن بھی دستیاب ہیں۔
3 ۔حبیب قادر،پیش لفظ،ا صولِ نظم و نسق عامہ، تلگو اردو اکیڈیمی برائے سائنس و تاریخ، حیدرآباد، 1966، صفحہ. 9
ٍ نیشنل بک ٹرسٹ آف انڈیا نے بھی چند ایک کتابیں اردومیں شائع کی ہیں جن کا تعلق نظم ونسق عامہ سے ہے۔ اس ادارے نے ایم اسلم کی کتاب کو ہندوستان میں پنچایتی راج کے نام سے شائع کیا ہے۔ فرحت عثمانی نے اس کا اردو ترجمہ کیا ہے۔ اس کتاب میں پنچایت راج کے ارتقاء سے لیکر73ویں دستوری ترمیم تک اور پنچایت راج کی کارکردگی پراس ترمیم کے اثرات کااحاطہ کیاگیا ہے۔
ڈاکٹربی آرامبیڈکراوپن یونیورسٹی نے بی اے پروگرام کی نظم ونسق عامہ کی انگریزی کتابوں کا اردو ترجمہ شائع کیا ہے۔ انگریزی میں ان کتا بوں کو رویندرپرساد، وی ایس پرساد، ہرگوپال، سیتارام شرما، رامبرہمم اور بالارامولوجیسے ما ہرین نے مرتب کیا ہے۔ بی اے سا ل اول کے نصاب میں مبادیات نظم ونسق عامہ رکھاگیا ہے۔ اس کتا ب کواکبرعلی خان، حبیب قادر، آفتاب علی خا ں، ایس ایم رحمت اللہ اورمحمد کوکب علی نے اردومیں ترجمعہ کیا ہے۔ سال دوم کی کتاب ہندوستان کا نظم ونسق کا اردو ترجمہ محمد اکبرعلی خاں، سلطان عمر، ایس ایم رحمت اللہ اوررضیہ بیگم نے کیا ہے۔ بی اے سا ل سوم کے نصا ب میں ہندوستان میں مقامی تنظیمیں اورترقی اورسرکاری دفترکا نظم و نسق شامل ہے۔ ان دونوں کتا بوں کو با لترتیب محمد اکبرعلی خاں اورسلطان عمرنے اردومیں ترجمہ کیا ہے۔ اول الذکرعثما نیہ یونیورسٹی کے شعبہ نظم ونسق عامہ کے صدررہ چکے ہیں۔
مولانا آزاد نیشنل ارد ویونیورسٹی نے اپنے فاصلاتی تعلیم کے بی اے کورس کے نصاب میں امبیڈکراوپن یونیورسٹی کے کتابوں کوہی شامل کیا ہے۔ البتہ اردو یونیورسٹی میں بھی نصابی کتابوں کی اشاعت کی کوشش کی جارہی ہے۔ اسکے لئے ڈائریکٹوریٹ آف ٹرانسلیشن اینڈ پبلیکیشن کو قائم کیا گیا ہے۔
ادارہ انجمن اشاعت اردو کا قیام 1974ء میں خاص کرکالج کی نصابی کتب کی فراہمی کے مقصد سے کیا گیا۔ اس ادارے کے معتمد عمومی محمد رحمت علی جو عثمانی یونیورسٹی میں سیاسیات کے لکچرربھی تھے،انہوں نے سیاسیات اور نظم و نسق عامہ کے مختلف موضوعات پربیس سے زیادہ کتابیں تحریر کی ہیں اور اس ادارے سے انھیں شائع کیاگیاہے۔ 1983ء میں رحمت علی نے حکومت ہند کا نظم و نسق اوردستوری مسائل پر کتا ب لکھی تھیں۔
اس کتاب میں دستوری ہند کے اہم خصوصیات کے ساتھ ساتھ مرکز اور ریاستی حکومت کی ساخت، دستوری عہدیدار اور دستوری ادارے جیسے انتخابی کمیشن اور یونین پبلک سرویس کمیشن پر مضامین درج ہیں۔ انہی کی ایک اور کتاب ہندوستان میں حکومت مقامی 1985ء میں شائع ہوئی۔ یہ کتاب بی اے کے نظم ونسق عامہ کے نصاب کے مطابق لکھی گئی ہے۔ اس میں ہندوستان میں مقامی حکومت کا ارتقاء، ساخت، نظم و نسق اور آندھرا پردیش میں مقامی حکومتوں پر مضامین ہیں۔ رحمت علی نے نظم و نسق عامہ کے ایک اور اہم موضوع ذرائع وسائل کا انتظام پر بھی ایک کتاب ترتیب دی ہے۔ اس کتاب میں ذرائع وسائل کا انتظام کی اہمیت، بیوروکرسی، بھرتی، تربیت، ترقی، انتظامی اشیاء، موازنہ اور تنقیح جیسے موضوعات کا احاطہ کیا گیا ہے۔ مگر یہ کتابیں اب بازار میں دستیاب نہیں ہیں۔ ان میں صرف چند کتابیں اردو آرٹس کالج اور دیگر اداروں کی کتب خانو ں میں ہی پائی جاتی ہیں۔
اردو میں سماجی علوم میں نصابی کتابوں کو فراہم کرنے میںڈاکٹر عبدالقیوم نے سب سے نمایاں کام کیا ہے۔مسلسل اردو میں نصابی کتابیں شائع کرنا کسی کارنامہ سے کم نہیں۔ چنانچہ انھوں نے سال 2002ء سے 2017ء تک پندہرا سالوں میں اٹھارہ کتابیں لکھی ہیں۔ ان میں ایک کتاب کے علاوہ تمام کتابوں کو نصاب پبلشرس حیدرآبانے شائع کیا ہے۔ عوامی پالیسی کوالبتہ مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی نے شائع کیا ہے۔ ان میں سے چند کتابوں کے متعدد اڈیشنس بھی شائع ہوئے ہیں۔ اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اردو میں نصابی کتابوں کی طلب ہے۔ کمی ہے تو بس اردو میں لکھنے والوں کی۔
ڈاکٹرعبدالقیوم نے زیادہ تر سیاسیات اور نظم و نسق عامہ کے مختلف موضوعات پر کتابیں لکھی ہیں۔ اس کے علاوہ تاریخ، سماجی تحقیق اورماحولیات پر بھی کتابیں تحریر کی ہیں۔ نظم و نسق عامہ کے مختلف موضوعات پر انھوں نے چار کتابیں تحریر کی ہیں۔ سب سے پہلے نظم و نسق عامہ کے عنوان سے 2006ء میں ان کی کتاب شائع ہوئی تھی جس کا دوسرا اڈیشن 2015ء میں شائع ہوا۔ اس کتاب میں نظم و نسق عامہ کا نمو،اسکے مطالعہ کے طریقے، تنظیم کے نظریات، اصول اور ساخت، انتظامیہ کے عناصر، دفتر شاہی اور عوامی جوابدہی کا احاطہ کیا گیا ہے۔ ہندوستان کا نظم و نسق سال 2007ء میں شائع ہوئی۔ اس کتاب میں مصنف نے ہندوستان میں نظم نسق کے ارتقاء سے لیکرمرکزی وریاستی نظم نسق،ضلعی اور مقامی حکومت کا جائزہ لیا ہے۔ اسکے علاوہ انتظامی اصلاحات، منصوبہ بندی، فلاحی نظم و نسق اورہندوستانی نظم و نسق کے مسائل پر بھی ابواب شامل کئے گئے ہیں۔
سال 2009ء میں عبدالقیوم کی ایک اور کتاب عوامی پالیسی کے عنوان سے شائع ہوئی۔ مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی نے اس کتاب کو شائع کیا ہے۔ اس کتاب میں مصنف نے اس موضوع کے اہم پہلو جیسے پالیسی علوم کا ارتقاء، عوامی پالیسی کے مطالعہ کے طریقے، نظریات، پالیسی سازی، نفاذ، جانچ اور تجزیہ کے علاوہ تعلیمی پالیسی، قومی زراعتی پالیسی، قومی آبادی پالیسی، تحفظات کی پالیسی، ماحولیات اور معاشی پالیسی کی تفصیل پیش کی ہے۔ سال 2011ء میں عبدالقیوم کی ایک اور کتاب تنظیمی رویہ منظر عام پر آئی۔ یہ کتاب نہ صرف ایم اے نظم و نسق عامہ کے طلبہ کے لئے فائدہ مند ہے بلکہ کامرس اور مینجمنٹ کے طلبہ کی ضروورتوں کو بھی پوری کرتی ہے۔ اس کتاب میں تنظیمی رویہ کے تمام موضوعات جیسے شخصیت، طرز عمل، محرکہ، قیادت، گروہی حرکیات کے علاوہ تنظیمی تمدن، تصادم، تبدیلی اور ترقی تنظیم پر ابواب شامل کئے گئے ہیں۔ ان کتابوں کے ذریعہ مصنف نے نظم ونسق عامہ پرمعیاری مواد اردو میں فراہم کیا ہے جس کی بدولت نہ صرف نظم و نسق عامہ میں اعلی تعلیم حاصل کرنے کی راہ ہموار ہوئی ہے بلکہ مسابقتی امتحان کی تیاری میں بھی مدد مل رہی ہے۔
ڈاکٹراشتیاق احمد نے نظم و نسق عامہ کی ایک اہم کتاب عظیم انتظامی مفکرین کے عنوان سے تحریر کی ہے۔ ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس دہلی نے 432 صفحات پر مشتمل اس ضخیم کتاب کو سال 2013ء میں شائع کیا ہے۔ اس کتاب میں مصنف نے نظم نسق عامہ کے معروف مفکرین جیسے لوتھر گلک، ہینری فائل، چیسٹرڈ برنارڈ، لنڈال اروک، فرڈرک ہرزبرگ، فرڈ ڈبلو ریگس، رینسس لیکرٹ، کرس آرگریس، ابراہم ماسلو، ایلٹن مایو، میکس ویبر، کارل مارکس، فریڈرک ٹیلر، ہربرٹ سائمن اور میک گریگرکے نظریات اور اصولوں کو بڑی عرق ریزی سے اردو میں پیش کیا ہے۔ اس کتاب میں استعمال کئے گئے نظم و نسق عامہ کے اصطلاحات کو انگریزی اوراردو ونوں زبانوں میں کتاب کے آخر میں شامل کیا گیا ہے۔
سیاسیات اور دیگر سماجی علوم کے مقابلے میں اردو میںنظم و نسق عامہ کی نصابی کتابوں کی قلت زیادہ ہے۔ نظم ونسق عامہ مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی حیدرآباد میں پوسٹ گریجویشن میں پڑھایا جاہاہے۔اور کئی ڈگری کالجس کے نصاب میں بھی یہ شامل ہے۔ اسکے علاوہ سول سروس کے امتحانات میں بھی اختیاری مضمون کی حیثیت سے ارد و میں لکھنے کی اجازت ہے۔ اس لئے اس مضمون میں معیاری کتابوں کی ضرورت ہے۔
مذکورہ بالا زیادہ تر کتابیں اب بازار میںدستیاب نہیں ہیں۔ صرف ڈاکٹر عبدالقیوم اورڈاکٹر اشتیاق احمد کی کتابیں ہی آسانی سے دستیاب ہیں اوران کا معیار بھی اچھا ہے۔ اسی طرح کے کتاب نظم ونسق عامہ کے دیگر مضامین جیسے مالی نظم ونسق، نظم و نسق کے جدید نظریات، ای۔گورنینس، گڈگو رنینس، انسانی وسائل کا انتظامیہ، میں بھی لکھنے کی بے حد ضرورت ہے۔اس کے علاوہ نظم و نسق عامہ کی معیاری کتابوں کااردو میں ترجمہ کیا جانا چاہئے۔اردو میں لکھی گئی نظم و نسق عامہ کی کتابوں کو ضروری تبدیلیوں کے ساتھ پھر سے شائع کرنے کی ضرورت ہے۔ معیاری نصابی کتابوں کی اشاعت سے ہی اردو ذریعہ سے تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ کو اعلی تعلیم کی طرف راغب کیا جاسکتا ہے اور اس مسابقتی دور کے تقاضوں کا سامنا کرنے کے قابل بنایا جا سکتا ہے۔
کتابیات:
۱)حبیب قادر، اصولِ نظم و نسق عامہ، تلگواردواکیڈیمی برائے سائنس و تاریخ، حیدرآباد، 1962
۲)ہارون خاں شروانی، ہندوستان کا دستور اور اسکی مختصر شرح، تلگواردواکیڈیمی برائے سائنس و تاریخ، حیدرآباد،
۳)ڈاکٹرعبدالقیوم، نظم و نسق عامہ، نصاب پبلشرس، حیدرآباد، 2006، دوسرا اڈیشن، 2011
۴)ڈاکٹرعبدالقیوم، ہندوستان کا نظم و نسق، نصاب پبلشرس، حیدراباد، 2007، دوسرا اڈیشن، 2017
۵)ڈاکٹرعبدالقیوم،عوامی پالیسی،مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی، حیدرآباد، 2009
۶)ڈاکٹرعبدالقیوم، تنظیمی رویہ، نصاب پبلشرس، حیدراباد،2011
ٔ۷)رپورٹ نظم ونسق، ممالک محروسہ سرکار نظام الملک آصفجاہ بہادر، بابت سنہ 1938 تا 1939، داراطبع سرکارعای حیدرآباد دکن، 1941
۸)محمد رحمت علی، حکومت ہند کا نظم و نسق اور دستوری مسائل، انجمن اشاعت اردو، حیدرآباد،1983
۹)محمد رحمت علی، ہندوستان میں ھکومت مقامی، انجمن اشاعت اردو، 1985
۱۰)محمد رحمت علی، ذرائع وسائل کا انتظام، اعجاز پرنٹنگ پریس، حیدرآباد
۱۱)فرہنگ انتظامی،، قومی کونسل برائے فروغ اردو، نئی دہلی
۱۲)بھارت کا آئین، قومی کونسل برائے فروغ اردو، نئی دہلی
۱۳)ہندوستانی آین اورانتظامی، این سی ای آر ٹی، نئی دہلی، 2002
۱۴)ہندوستانی آین اورکام، این سی ای آر ٹی، نئی دہلی، 2006
۱۵)ایم اسلم، ہندوستان میں پنچایتی راج(ترجمہ فرحت عثمانی)،نیشنل بک ٹرسٹ اف انڈیا، نئی دہلی
۱۶)ایم پی جین اور ایس پی جین، انتظامی قانون کے اصول، ترقی اردو بیورو، نئی دہلی،1981
۱۷)ڈاکٹراشتیاق احمد، عظیم انتظامی مفکرین، ایجوکیشن پبلیشنگ ہاؤس، دہلی، 2013