اسکول کی سماجی حیثیت: ایک تجزیاتی مطالعہ

\"\"
ڈاکٹر محمد فیروز عالم

E-Mail: firozmimt@rediffmail.com

تعلیم کا مطلب بچے کی ہمہ جہتی نشوونما ہے جو ملک و سماج کی تعمیر و ترقی میں ایک فعال اور مثبت کردار ادا کرسکے، اس کے لیے تعلیمی نظام اور نصابِ تعلیم کا چست و درست اور وقت کے تقاضے کے مطابق تشکیل دینا لازمی ہے، جس میں مقاصد کا تعین واضح ہو۔ مزید برآں نصابِ تعلیم کتاب مرکوز کی بجائے طفل مرکوز ہونا از حد ضروری ہے، ساتھ ہی بچے کی مہارت و دلچسپی کا لحاظ رکھنا بھی ضروری ہے۔ نیز بچے کو اسکول، گھر سے اچھا لگے اور اساتذہ والدین سے زیادہ پسندیدہ۔ کاؤنسلنگ اور گائڈنس کا معقول انتظام ہو۔ اساتذہ، والدین و گارجین اور طلبا کے درمیان تال میل، مثبت افہام و تفہیم اور فعال شرکت ہو۔ اس کے علاوہ اسکول کے گردوپیش کا ماحول فطری ہو، جہاں فکر کی آزادی ہو، کتابیں بوجھ نہ محسوس ہو، سیاسی نظریات و افکار کے پڑے ہو، نیز سیکولر تعلیم و اقدار کی بندوبست ہو۔معاشی اور روزگار کے مواقع فراہم ہوں، اونچ نیچ، مذاہب و عقائد اور امتیازی سلوک کی تفریق نہ ہو۔ مساوات کی تعلیم دی جارہی ہو۔ قوم و ملک اور سماج و معاشرے کی ذمے داریاں نسل نو کے شانوں پر عاید ہوتی ہیں، لہٰذا اس کی تعلیم و تربیت اسی نہج پر ہونی چاہیے۔

اسکول سماج کا ایک حصہ ہے۔ معلم ، متعلم اور والدین اسی غیر مساوی اور درجہ بند سماج کی دین ہیں۔اسکولوں کو اس سے مستثنیٰ نہیں رکھا جا سکتا۔سماج بھی تعلیمی نظام کے ارتقا میں ایک معنی خیز رول ادا کرتا ہے۔سماجی و ثقافتی عناصر اور سیاسی و معاشی حالات، تعلیمی اداروں ، ان کے اغراض و مقاصد اور نصابی ترقی کا تعین کرتے ہیں۔

سماج کا اثر تعلیمی عمل میں :

سماجی و ثقافتی اثر:    کسی بھی سماج کی تعلیم براہ راست اس کے سماجی و ثقافتی عناصر سے متعلق ہوتا ہے۔تعلیم کا عمل اس کے سماجی خاکے، سماجی اصول اور اقدار ی نظام سے مرتب ہوتا ہے۔اس طرح اسکول موجودہ تہذیبی ورثے کو ایک نسل سے دوسری نسل تک لے جانے کے لیے ایک انسانی سماج کی تخلیق کرتا ہے۔غیر رسمی طور پر سماجیات ایک عمل ہے جس کے ذریعے معاشرہ اپنے افراد کو سماج کے اصول و اقدار کے بارے میں تعلیم یافتہ بناتا ہے ۔ روایتی طور پر تعلیم مذہبی اداروں کے ذریعے دی جاتی ہے جیسے عیسائی مشنریاں، اسلامی مدارس اور دیگرمذہبی ادارے۔ یہ ادارے مذہبی اعتقادات کی تعلیم اور ان کی پیروی پر زور دیتے ہیں۔اس تعلیمی اور سماجیاتی عمل میں ہم بھی اپنے سماج کے تعصب و تفاوت جیسے درجہ بندی،ترتیب مدارج، موروثی عدم مساوات کی ترسیل کرتے ہیں۔ نئی نسل میں طبقہء اشرافیہ کی ثقافت کا غلبہ، جنسی تفاوت اور دیگر سماجی و ثقافتی خصائص کی بھی ترسیل ہوتی ہے ۔فرانسیسی ماہر سماجیات پیئررے بورڈیو کا خیال ہے کہ تعلیم اونچے طبقے کی تہذیب کو مداومت بخشتی ہے۔ اس مظہر کو اس نے ’تہذیب کی نئی پیداوار‘ سے تعبیر کیا ہے۔اسی طرح سے پاؤلو فیریئرکامشاہدہ ہے کہ تعلیمی عمل، تعلیمی طریق کارِ اور زبان حاکم و محکوم کے مابین ایک فرق پیدا کرتی ہے۔ آج زیادہ تراسکولوں کا کردار، بحیثیت اسکول ایک اخلاقی ذمہ دار لوگوں کو کسی ایک پیشے کے لیے تیار کرناہے۔اسکول کو کسی بھی سوسائٹی کے اونچے طبقے کا ماتحت نہیں ہونا چاہئے۔

معاشی پہلو:            تعلیم اور مساوات دستورِ ہند کا بنیادی حق ہے۔پھر بھی یہ تیزی کے ساتھ واضح ہو رہا ہے کہ موجودہ معاشی صورت حال میں مساوات کا حصول بے حد مشکل ہو رہا ہے۔معاشی عمل امیر وغریب کے مابین بہت زیادہ فاصلہ پیدا کر رہا ہے۔ایپل(Apple)2004کے مطابق معاشی پیداوارکے ساتھ کچھ اہم معلومات مربوط ہیں، ہندوستان کے سیاق و سباق میں تعلیمی شعبوں میں پیشہ ورانہ کورسز جیسے انجینیرنگ، میڈیکل ، ایم سی اے، ایم بی اے اور دیگر اپلائد کورسز کا بازار میں حد درجہ مطالبہ ہے۔ اس اعتبار سے سماجی معیشت ایک اہم عنصر ہے جو کسی بھی علاقے کی انسانی اور تعلیمی ترقی کے نفاذ پر گہرا اثرڈالتا ہے۔کارل مارکس کا خیال ہے کہ معاشرے میں غلبہ اور طاقت حاصل کرنے کے لیے معیشت بنیادی جزو ہے۔مزید برآں تعلیمی نظام بھی معاشرے کے اونچے طبقے کے جائز کنٹرول میں ایک اہم رول ادا کرتا ہے۔ اس اعتبار سے کنٹرولِ معیشت  دولت تو پیدا کرسکتی ہے مگر تعلیمی طاقت ہی اسے پائیدار اور معاشرے میں قانونی حیثیت دلاسکتی ہے۔

سیاسی حالات اور ان کااثر:        مملکت کی نوعیت، سیاسی پارٹیاں، ان کے نظریات اور پالیسیاں تعلیمی نظام نیز سماج میں رہنمائی کرتی ہیں۔ جمہوری ممالک جمہوری تعلیمی نظریے کے پابند ہو تے ہیں۔ جبکہ موروثی عدم مساوات اس طرح کے ممالک کی کمزوریاں ہیں۔یکساں اسکولی نظام کے مقاصد کو ہندوستانی جمہوریہ حاصل نہیں کررہا ہے۔تمام جمہوری ادارے سب کو تعلیم مہیا کرانے میں ناکام رہے ہیں۔خاص طور پر کمزور اور حاشیہ کے لوگ تعلیم کو مساوی طور پر حاصل نہیں کر پارہے ہیں۔ ان ریاستوں کی سماجیات یکساں تعلیمی نظام کا دعویٰ تو کرتی ہیں لیکن سیکولر تعلیم کے بجائے وہ اپنے سیاسی نظریوں کی تعلیم دیتی ہیں۔USSRکی کمیونسٹ حکومت اور جرمنی کی نازی سوشلسٹ اصول اس کی دو بہترین مثالیں ہیں۔1933میں ،نازی جرمن تعلیمی نظام کے تحت،اسکولوں کو بلاتردد بچوں کو نازی عقائد کو فروغ  دینے کے لیے ڈیزائن کیاگیا تھا۔ اسی طرح USSRنے 1917کے بعد اپنے کمیونسٹ ایجنڈا  کے فروغ کے لیے تعلیم کو ذریعہ بنایا جس کی وجہ سے تعلیمی ادارے تلاش حق کے بجائے سیاسی سماجیات کا اڈا بن گئے۔

متذکرہ بالا عوامل کا تعلیمی نظام اور اس کے ارتقا پر گہرے اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ ان تینوں عوامل کے علاوہ سوسائٹی کی تاریخیت، جغرافیائی سیاق اور دیگر پیچیدگیاں بھی براہ راست تعلیمی عمل اور ہمہ جہت معاشرے کی ترقی پر اثرانداز ہوتی ہیں۔ان اثرات کے باوجود،قابلیت اور مختلف خاندانی پس منظر میں بچے مساوی احترام کاحقدار ہوناچاہئے ،اسکولی طبقے میں مساوی ممبر شپ کے قابل ہونا چاہئے اور اپنی انوکھی صلاحیت کے اظہار کے لیے مساوی اہل ہونا چاہئے ہیں۔مذکورہ باتوں کا جب لحاظ رکھا جائے گا تب ہی ممکن ہے کہ اسکول سے فارغ التحصیل بچہ ملک، سماج اور قوم کے لئے سود مند ثابت ہوگا، اور قوم و ملک کی تعمیر و ترقی میں فعال اور مثبت حصے دارے بنے گا۔

Leave a Comment