٭صالحہ صدیقی
(ریسرچ اسکالر جامعہ ملیہ اسلامیہ ،نئی دہلی)
Email: salehasiddiquin@gmail.com
انسانی زندگی کے نشیب و فراز میں بے شمار احساسات و جذبات وابستہ ہوتے ہیں ،زندگی میں اچھے برے دن آتے رہتے ہے ۔کبھی خوشیوں کا سیلاب آجاتا ہے ،تو کبھی ہم تاریکیوں میں ڈوب جاتے ہیں کبھی ہمارے ارد گرد تاریکیاں اس قدر بڑھ جاتی ہیں کہ ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے دنیا تھم سی گئی ہو ،سحر اب کبھی نہیں ہوگی ،لیکن کہتے ہے ڈوبتے کو تنکے کا سہارا ہوتا ہے ایسے میں ایک جگنو بھی نظر آجائے تو پھر سے امید بڑھ جاتی ہے کہ شاید اس جگنو کی روشنی سے تاریکی کی یہ تلچھٹ کچھ کم ہو جائے گی ۔یہی امیدانسان میں ایک نیا جوش و خروش پیدا کر دیتا ہے اس میں جینے اور کوشش کرتے رہنے کا ایک نیا حوصلہ بھر دیتا ہے ۔اردو شاعری میں انسانی زندگی کے بے شمار گوشوں و معاملات کی طرح انسانی نفسیات ،احساسات و جذبات پر بھی اہل سخن نے طبع آزمائی کی ہے ۔اردوشاعری میں امید کی کیفیات کو بھی خوب برتا گیا ہے ،یہ قطعہ ملاحظہ فرمائیں :
کھول یوں مٹھی کہ اک جگنو نہ نکلے ہاتھ سے
آنکھ کو ایسے جھپک لمحہ کوئی اوجھل نہ ہو
پہلی سیڑھی پر قدم رکھ ،آخری سیڑھی پر آنکھ
منزلوں کی جستجو میں رائیگاں کوئی پل نہ ہو
فیض نے امید کے موضوع پر خوب اپنی قلم کو جنبش دی ،ا ن کی نظم ’’اس وقت تو یوں لگتا ہے ‘‘ اس کی عمدہ مثال ہے ،ملاحظہ فرمائیں :
اس وقت تو لگتا ہے اب کچھ بھی نہیں ہے
مہتاب نہ سورج ،نہ اندھیرا نہ سویرا
آنکھوں کے دریچوں پہ کسی حسن کی چلمن
اور دل کی پناہوں میں کسی درد کا ڈیرا
ممکن ہے کوئی وہم تھا ،ممکن ہے سنا ہو
گلیوں میں کسی چاپ کا اک آخری پھیرا
شاخوں میں خیالوں کے گھنے پیڑ کی شاید
اب آکے کرے گا نہ کوئی خواب بسیرا
اک بیر ،نہ اک مہر ،نہ اک ربط ،نہ رشتہ
تیرا کوئی اپنا ،نہ پرایا کوئی میرا
مانا کہ یہ سنسان گھڑی سخت کڑی ہے
لیکن مرے دل یہ تو فقط ااک ہی گھڑی ہے
ہمت کرو جینے کو تو اک عمر پڑی ہے
اس طرح اردو شاعری میں نا امیدی میں بھی امید رکھنے پر مبنی بے شمار اشعار ہیں ،جسے پڑھ کر ایک نیا جوش پیدا ہوتا ہے ۔امید پر ہی دنیا قائم ہے ،امید اور بھروسہ وہ لفظ ہیں جن کے سہارے ہم انسان نہ صرف اپنی زندگی گزارتے ہیں بلکہ اس سے برے سے برے وقت سے لڑنے کی ہمت ملتی ہے ۔امید ایک ایسا دیا ہے جو اس وقت تک جلتا رہتا ہے جب تک انسان کے دل میں امید کی شمع جلتی ہے ۔جب یہ شمع بجھ جاتی ہے تو امید کا دیا بھی انسانی زندگی میں اندھیرا کر دیتا ہے ۔امید کا اختتام کبھی نہیں ہوتا جب تک انسان چاہے اسے زندہ رکھ سکتا ہے ۔انسان کو کوئی بھی کام کرتے ہوئے امید کی رسی کو نہیں چھوڑنا چاہیے ۔خود پر بھروسہ رکھ کر امید کی رسی کو نہیں چھوڑنا چاہیے ۔امید پر مبنی یہ اشعار ملاحظہ فرمائیں :
نہ لٹتا دن کو گر تو رات کو یوں بے خبر سوتا
رہا کھٹکا نہ چوری کا،دعا ہوں رہزن کو
٭
ہم کو ان سے وفا کی ہے امید
جو نہیں جانتے وفا کیا ہے
(غالب ؔ)
نہ کوئی وعدہ نہ کوئی یقیں نہ کوئی امید
مگر ہمیں تو ترا انتظار کرنا تھا
(فراق گورکھپوری )
کس سے امید کریں کوئی علاج دل کی
چارہ گر بھی تو بہت درد کا مارا نکلا
(لطف الرحمن )
جو مری شبو ں کے چراغ تھے ،جو مری امید کے باغ تھے
وہی لوگ ہیں مری آرزو ہی صورتیں مجھے چاہیئیں
اردو میں ناامیدی پربھی مبنی بے شمار شاعروں نے طبع آزمائی کی ،مثال کے طور پر ساغر نظامی کا یہ شعر ملاحظہ فرمائیں :
آج پھر بجھ گئے جل جل کے امیدوں کے چراغ
آج پھر تاروں بھری رات نے دم توڑ دیا
٭
آج تک ہے دل کو اس کے لوٹ آنے کی امید
آج تک ٹھہری ہوئی ہے زندگی اپنی جگہ
علامہ اقبال کی شاعری میں امید ایک وسیع علامت کے طور پر استعمال ہوا ہے انھوں نے امید کی روشنی سے مسلمانوں کو غفلت کی زندگی سے باہر نکالنے کی کوشش کی ہیں ،ان کے فلسفے میں ’’امید ‘‘ ایک وسیع معنی میں استعمال ہوا ہے ،یہ اشعار ملاحظہ فرمائیں :
یوں ہاتھ نہیں آتا ۔وہ گوہر یک دانہ
یک رنگی و آزاری اے ہمت مردانہ
یا سنجر و طغرل کا آئین جہانگیری!
یا مرد قلندر کے انداز ملوکانہ !
یا حیرت فارابی ،یا تاب و تب رومیؔ
یا فکر حکیمانہ ، یا جذب کلیمانہ
امید ایک ایسا احساس ہے جسے اردو شاعری میں شاعر و ادیبوں نے خوب برتا عاشق کے انتظار میں امیدوں کے دھندلکے میں کچھ ایسا پوشیدہ ہوتا ہے جو نہ توصاف دکھائی دیتا ہے اور نہ پوری طرح پوشیدہ ہے لیکن پھر بھی اسی کے سہارے زندگی کا سفر رواں دواں ہے شایدیہی وجہ ہے کہ زندگی میں سب کچھ کھو جانے کے بعد بھی انسان امید کی رسی تھامے اچھے مستقبل کے انتظار میں سفر جاری رکھتا ہے ،شاعری کی دنیا کے عاشق کے پاس بھی امید واحد اثاثہ ہے ،وہ اسی کے سہارے زندہ ہے جو طویل راتوں میں ،انتظار کے گھنے جنگل میں ،تاریکی راتوں میں ہجر اور دکھوں کے لمحات میں امید کے سہارے جیتا ہے ۔یہاں چند ایسے ہی اشعار پیش کیے جاتے ہیں جو زندگی کے مشکل ترین لمحات میں حوصلے کا استعارہ ہے :
دل نا امید تو نہیں ناکام ہی تو ہے
لمبی ہے غم کی شام مگر شام ہی تو ہے (فیض )
٭
مرے جنوں کا نتیجہ ضرور نکلے گا
اسی سیاہ سمندر سے نور نکلے گا (امیر قزلباش )
٭
اب تک دل خوش فہم کو تجھ سے ہیں امیدیں
یہ آخر ی شمعیں بھی بجھانے کے لیے آ ( احمد فراز )
٭
نہ کوئی وعدہ نہ کوئی یقیں نہ کوئی امید
مگر ہمیں تو ترا انتظار کرنا تھا (فراق گورکھپوری )
٭
یوں تو ہر شام امیدوں میں گزر جاتی ہے
آج کچھ بات ہے جو شام پہ رونا آیا (شکیل بدایونی )
٭
آرزو حسرت اور امید شکایت آنسو
اک ترا ذکر تھا اور بیچ میں کیا کیا نکلا (سرور عالم راز)
اس طرح اردو شاعری میں امید کے موضوع پر مختلف شعرا ٔ نے اپنے اپنے خیالات پیش کیے ،میں اپنی باتوں کا اختتام ندا فاضلی کے اس شعر سے ختم کرنا چاہونگی کہ :
یہی ہے زندگی کچھ خواب چند امیدیں
انہیں کھلونوں سے تم بھی بہل سکو تو چلو