مدیر’’اثبات‘‘ اشعر نجمی ممبئی کا قارئین اور دوستوں کے نام کھلا خط

افسوس’’اثبات‘‘ جریدہ ہمیشہ کے لئے بند ہوگیا

\"299337_154534764641388_2052741789_n-1\"
ممبئی۔’’اثبات‘‘ بند ہوگیا اور اس کے ساتھ ہی میرے ان کرم فرماؤں نے بھی اپنی آنکھیں پھیر لیں جو کل تک مدیر اثبات کا دم بھرا کرتے تھے اور ہر طرح کے تعاون کا وعدہ اپنے کندھوں پر اٹھائے مجھے اپنے غمگسار اور ہمدرد ہونے کا یقین دلانے پر کمر بستہ تھے۔ خیر، مجھے کبھی نہ تو کسی سے کوئی توقع رہی اور نہ ہی کبھی اپنا دست طلب دراز کیا۔ اگرچہ گذشتہ تین چار برسوں سے معاشی بدحالی کا شکار رہا لیکن حرف شکایت زبان پر کبھی آنے نہ دیا۔ اس وقت بھی مہر بلب رہا جب دہلی کے ایک ادب دوست نے اپنے رسوخ کا استعمال کرکے میرے ذریعہ معاش کا مسئلہ حل کرنے کا وعدہ کیا تھا لیکن کچھ ہی دنوں بعد انھوں نے ایک سرکاری اردو ادارے میں اہم عہدے پر فائز ہونے کے بعد میرا فون ہی اٹھانا بند کردیا۔ زیادہ افسوس اس لیے نہیں ہوا کیوں کہ جانتا ہوں، علم و ادب اور انسان دوستی وغیرہ پر ڈرائنگ روم میں دھواں دھار گفتگو کرنے والوں کا اصل زندگی میں اس سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ یہ صرف قلم گھسو ہیں جو اپنے پندار و انا کی خارش کو کم کرنے کے لیے ادب لکھتے اور پڑھتے ہیں۔
\"36980_103075703076326_7989987_n\"
گذشتہ ایک ماہ سے آنکھوں کے شدید مرض میں مبتلا ہوں، روشنی کم ہوچکی ہے۔ ہزاروں روپے کئی ٹیسٹ میں برباد کرنے کے بعد یہ انکشاف ہوا کہ مجھے Diabetic Retinopathy کا مرض لاحق ہے اور اس میں روشنی ہمیشہ کے لیے جانے کا خطرہ ہے، اگر اس کا بروقت علاج نہ ہوا۔ آنکھوں کی ایک رگ زیابیطس کی وجہ سے سوج گئی ہے جس کا آپریشن ہونا ضروری ہے۔ میں نے ڈاکٹروں سے منت و سماجت کرکے آپریشن کی جگہ انجکشن لینے کو ترجیح دی، اگرچہ وہ بھی کافی قیمتی تھے۔ بہرحال روشنی تھوڑے دنوں میں واپس آگئی لیکن ایک ماہ بعد پھر سے وہی حالت ہوگئی یعنی آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھانے لگا ہے۔ اب میرے پاس اس کے مستقل علاج یعنی آپریشن کے علاوہ کوئی چارہ نہیں بچا۔
آج پتہ نہیں کیوں یہ خیال آیا کہ کاش مجھے لکھنے پڑھنے کا عارضہ لاحق نہ ہوتا تو آنکھیں جانے کا احساس اتنا جانبر نہ ہوتا۔ مجھے ڈر ہے کہ اگر خدانخواستہ میں اپنی آنکھوں کی روشنی واپس لانے میں ناکام رہا تو یہ میرے لیے موت سے زیادہ اذیت کن بات ثابت ہوگی جسے شاید برداشت نہ کرسکوں اور ہنگامی موت کو ترجیح دوں۔
(نوٹ: اس تحریر کو آپ احباب تک پہنچانے میں میری بڑی نواسی کا ہاتھ ہے جس نے میری درخواست پر اسے ٹائپ کیا۔)

اشعر نجمی ممبئی کےفیس بک صفحہ سے ماخوذ۔

https://www.facebook.com/ashar.najmi1

Leave a Comment