٭ڈاکٹر مشاق احمد وانی
’’بیٹے……اک بار میری بات مان لے کامیاب رہے گا ۔میرے چار بیٹوں میں تُو سب سے زیادہ ضدی ہے ۔ضدی آدمی اکثر پریشان رہتا ہے ۔اب کی بار یہ تیرا تیرہواں انٹرویو ہے ۔یہ رشی ،مُنیوں اور پیغمبروں کا زمانہ نہیں ہے بلکہ آج کل کے دور میں تو ہرچیز اور ہر معاملہ با زاری ہوگیا ہے ۔تُو کئی برسوں سے اپنی ذہانت،محنت ،صلاحیت اور قابلیت کی بنیاد پر اپنا مقام ومرتبہ حاصل کرنا چاہتا ہے لیکن ہربار رشوت اور سفارش سے نالائق قسم کے لوگ اُونچے عہدوں پر فائز ہوجاتے ہیں ۔لہذا اس بار میری بات مان لے ‘‘
عادل کے ماتھے پہ اپنے باپ قمرالدّین کی باتیں سُن کر شکنیں سی اُبھر آئیں ۔باپ کے ادب واحترام کا خیال رکھتے ہوئے وہ بولا
’’پاپا……کیا آپ یہ نہیں جانتے کہ رشوت دینے اور لینے والا دونوں جہنمی ہیں ؟۔مجھے اللہ پہ کامل بھروسہ ہے کہ ایک دن ضرور مجھے میرا حق اللہ دلا دے گا کیونکہ اللہ کے ہاں دیر ہے اندھیر نہیں ‘‘
قمرالدّین اپنے بیٹے کی باتیں سُن کر رنجیدہ ہونے کے ساتھ ساتھ پشیماں بھی ہوئے اُن سے چپ نہیں رہا گیا کہنے لگے
’’ارے بیٹے اس طرح تُجھے سرکاری نوکری ملنے سے رہی ۔تیری شادی کہ عمر نکلتی جارہی ہے اورتُو عجیب قسم کی اُمید لگائے بیٹھا ہے۔میں تیری سرکاری نوکری کے لیے بینک سے سات لاکھ روپے قرض لے سکتا ہوں مگر تُو روپے دے کر نوکری خریدنے کے لیے تیار تو ہو‘‘
’’پاپا… بالکل نہیں ،میں کسی بھی صورت میں یہ بات ماننے کے لیے تیار نہیں ہوں‘‘
عادل یہ کہتے ہوئے گھر سے باہر نکل گیا ۔اُس کے دوست باہر کھڑے اُس کا انتظار کررہے تھے ۔وہ ہرروز چار بجے کے بعد اُن کے ساتھ شہر کے اسٹیڈیم میں کرکٹ کھیلنے جاتا تھا ۔وہ نہایت ذہین اور محنتی تھا ۔انفارمیشن ٹکنالوجی میں پی ایچ دی کے علاوہ نیٹ اور جے آر ایف کے امتحانات پاس کرچکا تھا ۔دس کتابوں کا مصنف تھا ۔امریکہ اور جرمنی میں اُس کی کتابوں پہ ریسرچ ہورہی تھی ۔متوسط گھرانے سے اُس کا تعلق تھا ۔عادل کے والد قمرالدّین ایک اسکول ٹیچر کی حیثیت سے رٹائر ہوچکے تھے ۔عادل کے تین بھائی اور دو بہنیں تھیں ۔تینوں بھائی سرکاری ملازم تھے اور بہنیں گریجویشن کرچکی تھیں ۔عادل سرکاری نوکری کے لیے پریشان تھا اور اُس کے ابّا اُ س سے اس بات پہ نالاں تھے کہ وہ وقت اور حالات کی نبض نہیں پہچانتا ہے ۔اب کی بار اُس نے پھر ایک یونیورسٹی کے شعبئہ انفارمیشن ٹکنالوجی میں اسسٹنٹ پروفیسر کی پوسٹ کے لیے فارم بھر اتھا ۔انٹرویو کارڈ گھر میں آچکا تھا اُس میں ضروری ہدایات کے علاوہ انٹرویو کی تاریخ ،وقت اور مقام درج تھا ۔عادل دن دُگنی رات چگنی محنت کررہا تھا ۔انٹرویو سے دودن پہلے اُس کے دل ودماغ پہ مقدر اور رشوت کی عجیب کشمش سوار ہوئی ۔انسان کو ڈھنگ ،طریقے اور اُصول وضابطوں کے مطابق جینا آئے تو زندگی ایک سُہانا سفر بن جاتی ہے اور جب فطری ضابطوں کی پرواہ نہ کرتے ہوئے انسان دُنیا میں جیتا ہے تو پریشان رہتا ہے ۔عادل اُصول پرست تھا ۔وقتی طور پر اگر چہ وہ سرکاری ملازمت کے لیے پریشان تھا لیکن اُس کا دل بہت حد تک مطمین بھی تھا ۔وہ یہ جانتا تھا کہ عیاری ،مکاری،غداری اور فریب کاری کی عمر لمبی نہیں ہوتی ہے ۔اُس نے سُن رکھا تھا کہ جس یونیورسٹی میں وہ اسسٹنٹ پروفیسری کا انٹرویو دینے جارہا ہے اُس یونیورسٹی کا شیخ الجامعہ نہایت ایماندار ،نیک سیرت،خوش اخلاق اور عدل وانصاف کا مالک ہے عادل نے اپنے تمام تعلیمی دستاویز ات ،اپنی تصانیف،انعامات واعزازات کی ایک طویل فہرست کو ترتیب سے رکھا اور دوسرے دن انٹرویو دینے چلا گیا ۔امیدواروں کی ایک خاصی تعداد وہاں موجود تھی سبجیکٹ کے ماہرین کس اُمیدوار سے کیا کچھ سوالات پوچھیں گے ؟ہر امیدوار اسی تشویش میں تھا اور جب کوئی امید وار انٹرویو ہال سے باہر آتا تو بقیہ اُمیدوار اُس کے ارد گرد جمع ہوجاتے ۔وہ اپنا حال بیان کرتا ۔کچھ کو تسلّی ہوتی اور کچھ پریشان ہوجاتے ۔جب عادل کا نمبر آیا
وہ خدا کا نام لے کر انٹر ویو ہال میں داخل ہوا۔شیخ الجامعہ ایک پُر وقار اور متین شخصیت معلوم ہورہے تھے ۔سبجیکٹ ماہرین کے علاوہ گورنر کی جانب سے بھی ایک مشاہدہ کار موجود تھا ۔پچاس منٹ تک عادل کا انٹر ویو ہوا ۔سبجیکٹ ماہرین شکل وصورت اور طرز تکّلم سے مومنانہ معلوم ہورہے تھے ۔اُس سے مشکل ترین سوالات پوچھے گئے جن کا اُس نے تسلّی بخش جواب دیا ۔اُس کی ذہانت ،قابلیت اور علمی استعداد سے تمام سلیکشن کمیٹی کے ممبران حیران اور مطمین ہوئے ۔کچھ دن کے بعد عادل کو یہ خوشخبری سُننے کو ملی کہ اُس کا سلیکشن ہوچکا ہے ۔وہ خوشی کے مارے پھولے نہیں سمایا ۔یہ اُس کی زندگی کا سب سے بڑا خوشی کا دن تھا ۔پورے خاندان کے لوگوں نے اُسے مبارک باد دینے کے ساتھ اُس کا منہ بھی میٹھا کروایا ۔موبائل فون ،واٹس ایپ اور فیس بُک پہ اُس کے کئی دوست واحباب نے اُس کی کامیابی پر خوشی کا اظہار کیا ۔پھر جس دن اُسے آرڈر موصول ہوا تو اُس کی ماں ہنستی مسکراتی ہوئی اُس سے جھپٹ کے گلے ملی لیکن عادل اس خوشی کے موقعے پر رواُٹھا ۔ماں اپنے لخت جگر کے آنسودیکھ کر متحیر کُن لہجے میں پوچھنے لگی
’’میرے جگر پارے، میری آنکھوں کے تارے! رونا کس بات کا؟یہ خوشی اور یہ آنسو!‘‘اتنے میں گھر کے تمام افراد آکے عادل کے آس پاس ششدر سے کھڑے ہوگئے ۔سب حیران عادل کو ٹکٹکی لگائے دیکھنے لگے ۔جب سب نے باری باری عادل سے اُس کے رونے کی وجہ پوچھی تو اُس نے کہا
’’مجھے اس بات پہ رونا آیا کہ اس دُنیا کے انٹرویو کے لیے مجھے کتنی مغز ماری کرنی پڑی ۔میں نے راتوں کی نیند حرام کی ۔انٹرویو ہال میں جانے سے پہلے مجھے یہ معلوم نہیں تھا کہ مجھ سے کیا کچھ سوالات پوچھے جائیں گے ۔انٹرویو کس تاریخ کو ہے اور کہاں ہے ۔یہ تو انٹر ویو کارڈ پہ درج تھا لیکن مجھ سے کیا کچھ سوالات پوچھے جائیں گے یہ نہیں لکھا تھا یہ سوچ کے بھی رونا آیا کہ مرنے کے بعد قبر میں جو انٹرویو شروع ہوگا وہ سوالات سب کو معلوم ہیں کہ جب فرشتے مجھ سے پوچھیں گے بتا تیرا رب کون ہے؟تیرا دین کیا ہے ؟اور تیرا نبی کون ہے ؟لیکن قبر کے انٹرویو کا وقت اور مقام کسی کو معلوم نہیں ۔مجھے قبر کی وحشت اور تاریکی یاد آئی ،فرشتے یاد آئے ۔دُنیا اور آخرت کا انٹرویو یاد آیا ۔ان تمام باتوں نے میرے اندرون کو ہلا کے رکھ دیا ‘‘
عادل کی باتیں سُن کر سب کے چہروں پہ مایوسی چھا گئی اور ہر ایک کو اپنی قبر کا انٹرویو یاد آگیا۔
……………
ڈاکٹرمشتاق احمد وانی
اسسٹنٹ پروفیسر اُردو
Lane No 3 House No 7 Firdousabad
Sunjwan Jammu(J&K)180011
Mobile No.9419336120