افسانہ۔میرا کام تیرے نام

\"\"
٭ڈاکٹر مشتاق احمد وانی

منّور چتر ویدی مظلومؔکی پُروقار شخصیت نئی اور پُرانی نسل کے لوگوں کے لیے پُل کی حیثیت رکھتی ہے ۔پُرانے طرز کے لوگ اور ان کے ہمعصر ان کی صداقت پسندی،خوش مزاجی،صبر وتحمل ،گوشہ نشینی اور ذہا نت کو دیکھ کے خوش ہوتے ہیں اور نئی پود ان سے صرف فائدہ اٹھاتی ہے ۔وہ دیہات کے پُر سکون ماحول میں پلے بڑھے ہیں اور شہر کے چکا چوند ماحول میں تعلیم وتربیت اور ملازمت کے سلسلے میں زندگی کا بیشتر حصہ گزار چکے ہیں ۔وہ زندگی کی ستّربہاریں دیکھ چکے ہیں لیکن تندرست وتوانا ہیں ۔ان کی صحت کا راز ان کی اچھی عادتوں میں مضمر ہے ۔تین بھائیوں میں وہ سب سے زیادہ شریف اور ذہین ہیں ۔ان کی کوئی بہن نہیں ہے ۔والدین سیدھے سادے اور عمر رسیدہ ہیں ۔منّور چتر ویدی کے ابّامعمولی درزی تھے۔اور وہ خودایک ہائی اسکول کے ہیڈ ماسٹر کی پوسٹ سے کافی عرصہ پہلے سبکدوش ہوچکے ہیں۔علم وادب کا شوق ان میں جنون کی سی صورت اختیار کر چکا ہے۔اس عمر میں بھی لکھتے پڑھتے رہتے ہیں ۔وہ ایم اے انگریزی،ایم اے اردو اور ایم اے ہندی ہیں ۔علاوہ ازیںقرآن وحدیث کی مکمل واقفیت کے ساتھ چاروں ویدوں کے بارے میں بھی اچھی جانکاری رکھتے ہیں اور پھر اتنا ہی نہیں بلکہ ہندی اور سنسکرت کے سیکڑوں شلوک انھیں ازبر ہیں ۔محققانہ اور ناقدانہ صلاحیتوں کے ساتھ ساتھ شاعرانہ مزاج کے حامل ہیں اور بہت اچھی شاعری کرتے ہیں ۔ماہر علم عروض ہیں ۔فصاحت وبلاغت اور علم بیان وعلم معانی سے پوری طرح واقف ہیں ۔ان کے گھر کا ماحول بہت خوشگوار ہے ۔ان کی بیوی خوب صورت ہونے کے ساتھ خوب سیرت بھی ہے۔وہ ایم اے سوشیالوجی ہے لیکن ملازمت نہیں کرتی۔ان کے دو بیٹے اور ایک بیٹی ہے۔ایک خوشحال گھرانے میں منّور چتر ویدی زیادہ تر اپنا وقت تلاوت کلام اللہ شریف اور لکھنے پڑھنے میں صرف کرتے ہیں ۔زندگی کی تلخیوں کا زہر پیتے پیتے بہت زیادہ شیریں مزاج ہوگئے ہیں ۔ایک پُروقار اور مرنجان مرنج شخصیت ہیں ۔ایک روز ان کے گہرے دوست اشرف حیا ت نے ان سے پوچھا
’’یار منّور۔۔۔آپ کی شاعری میں مجھے آفاقیت اور حیات وکائنات کی حیران کن صداقتیں نظر آتی ہیں ۔آپ کی غزلیں، نظمیں ،قطعات اور رباعیات پڑھتا ہوں تو دل تھام کے بیٹھ جاتا ہوں ۔لیکن آپ مشاعروں میں اپنا کلام نہیں پڑھتے ۔صرف معیاری رسائل وجرائد میں چھپتے ہیں ۔کیا وجہ ہے ؟مشاعروں میں اپنا کلام کیوں نہیں سناتے ؟‘‘
منّور چتر ویدی لمحہ بھر کے لیے خاموش رہے اور پھر مسکراتے ہوئے کہنے لگے
’’میرے دوست۔۔۔میں مشاعروں میں جاتا ضرور ہوں لیکن کلام نہیں پڑھتا ۔اس لیے کہ مشاعروں میں زیادہ تر متشاعروں کی بھیڑ ہوتی ہے ۔جنھیں شاعری سنانے کاشوق تو ہوتا ہے لیکن شاعری کی باریکیوں سے واقف نہیں ہوتے ۔جب کوئی اچھا شاعر اپنا کلام پڑھتا ہے تو میں متاثر ہوتا ہوں لیکن جب بے وزن اور بے سلیقہ شاعری سنتا ہوں تو مایوس ہوجاتا ہوں ‘‘
اشرف حیا ت نے اپنی معلومات کے لیے دوسرا سوال پوچھا
’’اچھا یہ بتایئے کہ آپ نے اپنا تخلص مظلوؔم کیوں رکھا ہے؟مجھے تو یہ عجیب سا تخلص معلوم ہوتا ہے ۔اکثر میں رسائل میں منّور چتر ویدی مظلوم ؔ پڑھتا رہتا ہوں ‘‘
’’اشرف۔۔یار !مجھے اپنے نام کے ساتھ بطور تخلص مظلوم ؔ لکھنا بہت اچھالگتا ہے کیونکہ میں نے سنا ہے مظلوم کی آہ اور خدا کے درمیان کوئی بھی پردہ حائل نہیں ہوتا ہے اور یہ بھی کہ مظلوم کی دعا کبھی بھی رد نہیں ہوتی اور پھر تخلص میں کیا رکھا ہوتا ہے ۔اصل تو کلام ہے‘‘
اشرف حیات خاموش بیٹھے رہے ،نہ معلوم کس سوچ میں پڑ گئے تھے۔لگتا تھا وہ ان کی باتوں سے متفق ہیں ۔
منّور چتر ویدی نے سکوت توڑا کہنے لگے
’’میرے بارے میں اور کوئی بات جو آپ مجھ سے پوچھنا چاہتے ہوں؟‘‘
اشرف حیا ت نے اثبات میں سر ہلاتے ہوئے کہا
’’ہاں ایک اور اہم بات پوچھنا چاہتا ہوں وہ یہ کہ آپ کی زندگی مجھے آج تک صراط مستقیم پر گزری ہوئی معلوم ہوتی ہے اور پھر آپ کی قابلیت اور ذہانت نے مجھے حیرت میں ڈال دیا ہے۔آپ ایم اے انگریزی،ایم اے اردو اور ایم اے ہندی ہیں ۔اس کے علاوہ چاروں وید آپ پڑھ چکے ہیں ۔ایک دیدہ ور نقاد اور اعلیٰ پائے کے محقق ہونے کے ساتھ ایک ممتاز شاعر بھی ہیں ۔یہ سب امتیازی صفات آپ کے کس طرز عمل اور طرز فکر کا نتیجہ ہیں‘‘
منّور چتر ویدی مظلومؔ نے اپنا سر کھجلاتے ہوئے کہا
’’میں نے میرے یار !زندگی کے ہر لمحے کی قدر کی ہے ۔خدائی ضابطوں پر زندگی کا سفر طے کرتا آیا ہوں ،محنت ولگن اور ذوق وشوق سے ہر اچھا کام کرتا ہوں ۔میں نے یہ راز بہت پہلے جان لیا ہے کہ اچھائی گلاب کے پھول کی مانند ہوتی ہے اور بُرائی ببول کے کانٹے کی طرح ۔میں یہ بھی جانتا ہوں کہ دنیا کے تمام علوم وفنون ،مذاہب اور فکر وفلسفے آدمی کو اپنے اندر انسانی اوصاف پیدا کرنے کی تعلیم دیتے ہیں اور ایک خاص بات یہ کہ میں نے اپنے دل کاآنگن ہمیشہ صاف ستھرا رکھا ہے۔کسی بھی بُرے خیال کو ذہن ودل میں آنے نہیں دیا ہے ‘‘
اشر ف حیا ت منّور چتر ویدی مظلومؔکی ذہن کُشا باتیں سن کر مطمین ہوئے اور کہنے لگے
’’بہت اچھا۔۔۔آپ کی باتوں میں واقعی دم خم ہے۔آپ نیک اعمال کی ایک مجسّم صورت ہیں اور قابلیت کا جیتا جاگتا نمونہ!‘‘
منّور چتر ویدی مظلوؔ م نے اظہار تشکّر الٰہی کیا کہنے لگے
’’میرے دوست ۔یہ سب اللہ کا کرم ہے ۔مجھے تواپنے آپ میں کوئی ایسی خوبی نظر نہیں آتی جس پہ خوش ہوا جائے ۔ویسے یوں بھی ایک آدمی اپنے آپ کے بارے میں کوئی حتمی رائے قائم نہیں کرسکتا ۔البتہ میں نے آج تک غرور وتکبّر،انانیت،خود نمائی وخود ستائی کی بدبو کو اپنے وجود میں داخل نہیں ہونے دیا ہے۔مجھے نہ تو ستائش کی تمنّا ہے اور نہ صلے کی پرواہ۔اسی لیے مجھے جگہ جگہ شہرتوں کا کشکول لیے پھرنے کی عادت نہیں ہے‘‘
اشرف حیا ت منّور چتر ویدی مظلومؔ کی ہوشربا باتیں سن کر بہت متاثر ہوئے ۔ان کاچہرہ نکھر گیا بولے
’’ارے یار۔۔۔!کیا بات ہے!آپ کی ہر بات مجھے پسند آئی ۔بہت خوب ۔اللہ ہمیں سلامت رکھے ہر بلا سے۔اچھا تو اب میں چلتا ہوں ۔خدا حافظ ‘‘
منّور چتر ویدی مظلومؔنے کہا
’’یار ۔۔کیا آج میرے غریب خانے پہ نہیں ٹھہرو گے؟‘‘
’’انشا اللہ پھر کبھی‘‘یہ کہتے ہوئے اشرف حیا ت اپنے گھر چلا گیا ۔
ایک روز منّور چتر ویدی مظلومؔ اپنے گھر کے آنگن میں بیٹھے کلام اقبالؔ کی تقطیع کررہے تھے کہ ان کے گیٹ پہ کو ئی اجنبی آدمی دستک دینے لگا ۔شکل وصورت سے کوئی ستائس برس کا نوجوان معلوم ہورہا تھا ۔وہ اٹھے گیٹ کھولا ۔اجنبی آدمی نے انھیں سلام کیا ۔انھوں نے سلام کا جواب دیا ۔منّور چتر ویدی مظلومؔنے اس اجنبی آدمی کو اندر آنے کی اجازت دی اور اسے پوچھنے لگے
’’بیٹا !آپ کا نام ومقام ؟‘‘
’’جی میرا نام خلیل خوشحال ہے ۔میں بھی اسی شہر نگاراں کا رہنے والا ہوں ۔آپ سے ملنا چاہتا تھا ،کیا آپ ہی منّور چتر ویدی مظلوم ؔہیں ؟‘‘
’’ہاں میں ہی منّور چتر ویدی مظلوؔم ہوں ۔کہیے میرے لائق کیا حکم ہے ؟‘‘
’’میرے محترم المقام! میں حکم نہیں کرسکتا ،عرض کرنا چاہتا ہوں ، وہ یہ کہ مجھے شاعری کا بہت شوق ہے ۔آپ کو اپنا استاد بنانا چاہتا ہوں ۔میں کچھ غزلیں لکھ کے لایا ہوں ۔اگر آپ کے پاس وقت ہوتو میری غزلوں کو دیکھیں ۔میں خوشحال ؔ تخلص کرتا ہوں ‘‘
منّور چتر ویدی مظلومؔ ،نوجوان خلیل خوشحال کی باتیں سن کر خوش ہوئے کہنے لگے
’’اچھا ۔۔۔!آپ شاعری کرتے ہیں ۔۔۔!ہاں میں ابھی آپ کی غزلیں پڑھتا ہوں ۔آیئے آپ ادھر بیٹھیے‘‘
انھوں نے بڑے ادب اور اپنائیت کے ساتھ اسے ڈرائنگ روم میں بٹھایا ۔اس کے لیے چائے پانی منگوایا ۔چائے پینے کے بعد خلیل خوشحال کی غزلیں دیکھنے لگے ۔وہ دس غزلیں لکھ کے لایا تھا ۔انھوں نے بڑے دھیان وتوجہ کے ساتھ خلیل خوشحال کی پانچ پانچ اشعار پہ مشتمل دو غزلوں کو پڑھنے کے بعد اسے کہا
’’بیٹا۔۔۔!آپ کی یہ غزلیں وزن وبحر سے خارج ہیں ۔مصروں میں آپسی ربط نہیں ہے ۔آپ کے پاس شعری زبان ہے نہ خیال کی بلندی۔مجھے لگتا ہے آپ کی طبعیت شاعری کے لیے موذوں نہیں ہے۔شاعری میں وزن وبحر کی پابندی بنیادی چیز ہے ۔بلکہ اگر یوں کہا جائے کہ شاعری نام ہے وزن وبحر کا تو بے جا نہ ہوگا ‘‘
خلیل خوشحال کے چہرے پہ مایوسی کے آثار ابھر آئے ۔اس نے منّور چتر ویدی مظلومؔکی ٹھوڑی پکڑتے ہوئے کہا
’’مجھے شاعری کا بہت شوق ہے !برائے کرم میری ان غزلوں کی اصلاح کیجیے۔تاکہ یہ کسی معیاری رسالے میں چھپنے کے لائق بن سکیں اور میں کسی مشاعرے میں داد بٹور سکوں ۔آپ کو آج کے بعد اپنا محسن ومربّی تسلیم کرتا ہوں ‘‘
منّور چتر ویدی مظلومؔکی سرشت میں بہت زیادہ شرافت اور حلیمی کا مادہ موجود تھا وہ کہنے لگے
’’ارے بیٹے! کوئی بات نہیں ۔مجھے لگتا ہے یہ غزلیں مجھے خود ہی لکھنی پڑیں گی۔آپ انھیں میرے پاس چھوڑ دیجیے اور کچھ دنوں کے بعد آکے انھیں لے جائیے‘‘
خلیل خوشحال خوش ہوگیا ،بولا
’’جناب مہربانی آپ کی‘‘
ایک ہفتے کے بعد جب خلیل خوشحال ،منّور چتر ویدی مظلومؔ کے گھر پر آیا تو وہ اس کی غزلوں کو نئے سرے سے لکھ چکے تھے ۔انھوں نے اسے غزلیں سونپیں تو خلیل خوشحال نے اپنی جیب میں ہاتھ ڈالا اور اس بار اُس نے بیس غزلیں اصلاح کے لیے لائی تھیں ۔اس نے بڑی عاجزی سے کہا
’’میںبڑا خوش نصیب ہو ں کہ آپ جیسے بلند پایہ شاعر کی شاگردی میں آگیا ہوں ‘‘یہ کہتے ہوئے اس نے منّور چتر ویدی مظلو مؔ کو اپنی غزلیں پکڑادیں ۔انھوں نے کہا
’’بیٹا ۔۔۔!میں آپ کے شوق کی قدر کرتا ہوں ۔لیکن میں یہ بات وثوق سے کہتا ہوں کہ آپ کی طبعیت شاعری کے لیے موذوں نہیں ہے ۔بیٹا شاعر ی کھیل نہیں جسے کوئی بچّہ کھیلے ۔میرا آپ کو یہ مشورہ ہے کہ شاعر ی کے بدلے نثر میں لکھیے ۔بہتر رہے گا‘‘
خلیل خوشحال نے کہا
’’نہیں۔۔۔میرے محترم ۔۔۔۔نہیں ! ۔۔۔ کوئی افسانہ،ناول، ڈراما یا کوئی تحقیقی وتنقیدی مضمون لکھنا بہت مشکل ہے اور فائدہ کچھ بھی نہیں ۔شاعری میں اچھا معاوضہ ملتا ہے ۔ میں نے مشاعروں میں اکثر شاعروں کو پانچ اشعار کی غزل سنانے کے بدلے میں دو ڈھائی ہزار روپے بلکہ اس سے بھی زیادہ ملتے دیکھا ہے اور کھان پان الگ ‘‘
منّور چتر ویدی مظلومؔ نے خلیل خوشحال کی باتیں سنیں تو ایک ٹھنڈی آہ بھر کے رہ گئے پھر اسے پوچھنے لگے
’’کیا کوئی مشاعرہ ہونے جا رہا ہے ریاستی یا ملکی سطح پہ؟‘‘
’’جی ہاں ریاستی سطح کا مشاعرہ ہونے جارہا ہے ۔میں نے کافی اثر ورسوخ لڑانے کے بعد اہل ثروت لوگوں کی سفارشوں سے اپنے نام کا اندراج کروایا ہے ۔مجھے بھی مشاعرے کا دعوت نامہ مو صول ہوچکا ہے‘‘
منّور چتر ویدی مظلومؔ نے بادل نخواستہ کہہ دیا
’’ارے مبارک ہوبیٹا!۔۔آپ کی ریاستی مشاعرے میں شرکت واہ کیا کہنے!‘‘
خلیل خوشحال نے منّور چتر ویدی مظلومؔ کے حوصلہ افزائی جملے سُنے تو خوش ہوگیا ۔کہنے لگا
’’میں اب مشاعرے کے بعد آپ سے اپنی غزلیں لوں گا‘‘یہ کہنے کے بعد وہ ان سے رخصت ہوگیا ۔
جب ریاستی سطح کا مشاعرہ شہر کے وسط میں ایک بہت بڑے اور عالیشان سرکاری ہال میں منعقد کیا گیاتومنّور چتر ویدی مظلومؔ بھی سامع کی حیثیت سے اس میںشریک ہوئے۔شام پانچ بجے کے بعد مشاعرہ شروع ہوا ۔ریاست اور بیرون ریاست کے شعراء اسٹیج پہ تکیہ لگائے اپنے شاعرانہ جذبات واحساسات کے اظہار کے لیے بے تاب بیٹھے تھے۔انہی شعرا کے درمیان میں خلیل خوشحال بھی پہلی بار ناظم مشاعرہ کی جانب ٹکٹکی لگائے بیٹھا دیکھ رہا تھا ۔ناظم مشاعرہ نے بڑے پُر لطف اور خالص ادبی وشعری انداز میں مشاعرے کی شروعات کا سماں باندھا ۔ایک ایک شاعر کو بڑے تعریفی وتوصیفی جملوں کے ساتھ متعارف کراتے ہوئے اپنا کلام سامعین کی نذر کرنے کو کہا ۔دیکھتے دیکھتے واہ واہ اور بہت خوب کی صدائوں سے سارا ہال گونجنے لگا ۔پانچ سینئر شاعروں کا کلام سننے کے بعد ناظم مشاعرہ نے خلیل خوشحال کو دعوت سخن دیتے ہوئے فرمایا
’’معزز ناظرین و سامعین ۔۔۔!اب میں ایک ایسے نوجوان شاعر کو دعوت سخن دے رہا ہوں جو شاعری کے گیسو سنوارنا چاہتا ہے ۔میری مراد خلیل خوشحال سے ہے ۔وہ آگے آئیں اور اپنے کلام سے سامعین کو محظوظ فرمائیں ‘‘
یہ سنتے ہی منّور چتر ویدی مظلومؔ کے دل ودماغ میں حیرت وتجسّس کی لہریں رقص کرنے لگیں ۔خلیل خوشحال نے مائک پہ پورے جوش وجذبے کے ساتھ منّور چتر ویدی مظلومؔ کے ہاتھ کی لکھی غزل برائے اصلاح اصل سنانا شروع کردی ۔پہلے ہی شعر پہ واہ واہ ! ارے کیا بات ہے! و اہ کمال کردیا ! کی صدائوں سے سارا ہال گونج اٹھا ۔بار بار شعر پڑھنے کی فرمائش کی گئی ۔خلیل خوشحال کو یوں محسوس ہونے لگا کہ وہ مشاعرے کی رونق بنتا جارہا ہے ۔اسے ہر شعر پہ بہت زیادہ داد ملتی چلی گئی ۔سب سے اگلی صف سامعین میں ایک شخص پورا شعر سنے بغیر ہی اُچھل اُ چھل کے داد دے رہا تھا ۔اسے دیکھ یوں معلوم ہورہا تھا کہ جیسے جنج بیگانی میں احمق ناچ رہا ہو ۔دیکھتے دیکھتے جب وہ ایک بار پھر داد دینے کے لیے اچھلا تو اسی وقت اس کی ٹائروں والی کرسی یکدم الٹ گئی اور وہ پکّے فرش پہ منہ کے بل گر گیا ۔اس کی ناک سے خون بہنے لگا ۔سب اس کی طرف دوڑ پڑے ۔چند آدمی اسے اسپتال کی طرف لے گئے ۔مسحور کّن مشاعرہ تھوڑے وقت کے لیے تھم سا گیا ۔ناظم مشاعرہ نے کہا
’’ایسا مسحور ومسرور کُن کلام مشاعرے میں نہیں سنایا جانا چاہیے کہ سامع اپنا ہوش ہی کھو بیٹھے ۔اس سے احتراز برتنے کی ضرورت ہے ‘‘
ہر شاعر اور متشاعر حیران تھا کہ یہ کم عمر شاعر کیا غضب کی شاعری سنا گیا ! اُدھر منّور چتر ویدی مظلوم ؔ بھی اپنی پوری شرافت کے ساتھ دل ہی دل میں بہت خوش ہورہے تھے۔ریاستی مشاعرے نے خلیل خوشحال کا حوصلہ بڑھا دیا تھا ۔وہ اپنی بے وزن غزلیں منّور چتر ویدی مظلومؔ کے پاس لاتا ۔وہ اسکی غزلوں کو درست کرکے اپنی شرافت اور دیانتداری کا ثبوت دیتے ۔ایک برس کچھ ماہ بعد جب درجنوں غزلیں خلیل خوشحال کے پاس جمع ہوگئیں تو اس کے دل میں اپنی شاعری کا مجموعہ چھپوانے کی امنگ پیدا ہوئی ۔شعری مجموعے کا کیا نام رکھا جائے اس سلسلے میں اس نے جب منّور چتر ویدی مظلوم ؔ سے پوچھا تو انھوں نے ’’سسکیوں کا سنگیت ‘‘نام تجویز کیا اور پھر ایک دن جب اس کا شعری مجموعہ کتابی صورت میں چھپ کے آگیا تو وہ خوشی کے مارے پھولے نہیں سمایا ۔پھر ایک دن وہ بھی آیا جب ’’سسکیوں کا سنگیت ‘‘ کی رسم رونمائی شہر کے ایک بڑے سیاسی رہنما کے ہاتھوں انجام دی گئی ۔سوشل میڈیا نے اس کی غزلوں کی کتاب اور اسے نمایاں کرنے میں کوئی کمی نہیں چھوڑی۔خلیل خوشحال کا شعری مجموعہ چھپنے کے بعد اسے اس بات کی خوشی ہورہی تھی کہ وہ جس بھی مشاعرے میں جائے گا ،وہاں اپنی شائع شدہ غزلیں پڑھے گا ۔’’سسکیوں کا سنگیت‘‘ادبی حلقوں میں کافی مقبول ہورہا تھا ۔خلیل خوشحال کو جانے انجانے لوگ فون پہ مبارک باد دیتے ۔اس کی شاعری کی تعریفوں کے پُل باندھتے ۔
دوسرے سال خلیل خوشحال کو قومی مشاعرے میں مدعو کیا گیا ۔اب اس کی شہرتوں کے شہپر کافی مضبوط ہوچکے تھے ۔اور پھر ایک دن ایسا بھی آیا جب اس نے بین الاقوامی مشاعرے میں شرکت کے لیے اُڑان بھری ۔یہ خبر سن کر منّور چتر ویدی مظلومؔ کو بہت ہنسی آئی۔حیرت سے آسمان کو تکنے لگے ۔ان کا دل خوشی سے جھوم اّٹھا ۔یہ سوچتے ہوئے کہ ’’سسکیوں کا سنگیت ‘‘میری شاعری ہے جو ریاستی اور ملکی سرحدوں کو پھلانگتی ہوئی اب بین الاقوامی مشاعری میں پڑھی جارہی ہے ۔
منّور چتر ویدی مظلوم ؔ علم واد ب بانٹنا کار خیر سمجھتے تھے۔انگریزی اور اردو کے ساتھ ساتھ انھیں ہندی پر بھی پورعبور حاصل تھا ۔جب کسی کے ساتھ انگریزی میں باتیں کرنے لگ جاتے تو معلوم ہوتا کہ وہ انگریز ہیں ۔لیکن جب اردو میں باتیں کرتے تو لگتا کہ جیسے ان کے منہ سے پھول جھڑ رہے ہوں اور جب ہندی بولنے والوں سے ملتے تو ٹھیٹھ ہندی میں باتیں کرتے۔ان کی ایک بہت بڑی کمزوری یہ تھی کہ وہ کسی کادل توڑنا یا کسی کے ارمانوں کو چکناچور کرنا بہت بڑا گناہ خیال کرتے تھے۔مارچ کا مہینہ تھا ،موسم بہار کی آمد آمد تھی۔ہریالی نے سر ابھارنا شروع کیا تھا اور پھلدار درختوں نے رنگین لباس پہن لیا تھا ۔منّور چتر ویدی مظلومؔاپنے گھر کی پھلواڑی میں بیٹھے برج نارائن چکبستؔ کی نظم ’رامائن کا ایک سین‘پڑھ رہے تھے کہ اچانک گیٹ سے ان کے دوست چونی لعل نے انھیں آواز دی۔
’’منّور۔۔۔۔!کیا حال ہے میرے بھیا۔۔اندر آنے کی اجازت ہے؟‘‘
منّور چتر ویدی مظلوم ؔکرسی سے کھڑے ہوگئے اور کہنے لگے
’’ارے ۔۔آیئے نا۔۔آپ کا اپنا گھر ہے ۔اجازت کاہے کو مانگے ہو!‘‘
چونی لعل گیٹ کے اندر آگئے۔ان کے ساتھ ان کا جوان بیٹا چھایا لعل بھی تھا۔چھایا لعل کے ہاتھ میں ایک فائل تھی۔منّور چتر ویدی مظلومؔاپنے دوست اور اس کے بیٹے کو دیکھ کے خوش ہوگئے۔دونوں کے درمیان ماضی وحال کے تذکرے شروع ہوگئے۔۔کچھ ہی وقت کے بعد ان کے لیے چائے پانی آگیا ۔چائے پینے کے بعد چونی لال نے کہا
’’میرے بھائی منّور۔۔۔!ہم دونوں زندگی کی پگڈنڈیوں پہ مشکل وقتوں میں ایک دوسرے کے ساتھ ساتھ چلے ہیں ۔میں آپ کو اپنا بھائی سمجھتا ہوں ۔ایک مسلہ آن پڑا ہے‘‘
انھوں نے اپنے بیٹے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔
’’یہ میرا بیٹا ہے چھایا لعل۔ہندی میں پی ایچ ڈی کرنا چاہتا ہے ۔میں نے اسے منع کردیا تھا کہ ایم اے ہندی ہو ۔اب آگے پڑھ کے کیا کرو گے۔کوئی کسب سیکھ لو یا اگر کوئی ملازمت مل جائے تو بہتر ہے ۔لیکن یار! یہ مانتا نہیں ۔ہندی میں پی ایچ ڈی کرنے پہ بضد ہے ۔پی ایچ ڈی کے لیے اس کا رجسٹریشن ہوچکا ہے اور اس کا ٹاپک ہے’’ہندی اپنیاس میں بھارتیہ ناری کا ستھان‘‘اس لیے اسے آپ کے پاس لایا ہوں کہ یہ کام بھی آپ ہی کوکرنا ہے ۔پانچ ادھیائے میں اس کاٹاپک بانٹا گیا ہے ۔منّور چتر ویدی مظلومؔ کواپنے گہرے دوست چونی لال کی باتیں سن کر یوں محسوس ہوا کہ جیسے منوں بوجھ ان کے کندھوں پہ آن پڑا ہو ۔ایک طر ف دوستی اور دوسری طرف سردردی۔۔۔!لمحہ بھر کے لیے گنگ ہوگئے ۔حیرت اور غم وغصے نے ان کے دل ودماغ میں ہتھوڑا چلانا شروع کردیا ۔مگر پھر نہ جانے کہا ں سے شرافت اور حلیمی آڑے آگئی ۔کہنے لگے
’’ارے۔۔۔!کوئی بات نہیں ۔تمہارے بیٹے کا مسلہ ،میرا ذاتی مسلہ ہے ۔بس اسے میرے ساتھ چوکنّا رہنا پڑے گا ۔میں اس ٹاپک پہ جو رسائل وجرائد اور کتابیں چاہوں گا ،وہ مجھے بروقت موصول ہونی چاہئیں ۔باقی میں سنبھال لوں گا ‘‘
چونی لال خوش ہوگئے بولے

’’بھگوان آپ کو سکھی رکھے!‘‘
منّور چتر ویدی مظلومؔنے چھایا لعل کا خاکہ دیکھا اور کہنے لگے
’’پی ایچ ڈی کے لیے یہ ٹاپک اچھا ہے ۔آپ چھایا لعل کو پانچ دن کے بعد میرے پاس بھیج دیجیے ۔میں اسے ہندی رسائل اور کتابوں کی فہرست بناکے دوں گا اور میںآہستہ آہستہ ایک ایک باب میں اس کی مدد کرتا رہوں گا‘‘
چھایا لعل کرسی سے کھڑا ہوگیا اور منّور چتر ویدی مظلومؔ کے پاوئں چھونے لگا ۔انھیں یہ دیکھ کے جھٹکا سا لگا بولے
’’ارے بیٹا۔۔! آپ یہ کیا کررہے ہیں؟‘‘
چھایا لعل نے کہا
’’انکل ۔۔!آپ تو دیوتا آدمی ہیں !مجھے دل ہی دل میں یہ چنتا کھائے جارہی تھی کہ میں پی ایچ ڈی کا تھیسس کیسے لکھوں گا ۔آپ نے مجھے ایک بھاری سنکٹ سے نکال دیا ‘‘
منّور چتر ویدی مظلومؔنے چھایا لعل کی پیٹھ تھپتھپائی کہنے لگے
’’ بیٹا خوش رہو سب ہوجائے گا ‘‘
چونی لال کرسی سے کھڑے ہوگئے ۔منّور چتر ویدی مظلوم ؔکو گلے لگایا اور کہنے لگے
’’بھائی منّور ۔۔!میرا بیٹا چھایا لعل آپ کے حوالے ہے ۔اب آپ جانو اور آپ کا کام جانے ۔ہمیں اجازت دو ہم چلتے ہیں ‘‘
پانچ دن کے بعد جب چھایا لعل منّور چتر ویدی مظلومؔ کے گھر پر آیا تو انھوں نے اسے پی ایچ ڈی ٹاپک سے متعلق درجنوں رسائل اور کتابوں کی فہرست پکڑادی۔وہ گیا اور ہندی پبلشروں سے کتابیں خریدیں،رسائل اکھٹے کیے اور منّور چتر ویدی مظلومؔ کے گھر پہنچا دیے۔منّور چتر ویدی مظلومؔ نے بڑی محنت اور ذہنی وجسمانی ورزش کے بعد تقریباّ ڈھائی برس کے اندر چھایا لعل کے لیے پی ایچ ڈی کا مقالہ تیار کردیا ۔اس
دوران چھایا لعل جب بھی منّور چتر ویدی مظلوم ؔکے گھر پر آتا تو کوئی نہ کوئی سوغات ان کے لیے ضرور لاتا ۔وہ اس سے خفا ہوتے رہتے ۔چھایا لعل نے اپنا پی ایچ ڈی کا مقالہ بائنڈنگ کے بعد یونیورسٹی میں جمع کرادیا اور زبانی امتحان کی تیاری میں لگ گیا ۔تین ماہ کے بعد جب اس کے زبانی امتحان کی تاریخ مقرر کی گئی تو وہبہت خوش ہوگیا اور پھر جس روز اس کا زبانی امتحان تھا تو ممتحن نے اسے نگران کے سامنے سب سے پہلے بہت زیادہ معیاری پی ایچ ڈی کا مقالہ لکھنے پر مبارک باد دی ۔لیکن جب ممتحن نے اسے مقالے سے متعلق سوالات پوچھنے شروع کیے تو اس کی زبان لڑکھڑانے لگی ۔وہ کچھ حواس باختہ ساہونے لگا ۔اس کے نگران نے اس کے لیے پانی کا گلاس منگوایا اور چھایا لعل کی حمایت میں کہنے لگا
’’دراصل میرا یہ اسکالر بہت شرمیلا ہے ۔جانتا سب کچھ ہے لیکن شرمیلے پن اور کم زبان ہونے کی وجہ سے بولتا کم ہے‘‘
کوئی بیس منت کی ملاقات رہی ہوگی۔ممتحن نے کہا
’’چلیے اسے پی ایچ ڈی کی ڈگری مبارک ہو ۔۔۔!‘‘
یہ سنتے ہی چھایا لعل کے چہرے کی کھوئی ہوئی رنگت لوٹ آئی!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Leave a Comment