نئی دہلی ۔اردو زبان وتہذیب کی آخری چلتی پھرتی نشانی گلزار دہلوی بھی چل بسے۔ انھوں نے ابھی چند روز پہلے ہی تو نوئیڈا کے ایک اسپتال میں کورونا جیسی موذی بیماری کوشکست دے کر زندگی کا پرچم بلند کیا تھا۔94برس کی عمر میں اپنی بے مثال قوت ارادی سے کورونا کو شکست دینے والے گلزار دہلوی جب اسپتال سے باہر نکلے تو کئی اخباری نمائندے ان کے منتظر تھے۔ان کی کہانی کئی بڑے اخباروں نے جلی عنوانات کے ساتھ شائع کی۔ مجھے یقین ہوچلا تھا کہ وہ ابھی اور جئیں گے اور جام وصبو سے اپنا رشتہ بحال رکھیں گے، لیکن یہ کیا ہوا کہ وہ کورونا کو شکست دے کر زندگی سے ہی ہارگئے۔
پنڈت آنند موہن زتشی گلزار دہلوی پرانی دلی کے روڑے تھے اور ان کی رگ رگ میں دلی اور اس کی تہذیب بسی ہوئی تھی۔ وہ اصلاً کشمیری پنڈت تھے، لیکن ان کی دعا سلام سبھی سے تھی۔ بیشتر مسلمان ان کے شین قاف اور اردو فارسی پر ان کی مضبوط گرفت کے سبب انھیں ’مسلمان‘ سمجھتے تھے اور انھیں اس پر کوئی اعتراض بھی نہیں تھا کہ وہ صبح سے شام تک مسلمانوں کے درمیان ہی رہتے تھے ۔ ان کی بیشتر عادتیں بھی مسلمانوں جیسی تھیں۔
گلزار دہلوی ہماری مشترکہ تہذیب اور گنگا جمنی تمدن کی جیتی جاگتی تصویر تھے۔ گلاب کا ایک پھول پنڈت نہروکی طرح ہمیشہ ان کی شیروانی پر آویزاں رہتا تھا۔ انھوں نے تمام زندگی شیروانی ہی پہنی اور میں نے کبھی انھیں اس کے بغیر نہیں دیکھا۔اگر کسی کو سیکولرازم کی صحیح تصویر دیکھنی ہوتی تو وہ بلا جھجک گلزار دہلوی کے پاس چلا جاتا تھا۔ اردو، ہندی، فارسی، سنسکرت اور عربی کا ثقافتی ورثہ، کشمیر،پنجاب، دہلی اور یوپی کا سنگم اگر کسی ایک شخصیت میں دیکھنا مقصود ہو تو وہ گلزار دہلوی کے حضور میں حاضر ہوکر ان کو حسرت بھری نظروں سے دیکھتا تھا اور گلزار دہلوی اس کی حسرت کو دیکھ کر دل ہی دل میں مسکراتے تھے۔
گلزار دہلوی ایک قادرالکلام شاعر، ایک ذی علم ادیب اور محفل پر جادو کردینے والے بے مثال مقرر تھے۔ وہ اپنے والد ماجد علامہ زار دہلوی کے سچے جانشین ہی نہیں تھے بلکہ حضرت بیخود دہلوی، نواب سائل دہلوی اور علامہ پنڈت برجموہن دتاتریہ کیفی اور مولوی عبدالحق کے بھی صحیح جانشین تھے۔ وہ ادب میں داغ اور حالی کے ادبی خانوادے کے مایہ ناز سپوت تھے۔انھوں نے 1946میں انجمن تعمیر اردو اور ادارہ نظامیہ کی داغ بیل ڈالی اور اس کی سرگرمیوں کو جلا بخشی۔ ان کی شدید خواہش تھی کہ راقم الحروف انجمن تعمیر اردو کے سیکریٹری کی ذمہ داری سنبھالے، لیکن میں نے ہربار ان سے معذرت کرلی کہ میری صحافتی مصروفیات اس کی اجازت نہیں دیتیں۔
دہلی کا اجڑتا ہوا اردو بازار برسوں ان کی سرگرمیوں کا مرکز رہا۔ وہ ہر سال رمضان کے مہینے میں روزہ رواداری رکھتے تھے اور ہم جیسے خوشہ چینوں کو اس میں بذریعہ پوسٹ کارڈ مدعو کرتے تھے۔وہ اتحاد واخوت کے سب سے بڑے علمبردار تھے۔ جگر مرادآبادی، فراق گورکھپوری، مولوی عبدالحق، علامہ نیاز فتح پوری، جوش ملیح آبادی جیسے عبقری شعرائے کرام گلزار دہلوی کے قدردان تھے۔ان کے انتقال سے دہلی کی ادبی فضا ویران ہوگئی ہے۔ اب کوئی دوسرا گلزار دہلوی پیدا نہیں ہوگا، کیونکہ اب بہت تیز ہوائیں چل رہی ہیں اور ہم سب ان ہواؤں کا ایندھن بن رہے ہیں۔