ادب اور ناسٹلجیا : تفہیم وتوضیح

\"\"
٭اسماء بدر

ریسرچ اسکالر
شعبہ ٔ اردو ، جامعہ کشمیر ،سری نگر۔

ناسٹلجیا دو یونانی الفاظ nostosبمعنی’’ گھر یا وطن واپسی ‘‘اور Alogsبمعنی ’’درد ‘‘سے مل کر بنا ہے ۔یعنی دردوکرب میں مبتلا ایک فرد جو ذہنی انتشار کا شکارہے اور اپنے آبائی وطن( جو اچانک کسی دنیاوی یا سماوی آفت کی وجہ سے اسے چھوٹ جائے) کی واپسی کی شدید آرزو رکھتا ہے، ناسٹلجیائی فکر کا شکار کہا جاسکتا ہے ۔ ایسے افراد اپنازیادہ تر وقت اس خوف و نا امیدی میں گزارتے ہیں کہ کہیں انھیں اپنی وہ چھوٹی ہوئی سرزمین دوبارہ نصیب نہ ہو یوں وہ اس احساس کمتری ا ورڈر و خوف کے شدید احساس سے چھٹکاراپانے اور اپنے حال و مستقبل کو روشن بنانے کے لیے بیتے ہوئے ماضی کے حسین و خوش گوار لمحوں کو یاد کرتے ہیں ،انھیں قدم قدم پر لاشعوری طور پر ایک نئے انداز میں دبارہ جیتے ہیں وغیرہ ۔اپنے ماضی کو یاد کرنے والی اس نوع کی ذہنی و نفسیاتی کیفیات کو ادبی اصطلاح میں ’’ناسٹلجیا‘‘ سے موسوم کیا گیا ہے۔ مختلف لغات میں ناسٹلجیا کی وضاحت مختلف انداز میں کی گئی ہے جیسے آکسفوڑ انگلش ڈکشنری میں ناسٹلجیا کی تعریف یوں درج ہے :
\”A sentimental loging or wistful affection for a period in the past\”1
’’یعنی ماضی کو اتھا ہ یا شدت کے ساتھ یاد کرنا ناسٹلجیا ہے‘‘
ویبسٹر آن لائن ڈکشنری کے مطابق ناسٹلجیا کی تعریف یوں ہے:
\”Pleasure and sadness that is caused by remembering something from the past and
wishing that you could experience it again\”2
ناسٹلجیا مسرّت و اندوہ کا وہ جدا گانہ احساس ہے جس کی ذکر اور جس بار بار جینے سے بھی کبھی اکتاہٹ محسوس نہیں ہوتی ۔‘‘
کییمبر ج ڈکشنری میں ناسٹلجیا کی تعریف اس طرح کی گئی ہے :
\”A feeling of pleasure and also slight sortness when you think about the things
that happened in the past \’\’3
زندگی کوئی مطلق اور جامدشے نہیں بلکہ ہردم اور ہر آن تغیر پذیر اور مائل بہ ارتقا رہتی ہے ۔یہی وجہ ہے کہ ہر نیا زمانہ اور دور اپنے آپ میں نئے اور مختلف افکار و خیالات کا حامل ہوتا ہے جن سے اس دور کے تما م شعبۂ ہائے زندگی متاثر ہوتے ہیں ۔ ادب بھی چوں کہ انسانی زندگی کا ایک ناگزیر حصہ ہے اس لیے اس کا بھی ان تبدیلیوں سے متاثر ہونا ایک فطری تقاضا ہے۔ ادبی سطح پر یہ بدلتا معاشرتی اور سماجی منظر نامہ نئے نئے رجحانات ، میلانات اور تحریکات کو جنم دینے میں اوّلین حیثیت رکھتا ہے ۔اس کی مثال ہر دور اور ہر زمانے کی ادبطی روایت کے مطالعے سے بہ آسانی سامنے آتی ہے ۔انہی فکری میلانات میں ناسٹلجیائی میلان بھی شامل ہے جس کی جڑیں اتنی ہی ُپرانی ہے جتنی کہ خود ادب کی ۔بقولِ قرۃ العین حیدر :
’’ہمارابیشتر ادب ناسٹلجیا کا ادب ہے ۔‘‘۴؎
ناسٹلجیا کوئی ایسا جذبہ نہیں جو محض ہندوستان اور پاکستان کے ادیبوں کے لیے مختص ہے بلکہ یہ ایک عالمی مظہر ہے جس کے آثار ہر ملک اور ہر معاشرے میں نمودار ہوا ۔اردوادب میں ناسٹلجیا کی دو مختلف صورتیں دیکھنے کو ملتی ہیں ۔اوّل ’’انفرادی صورت ‘‘ یہ ناسٹلجیا کی وہ صورت ہے جو انفرادی سطح کسی ایک فرد کو لاحق ہوتی ہے ۔گو کہ یہ صورت ایک فرد واحد کے نفسیاتی اظہار پر مبنی ہوتی ہے جب کہ اس کی دوسری صورت اجتماعی سطح پر تہذیبی ارتقاء میں ایک مخصوص مقام کا تعین کرنا ہے ،جہاں فرد کا اپنے ماضی میںتخیلی سفر کرکے اپنے حال سے بیزار ہوکر ماضی میں راحت وسکون کی تلاش میں سرگرداں رہتا ہے ۔یہ فکری رجحان ادب کی کسی ایک مخصوص صنف کا خاصا نہیں رہا ہے بلکہ اس کی جھلکیاں عموماََادب کی ہر اصناف میں دیکھنے کو ملتی ہیں ۔خواہ وہ داستان ہو کہ ناول ، افسانہ ہو کہ ڈرامہ یا پھر غزل ہوکہ نظم اور مثنوی ہو کہ مرثیہ وغیرہ۔اردو میں ناول نگاری کی باقاعدہ ابتدا ڈپٹی نذیر احمد کی تخلیقات سے ہوتی ہے ۔آپ کے ناول ’’توبتہ نصوح ‘‘ کا بغور جائیزہ لیتے ہوئے یہ حقیقت واضح ہوجاتی ہے کہ اس کے مرکزی کردار کی نفسیاتی کشمکش کے پس ِ پشت ناسٹلجیائی قوت کی کارفرمائی بدرجہ اتم موجود رہتی ہے ۔’’مراۃالعروس ‘‘ میں بظاہر اصلاحی پہلو پر تمام تر توجہ مرکوز دیکھنے کو ملتی ہے لیکن یہاںبھی بہ باطن زندگی کے جس زمانے کی عظمت کو اُبھارا گیا ہے وہ یقینا زمانۂ ماضی ہے ۔ گو ایک غیر شعوری اور غیر محسوس انداز میں مصنف نے قارئین کو ماضی کے پردوں کو سرکانے پر مجبور کیا ہے ۔الغرض یوں کہ اردو ناول کی ابتداء سے ہی یہ فکری میلان ’’ناسٹلجیا‘‘اپنے وجود کا احساس دلاتا رہا ہے یہاں تک کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ میلان اپنے پر مزید پھیلانے میں کامیاب ہوا اور ایک غالب فکری میلان کے بطور تمام تر ادبی اصناف میں اپنی معقول جگہ قائم کرگیا اور آج شاید ہی ادبی دنیا کی کوئی شاخ ایسی ہوگی جس میں ناسٹلجیائی فکر بار نہ پائی ہوگی ۔نذیر احمد کے بعد عبدالحلیم شرراوررتن ناتھ سرشار ، کی تاریخی و معاشرتی ناولوں میں بھی اس نوع کے عناصر قدم قدم پر دیکھے جاسکتے ہیں بالخصوص شررؔ کے تاریخی ناولوں میں تہذیب و ثقافت کی قدیم روایت ، ماضی کے تصورات ، اخلاقی ، روحانی اور مذہبی اقدار وغیرہ کو جس قدر بار بار دہرایا گیا ہے وہ اس حوالے سے ایک اہم اور ناقابل ِ فراموش کارنامہ ہے۔مرزا ہادی رسواؔ کا نام و کام جہاں اردو ناول کو فکری و فنی اعتبار سے سربلندی عطا میں نمایاں ہے وہیں ناسٹلجیائی میلان کو بھر پور فن کارانہ انداز میں پیش کرنے میں بھی آپ کی اوّلین حیثیت طے ہے ۔یوں آپ نے کئی ایک تخلیقات اپنی یاد گار کے طور پر چھوڑے ہیں لیکن جس شاہکار نے ان کے نام کو ادبی جہان میں حیات جاوداں عطا ہے وہ ان کا معروف ناول’’امراؤ جان ادا ‘‘ ہے ۔ یہ اردو کا پہلا کارنامہ ہے جو صنف ِ ناول کے تمام تر تقاضوں کی کسوٹی پر کھرا اُترتا ہے ۔یہ ناول بظاہر ایک طوائف ’’امراؤ جان ادا ‘‘ کی سوانحی کوائف کا بیان ہے لیکن اس کے پس ِ منظر میں ایک پورے عہد اور اس کے تلخ و شیرین نشیب و فراز کی جھلکیاں ایک انوکھے اور مؤثر انداز میں پیش کی گئی ہے ۔موضوع کی مناسبت سے بات کو آگے بڑھایا جائے تو اس ناول میں ابتداء سے اختتام تک ناسٹلجیائی عناصر کی ایک بھر پور یلغار موجود ہے ۔ناول کا بنیادی کردار ’’امراؤ جان ادا‘‘ چوں کہ ناول کے راوی کردار کو بہ زبان ِ خود اپنی بیتی زندگی کے لمحات کی سیر کراتا ہے ۔اپنے بچپن ، خاندان ، دوست و احباب ، امیرن سے امراؤ جان تک کے سفر ، لکھنوی معاشرہ ، طوائفانہ تجربات ، غدر کے بعد کے حالات وغیرہ یہ سب ایسے واقعات ہیں جو اب اس کے ماضی کا حصہ بن چکے ہیں اور ہم بحیثیت ِ قاری ان تمام کا مشاہدہ حال میں رہ کر کرتے ہیں ۔اس طرح یہ ناول ماضی کی یادوں پر مشتمل ایک کامیاب دستاویز ہے ۔مثال کے طور پریہ اقتباس پیش ِ خدمت ہے:
’’ہائے کیا دن تھے کسی بات کی فکر نہ تھی اچھے سے اچھا کھاتی تھی اور بہتر سے بہتر پہنتی تھی کیونکہ ہم جھولی لڑکے لڑکیوں میں کوئی مجھ کو اپنے سے بہتر نظر نہیں آتا ہے ۔دل کھلا ہوا نہ تھا نگاہیں بٹھی ہوئی نہ تھیں میں جہاں رہتی تھی وہاں کوئی مکان میرے ماکان سے اونچا نہ تھا ۔‘‘۵؎
بیسویں صدی اردو ناول کی روایت میں نمایاں اہمیت کی حامل ہے ۔اس صدی میں اردو ناول مختلف اور متنوع فکری و فنی تجربات سے روشناس ہوئی ۔نئی نئی تکنیکیں ، ہیئتیں ناول میں استعمال کی گئی ۔ہر طرح کے سیاسی ، سماجی ، معاشی ، اقتصادی ، اخلاقی ، مذہبی اور علمی و ادبی موضوعات کو ناول میں پیش کیا گیا ۔ناسٹلجیائی فکری میلان بھی ایک نئے انداز اور اسلوب میں اردو ناول میں در آیا ۔سجاد ظہیر کا ناول ’’لندن کی ایک رات ‘‘ اس سلسلے میں ایک قابل ِ مطالعہ نمونہ ہے جس میں ’’شعور کی رو ‘‘تکنیک کا ستعمال کر کے مصنف نے کرداروں کی نفسیاتی کیفیات اور ماضی سے ان کی وابستگی کو بڑی فن کاری کے ساتھ سامنے لایا ہے ۔اس ناول کے کم و بیش سارے کردار ناسٹلجیائی ذہنیت کے پرستار ہیں ۔کرشن چندر کے ناول ’’میری یادوں کے چنار ‘‘اور ’’مٹی کے صنم ‘‘،عصمت چغتائی کا ’’ٹیڑھی لکیر ‘‘ ،عزیز احمد کا ’’آگ‘‘ ‘‘وغیرہ اس دور کے وہ ناول ہیں جن میں ناسٹلجیا کی ایک یا دوسری صورت دیکھنے کو ملتی ہے۔
اردو ناول میں ناسٹلجیائی رحجان ۱۹۴۷ء کے المناک سانحہ بعد اورتیزی سے جڑ پکڑنے لگا ۔دراصل برصغیر کی تقسیم تاریخ کا ایسا دلخراش واقعہ ہے جس نے نہ صرف اپنو ں کواپنوں سے بیگانہ کردیا بلکہ تمام اخلاقی اور انسانی دوست قدروں کو بھی پسِ پشت ڈال دیا۔ان ناساز گار واقعات نے جہاں ملک و قوم کے تمام طبقات کو اپنے حصار میں لیا وہیں ادیب و شاعر (جو کسی بھی قوم کی دانشوارانہ میراث ہوتے ہیں ) بھی اس کے زد میں آگئے۔چنانچہ فسادات کے ساتھ ساتھ اردو ناول میںہجرت کے کرب کی جھلک واضح نظر آنے لگی۔تقسیمِ ہند کے وقت ہونے والے فسادات اور دونوں اطراف (ہندوستان اور پاکستان)سے ہونے والی جبری منتقلی وغیرہ وہ سانحات تھے ،جنھوں سے براہِ راست فرد کی ذات کو متاثر کیا ۔ ان ِگنت افراد اچانک اپنی زمینوں سے بے جڑ ہوکر غیر مانوس تہذیب کی طرف دھکیل دیے گئے ۔ نقل مکانی تاریخ کے ہر دور میں ہوتی رہی ہے اور مختلف گروہوں یا قبیلوں کی صورت میں لوگ ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہوتے رہے ہیں مگر تقسیم ِ ہند کے تحت ہونے والی’’ اجتماعی ہجرت ‘‘بڑی ہجرت قرار دی جاسکتی ہے ۔اس غیر متوقع ہجرت نے لوگوں کے اذہان کو جھنجھوڑ کے رکھ دیا ۔لوگوں کو ان گنت ذہنی ، جسمانی اور مالی مشکلات و مصائب کا سامنا کرنا پڑا ۔اس دور میں جو قلم کار ادبی اُفق پر نمودار ہوئے ان میںقرۃ العین حیدر ،انتظار حسین ،خدیجہ مستور ، عبداللہ حسین ،جوگندر پال کے علاوہ اور بھی کئی نام خصوصی طور پر قابلِ ذکر ہیں ۔ ان تمام مصنفین نے تقسیم ملک اور اس سے پیدا ہونے والے بے شمار مسائل جیسے ہجرت ، قتل و غارت ، ظلم و جبر ، لوٹ کھسوٹ ، تنہائی ، اور تہذیبی تقسیم وغیرہ جیسے پہلوؤں کو اپنی تحریروں میں کھل کر جگہ دی ۔بیشتر قلم کار اس سانحہ کے خود بھی شکار ہوئے اور انھیں اپنی سرزمین کو چھوڑ کر دوسرے ملک ہجرت کرنا پڑی ۔ان تخلیق کاروں کے یہاں اس تلخ تجربے کی تفصیل تمام تر جذئیات کے ساتھ موجود ہے ۔ان ہی فن کاروں میں ایک اہم اور قابل ِ قدر نام انتظار حسین کا ہے ۔انتظار حسین کی تحریروں میں ناسٹلجیائی فکر کی موجودگی کے حوالے سے میں ممتاز احمد لکھتے ہیں :
’’دیگر فنکاروں کے یہاں ناسٹلجیا اشارتاََنظر آتا ہے ۔۔۔۔۔۔مگر انتظار حسین کے یہاں ہر کردار گزرتے وقت کی یادوں میں کھویا ہوا ہے ۔ان کے کرداروں کے متعلق ایسامحسوس ہوتا ہے ۔۔۔جیسے یہ سب ہندوستان سے پاکستان اور پاکستان سے ہندوستان سے ہجرت کرکے پچھتا رہے ہوں اور ابھی تک اس سکون کے متلاشی ہوں جس کی خاطر انہوں نے ہجرت کی تھی ۔دراصل ماضی کا شدید احساس ہر اُس شخص کی سوچ کا حصہ ہوتا ہے ،جو ہجرت سے گزرا ہو۔‘‘ ۶؎
انتظار حسین کے ناول ’’بستی ‘‘تذکرہ ‘‘،او’’ر آگے سمندر ہے ‘‘ناسٹلجیائی عناصر سے معمور عمدہ ناول ہیں ۔ناول ’’بستی‘‘ کے مرکزی کردار ذاکر کو روپ نگر اور ’’تذکرہ ‘‘ کے اخلاق کو چراغ حویلی ہر وقت یاد آتی رہتی ہے۔ ذاکر روپ نگر کو چھوڑ کر نئی جگہ منتقل ہوجاتا ہے جہاں اسے ہر پل اجنبیت کا احساس کاٹنے لگتا ہے اور وہ اپنے وطن ، اپنی تہذیب اور اپنی ثقافت کو یادکرتا ہے ۔ ان کے یہاں ناسٹلجیا کوئی مرض نہیں بلکہ ایک طرف ماضی کی طرف مڑ کر دیکھنے اور اس سے لطف اندوز ہونے کا ایک وسیلہ ہے تو دوسری جانب وہ (انتظار حسین )ما ضی کو آیئنہ بنا کر اس میں لمحہ موجود کو رنگا رنگ زاویوں سے دیکھنے اور سمجھنے کی کوشش کرکے دکھائی دیتے ہیں۔موقع ومحل کی مناسبت سے ’’بستی ‘‘ کا یہ اقتباس پیشِ خدمت ہے:
’’جیسے اس کا بچپن روپ نگرمیں رہ گیا۔روپ نگر میں کیا کچھ رہ گیا تھاکچے پکے راستے جو جانے کہاں جا کر نکلتے تھے،بس درختوں میں گم ہوتے دکھائی دیتے تھے ،ڈولتے ،ہچکولے کھاتے اکے ،اونگھتی رینگتی بیل گاڑیاں ،کوئی کوئی رتھ کہ اس میں جتے توانا بیلوں کی گردنوں میں آویزاں گھنٹیوں اور گھنگھروں کی بدولت وہ مٹی میں اٹے رستے ایک میٹھے شور سے بھر جاتے تھے، کالا مندر ،کالے مندر کے احاطے میں کھڑا بندروں سے آباد بڑا پیپل ،کربلا کی ویران اور اداس فصیل ٹیلوں والا قلعہ،راون بن کے بیچ کھڑابھیدبھرا بھرگد،ایک پورا دیو مالائی عہد جو روپ نگر کے ساتھ رہ گیا۔‘‘ ۷؎
یہ اقتباس اس بات کی پردہ کشائی کرتا ہے کہ ہجرت کے بعد مہاجرین کو اپنا کھویا ہوا وطن بے طرح یاد آتا ہے اور اپنوں سے بے جڑ ہو کے فرد کے یہاں ناسٹلجیا جنم لیتا ہے اور جب نئی زمین میں بھی پائوں جمانے کی جگہ نہ ملے تو اس ناسٹلجیا کی شدت میں مزید اضافہ ہو جاتا ہے ۔ذاکر بھی اپنے بچپن، اپنے گائوں کی گلیوں میں گزارے ہوئے شب وروزاور اپنے مشترکہ تہذیب کو یاد کرتا ہے ۔
قرۃ العین حیدر کے یہاں بھی ناسٹلجیائی رحجان کی جھلکیاں دیکھنے کو ملتی ہیں ۔اس حوالے سے ان کے ناول ’’آگ کا دریا‘‘اور ’’میرے بھی صنم خانے ‘‘خصوصی اہمیت کے حامل ہیں ۔’’آگ کا دریا‘‘چار حصوں پر مشتمل ہے ۔ ناول میں جابجا ناسٹلجیا کا اظہار ملتا ہے بالخصوص اس کا آخری حصہ ناسٹلجیائی فکر سے پُر ہے ۔اس حصے کے کردار ماضی کے سہارے زندگی گزارنے والے افراد ہیں۔’’ آگ کا دریا ‘‘برق رفتاری سے بہتا ہوا وہ سمندر ہے جو ماضی کی جھلکیاں بھی دکھاتا ہے اور بیتے ہوئے کل پر فخر ،حال کے واقعات پر افسوس اور آنے والے کل کے لیے خدشات بھی اس دریا کی موجوں کے ساتھ موجزن رہتے ہیں۔ ناول کے کردار کھوئی ہوئی اس تہذیب ،آبادی،روایات اور رشتوں کو تلاش کر رہے ہیں جس کو وقت نے ان سے چھین لیا ۔گوتم ،چمپک ،اور کمال سب ماضی کو شعور میں زندہ رکھے ہوئے ہیں ۔
انتظار حسین اور عینی کے ساتھ ساتھ خدیجہ مستور کا ناول ’’آنگن ‘‘ بھی ناسٹلجیائی فضا سے پُر ہے ۔ناول کے آغاز میں ہی ناسٹلجیائی عناصر کی جھلکیاں دیکھنے کو ملتی ہیں ۔اس ناول کے اہم کردار عالیہ کے ساتھ ساتھ کریمن بوا بھی ماضی کی یادوں میں ڈوبی رہتی ہے ۔تقسیم ملک کے بعد نہ صرف لوگ ایک دوسرے سے جدا ہوگئے بلکہ ان کی ذہنیت میں بھی ایک دوسرے کے خلاف منفی اثرات گھر کرنے لگے ۔ایک دوسرے کے لیے جان قربان کرنے والے اب ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہوگئے ۔کریمن بوا ،جو کہ پُرانی روایات کی علامت بن کے ابھرتی ہے ،موجودہ حالات سے بیحد مایوس کن نظر آتی ہے ۔وہ اپنے اُس ماضی کی آغوش میں چلی جاتی ہے جو مساوات اور بھائی چارے کا مسکن تھا۔یہ اقتباس پیش نظر ہے:
’’زمانے زمانے کی بات ہے وہ بھی ایک دور تھا جب ہندو مسلم کا اتفاق مثالی تھا ۔۔۔۔۔مسلمان ہندو کی عزت بچانے کے لیے زندگی قربان کردیتا تھا ۔‘‘ ۸؎
اردو ناول میں ناسٹلجیائی رحجان کے حوالے سے عبداللہ حسین کے کارناموں کو فراموش نہیں کیا جاسکتا ہے ۔ان کے ناول ’’اداس نسلیں‘‘ ،اور ’’باگھ ‘‘کے کردار بھی با ر بارماضی کی جانب لوٹتے ہیں ۔’’اُداس نسلیں ‘‘میں نعیم اور عذرا کے ساتھ ساتھ روشن آغا بھی ماضی کی یادوں میں پناہ لیتی ہے عبداللہ حسین کے علاوہ جمیلہ ہاشمی کا ناول ’’تلاشِ بہاراں‘‘جوگندر پال کا ’’خواب رو‘‘،صلاح الدین پرویزکا ’’آئیڈنٹیٹی کارڈ‘‘انیس ناگی کا ’’دیوار کے پیچھے‘‘،خالدہ حسین کا ’’کاغذی گھاٹ‘‘، مشرف عالم ذوقی کا ’’بیان‘‘،ترنم ریاض کا’’برف آشنا پرندے‘‘وغیرہ ناسٹلجیائی رحجان کو اپنے اندر سمیٹے ہو ئے ہیں۔
اردو ادب میں صنفِ افسانہ اگرچہ ناول کے بعد کی پیداوار ہے لیکن ناول کے برعکس افسانہ تیزی کے ساتھ ترقی کرتا اور اپنی جڑیں مضبوط سے مضبوط تر بنانے میں ہر دواعتبار سے کامیاب نظر آتا ہے ۔اس کے کئی سارے وجوہات میں سے ایک اہم وجہ اس کا ایجاز و اختصار ہے کہ اس میں زندگی یا انسانی زندگی کے محض کسی مخصوص گوشے کو موضوع بناکر مختصراً اس کی جانب اشارہ کیا جاتا ہے ۔لیکن اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ افسانہ زندگی کے کسی ایک ہی عنصر کو اپنے دائرے میں سمیٹ لیتا ہے بلکہ شاید ہی کوئی موضوع ایسا ہوگا جو افسانہ میں پیش نہ کیا گیا ہوگا۔ناول کی طرح اردو افسانے میں بھی ابتداء سے ہی ناسٹلجیائی میلان کی پرچھائیاں بہ آسانی تلاش کی جاسکتی ہے ۔اردو ادب کے باقاعدہ اوّلین افسانہ نگار پریم کے جو افسانے اس اس سلسلے میں پیش کئے جاسکتے ہیںان میں ’’یہی ہے میرا وطن ‘‘، عشق اور حبِ وطن ‘‘وغیرہ اہم ہیں۔پریم چند کے بعد احمد علی ،محمود ظفر، عصمت چغتائی ،بیدی ، کرشن چندر، عزیز احمد ، رام لعل وغیرہ وہ افسانہ نگار ہیں جن کے یہاں ناسٹلجیا ایک اہم فکری عنصر کے طور پر موجود رہا ہے ۔ ۱۹۴۷ء کے بعد شدت سے اس رحجان کو قرۃ العین حیدر اور انتظار حسین نے اپنی تحریروں میں برتاہے وہ اپنی مثال آپ ہے۔ بقول ِ روبینہ الماس ’’ماضی کی باز آفرینی کا شدت سے استعمال قرۃ العین حیدراور انتظار حسین کے یہاںملتا ہے۔بلکہ افسانوں میں ماضی کی بار آفرینی کی روایت کے موجد قرۃ العین حیدراور انتظار حسین ہی ہیں‘‘۔قرۃ العین حیدر کے افسانوں میں’’جلاوطن ‘‘، ’’جب پھول کھلتے ہیں‘‘اور انتظار حسین کے ’’سیڑھیاں‘‘،چوک ‘‘، آخری موم بتی ‘‘،’’ ایک بن لکھی رزمیہ ‘‘وغیرہ میں اس پس منظر کو پیش کیا گیا ہے کہ مہاجرین جب اپنی جڑوں سے کٹ جاتے ہیں یا ہجرت کرتے ہیں تو ان کے بیٹر کس طرح جذباتی اُنس ہلچل مچانے لگتا ہے ۔وہ اپنے وطن،وہاں کی چوراہوں اور گلیوں، بچپن کے بیتے لمحوں کو captureکرکے ناسٹلجیک بن جاتے ہیں ۔انتظار حسین اور قرۃالعین حیدرؔکے علاوہ جوگندر پال کے افسانے ’’دادیاں‘‘،سید محمد اشرف کے ’’ڈار سے بچھڑے ‘‘،زاہدہ حنا کے ’’قیدی سانس لیتا ہے ‘‘اوراشفاق احمد کے افسانے’’گڈریا‘‘،میں بھی ناسٹلجیائی عناصر ملتے ہیں۔
افسانہ و ناول کے ساتھ ساتھ اردو کی دوسری نثری اصناف میں بھی اس فکری میلان کی ترجمانی بڑے وافر مقدار میں ملتی ہے ۔مثال کے طور پر اردو ادب کی ہر دل عزیز صنف ’’مزاح نگاری ‘‘ کی بات کی جائے تو یہاں بھی ناسٹلجیا کے حوالے سے مثبت نتائج ہی سامنے آتے ہیں ۔اردو کے نامور مزاح نگار مشتاق یوسفی کی کتاب ’’آب گم ‘‘اس کی بہترین مثال ہے۔ بقولِ اسلوب احمد انصاری:
’’آب گم کے موضوع کو اگر ایک لفظ میں ادا کرنا چاہیں تو اسے ہم ناسٹلجیک Nostalgicیادوں کا اُبھار کہہ سکتے ہیں ۔‘‘۹؎
ان کے کئی کردارناسٹلجیائی کیفیت لئے ہوئے ہیں۔ خود یوسفی اس کیفیت کو کبھی یادش بخیر یااور کبھی ماضی گیراں ،کبھی یاد تمنائی کے نام سے موسوم کرتے ہیں۔انہوں نے ا پنی تصانیف میں متعدد مقامات پر ناسٹلجیا کی تعریف وتوضیح اور اس سے متعلق اپنے تاثرات و خیالات صراحت کے ساتھ پیش کیے ہیں ۔چراغ تلے کے انشائیہ ’’یادش بخیریا ‘‘کا مرکز ومحور ناسٹلجیا ہے ۔خاکم بدہن کے انشائیے’’بارے آلو کا کچھ بیان ہو جاے‘‘میں بھی یوسفی نے ایک مقام پر اپنے ہمزاد مرزا عبدالودود بیگ کے بچپن کی یادوں کو ابھارا ہے ۔
ہندو پاک کی تقسیم کے بعد اردو ادب میں جو سفرنامے سامنے آئے ان میں بھی ناسٹلجیائی عناصر کی جھلکیاں دیکھنے کو ملتی ہیں ۔جیسے انتظار حسین کاسفرنامہ ’’زمین اور فلک اور ‘‘،’’نئے شہر پُرانی بستیاں‘‘جمیل الدین عالی کا ’’دنیا میرے آگے ‘‘، رام لعل کا’’زرد پتوں کی بہار ‘‘خواجہ حسن نظامی کا ’’سفر نامہ پاکستان ‘‘،جوگندر پال کا’’پاکستان یاترا‘‘،جمیل زبیری کے سفرنامے’’موسموں کا عکس‘‘وغیرہ میں ناسٹلجیا کی متعدد مثالیں مل جائیں گی ۔ رام لعل کے سفر نامے ’’ زرد پتوں کی بہار‘‘کا یہ اقتباس بطور مثال پیش کیا جاتا ہے:
’’یہ وہی جگہ ہے جہاں سے میرا ماضی شروع ہوتا ہے ۔جب میں چھوٹا تھا تو یہاں مٹی اور اینٹوں کے بنے ہوئے کمرے ہوا کرتے تھے ۔جس کے آنگن میں ایک بیروں کا گھنا پیڑ بھی ہوا کرتا تھا ۔۔۔۔۔اسی گھر کو میں نے
۲۸دسمبر۱۹۴۶کو چھوڑا تھا ۔جب میں اپنی بیوی اور ایک ماہ کہ بچی کو ساتھ لے کر لاہور چلا گیا تھا۔ ‘‘۱۰؎
اس اقتباس سے یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ نامساعد حالات کے باعث جب کوئی اپنی زمین ،اپنے گھر سے دور چلا جاتا ہے تو اُس چھوڑی ہوئی جگہ کو دوبارہ جانے کی خواہش اس کے دل میںکس قدر انگڑائیاں لینے لگتی ہے ۔وہ دوبارہ اگرچہ وہاں نہیں جاسکتا لیکن یادیں اس کا قیمتی سرمایہ بن جاتی ہیں اور انہی یادوں کے سہارے وہ اپنی مٹی کی خوشبوکومحسوس کرتا ہے ۔
شاعری میں شہنشاہ غزل میر تقی میرؔ ماضی کے بارے میں بے حد حساس نظر آتے ہیں ۔ ان کے یہاں ناسٹلجیا ایک گہری دردمندی کا احساس لئے ہوئے ہے ۔یادِ رفتگاں کی یاد ،وہ رفتگاں چاہے ان کے بیگانے ہوں یا اپنے ،ان کی یاد میر کو بے قرار اور افسردہ کرتی ہے ۔ مقامات اور جگہوں کی یادیں بھی ان کے لیے ایک تعلق داری کے احساس کو جگاتی ہیں ۔شہرِ دہلی کی ویرانی اور اس کے مکینوں کی عمومی بربادی میر کی شاعری کا ایک خاص موضوع اور ان کے المیہ طرزِ احساس کا ایک اہم محرک بھی ہے ۔
؎ دلی کے نہ کوچے تھے اوراقِ مصور تھے جو شکل نظر آئی تصویر نظر آئی
اڑتی ہے خاک شہر کی گلیوں میں اب جہاں سونا لیا گود میں بھر کر وہیں سے ہم
منفرد اندازِ بیان کے حامل اردو ادب کے صف ِ اوّل کے شاعر مرزا اسداللہ خان غالب ؔ بھی ماضی کی یادوں کو خود سے دور نہ کرسکے ۔یادِ ماضی غالب کی جذباتی دنیا کا ایک اہم جزو ہے ۔وہ ماضی جس کے ساتھ رنگا رنگ بزمِ آرائیوں کا تعلق تھا ۔وہ عیش رفتہ ماضی جو اب زرادست رفتہ ہو چکا تھاان کے یہاں قدم قدم پر دیکھنے کو ملتا ہے۔ ؎
یاد تھیں ہم کو بھی رنگا رنگ بزمِ آرائیاں لیکن اب نقش ونگار طاقِ نسیاں ہوگئیں
شاعرِ مشرق علامہ اقبال اور حالیؔنے اپنی شاعری میں مسلمانوںکو عظمتِ رفتہ کی یاد دِ لا کر پوری امتِ مسلمہ کو جھنجھوڑا۔انہیں اسلافوں کے کارنامے جنھوں نے بحرِ ظلمات میں گھوڑے دوڑائے ، کی ہمت اور شجاعت بیان کرکے مسلمان قوم کو خواب ِ غفلت سے بیدار کرانا چاہتے ہیں ۔ان کے یہاں مسلمانوں کی فتوحات ،ان کی بہادری و شجاعت اور ان کے شاندار کارناموں کی تفصیلات بڑے جذباتی اور موثر انداز میں ملتی ہیں ۔حالیؔنے اپنی شاہکار نظم ’’مسدس مدو جزرِ اسلام ‘‘ میں مسلمانوں کے شاندار ماضی کی تاریخ کو اور ماضی کے کارہائے نمایاںکو بیان کرکے مسلمان قوم کو غیرت دلانے کی سعی کی ہے ۔اقبال کی بیشتر شاعری ماضی کی عظمت و اہمیت کو اُجاگر کرنے کو ہی محیط ہے ۔ وہ مسلمانوں کو اپنی معنویت اور عظمت برقرار رکھنے کے حوالے سے اپنی شاندار ماضی کی روایت کو ازسرِ نو تعمیر کرنے کی تلقین کرتے ہیں ۔وہ طرح طرح کی تشبیہات ، استعارات ، تلمیحات وغیرہ کے سہارے مسلمانوں کو اپنے اسلاف کی میراث کو تھامے رکھنے ، گزرے ہوئے ماضی سے تعمیری اور مثبت تجربات ، عقائد و تصورات کو اپنا ناگزیر حصہ بناکر اپنے حال اور مستقبل کو سنوارنے پر بار بار اکساتے ہیں ۔گو کہ ان کا کلام ماضی کے احساس سے اول تا آخر پُر ہے ۔
؎تھے وہ آبا تمہارے ہی، مگر تم کیا ہو ہاتھ پر ہاتھ دھرے منتظر فردا ہو
ان شعرا کے علاوہ اردو ادب میں اپنی پہچان قائم کرنے والے کم و بیش تمام شعرا ایسے ہیں جن کے کلام کا بیشتر حصہ ماضی اور ناسٹلجیائی فکر کا پروردہ ہے ۔ان میں ن ۔ م ۔راشد، حسرت موہانی ،ناصر کاظمی ، بشیر بدر ، احمد فراز ، پروین شاکر ، فیض احمد فیض ، شکیل بدایونی ، اور بیسیوں معاصر شعرا شامل ہیں ۔طوالت کے خوف کے مد ِ نظر مجموعی طور پر اس بات پر اکتفا کیا جاتا ہے کہ اردو ادب کی بالکل ابتداء سے تا ایں دم تک دونوں قسم کی اصناف (منشور و منظوم) میں ناسٹلجیا ایک اہم فکری میلان کے طور پر شامل رہا ہے ۔اپنی تمام تر صورتوں اور جملہ اقسام کی تمام تر کیفیات اس میں بڑی خوبی سے در آئی ہے ۔

حوالہ جات:
۱)www.oxforddictionary.com
۲)Dictionary.cambridge.org.dictionary
۳)www.merrian-webster.com/dictionary/nostalgia
۴)بحوالہ: ادبیات ،مضمون ،اُردو افسانہ آزادی کے بعداز شہزاد منظر،ص ۲۰،۱۹۹۱ء
۵)مرزا ہادی رسوا،امراوجان ادا،ص ۱۲،
۶)اردو ناول کے بدلتے تناظر ،ممتاز احمد خان ،ویلکم بُک پورٹ کراچی،ص۲۴۳۔۲۴۲
۷)انتظار حسین ،بستی ،ص۴۱،ایجو کیشنل پبلشنگ ہاوس دہلی
۸) خدیجہ مستور ،آنگن ،ص۱۶۷۔۱۶۶
۹)بحوالہ :رشیداحمد صدیقی کی ادبی خدمات ،طاہر محمود ،ص۱۹۸
۱۰)زرد پتوں کی بہار،سفر نامہ پاکستان،رام لعل،اتر پردیش ،اردو اکیڈمی قیصر باغ لکھنو،۱۹۸۲ء، ص۱۱۱۔۱۱۰

Leave a Comment