اقبال کی نظم’’فریاد امت‘‘:ایک جائزہ

٭ڈاکٹر محمد محسن
کروڑی مل کالج ، دہلی یونی ورسٹی
’’ فریاد امت ‘‘اقبال کے ابتدائی دور کی ایک مقبول نظم ہے جو انہوں نے انجمن حمایت اسلام کے اٹھارویں اجلاس میںیکم مارچ ۱۹۰۳ ء کو ’’ ابر گوہر بار ‘‘ کے نام سے پڑھی تھی۔ اس جلسے کی صدارت خان بہادر غلام احمد خاں نے کی تھی ۔ یہ نظم اقبال کے کسی شعری مجموعے میں شامل نہیں ہے ۔ البتہ اس کا صرف تیسرا بند ’’ بانگ درا‘‘ میں’’ دل ‘‘کے عنوان سے شامل ہے ۔ اس بند کے دس اشعار ہیں جن میں سے نو اشعار ہی’’ دل‘‘ میں شامل کئے گئے ۔ مندرجہ ذیل شعر کو اقبال نے اس بند سے نکال دیا :
کچھ اسی کو ہے مزا دہر میں آزادی کا
جو ہوا قیدی ٔ زنجیر پری خانہ ٔ دل
ہمیں یہ مکمل نظم ’’ باقیات اقبال ‘‘ میں ملتی ہے ۔ جس کے آغاز میں یوں لکھا ہے :
’’ یہ نظم لاہور کے ایک ناشر نے مندرجہ ذیل شذرہ کے ساتھ شائع کی تھی ۔
وہ مقبول نظم جو جناب ڈاکٹر شیخ محمد اقبال صاحب ایم ، اے نے قریباً ۱۳
سال ہوئے انجمن حمایت اسلام لاہور کے سالانہ جلسے میں ( تخیلاً بآ ستانہ ٔ
سرور کائنات خلاصہ ٔ موجودات ) عاشقانہ فریاد کے رنگ میں ابر گوہر بار
کے عنوان سے پڑھی تھی ۔ ازاں بعد ۱۹۱۳ء میں ( باجازت مصنف ) ’’
فریاد امت ‘‘ کے نام سے چھاپ دی گئی ۔ ‘‘
( باقیات اقبال ، مرتبہ سید عبدالواحد معینی ، ص۲۳)
جبکہ ڈاکٹر گیان چند نے اس نظم کی اشاعت کے بارے میں لکھا ہے کہ :
’’ یہ نظم اول ہفتہ وار وطن لاہور میں شائع ہوئی ۔ پہلی قسط ۲ مارچ ۱۹۰۳ ء کے پرچے
میں ، دوسری قسط ( غالباً دوسرے بند کے گیارھویں شعر سے ) ۲۰ مارچ کے شمارے
میں ، تیسری قسط آٹھویں بند سے آخرتک ۲۷ مارچ کے پرچے میں ۔ بعد میں یہ نظم
بیاض رزاق، احمد دیں ، رخت ، سرود ، نوادر اور باقیات میں ملتی ہے ۔‘‘
( ابتدائی کلام اقبال ، ڈاکٹر گیان چند ، ۱۹۸۸، ص۳۹۵)
یہاں یہ بات واضح ہو کہ اس نظم کو انجمن حمایت اسلام کے اجلاس میں پڑھے جانے کی تاریخ پر محقیقن میں اختلاف ہے ۔ لیکن سب سے آخر میںڈاکٹر گیان چند نے اس پر تحقیقی کام کیا ہے اس لئے ہم نے انہیں کی تاریخ کو مستند مان کر اس مضمون میں شامل کیا ہے ۔
نظم ’’ فریاد امت ‘‘ بارہ بندوں پر مشتمل ہے ۔ اس نظم میں اقبال نے امت ِ مسلمہ کی حالت زار کو موضوع بنایا ہے ۔ یہ وہ دور تھا جب اقبال جوان اور ان کے جذبات تازہ تھے ۔ اسلام سے انہیں گہرا عشق تھا اور ان کے اس عشق کی انتہا دیکھئے کہ پوری عمر یہ عشق ان کی شاعری اور نثر کا موضوع بنا رہا ۔ جہاں اتنا گہرا عشق ہوتا ہے وہاں اتنی ہی گہری فکر بھی ہوتی ہے ۔ علامہ اقبال کو عشق تھا اﷲاو ر اس کے رسول سے۔ اس کی ذات سے اور فکر تھی امت کی ۔ ایک وقت تھا جب محمد ﷺ نے کافروں کے ظلم کے سائے میں اسلام کی بنیاد رکھی تھی اور دنیا نے اس کو اپنایا ۔ کافروں نے اسلام کو مٹانے کے لئے ہزاروں سازشیں چلی تھیں مگر اسلام ان کے مظالم سے کبھی جھکا نہیں ۔ اس دور کے مسلمانوں کے اندر اتناجذبہ تھا کہ میدانِ جنگ میں نمازیں ادا کرتے ہوئے بھی گردنیں کٹوا دیتے تھے ۔ اسی جذبے نے بڑے بڑے ظالموں کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا اور دنیا کے کونے کونے تک اسلام پھیل گیا ۔ پھر ایک وقت آیا کہ دنیا میں بڑی بڑی حکومتیں وجود میں آئیں جن کا مقصد صرف دولت اکٹھا کرنا اور اپنی حکومت کو دنیا کے کونے کونے تک پھیلانا تھا ۔ ان کا خواب پوری دنیا کو فتح کرنا تھا ۔ انہوں نے کبھی عوام کی بھلائی کی طرف توجہ نہیں دی بلکہ ظالم بن کر مظلوم عوام سے خوب فائدہ اٹھایا ۔ اسلام نے اس طرح کے ظلم و جبر کے آگے جھکنا سختی سے منع کیا ہے اور اس ظلم کو ختم کرنے کے لئے جہاد کا حکم دیا ۔
علامہ اقبال کے عہد میں امت مسلمہ کا جذبہ ، بہادری ، وفاداری ، قربانیاں وغیرہ ماضی کا حصہ بن چکی تھیں ۔ یہ وہ دور تھا کہ دنیا کے کئی اسلامی ممالک پر انگریزی حکومت قابض ہوچکی تھی ،انگریز ، کفار اور غیر مسلم لوگ مسلمانوں پر روز بروز غالب آرہے تھے ۔ مسلمانوں کا پورے ہندستان پر تین سو سال تک قبضہ ہونے کے باجود بھی انگریزوں نے ان کا تختہ اکھاڑ پھینکا اور پھر مسلمانوں پر طرح طرح کی آفتیں ڈھائیں گئیں ۔ مسلمان خوف زدہ ہوکر ایسے بیٹھے کہ اسلام خطرے میں آگیا ۔
علامہ اقبال اسلام کے سچے عاشق تھے اور امت مسلمہ کہ یہ حالت انہیں برداشت نہیں ہوتی تھی ۔ وہ امت میں وہی جذبہ ٔ اسلام دیکھنا چاہتے تھے جس نے پوری دنیا کو فتح کرکے امن کا پیغام دیا تھا ، وہ اس سوئی ہوئی قوم کو جگانا چاہتے تھے ، وہ دنیا میں امن دیکھنا چاہتے تھے جو اسلام کی پہچان تھا ۔ اسی مقصد کو حاصل کرنے کے لئے انہوں نے قلم کو ذریعہ بنایا اور بے شمار تخلیقات پیش کی جن میں سے ایک نظم ’’ فریاد امت ‘‘ بھی ہے ۔
اس نظم کے پہلے بند میں علامہ اقبال نے اپنے عشق ِ الہیٰ کو بیان کیا ہے ۔ اس عشق میںوہ اس قدر محو ہیں کہ اﷲ کے لئے اپنی ہستی مٹانے کو بھی تیار ہیں ۔ دو اشعار ملاحظہ ہوں :
شوق نظارہ یہ کہتا ہے قیامت آئے
پھر میں نالوں سے قیامت نہ اٹھائوں کیونکر
میری ہستی نے رکھا مجھ سے تجھے پوشیدہ
پھر تری راہ میں اسکو نہ مٹائوں کیونکر
اقبال امت کی حالت ِ زار سے بے حد پریشان تھے ۔ ان کے اندریہ درد ٹھاٹھیں مارتا رہتا تھاجس کی وجہ سے اقبال ہمیشہ بے چین رہتے تھے ۔ وہ جہاں اس درد کو اس نظم میں پیش کرتے ہیں وہیں وہ اپنی مجبوری کا اظہار بھی کرتے ہیں کہ :
دور رہتا ہوں کسی بزم سے اور جیتا ہوں
یہ بھی جینا ہے کوئی جس سے پشیماں ہوں میں
وہ خود کو لاچار تصور کرتے ہیں کہ سوئی ہوئی امت کو جگانے کے لئے ان کے پاس کوئی ہتھیار نہیں ۔ ایک قلم ہے مگر اس کو کوئی سمجھنے کو تیار ہی نہیں اور یہی وجہ ہے کہ لوگ ان کی ملامت کرتے ہیں :
ہوں وہ مضمون کہ مشکل ہے سمجھنا میرا
کوئی مائل ہو سمجھنے پہ تو آساں ہوں میں
کوئی کہتا ہے کہ اقبال ؔ ہے صوفی مشرب
کوئی سمجھا ہے کہ شیدائے حسیناں ہوں میں
شاعر اپنی لاچاری کے اظہارکے بعد وہ اس مجبوری کے حل کا بھی بیان کرتا ہے ۔ علامہ قبال نے ہمیشہ دل کی اہمیت کو مانا بھی ہے اور اس کا اظہار بھی کیا ہے ۔ لہذا اس نظم میں بھی وہ دل کو تمام پریشانیوں کا حل قرار دیتے ہیں ۔ شاید اسی وجہ سے علامہ اقبال نے ’’ بانگ درا ‘‘ میں اس نظم کے صرف ایک بند کو ہی لیا ہے ، اور یہ وہ بند تھا جس میں دل کی اہمیت بیان کی ہے ۔ ان کے مطابق اگر دل کسی چیز کو شدت سے چاہے تو پھر انسان اس کو حاصل کئے بغیر کبھی چین سے بیٹھ نہیں سکتا :
حسن کا گنج گرانما یہ تجھے مل جاتا
تو نے فرہاد ! نہ کھودا کبھی ویرانہ ٔ دل
کچھ اسی کو ہے مزا دہر میں آزادی کا
جو ہوا قیدی ٔ زنجیر پری خانہ ٔ دل
علامہ اقبال امت مسلمہ کے دلوں میں جذبہ ٔ عشق کی شمع روشن دیکھنا چاہتے ہیں ۔
اس کے بعد اقبال امت کے موضوع پر آتے ہیں اور تمام مسائل کو ایک ایک کر کے گنواتے ہیں ۔ وہ پہلے اسلام کے سنہرے ماضی کو چھیڑتے ہیں اور بہترین مثالیں اور واقعات کو فخر سے بیان کرتے ہیں ۔ یہاں وہ اسلاف کی عظمت کی اہمیت بیان کرتے ہیں ۔ امت کے ماضی سے ان کو بے پناہ محبت تھی ، ایک مثال ملاحظہ ہو :
لطف دیتا ہے مجھے مٹ کے تری الفت میں
ہمہ تن شوق ہوائے عربستان ہونا
اسلام کی عظمت کے بیان کے بعد علامہ اقبال امت کی موجودہ صورت حال پر آتے ہیں ۔ وہ موجودہ مسلمانوں کے پست حوصلوں کو دیکھ کر جھنجھلا جاتے ہیں ۔ پھر ایک ایک خامی کا بیان کرتے ہیں اور اپنے درد کی فریاد کرتے ہیں ۔ یہاں مسلمانوں میں تعصب،نفرت، انتشار،بزدلی ، لالچ،بے حیائی ، ناقدری ، ملائوں کی غلط رہنمائی اور دقیانوسی باتوں پر خوب روتے ہیں ۔ ملاحظہ ہوں چند اشعار :
بغض اﷲکے پردے میں عداوت ذاتی
دین کی آڑ میں کیا کرتے ہیں کیا کہتے ہیں
جن کا یہ دین ہو کہ اپنوں سے کریں ترک سلام
ایسے بندوں کو یہ بندے ’’ صلحا‘‘ کہتے ہیں
بادۂ عیش میں سر مست رہا کرتے ہیں
یاد فرمان نہ تیرا نہ خدا کا کہنا
ہم نے سو بار کہا ہے ، قوم کی حالت ہے بری
پر یہ لوگ سمجھتے نہیں ہمارا کہنا
فرقہ بندی سے کیا راہ نمائوں نے خراب
ہائے ان مالیوں نے باغ اجاڑا اپنا
یہاں قوم کی حالت زار پر علامہ اقبال نے خوب افسوس جتایا ہے ۔انہیں یقین ہوگیا تھا کہ امت اب اس مقام پر پہنچی چکی ہے جہاں سے اس کا اٹھنا نہایت ہی مشکل ہوگیا ہے ۔ اب اٹھنے کے لئے ان کے پاس کو ئی چارہ نہیں ۔ ان کے دل بے حس ہوچکے ہیں ، حوصلے پست پڑے ہیں ، جذبہ ختم ہوچکا ہے مختصراً کوئی راستہ نہیں بچا ہے ۔ تب وہ امت کو جگانے کے لئے اﷲ سے دعا کرتا ہے ۔ چند اشعار ملاحظہ ہوں :
اس مصیبت میں ہے اک تو ہی سہارا اپنا
تنگ آکر لب ِ فریاد ہوا وا اپنا
ایسی حالت میں بھی امید نہ ٹوٹی اپنی
نام لیوا ہیں ترے تجھ پہ ہے دعویٰ اپنا
داستاں درد کی لمبی ہے کہیں کیا تجھ سے
ہے ضعیفوں کو سہارے کی تمنا تجھ سے
علامہ اقبال امت کی بیداری کے لئے دعا تو کرتے ہیں مگر پھر بھی انہیں چین نہیں آتا ۔ یہاں سے ان کی امت کے تئیں فکر کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے ۔ وہ امت کی بھلائی سے آگے بڑھ کر اﷲ تعالیٰ سے متوجہ ہوتے ہیں اور فرماتے ہیں :
وہ جس سے شفا ہو وہ دوا کون سی ہے
یہ چمن جس سے ہرا ہو وہ صبا کون سی ہے
جس کی تاثیر سے یک جاں ہو امت ساری
ہاں بتا دے وہ مے ہوش ربا کون سی ہے
قافلہ جس سے رواں ہو سوئے منزل اپنا
ناقہ وہ کیا ہے ، وہ آوازورا کون سی ہے

اور نظم کا اختتام وہ اس شعر پر کرتے ہیں :
راہ اس محفل ِ رنگیں کی دکھادے سب کو !
اور اس بزم کا دیوانہ بنادے سب کو !
’’ فریاد ِ امت ‘‘ ایک جذباتی نظم ہے جو علامہ اقبال کے ابتدائی دور کی یادگار ہے ۔ یہ وہ زمانہ تھا جب اقبال کا ذہن بن رہا تھا ۔ اگرچہ انہوں نے اس نظم کو اپنے کسی بھی شعری مجموعے میں شامل نہیں کیا مگر معلوم ہوتا ہے کہ بعد کی شاعری کی بنیاد اسی نظم پر پڑی ہے چونکہ پھر یہی پیغام انہوں نے اپنی شاعری سے دیا ہے ۔

Leave a Comment