اردو شاعری اور کلچر کی عوامی مقبولیت میں داغ دہلوی کا کردار ناقابل فراموش

اردو یونیورسٹی میں سہ روزہ قومی سمینار کا افتتاح، پروفیسر شمیم حنفی، ڈاکٹر تقی عابدی اور ڈاکٹر اسلم پرویز کی مخاطبت

\"dsc_0059\"

حیدرآباد، 27؍ ستمبر (اسٹاف رپورٹر) داغؔ دہلوی نے اردو شعری روایت کے ارتقاء اور مقبولیت میں میر، غالب اور اقبال سے زیادہ اہم رول ادا کیا۔ صنف غزل کو فروغ دینے میں داغ کے رول کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ انہوں نے عشق کے موضوع کو بہت ہی شوخ انداز میں اپنی غزلوں میں جگہ دی۔ ان خیالات کا اظہار ممتاز دانشور و نقاد پروفیسر شمیم حنفی، سابق صدر شعبۂ اردو جامعہ ملیہ اسلامیہ، نئی دہلی نے آج مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی میں سہ روزہ قومی سمینار ’’نواب مرزا خان داغ ؔ دہلوی: عہد ، حیات اور فکرو فن ‘‘ کے افتتاحی اجلاس میں کلیدی خطبہ دیتے ہوئے کیا۔ سہ روزہ قومی سمینار کا اہتمام شعبۂ اردو، مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی نے قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان، نئی دہلی کے تعاون سے کیا۔ ڈاکٹر محمد اسلم پرویز، وائس چانسلر مانو نے صدارت کی۔
پروفیسر شمیم حنفی نے کہا کہ زبان میں تحریکیں یا روایتیں بھلے ہی بڑے شاعروں کی دین ہوتی ہیں لیکن یہ اس وقت تک پنپ نہیں سکتیں جب تک کہ عوامی شعرا انہیں برتنے نہ لگیں۔ داغ نے اردو غزل کو نہایت سہل انداز میں پیش کیا۔ داغ کی شاعری نہایت منفرد ہے۔ انہوں نے اردو شاعری کو عام کرنے کی کوشش کی اور اردو کلچر کو فروغ دینے میں اہم رول ادا کیا۔ داغ کے ہزاروں شاگرد تھے جنہوں نے شعری روایات کو پروان چڑھایا۔ خود علامہ اقبال بھی ان کے شاگردوں میں شامل تھے۔ اقبال کی ابتدائی دور کی شاعری پر داغ کا اثر نمایاں نظر آتا ہے۔انہوں نے داغ کے انتقال پر 1905 میں مشہور مرثیہ لکھا تھا۔ پروفیسر شمیم حنفی نے اپنے استاد و ممتاز شاعر فراق گورکھپوری کا حوالہ دیتے ہوئے کہاکہ داغ امنگ اور زندہ دلی کے ترجمان ہیں۔ غزل کی صنف داغ کے بغیر ادھوری ہے۔ پروفیسر حنفی نے ممتاز نقاد و محقق جناب شمس الرحمن فاروقی کے حوالے سے کہاکہ شعر کے حسن کے معاملے میں داغ سنجیدہ شاعر تھے۔ زبان اور محاوروں پر ان کی گرفت نہایت مضبوط تھی۔ پروفیسر حنفی کے مطابق زندہ دلی ہی داغ کی پہچان ہے۔ اردو دنیا کے دور دراز علاقوں تک داغ کی شاعری کا اجالا خوب پھیلا۔ انہوں نے اردو میں اعلیٰ معیار کی شاعری کا راستہ ہموار کیا۔ اقبال کا داغ کے حلقۂ تلامذہ شامل ہوجانا محض اتفاق نہیں تھا۔
ڈاکٹر محمد اسلم پرویز نے صدارتی خطاب میں کہاکہ زبان صرف ادب سے زندہ نہیں رہ سکتی۔ انہوں نے اردو سائنس کانگریس اور اردو سماجی علوم کانگریس کے اردو یونیورسٹی میں سالانہ انعقاد کی تجویز ہے۔ انہوں نے اعادہ کیا کہ مختلف مضامین کے علمی مواد کی اردو میں فراہمی یونیورسٹی کی اولین ضرورت ہے۔
مہمانِ اعزازی ڈاکٹر تقی عابدی (کنیڈا) نے داغ کو کلاسیکی غزل کا آخری شاعر قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ ریسرچ اسکالروں داغ کے محاوروں پر کام کرنا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ داغ کے کلام میں بے پناہ فصاحت ہے اور محاوروں کا استعمال اس طرح کیا گیا جیسے زیور میں نگینے جڑے جاتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ داغ کے تقریباً لا تعداد شاگرد تھے۔ لیکن آج کے دور کی شاعری کا المیہ یہ ہے کہ اردو شاعری میں استاد شاگرد کا رشتہ تقریباً ختم ہوچکا ہے۔ جس کا اثر شاعری پر نمایاں نظر آرہا ہے۔ انہوں نے داغ کی شاعری کو تین ادوار، قلعہ کی شاعری، رامپور کی شاعری اور حیدرآباد کی شاعری ، پر مشتمل قرار دیا۔
ایک اور مہمانِ اعزازی پروفیسر نسیم الدین فریس، ڈین اسکول برائے السنہ، لسانیات و ہندوستانیات نے کہا کہ داغ کا عہد سیاسی تاریخ کا ایک اہم باب رہا ہے اور خود داغ ہماری کلاسیکی شاعری کا ایک اہم باب ہیں۔ خونیں سیاسی ماحول کا داغ کی شاعری پر اثر کیوں مرتب نہیں ہوا یہ ایک تحقیق طلب امر ہے۔ ممتاز ہم عصر شاعر امیر مینائی سے داغ کی دوستی ان کی شخصیت کا مثبت پہلو ہے۔
ابتداء میں پروفیسر ابوالکلام، صدر شعبۂ اردو و ڈائرکٹر سمینار نے خیر مقدم کیا اور سمینار کی اہمیت پر روشنی ڈالی۔ ڈاکٹر مسرت جہاں، اسسٹنٹ پروفیسر، شعبۂ اردو نے مہمانوں کا تعارف پیش کیا۔ ڈاکٹر بی بی رضا خاتون، اسسٹنٹ پروفیسر نے شکریہ ادا کیا۔ ابتدائی اجلاس کا آغاز محمد قاسم کی تلاوت کلام پاک سے ہوا۔ ڈاکٹر عمیر منظر اسسٹنٹ پروفیسر شعبۂ اردو، لکھنؤ کیمپس نے نظامت کے فرائض انجام دیے۔ اس موقع پر مولانا الطاف حسین حالی پر ڈاکٹر تقی عابدی کی مرتبہ تین کتابوں کی رسم اجراء انجام دی گئی۔

Leave a Comment