اردو کے عظیم افسانہ نگار۔منشی پریم چند

 

\"\"
منشی پریم چند اردو کے وہ افسانہ نگار ہیں جنہوں نے اردو افسانوں کو طلسماتی اور رومانی فضا سے نکال کر زندگی کی حقیقتوں کا نقیب اور ترجمان بنایا۔ ان کے ابتدائی افسانوں میں اصلاح معاشرہ کا رنگ غالب تھا لیکن جیسے جیسے مارکسی نظریات سے قریب ہوتے گئے ان کا ادب زندگی کی عریاں سچائیوں کا ترجمان بنتا گیا۔ ’’کفن‘‘ پریم چند کے نظریئے اور فن دونوں کا وہ سنگ میل ہے جس کا اُردو تو کیا بلکہ کسی دیگر ہندوستانی زبان میں بھی کوئی جواب نہیں ہے۔
منشی پریم چند اردو کے وہ افسانہ نگار ہیں جنہوں نے اردو افسانوں کو طلسماتی اور رومانی فضا سے نکال کر زندگی کی حقیقتوں کا نقیب اور ترجمان بنایا۔ ان کے ابتدائی افسانوں میں اصلاح معاشرہ کا رنگ غالب تھا لیکن جیسے جیسے مارکسی نظریات سے قریب ہوتے گئے ان کا ادب زندگی کی عریاں سچائیوں کا ترجمان بنتا گیا۔ ’’کفن‘‘ پریم چند کے نظریئے اور فن دونوں کا وہ سنگ میل ہے جس کا اُردو تو کیا بلکہ کسی دیگر ہندوستانی زبان میں بھی کوئی جواب نہیں ہے۔
یہاں اس بات کی وضاحت بھی ضروری ہے کہ پریم چند بنیادی طور پر اردو کے ادیب تھے۔ ان کی سبھی تخلیقات چاہے وہ ناول ہوں یا افسانے ہوں اُردو میں تھیں جن کا ترجمہ ہندی میں کیا گیا ۔
اس کالم کیلئے نمائندۂ انقلاب نے منشی پریم چند کے سوتیلے بھائی مہتاب رائے کے نواسے وجئے رائے سے گفتگو کی جنہوں نے منشی جی کی فنی خوبیوں کے علاوہ گھریلو زندگی پر بھی روشنی ڈالی۔ سنئے انہی کی زبانی:
’’منشی پریم چند کی پیدائش بنارس سے چار میل کی دوری پر واقع لمہی گائوں میں ۳۱؍ جولائی ۱۸۸۰ء بروز سنیچر ہوئی ۔ والد کانام عجائب رائے تھا اور والدہ کا نام آنندی دیوی۔ آپ کایستھ دوسرے شریواستو تھے۔ آپ کی تین بہنیں تھیں۔ ان میں سے دو کا بچپن میں ہی انتقال ہو گیا تھا، تیسری بہن جو زندہ تھیں ان سے آپ آٹھ سال چھوٹے تھے۔ والد صاحب نے منشی جی کانام دھنپت رائے، تو چچا نے نواب رائے رکھا تھا۔ منشی جی کی باقاعدہ تعلیم کا آغازپانچ سال کی عمر میں ہوا۔ پہلے مولوی صاحب سے اُردو پڑھی، وہ پڑھنے میں بہت تیز تھے اور بچپن میں بہت دُبلے پتلے اور کمزور تھے ۔ ‘‘
تھوڑے توقف کے بعد وجئے رائے نے مزید بتانا شروع کیا: ’’منشی جی کے بچپن کا ایک واقعہ ہے آپ بھی سنئے۔ چچا نے سَن بیچا اور اُس کے روپے لاکر طاق پر رکھ دیئے۔ آپ نے اپنے چچا زاد بھائی سے مشورہ کیا جو آپ سے عمر میں بڑے تھے ۔ دونوں نے مل کر روپے لے لئے ۔ آپ نے روپے اُٹھا تو لئے لیکن اسے خرچ کرنا نہیں آتا تھا، چچازاد بھائی نے اس روپے کو بُھنا کر بارہ آنہ مولوی صاحب کی فیس دی اور باقی چار آنوں میں سے امرود، ریوڑی وغیرہ لے کر دونوں بھائیوں نے کھائی۔ چچا صاحب ڈھونڈتے ہوئے وہاں پہنچے اور بولے تم دونوں روپے چرا لائے ہو؟ آپ کے چچازاد بھائی نے کہا…ہاں ایک روپیہ بھیا لائے ہیں ۔ چچا سخت آواز میں بولے… وہ روپے کہاں ہیں ؟جواب دیا گیا کہ مولوی صاحب کو فیس دے دی ۔چچا صاحب دونوں لڑکوں کو مولوی صاحب کے پاس لے کر پہنچے اور پوچھا کہ ان لڑکوں نے آپ کو پیسے دیئے ہیں؟
مولوی صاحب بولے کہ ہاں بارہ آنے دیئے ہیں ۔ یہ سن کر چچا نے کہا اُنہیں مجھے دیجئے۔ اور پھر اُن سے پھر پوچھا چار آنے کہاں ہیں؟
’اُس کا امرود لیا ۔‘
چچا اپنے بیٹے کی پٹائی کرتے ہوئے گھر لائے۔ اس کی پٹائی دیکھ کر منشی جی کی حالت عجیب ہوگئی۔ ڈرتے ڈرتے گھر آئے لیکن ماں کی پٹائی سے نہیں بچ سکے۔ ‘‘
وجئے رائے کے بقول: ’’منشی جی بچپن میں گلی ڈنڈا بہت کھیلتے تھے ۔ چھٹی کے ایام میں پورا پورا دن گلی ڈنڈا کھیلنے میں گزر جاتا تھا۔ وہ آٹھ سال کے تھے جب ان کی ماں بیمار پڑیں اور چھ ماہ تک بیمار رہیں۔ وہ ماں کے سرہانے بیٹھ کر پنکھا جھلتے تھے۔ ان کے چچازاد بھائی جو اُن سے بڑے تھے وہ ان کیلئے دوا کے انتظام میں رہتے تھے ۔ ان کی بہن سسرال میں تھیں۔ ماں کے سرہانے ایک بوتل شکر سے بھری رہتی تھی۔ ماں کے سو جانے پر منشی جی اس میں سے نکال کر شکر کھا لیتے تھے۔ ماں کے انتقال سے آٹھ دس روز پہلے ان کی بہن آئیں۔گھر سے ان کی دادی بھی آئیں۔ منشی جی کی ماں نے انتقال سے قبل بچوں کا ہاتھ پکڑ کر ان کے باپ کے ہاتھ میں دے کر کہا: یہ تینوں بچے تمہارے ہیں ۔‘‘
وجئے رائے جی نے بتایا کہ جیسا میں اپنے بزرگوں سے سنتے آیا ہوں کہ یہ قصہ سناتے ہوئے منشی جی آبدیدہ ہو جاتے تھے …وہ کہتے تھے ’’ماں کے انتقال پر بہن، والد صاحب، بھائی سب رو رہے تھے لیکن میں کچھ بھی سمجھ نہیں پارہا تھا ۔ ماں کےانتقال کے بعد بھیا میرا بہت خیال رکھتے تھے، دودھ میں شکر ڈال کر مجھے خوب کھلاتے تھے لیکن ماں کا وہ پیار کہاں۔ میں تنہائی میں خوب روتا تھا۔ ‘‘پانچ چھ ماہ بعد منشی جی کے والد صاحب بھی بیمارپڑے اور لمہی آئے۔ اس وقت منشی جی کاکام مولوی صاحب کے یہاں پڑھنے جانا، گلی ڈنڈا کھیلنا، کھیت سے گنا توڑ کر چوسنا اور مٹر کی پھلیاں توڑ کر کھانامعمول میں شامل تھا۔ ان کے والد صاحب جب بہن کے گھر جاتے تو منشی جی کو ضرور لے جاتے۔ وہ اپنی دادی سے کہانیاں خوب سنتے تھے۔ دادی اور بھیا میں جھگڑا بھی ہو جاتا تھا۔ وہ دادی سے اپنی طرف منہ کرنےکو کہتےاور ان کے بھیا اپنی طرف۔ دادی منشی جی سے زیادہ پیا رکرتی تھیں۔
منشی جی کی والدہ کے انتقال کے کچھ دنوں بعد ان کے والد صاحب نے دوسری شادی کر لی۔ اس شادی سے ان کی دادی خوش نہیں تھیں۔ سوتیلی ماں کو منشی جی چاچی کہتے تھے۔اس درمیان منشی جی کے والد کا تبادلہ گورکھپور ہوا۔ پھر کچھ دنوں بعد منشی جی بھی گورکھپور چلے گئے۔ اُس وقت ان کی عمر تیرہ سال تھی ۔ مشن ہائی اسکول میں چھٹے درجہ میں ان کا نام لکھوایا گیا ۔ چاچی (سوتیلی ماں) ان کےساتھ تھیں اور دادی کا انتقال ہو چکا تھا۔ منشی جی کو پتنگ اُڑانے کا بھی بہت شوق تھا مگر اس کیلئے پیسے نہیں ہوتے تھے۔ وہ بالے میاں کے میدان (گورکھپور) کی طرف جاتے اور وہاں کنکوا دیکھتے رہتےاور جب کنکوا کی ٹوٹی ڈور مل جاتی، تب وہ اپنا شوق پورا کرتے۔
وجئے رائے جی نے آگے بتایا …منشی جی کو لکھنےکا شوق بچپن سے ہی تھا ۔ وہ لکھتے اوراسے پڑھتے۔ تحریر پسند نہ آتی توپھاڑ دیتے… کبھی کبھی ان کے والد صاحب حقہ پیتے ہوئے ان کے کمرے میں پہنچ جاتے، جو کچھ وہ لکھ چکے ہوتے وہ اٹھا لیتے اور پوچھتے …’’نواب کچھ لکھ رہے ہو؟‘‘ وہ شرما جاتے۔ لیکن اس میں ان کے والد کو ذرا بھی دلچسپی نہیں تھی ۔ ویسے وہ اپنےکام میں مصروف بھی بہت رہتے تھے ۔
کچھ دنوں بعدمنشی جی کےوالد صاحب کاتبادلہ زمانیہ (غازی پور) ہوا۔ منشی جی بھی ساتھ گئے۔ وہاں کا ہرکارہ منشی جی سے بہت پیار کرتا تھا۔ وہ انہیں کندھے پر لے کر دوڑتا۔ ان کیلئے گنا، امرود اور گاجر لاتا۔ ایک دفعہ منشی جی کے والد صاحب نے کسی بات پر غصہ ہوکر اسے نکال دیا۔ جب وہ دوسرے دن نہیں آیا تومنشی جی نے چاچی سے پوچھا آج قزاقی (ہرکارے کا نام) کیوں نہیں آیا چاچی؟
’’مجھے نہیں معلوم کیوں نہیں آیا۔‘‘ یہ سن کر منشی جی خاموش ہوگئے۔ رات کو والد صاحب آئے تو ڈرتے ڈرتے منشی جی نے پوچھا کہ بابو جی قزاقی کہاں گیا؟
’’کمبخت کو نکال دیا ہے ۔‘‘
منشی جی نے ڈرتے ڈرتے کہا …’’بابو جی ، آدمی بڑا اچھا ہے۔ ‘‘
والد صاحب نے کہا ’’گدھا تھا۔‘‘
ایک سال بعد منشی جی کو تعلیم کے سلسلہ میں بنارس جانا پڑا۔ اس وقت ان کی عمر پندرہ سال تھی اور نویں جماعت میں پڑھتے تھے۔ بنارس جاتے وقت منشی جی کے والد صاحب نے پوچھا کتنا خرچ لگے گا؟ منشی جی نے کہا پانچ روپے دے دیا کیجئے گا۔ اس وقت تو منشی جی کو لگا کہ پانچ روپے میں پڑھائی کے ساتھ دیگر اخراجات پورے ہو جائیں گے لیکن وہ مہینہ کے آخر آخر تک کم پڑ جاتے تھے۔ اسی درمیان منشی جی کے والد نے پانچ روپے کا گُڑ ان کے پاس رکھنے کیلئے بھیجا ، کیونکہ کچھ دنوں بعد منشی جی کی شادی ہونے والی تھی ۔ منشی جی اور ان کے دوستوں نے گُڑ کو باری باری کھانا شروع کر دیا۔ روز ہی تھوڑا بہت گُڑ نکلنے لگا۔ جب منشی جی نے دیکھا کہ گُڑ کا صندوق کافی خالی ہو چکا ہے تو عہد کیا کہ اب اسے ہاتھ نہ لگائوں گا۔ لیکن گُڑ کھانے کی ایسی عادت ہو گئی تھی کہ اپنے اس عہد پر قائم نہ رہ سکے۔ ایک روز صندوق کی چابی کو دراز میں ڈال دیا کہ اب نہ رہے گا بانس نہ بجے گی بانسری۔ پھر جب سارے دوست جمع ہوئے تو دراز سے صندوق کی چابی نکالی گئی ۔ گُڑ جب آدھا رہ گیا تو منشی جی نے صندوق کی چابی کنویں میں ڈال دی ۔ جب ان کے والد صاحب گھر آئے اور چابی مانگی تو نہیں ملی چنانچہ صندوق کا تالا توڑنا پڑا۔
’چاچی‘(منشی جی کی سوتیلی ماں) گُڑ دیکھ کر سخت برہم ہوئیں۔ منشی جی کی شادی ہوئی وہ شادی میں بہت خوش تھے، منڈپ بنانے کیلئے بانس خود کاٹے تھے۔ اُن کی پہلی شادی بستی ضلع میں ہوئی لیکن یہ شادی کامیاب نہیں ہوسکی۔
وجئے رائے جی نے ایک اور واقعہ بیان کیا: جاڑے کے دن تھے منشی جی چُنار گڑھ سے گھر آئے تھے۔ ان کے ساتھ وجئے بہادر (منشی جی کی سوتیلی ماں کے بھائی) بھی تھے ۔ چار پانچ روز بعد واپسی کے وقت چاچی سے روپئے مانگے، وہ بولیں ’روپئے خرچ ہو گئے ۔‘ لہٰذا منشی جی گاڑی سے بہت پہلے اسٹیشن چل دیئے۔ شہر میں اپنا گرم کوٹ دو روپئے میںبیچا جسے انہوں نے ایک سال پہلے بڑی مشکلوں سے خریدا تھا۔ الہ آباد میں پڑھائی کے دوران ٹیوشن بھی پڑھاتے تھے ۔ اپنے ہاتھ روٹیاں پکاتے ۔ انہیں دنوں ’کرشنا ‘ نام کا ایک چھوٹا سا ناول لکھا جسے انڈین پریس نے شائع کیا تھا۔
۱۹۰۵ء میں منشی جی کی کہانی کا مجموعہ ’سوز وطن‘ شائع ہوا اس پر مقدمہ بھی چلا ۔ مہوبہ میں خفیہ پولیس پہنچی۔ اس کے بعد آپ کو کلکٹر نے ملنے کیلئے بلایا۔ آپ کو دورے پر آرڈر ملا۔ رات بھر بیل گاڑی پر چلنےکے بعد آپ کُلپہاڑ(مہوبہ) پہنچے۔وہاں انہوں نے دیکھا کہ کلکٹر کی میز پر ’سوز وطن‘ کی کاپی پڑی تھی۔ کلکٹر نے پوچھا ’یہ کتاب تمہاری لکھی ہے ؟‘ منشی جی نے کہاہاں۔ کلکٹرنے کہا: انگریزی راج میں تم نہ ہوتے تو تمہارے دونوں ہاتھ کٹوا دیئے گئے ہوتے، تم کہانیوں کے ذریعہ بغاوت کو ہوا دے رہے ہو۔ تمہارے پاس جتنی کاپیاں ہیں انہیں میرے پاس بھیج دو، آئندہ پھر کبھی لکھنے کا نام بھی مت لینا۔ منشی جی کو اس واقعہ سے قلق ہوا کہ میرے پاس تھوڑی سی بھی زمین ہوتی توملازمت ترک کرکے ادب کی خدمت کرتا ۔
منشی جی نے ۱۹۱۴ء میں بستی ضلع میں ملازمت کے دوران پرائیویٹ ایف اے پاس کیا تھا۔ پرائیویٹ پڑھائی کے دوران ان کے سرہانے پر لالٹین رکھی رہتی، رات میں جب ان کی آنکھ کھلتی، پڑھائی شروع کر دیتے تھے۔ اس کے علاوہ کہانیاں اور مضامین لکھنے کا سلسلہ بھی جاری رہتا تھا۔ مہوبہ میں ملازمت کے دوران ہی ان کی طبیعت ناساز رہنے لگی تھی، بستی میں بھی ان کی طبیعت ٹھیک نہیں رہی، ملازمت کی مصروفیت اور طبیعت خراب رہنے کے باوجود وہ سیکنڈ پاس ہوئے تھے ۔ اس کے بعد یہاں ان کا ہاضمہ خراب رہنے لگا اس لئے آپ نے وہاں سے اپنا تبادلہ کروا لیا، اس خیال سے کہ کوئی اچھی جگہ مل جائے گی، لیکن جگہ ملی نیپال کی ترائی میں ، یہاں بھی ہاضمہ خراب ہی رہا۔ جس کی وجہ سے انہوں نے ۶؍ مہینہ کی لمبی چھٹی لے لی۔ اس درمیان آدھی تنخواہ ملتی تھی۔ چھٹی کے دوران دو مہینے آپ اپنے گائوں لمہی میں رہے ۔ روزانہ شہر پیدل جاتے اور حکیم کے یہاں سے دوا لے جاتے تھے ، اس کے باوجود مکمل افاقہ نہ ہوا ۔ دو ماہ بعد پھر بستی گئے مگر وہی حالت باقی رہی، کوئی ۱۵؍ روز رہنے کے بعد پھر واپس آئے۔ وہیں ڈومریا گنج تحصیل میں منن دیویدی ’ گجپوری‘ سے ان کی ملاقات ہوئی۔ ڈومریا گنج جاتے تو انہیں کے یہاں ٹھہرتے تھے۔ اس کے بعد پھر چھٹی لیکر آئے، تبادلے کی درخواست دی۔ اس پر افسر نے کچھ توجہ نہیں دی۔ پھر الٰہ آباد گئے ڈائریکٹر سےملے۔ بولے ’ بستی کی آب و ہوا میرے موافق نہیں ہے ۔ ‘ صاحب! ’تمہیں نہ مہوبہ کی آب و ہوا پسند نہ بستی ، بتائو کہاں بھیجوں؟ تمہاری ماسٹری کی جگہ ۴۰؍ روپئے کی ہے ، جا سکتےہو ۔ آپ بولے گھر پر مشورہ کر کے بتائوں گا ۔ منشی جی گھر آئے بولے ’کمبخت جھلّاتا ہے کہتا ہے ، کس جہنم میں بھیج دوں ۔ اس کے باوجود منشی جی نے درخواست بھیج دی ، جو منظور ہوئی اور ایک بارپھر وہ بستی ضلع میں ہی درس وتدریس کے کام سے وابستہ ہو گئے۔ کچھ دنوں بعد وہاں سے ان کا تبادلہ گورکھپور ہو ا۔
ایک دلچسپ واقعہ یوں ہے….جاڑے کے دن تھے ۔ اسکول انسپکٹر معائنہ پر تھے ۔ ایک روز تو انسپکٹر کے ساتھ رہ کر آپ نے اسکول دکھا دیا ۔ چھٹی ہونے پر آپ گھر چلے آئے۔ دروازے پر، آرام کرسی پر بیٹھے اخبار پڑھ رہےتھے۔ سامنے سے انسپکٹر اپنی گاڑی سے جارہے تھے ، انہیں امید تھی کہ وہ اُٹھ کر سلام کریں گے ۔ لیکن آپ اُٹھے بھی نہیں۔ اس پر کچھ دور جاکر انسپکٹر نے گاڑی روک کر اپنے اَردلی کو بھیجا ۔آپ گئے ۔ ’کہئےکیا ہے ؟ ‘ انسپکٹر نے کہا تم بڑےمغرور ہو ۔ تمہارا افسر دروازے سے نکل جاتا ہے ، اُٹھ کر سلام بھی نہیں کرتے ۔ یہ سن کر منشی جی نے تیکھا جواب دیا: ’میں جب اسکول میں رہتا ہوں ، تب نوکر ہوں بعد میں اپنے گھر کا بادشاہ ہوں۔‘
۱۹۲۴ء کا زمانہ تھا۔ آپ لکھنؤ میں رہتے تھے ۔ الور ریاست سے راجہ صاحب کا خط لے کر پانچ چھ صاحبان آئے۔ راجہ صاحب نے اپنےپاس رہنے کیلئے بلایا تھا۔ راجہ صاحب آپ کی تحریروں کے مداح تھے ۔ انہوںنے ۴۰۰؍ روپئے نقد ، موٹر بنگلہ دینے کو لکھا تھا ۔ مع کنبہ بلایا تھا۔ ان صاحبان کو یہ کہہ کر کہ میں بہت باغی آدمی ہوں، اسی وجہ سے میں نے سرکاری نوکری چھوڑی ہے، راجہ صاحب کو ایک خط لکھا:
’’میں آپ کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ آپ نے مجھے یاد کیا ۔ میں نے اپنی زندگی ادب کی خدمت کیلئے وقف کررکھی ہے۔ میں جو کچھ لکھتا ہوں، آپ پڑھتے ہیں ، اس کیلئے میں آپ کا مشکور ہوں۔ آپ جو عہدہ مجھے دے رہے ہیں میں اس کا اہل نہیں ہوں۔ میں اس کو اپنی خوش قسمتی سمجھتاہوں کہ آپ میری تحریر کو غور سے پڑھتے ہیں ۔ اگر ہوسکا تو آپ سے ملاقات کیلئے کبھی آئوں گا۔
خادم ادب ،دھنپت رائے منشی جی مہاتما گاندھی کی شخصیت سے بہت متاثر تھے۔ وہ کہتے تھے مہاتما گاندھی ہندو مسلمانوںمیں اتحاد چاہتے ہیں، تو میں ہندی اور اُردو کو ملا کر ہندوستانی بنانا چاہتا ہوں ۔ اسی لئےمیں جو کچھ لکھتا ہوں ہندوستانی میں لکھتا ہوں جسے ہندو مسلمان اور عوام سمجھیں وہ ہندوستانی اور میرا خیال ہے کہ جب کبھی قومی زبان طے ہوگی تو ہندی اور اُردو ملا کر ہی طے ہوگی ۔ اس معاملے میں ان کی شریک حیات شیو رانی دیوی کا کہنا تھا یہ تو ہندوستان ہے یہاں عام زبان ہندی ہونی چاہئے ۔ اس پر منشی جی نے کہا تھا اس ملک کا نام ہندوستان کیسے پڑا، تمہیں معلوم ہے؟ یہاں جب پہلے مسلمان آکر آباد ہوئے اور انہوں نے اس کو فتح کیا، تبھی اس کا نام پڑا تھا ہندوستان ۔ نام تو ہندوستان طے ہوگیا، لیکن زبان کیلئے ابھی بھی جھگڑا ہے ۔ یہ جھگڑا اسی وقت ختم ہوگا جب ہندو مسلمان سوچ لیں گے کہ ہم دونوں کو ساتھ ساتھ رہنا ہے۔ جب تک ہندو مسلمان اپنی اپنی زبان کیلئے روئیں گے تب تک اس مسئلے کا حل ممکن نہیں ہے۔
منشی جی کو ریت رواج بالکل پسند نہیں تھا۔ چنانچہ بیٹی کی شادی میں منشی جی اور بیگم میں خوب نوک جھونک ہوئی ۔ آپ بھی سنئے… لڑکی کی بارات دروازے پر آنے کے بعد پوجا ہوتی ہے جسے ’دوار پوجا ‘ کہتےہیں ۔ اس میں لڑکی کے باپ کی شرکت ضروری ہوتی ہے ۔ اس موقع پرمنشی جی الگ تھلگ کھڑے تھے ۔ اس موقع پر باراتیوں پر پیسے بھی لُٹائے جاتےہیں …منشی جی کی بیگم نے کہا آپ پیسے لُٹائیے۔ اس پر انہوں نے کہا تمہی لٹائو یہ مجھ سے نہ ہو سکے گا۔ پھر انہوں نے کہا کہ ’دوار پوجا‘ آپ کو کرنا چاہئے تھا۔ منشی بولے: مجھ سے یہ رسمیں نہیں ہوںگی ۔ شیو رانی دیوی نے کہا : ابھی کنیا دان تو آپ کو کرنا ہی ہوگا۔ منشی جی بولے : کنیا دان کیسا؟ بے جان چیز، دان میں دی جاتی ہے ۔ جاندار چیزوں میں تو صرف گائے کو ہی دان دیا جا سکتا ہے۔ پھر لڑکی کا دان کیسا؟ یہ مجھےپسند نہیں۔ شیورانی دیوی بولیں: یہ تو تمہیں کرنا ہی ہوگا۔ منشی جی بولے : تو پھر میں اپنی لڑکی کو ’دان‘ دے دوں؟ یہ میں نہیں کر سکتا ۔ شیو رانی دیوی بولیں: بچوں کی سی بات نہ کیجئے ۔ کنیا دان ہوتا ہے کہ نہیں؟ آپ جھنجھلا کر بولے ’تم کو کرنا ہے کرو۔ میں نہیں کروں گا۔ ‘آخر منشی جی کسی طرح منڈپ میں آئے لیکن کنیا دان شیورانی دیوی کو ہی کرنا پڑا۔
ہندو مذہبی رسم و راج پر منشی جی اور ان کی بیگم میں اکثر نوک جھونک ہوتی تھی ۔ منشی جی کہتے ہندوئوں کی بات تو نرالی ہوتی ہے ۔ شیو رانی دیوی جی کہتیں اچھا تو آپ ہندو ہیں یا مسلمان ؟ منشی جی ہنس کر جواب دیتے ۔ میں نہ ہندو ہوں نہ مسلمان ۔ جس دھرم میں رہ کر لوگ دوسرے کا چھوا پانی نہیں پی سکتے، اس دھرم میں میرے لئےگنجائش کہاں؟ میری سمجھ میں نہیں آتا کہ ہندو دھرم کس پر ٹِکا ہوا ہے ۔ اس پر شیو رانی دیوی بھی ہنس کر کہتیں: عورتوں کے ہاتھ پر۔
سن ۱۹۲۹ کی بات ہے۔ منشی جی اپنی اہلیہ اور بچوں کےساتھے پریاگ سے لوٹ رہے تھے ۔ یہ سب ٹرین کے انٹر کلاس میں سفر کررہے تھے۔ گاڑی میں بھیڑ تھی۔ گاڑی میں بہت سے دیہاتی مسافر ان کے ڈبے میں گھس آئے تو منشی جی بولے یہ ڈیوڑھا درجہ ہے اس میں کرایہ زیادہ لگےگا۔ مسافر بولے کیا کریں بابو جی دو روز سے پڑے ہیں۔ منشی جی بولے: آپ لوگ کہاں سےآرہے ہیں اور کہاں جائیں گے۔ ’ہم لوگ شیتلا کے درشن کرنے گئے تھے ۔‘ دیہاتی مسافروں نے کہا۔ منشی جی بولے: شیتلا جی کے درشن کرنے سے تمہیں کیا ملا؟ سچ بتائو تم لوگوں کا کتنا خرچ ہوا؟ ’ایک ایک آدمی کے کم سے کم ۱۵؍ روپے ۔‘ دیہاتی مسافروں نےکہا۔ منشی جی بولے: اس کا مطلب تم لوگوں نے چار چار مہینے کا غلہ بیچ دیا۔ اس سے اچھا ہوتا کہ دیوی جی کی پوجا تم اپنے گھر پر ہی کرلیتے۔ دیوی جی سب جگہ رہتی ہیں۔ یہ سب باتیں ہو رہیں تھیں کہ اتنے میں ریلوے پولیس کا آدمی آیا ۔ اُن لوگوں کو دھمکی دے کر کہنے لگا کہ ڈیوڑ ھادرجہ ہے، اور کرایہ لائو ۔ اُس پولیس والےکی حرکت دیکھ کر منشی جی کو غصہ آگیا۔ منشی جی بولے: تم لوگ آدمی ہو یا جانور ۔ جانور کیوں ہوں؟ تیسرے درجے کا کرایہ دیا اور ڈیوڑھے میں آکر بیٹھے ہیں۔ تیسرے میں جگہ تھی جو اس میں بیٹھتے؟کرایہ تو تم نےلے لیا۔ یہ بھی دیکھا کہ گاڑی میں جگہ ہے یا نہیں؟ انسانوں کو جانور بنا رکھا ہے تم لوگوں نے۔ میں اِن کے پیچھے لڑوں گا۔ یہ راہزنی کا کرایہ لے لیں اور گاڑی میں کسی کو بھی جگہ نہیں ۔ چلو …دو ان کو تیسرے درجے میں جگہ …اور اُن مسافروںسے کہا کہ چلو، میں تمہارے ساتھ چلتا ہوں۔‘‘ اور ان مسافروں کو لئے آپ پولیس والے کے ساتھ اُتر پڑے۔
پولیس والے نے کسی طرح ایک ایک کرکے ان کو بوگیوں میں بٹھایا۔ جب آپ لوٹ کر آئے تو شیو رانی دیوی (منشی جی کی اہلیہ) سے بولے دیکھا ان آدمیوں کو ؟ وہ بولیں آپ کیوں لڑنے لگے ؟ منشی جی بولے: میں کیا کوئی بھی اس طرح کی حرکت نہیں دیکھ سکتا اور اس طرح کے ظلم دیکھ کر کچھ نہ بولےتو میںکہوں گا اس کے اندر گرمی نہیںہے۔ اس پر شیو رانی بولیں: کانگریس کے آدمی جو لیڈر کہے جاتے ہیں وہ ’اے‘ ’بی‘ درجے میں مزے کرتے ہیں، یہ پتہ بھی نہیں کرتے کہ ’ سی‘ کلاس والوں کو کیا آرام تکلیف ہے۔ منشی جی بولے: اگر یہاںکے سبھی آدمی ذمہ دار ہی ہوتے تو ملک کی حالت اس طرح نہ ہوتی۔ ہماری اسی کمی سے سرکار راج کررہی ہے ۔ مٹھی بھر انگریز ۳۵؍ کروڑ آدمیوں پر راج کریں، اس کے معنی کیا ہیں؟ ہم میں اخلاقیات، قوت ارادی کچھ بھی نہیں ہے ۔ اسی کا تاوان ہم سے وصول کیا جارہا ہے ۔
ہیلی صاحب گورنر ہوکر لکھنؤ آئے تھے ۔ انہوںنے منشی جی کو ’رائے صاحب‘ کا خطاب دینے کیلئے اُن کے دوست سے خط لکھوایا کہ گورنر صاحب انہیں ’رائے صاحب‘ کا خطاب دینا چاہتے ہیں۔ اس پر منشی جی نے اپنے دوست سے کہا میں عوام کا خادم ہوں سرکار کا پٹھو نہیں بننا چاہتا ۔ ’رائے صاحبی‘ لیکر مجھے گورنمنٹ کیلئے لکھنا پڑے گا ، جو مجھے ہرگز منظور نہیں۔ مجھے عوام کی رائے صاحبی ملے گی تو وہ سرآنکھوں پر ۔ گورنمنٹ کی رائے صاحبی کی قطعی خواہش نہیں۔ گورنر صاحب کا میری طرف سے شکریہ اداکر دیجئےگا۔
۱۹۳۰ء کی بات ہے مہاتما گاندھی نمک ستیہ گرہ کیلئے ڈانڈی گئے۔ ان دنوں منشی جی لکھنؤ میں تھے اور ’مادھوری‘ کے مدیر تھے۔ اپریل کا مہینہ تھا، گھر کے سامنے امین الدولہ پارک (امین آباد، لکھنؤ) تھا۔ اسی جگہ رضاکار جمع ہو کر نمک بناتے اور ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے سارا شہر پارک میں امنڈ آیا ہو۔ وہاں پولیس بھی مع ہتھیار پہنچتی تھی۔ منشی جی کئی نوجوانوں کو اپنے ہاتھوں سے کُرتے اور ٹوپیاں پہنا کر نمک بنانے بھیجتے تھے۔ اس کام میں ان کی بیگم شیو رانی دیوی بھی پیش پیش رہتی تھیں۔ تحریک آزادی میں حصہ لینے کیلئے وہ کانگریس سے بھی وابستہ ہو گئی تھیں۔ تحریک آزادی میں سرگرمی کےنتیجے میں انہیں ۱۹۳۱ء میں جیل بھی جانا پڑا تھا۔
زندگی کے آخر ایام میں منشی جی کافی بیمار رہے ۔ ۲۵؍ جون کو انہیں خون کی قے ہوئی ۔ دوا لائی گئی لیکن افاقہ نہ ہوا۔ نقاہت اتنی کہ چلنے پھرنے میں دشواری ہونے لگی ۔کچھ دور پیدل چلتے تو چکرا جاتے ۔ پورا پورا دن نیم بیہوشی کی حالت میں گزرتا۔ گائوںمیں علاج سے طبیعت ٹھیک نہ ہوئی تو لکھنؤ آئے … دس بارہ دن رہ کر واپس گئے لیکن طبیعت بحال نہ ہوئی ۔ قے دست کا سلسلہ جاری رہا…. ۸؍ اکتوبر ۱۹۳۶ کو ایک بار پھر بیہوشی طاری ہوئی ….اور پھر ہمیشہ کیلئے سو گئے ۔
٭٭٭٭٭

Leave a Comment