اسمٰعیل میرٹھی جدید نظم کے بنیادگزاروں میں نمایاں نام : پروفیسرگوپی چند نارنگ

ساہتیہ اکادمی کے زیراہتمام ’اسمٰعیل میرٹھی‘ صدسالہ سیمینارکا انعقاد

\"xxx\"
نئی دہلی، نومبر (اسٹاف رپورٹر) اسمٰعیل میرٹھی کا زمانہ نگاہ میں رکھیں تو تعجب ہوگا کہ اردو نظم کی ابتدا کیسے ہوئی۔ دراصل وہ جدید اردو نظم کے بنیادگزاروں میں شمار کیے جاتے ہیں۔ ان خیالات کا اظہار کرتے ہوئے پدم بھوشن پروفیسر گوپی چند نارنگ نے مزید کہا کہ آزاد اور حالی نے جدید نظم کے لیے زیادہ تر مثنوی اور مسدس کے فارم کو برتا تھا۔ اسمٰعیل نے ان کے علاوہ مثلث، مربع، مخمس اور مثمن سے بھی کام لیا — انھوں نے بے قافیہ نظمیں بھی لکھی ہیں (چڑیا کے بچے) اور ایسی نظمیں بھی جن میں مروجہ بحروں کے اوزان کو ٹکڑوں میں تقسیم کرکے مصرع ترتیب دیے گئے ہیں (تاروں بھری رات) بعد میں حلقۂ اربابِ ذوق کے شاعروں اور ترقی پسند شاعروں نے آزاد نظم اور نظم معریٰ کے جو تجربے کیے، ان سے بہت پہلے عبدالحلیم شرر، نظم طباطبائی اور نادر کاکوروی اور اُن سے بھی بہت پہلے اسمٰعیل میرٹھی ان راہوں سے کانٹے نکال چکے تھے۔ پروفیسر نارنگ ساہتیہ اکادمی کے زیراہتمام ایک سمینار میں صدارت کررہے تھے جس کا انعقاد اسمٰعیل میرٹھی کے انتقال کے سو برس مکمل ہونے پر کیا گیا تھا۔
پروفیسر گوپی چند نارنگ نے آگے کہا کہ بچوں کی کتابیں اسمٰعیل میرٹھی جیسی کسی نے نہیں لکھی اور وہ بچوں کے ادیب کی حیثیت سے مشہور ہوگئے جبکہ انھوں نے دیگر موضوعات پر بھی بے شمار نظمیں کہی ہیں۔ اس سے قبل اردو مشاورتی بورڈ کے کنوینر چندربھان خیال نے تمام مہمانوں کا تعارف کرایا اور اسمٰعیل میرٹھی کی شاعری اور شخصیت پر مختصر روشنی ڈالی۔ ساہتیہ اکادمی کے سکریٹری ڈاکٹر کے سری نواس راؤ نے اپنی استقبالیہ تقریر میں کہا کہ اسمٰعیل میرٹھی ایسے شاعروں میں ہیں جنھوں نے اردو نظم کو نیا چہرہ، نیا لباس اور نئی فکر عطا کی۔ ساہتیہ اکادمی نے اپنی ذمہ داری کو محسوس کرتے ہوئے اُن پر اس سمینار کا انعقاد کیا ہے۔ اس سے پہلے اسمٰعیل میرٹھی پر ایک مونوگراف بھی اکادمی شائع کرچکی ہے۔
کلیدی خطبہ پیش کرتے ہوئے ممتاز دانشور اور تنقیدنگار حقانی القاسمی نے اسمٰعیل میرٹھی کی شاعری اور اُن کی شخصیت کے مختلف گوشوں کو اُجاگر کرتے ہوئے بتایا کہ وہ ایسے شاعر واقع ہوئے ہیں جنھوں نے مکمل طور پر روایت سے انحراف کرکے اردو نظم میں فکر، ہیئت اور لفظیات کی سطح پر نئی راہیں نکالی، نئے تجربات کیے اور نئی نسل کے لیے ایک نئی راہ اس میدان میں ہموار کیے۔
سمینار کے پہلے اجلاس کی صدارت پروفیسر شافع قدوائی نے کی۔ اس اجلاس میں نندکشور وکرم نے ’بچوں کے شاعر : اسمٰعیل میرٹھی‘، ف س اعجاز نے ’ادب میں اسمٰعیل میرٹھی کا مقام‘ اور ریاض احمد نے ’اردو کی ابتدائی درسیات اور اسمٰعیل میرٹھی‘ کے عنوانات سے اپنے اپنے مقالے پیش کیے۔ پروفیسر شافع قدوائی نے کہا کہ پچھلی نسلوں نے پڑھنا لکھنا اسمٰعیل میرٹھی سے سیکھا۔ وہ پہلے ادیب تھے جنھوں نے قواعد کی جانب اور تخلیقی زبان کو کیسے پڑھا جائے اس جانب توجہ دی۔ دوسرے اجلاس کی صدارت پروفیسر شہزاد انجم نے کی جبکہ فاروق ارگلی، جمیل اختر اور دانش الٰہ آبادی نے اپنے مقالات پیش کیے۔ اس سمینار کے دوران یہ بات شدت سے محسوس کی گئی کہ اسمٰعیل میرٹھی کو اردو ادب کی تاریخ میں وہ مقام نہیں دیا گیا جس کے وہ مستحق ہیں۔ نئی نسل نے سوال اٹھایا کہ آج اردو دنیا اسمٰعیل میرٹھی کو کیوں فراموش کرچکی ہے۔ سمینار میں دہلی و اطراف کے اردو زبان و ادب سے تعلق رکھنے والے افراد کے علاوہ کثیرتعداد میں ریسرچ اسکالرز موجود تھے۔ سمینار کی کامیابی کے لیے سبھی نے محمد موسیٰ رضا اور ساہتیہ اکادمی کے دیگر کارکنان کو مبارکباد پیش کی۔

Leave a Comment