’’الف ‘‘سے اسد اللہ خاں غالبؔ ، آم اور اقبالؔ‘‘

شاعر مشرق ڈاکٹر علامہ محمد اقبالؔ کی یوم ولادت پر خصوصی پیش کش

\"1512481_594282883998935_738070222_n\"
٭ڈاکٹر محمدکلیم ضیاؔ

سابق صدر،شعبۂ اردو،
اسمٰعیل یوسف کالج،جوگیشوری (مشرق)،
ممبئی نمبر ۰۶۰ ۴۰۰
\"iqbal_day_1\"

دوبڑی شخصیتوں کے درمیان مماثلت کے کئی آثار پائے جاتے ہیں، گو کہ وہ مختلف ادوار ، تہذیب ، ثقافت اور ماحول میں پرورش پاتی ہیںمگر ان کی طبایع میں حیرت انگیز طور پر یکسانیت پائی جاتی ہے۔ یہ قدرت کا عجوبہ اور فطرت کی نادرہ کاری ہے، ان کی زندگی مختلف دھاروں سے گذرتی ہوئی بے شمار مراحل و منازل طے کرتی ہے۔ ان کے افکا ر و محسوسات میں تبدیلیاں واقع ہوتی اور ترقیاں ہوتی رہتی ہیں، لیکن جب ان کے حالا ت اور واقعات کا تجزیہ کیا جاتا ہے اور ان کے افکار و تخیلات کو تنقید و تحقیق کی کسوٹی پر پرکھا جاتا ہے تو پتا چلتا ہے کہ ان میں زبردست مماثلت پائی جاتی ہے۔ فطرت کا یہ دستو ر ہے کہ وہ ہمیشہ ایک ہی اصول پر گامزن رہتی ہے ۔ اس میں تغیّر و تبدّل واقع نہیں ہوسکتا۔ قانونِ فطرت کے تحت ان کی زندگیوں کے عمیق مطالعے سے بہت سی باتیں اور کئی گوشے ایسے سامنے آجاتے ہیں جن میں حیرت انگیز ہم آہنگی ، یکسانیت اور مماثلت پائی جاتی ہیں۔ غالبؔ اور اقبال ؔ میں بھی اسی فطری اصول کے تحت ایک معاملے میں ہم آہنگی
آئندہ سطور میں ملاحظہ فرمایئے۔
آم پھلوں کا بادشاہ کہلاتا ہے، اِسے دیگر تمام پھلوں پر فوقیت و اہمیت حاصل ہے، آم نہ صرف بر صغیر ہندوستان میں مشہور و مقبول اور مر غوب ہے بلکہ دنیا کے بیش تر ممالک کے عوام اس کے عاشق و رسیا ہیںاور بڑی ہی رغبت اور چائو سے کھاتے ہیں ، بلکہ اپنے احباب ، اعزاو اقربا اور صاحبِ اقتدار حضرات کو بطور سوغات بھی بھیجتے ہیں ۔ گذشتہ زمانے میں ’’آم‘‘ تحفتاً بھیجنا صاحب ِ سطوت ہونے کی علامت رہا ہے۔اس فصل میں لوگ اپنے احباب سے کسی تکلف کے بغیر آموں کی فرمایش بھی کرتے رہے ہیں ۔ مرحوم اکبرؔ الہٰ آبادی نے اسی فرمائش میں ایک خط منشی نثار حسین (لکھنؤ) کے نام لکھاّ۔ جس میں بڑے ہی لطیف پیرائے میں آموں کی تعداد ، خام اور پختہ آم نام اور پتا بھی لکھا ہے اور آخری شعر
میں جس خدشے کا اظہار کیا ہے وہ بھی توجہ طلب ہے ۔
؎ نامہ کوئی نہ یار کا پیغام بھیجئے اس فصل میں جو بھیجئے بس آم بھیجئے
ایسے ضرور ہوں کہ انھیں رکھ کے کھا سکوں پختہ اگر ہوں بیس تو دس خام بھیجئے
معلوم ہی ہے آپ کو بندے کا ایڈریس سیدھے الہٰ آباد مرے نام بھیجئے
ایسا نہ ہو کہ آپ یہ لکھیں جواب میں تعمیل ہو گی، پہلے مگر دام بھیجئے ۱ ؎
۱۹۷۴ ؁۔ء میں آم کی پیداوار کا بین الاقوامی سطح پر جو تخمینہ بتلایا گیا وہ ذیل میں بہ لحاظ میٹرک ٹن درج کیا
جاتا ہے۔
۱ ۔ افریقہ : 460 000 میٹرک ٹن
۲۔ شمالی اور وسطی امریکا : 602 000 میٹرک ٹن
۳۔ جنوبی امریکا : 891 000 میٹرک ٹن
۴۔ ایشیا : 9820 000 میٹرک ٹن
۵۔ یورپ : میٹرک ٹن
۶۔ جزائر اوشینیا : 3 000 میٹرک ٹن
بین الاقوامی میزان : 11776000 میٹرک ٹن ۲؎
جہاں تک آم میں موجود عناصر کا معاملہ ہے ، کچھ اس طرح ہے، کسی بھی قسم کے آم میں پانی تقریباً۸۴ فی صدی ، شکر ۱۰ تا ۲۰ فی صدی ، معمولی مقدار میں تیزابیت، ہلکی سی چربی اور تھوڑا سا پرو ٹین ہو تا ہے۔ جب کہ وٹامن بی(B)
اور وٹامن سی(C) بھی کچھ مقدار میں ملتے ہیں۔ ۳ ؎
یہ تو ہوا آم کا کیمیائی تجزیہ، آیئے اب دیکھیں کہ اُردو ادب میں اس کی کیااہمیت ہے؟ اُردو ادب نے شعبہ ہائے زندگی کو ہمیشہ اور ہر مقام پر اُجاگر کرنے کی کوشش کی ہے ۔ جن میں رہن سہن ، نان ونوش ، تہذیب و تمدن ،
مذہب و ثقافت اور لباس و وضع قطع کے علاوہ بحر وبر ،شجر ہجر ، سبزی ترکاری اور پھل پھول بلکہ کانٹوں کو بھی اپنے وسیع و
عریض دامن میں سمو لیا ہے۔
اُردو شعر وشاعری کے میدان میں جن شعرا کی ’’ آم‘‘ پرخصوصی توجہ رہی ہے ان میں مرزا اسد اللہ خاں غالبؔ، آخری مغل تاج دار بہادر شاہ ظفرؔاور حضرت علاّمہ اقبالؔ بھی شامل ہیں ۔’’آم ‘‘ کو قدیم فن کاروں کے علاوہ عصرِ حاضر کے فن کاروں نے بھی اپنی تخلیقات میں سراہا ہے،اس کے متعلق واقعات ،قصے ،کہانیاں اور لطیفے بھی کافی مشہور
ہوئے ہیں۔
’’ایک روز مرحوم بہادر شاہ ظفر ؔآمو ں کے موسم میں چند مصاحبوں کے
ساتھ جن میں مرزا ؔ بھی شامل تھے،باغِ حیات بخش یا مہتاب باغ میں ٹہل
رہے تھے،آم کے پیڑ رنگ برنگ کے آموں سے لدرہے تھے۔ یہاں کا
آم بادشاہ یا سلاطین یا بیگمات کے سوا کسی کو میسر نہیں آسکتا تھا۔ مرزا
بار بار آمو ں کی طرف دیکھتے تھے ۔ بادشاہ نے پوچھا،’’ مرزا! اس قدر غور
سے کیا دیکھتے ہو؟‘‘ مرزا نے ہاتھ باندھ کر عرض کیا، ’’پیرو مرشد! یہ جو کسی
بزرگ نے کہا ہے
؎ بر سرِ د انہ بنوشتہ عیاں
کایں فلاں ابنِ فلاں ابنِ فلاں
اس کو دیکھتا ہوں کہ کسی دانے پر میرا یا میرے باپ دادا کا نام بھی لکھا ہے
یا نہیں۔‘‘ بادشاہ مسکرائے اور اُسی روز ایک بہنگی عمدہ آموں کی مرزاؔکو بھجوا
دی۔ ‘‘ ۴؎
جہاں مرزا غالب ؔمیں سنجیدگی بدرجہ اتم موجود تھی وہیں شوخی و طراری ان کی فطرت ِ ثانیہ بن چکی تھی اور برجستگی تو غالب ؔہی کا حصہ تھی۔ کوئی موقع غالب ؔہاتھ سے جانے نہیں دیتے تھے ۔ ان کی زبان سے جو فقرے چست ہوتے ، وہ دل آزاری کا سبب تو شاذو نادر ہی بنتے ہوں،البتہ جس پر فقرے چست کرتے وہ خود بھی حد درجہ محظوظ ہوتا تھا۔ اسی ضمن میں
ایک لطیفہ جو ’’یاد گارِ غالب ؔ‘‘میں درج ہے اور بہت مشہور ہے ، یہاں نقل کیا جارہا ہے۔
’’حکیم رضی الدین خان جو مرزا ؔ کے نہایت دوست تھے اُن کو آم نہیں
بھاتے تھے ایک دن وہ مرزا ؔکے مکان پر برآمدے میں بیٹے تھے۔ ایک
گدھے والا اپنے گدھے لیے ہوئے گلی سے گذرا ۔ آ م کے چھلکے پڑے
تھے ۔ گدھے نے سونگھ کر چھوڑ دیے ، حکیم صاحب نے کہا،’ ’دیکھے آم ایسی
چیز ہے جسے گدھا بھی نہیں کھاتا ،‘‘ مرزاؔ نے کہا ،’’ بے شک ! گدھا
نہیں کھاتا۔‘‘ ۵؎
آموں کے تعلق سے مرزا غالبؔ کا خیال تھا کہ آم چاہے کوئی ہو ، کسی رنگ و نسل اور کسی علاقے کا ہو ، البتہ وہ
میٹھا ضرور ہواور ساتھ ہی ساتھ تعداد میں زیادہ ہو ، تاکہ سیر ہوکر کھا جا سکے۔ اس سلسلے میں ایک واقعہ منقول ہے۔
’’ مرزا کی نیّت آموں سے کسی طرح سیر نہ ہوتی تھی ، اہلِ شہر تحفتاً بھیجتے
تھے ، خود بازار سے منگواتے تھے، باہرسے دور دور کا آم بطورِ سوغات کے
آتا تھا مگر حضرت کا جی نہیں بھرتا تھا، نواب مصطفی خان مرحوم ناقل تھے
کہ ایک صحبت میں مولانا فضل حقؔ اور مرزاؔ اور دیگر احباب جمع تھے اور آم
کی نسبت ہر شخص اپنی اپنی رائے بیان کر رہا تھا کہ اس میں کیا کیا خوبیاں
ہونی چاہئیں،جب سب لوگ اپنی اپنی کہہ چکے تو مولانا فضل حقؔ نے مرزا
سے کہا، تم بھی اپنی رائے بیان کرو مرزا ؔ صاحب نے کہا، بھئی میرے
نزدیک تو آم میں صرف دو باتیں ہونی چاہئیں۔ ’’ میٹھا ہو اور بہت ہو ۔‘‘
سب حاضرین ہنس پڑے۔‘‘ ۶ ؎
آم کی تعریف میںغالب ؔکی مثنوی ’’ مثنوی در صفت ِ انبہ‘‘بہت مشہور ہے۔ جس کے چند اشعار پیش کیے جاتے ہیں ملاحظہ کیجیے۔
؎ بارے آموں کا کچھ بیاں ہو جائے
خامہ نخلِ رطب ِ فشاں ہو جائے
؎ آم کا کون مردِ میداں ہے ثمر و شاخ ، گوے وچوگاں ہے
؎ آم کے آگے پیش جاوے خاک
پھوڑتا ہے جلے پھپھولے تاک
؎ مجھ سے پوچھو ، تمھیں خبر کیا ہے آم کے آگے نیشکر کیا ہے
؎ نظر آتا ہے یوں مجھے یہ ثمر
کہ دواخانۂ ازل میں مگر
۸۰
؎ آتشِ گل پہ قند کا ہے قوام شیرہ کے تار کا ہے ریشہ نام
؎ یا یہ ہو گا کہ فرطِ رافت سے
باغ بانوں نے باغِ جنت سے
؎ انگبیں کے، بہ حکم ربّ الناس بھر کے بھیجے ہیں سر بمہر گلاس
؎ یا لگا کر خضر نے شاخ ِ نبات
مدتوّں تک دیا ہے آبِ حیات
؎ تب ہوا ہے ثمر فشاں یہ نخل ہم کہاں ورنہ اور کہاںیہ نخل
؎ صاحبِ شاخ و برگ و بار ہے آم
ناز پر وردۂ بہار ہے آم
؎ خاص وہ آم جو نہ ارزاں ہو نو برِ نخل ِ باغِ سلطاں ہو ۷؎
آم چاہے دسہری ہو یا قلمی، دیسی ہو یا طوطا پیری ، چوسا ہو یا مولگواا ورچاہے ہاپس ہو یا پھر لنگڑا۔ آم بہر حال آم ہوتا ہے۔ رس تو سب ہی میں ہوتا ہے۔ البتہ رنگ اور مزے میں فرق ضرور ہوتا ہے۔۔۔۔۔۔۔آموں کی طرح فن کاروں میں بھی بہت سی باتیں مماثل ہوتی ہیں، قدروں کا مشترک ہونابھی کوئی نئی بات نہیں ہے۔ غالب ؔاوراقبال ؔ میں چند افکار وجذبات مشترک ہیں ۔ غذا، لباس اور وضع قطع میں بھی کچھ نہ کچھ باتیں اپنے اندر یکسانیت رکھتی ہیں ، حالاں کہ غالبؔ اقبال ؔ کے درمیاں بہ لحاظِ زمانہ کافی فاصلہ ہے۔ تاہم ادب کے ساتھ ساتھ غذا میں بھی غالب ؔ اور اقبالؔ کے یہاں مماثلت اور یکسانیت نظر آتی ہے ۔ خصوصاً پھلوں کی پسند کے سلسلے میں ۔۔۔۔۔۔۔دونو ں فن کاروں کے درمیان ذہنی اور فکری مماثلت
کس حد تک ہے،جناب اے ۔کے ۔ حمید ’’ مشاہیرِ عالم ‘‘ میں فرماتے ہیں
’’ غالب ؔاور ا قبال ؔ میں بہت سی باتیں مشترک ہیں، اگر میں تناسخ کا قائل
ہوتا تو ضرور کہتا کہ مرزاؔ اسد اللہ خاں غالبؔ کو اُ ردواور فارسی شاعری سے
جو عشق تھا اُس نے اُ ن کی روح کو عدم میں جا کر بھی چین نہ لینے دیا اور
مجبور کیا کہ پھر کسی جسد خاکی میں جلوہ افروز ہو کر شاعری کے چمن کی
آبیاری کریں۔یہ بِلا خوف ِ تردید کہا جا سکتا ہے کہ قدرت نے میرؔ اور
غالب ؔ کو اقبال ؔ کی ذات میں جمع کر دیا۔‘‘ ۸ ؎
اسی بات کو اسلوب ؔ احمد انصاری کچھ اس طرح رقم کرتے ہیں
’’ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تاہم دونوں کے کلام میں ایک حد تک اورایک خاص سطح پر
گہری اور قریبی مماثلت کا پایا جانا خوش گوار حیرت کا موجب ہے اور اس
لیے یہ کہنا شاید غیر مناسب نہ ہوگا کہ جدید اُردوشاعری کے رنگ و آہنگ
پر غالبؔ کا اگر اثر پڑا تو وہ اقبال ہی کے توسط سے آیا ہے۔‘‘ ۹؎
آیئے اب دیکھیں کہ اقبال ؔاور ’’آم‘‘ میں کس حد تک ارتباط ہے۔ علا مہ اقبال ؔ کو بچپن ہی سے آم مرغوب تھا،تاہم اس متعلق انھوں نے کبھی ضد یا تکرار نہ کی۔ مل گیا تو سبحان اللہ ورنہ کوئی بات نہیں۔ غذا کے تعلق سے بھی یہی حال تھا ، البتہ جوانی میں ہی شکمِ مرض لاحق ہو گیا تھا،جس طرف آپ نے کبھی توجہ نہ فرمائی اور عارضی طور پر علاج و معالجے کے بعد پرہیز سے ہاتھ کھینچ لیا۔ اسی لیے اپنی عمر کے آخری ایام قسم ہا قسم کے امراض سے جنگ کرنی پڑی ۔ اعصاب کمزور ہو چکے تھے، قلب ضعیف ہو چکا تھا ۔جگر میںحدّت پیدا ہو گئی تھی ، ہلکا سا دمہ بھی تھااور سینے میں بلغم کافی جم چکا تھا جسے داکٹروں نے غلطی سے رسولی سمجھ لیا تھا۔دردِ گردہ اور نقرس کا مرض بھی تھا ، غرض کہ اندرونی اور بیرونی اعضا کافی حد تک بے کار ہو
چکے تھے اور اسی وجہ سے ڈاکٹروں نے غذا کے متعلق احتیاط و پرہیز بتلایا تھا۔
جوانی کے زمانے میں کافی آم کھائے، جوں ہی آمو ں کا موسم آتا بازار سے خوب اور مختلف قسم کے آم منگواتے۔ بعض اوقات دبے لفظوں میں دوستوں سے بھی فرمائش کر دیتے اور زیادہ تر دوست تحفتاً آم بھجوا دیتے تھے،جس کا جواب آپ بھی تحفے کی شکل میں ارسال فرماتے ۔۔۔۔۔۔۔ اسی طرح ایک مرتبہ کا ذکر ہے کہ اکبرؔ الٰہ آبادی نے علامہ اقبالؔ
کے لیے ’’لنگڑا آم‘‘ تحفے میں بھیجا۔ اقبال ؔ بہت خوش ہوئے اورفوراً وصولیابی کی رسید بھیجتے وقت ایک شعر فی البدیہہ لکھ دیا ۔
؎ ترے فیض ِ مسیحائی کا ہے یہ سب اثر اکبرؔ
الٰہ آباد سے لنگڑا چلا لاہور تک پہنچا ۱۰ ؎
علاّمہ اقبال ؔ نے بھی غالبؔ کی طرح ’’آم‘‘ کی آبرو بڑھائی اور وقتاً فوقتاً ایسی نشستوں کی صدارت فرمائی
جس میں آموں کی دعوت ہوتی اور وہ وہ فقرے بازیاں ہوتیں کہ برسوں دہرائی جاتیں۔یہ محفلیں بھی گھنٹوں چلتیں ۔
’’سال بھر میں ایک آدھ دفعہ میاں نظام الدین کے باغ میں آموں کی
دعوت ہوتی جس کی’’صدارت ‘‘علامہؔ فرماتے اور ہم لوگ صبح سے جو آم
کھانا شروع کرتے تو ایک بجے خبر لاتے ۔ بہترین دانے علامہؔ کی خدمت
میںپیش کیے جاتے اور آموں کے متعلق وہ وہ معنی آفرینیاں ہوتیں کہ
باغ قہقہہ زار بن جاتا۔ ‘‘ ۱۱؎
علامہ ؔ کو آموں سے کس قدر رغبت تھی اس بات کا اندازہ صرف یوں لگایا جا سکتا ہے کہ آخری ایّام میں علالت کی وجہ سے دہلی کے مشہور و معروف حکیم نا بینا ؔ صاحب کا علاج جاری تھا ۔حکیم صاحب نے آموں کا پرہیز بتایا ۔ جیسا کہ پہلے عرض کر چکا ہوں کہ علامہؔ اقبال نے پرہیز سے ہمیشہ جی چرایا ہے، یہاں بھی آموں سے متعلق پرہیز نہ کر سکے ۔۔۔۔۔۔۔اور جب کبھی آموں سے پرہیز کا مسئلہ آیا آپ نے غالب ؔ سی برجستگی کا اظہار فرمایااور وہ وہ فقرے چست کیے کہ اُردو ادب کی زینت بن گئے اور غالب ؔکے لطیفوں کی طرح زبان زدِ عام ہو گئے۔ عبد المجید سالکؔ اسی تعلق سے کچھ فرماتے ہیں۔
ملاحظہ فرمایئے ۔
’’ ایک دن تیسرے پہر حاضر ہوا تو کیا دیکھتا ہوں کہ حضرت علامہؔبدستور
تکیہ لگائے چار پائی پر لیٹے ہیں اور پاس ہی ایک تپائی پر کوئی سیر بھر کا
’’بمبئی آم‘‘ پلیٹ میں رکھا ہے، میں نے کہا ،حضرت یہ کیا ؟ حکیم صاحب
نے تو پرہیز بتایا ہے !کہنے لگے ہاں! لیکن ایک آم کھانے کی تو اجازت
ہے اور بہرِ حال یہ آم ایک ہی ہے دو تو نہیں ۔‘‘ ۱۲؎
سالکؔ صاحب، علامہؔ کے بہترین دوست تھے ، دونو ں میں کسی حد تک بے تکلفی بھی تھی تاہم بے تکلفی میں احتیاط کا دامن کبھی ہاتھ سے جانے نہیں دیا اور ہر مقام اور ہر جگہ ایک دوسرے کی عزت و آبرو کا برابر خیال رکھا ۔ مذ کورہ بالااقتباس سے علامہ ؔ اقبال کی فکرِ رِسا کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔حالاںکہ حکیم نابینا ؔ صاحب کی جانب سے پرہیز ہونے کے باوجود آموں کی رغبت کو دبانہ مشکل ہو گیا تھا جب کہ حکیم صاحب نے دن بھر میں صرف ایک ہی آم کھانے کی
اجا زت دی ۔ ایک آم سے مراد صرف ’’ایک عدد آم ‘‘ تھا جب کہ علامہؔ نے اس ’’ایک‘‘ کو ’’ایک قسم کا آم ‘‘ قرار دیا۔ اسی لیے سالک ؔ صاحب سے کہا کہ ’’صرف ایک ہی تو آم ہے دو نہیں ۔‘‘ حالاں کہ وہ سیر بھر بمبئی آم تھا اور جن کی قسم ایک ہی تھی
وہ مختلف قسم کے نہیں تھے۔
بالکل اسی طرح غالب ؔ نے بھی آموں سے نئے نئے گوشے نکالے اور آج آم کو اپنی خصوصیات کے ساتھ
ساتھ اُردو ادب میں اپنی ذات اور شخصیت کی طرح غیر فانی بنا دیا ۔ یقینا غالب ؔ اور اقبالؔ ہی کا حصہ تھا۔
’’حوالے جات‘‘
۱؎ ۔ انتخابِ اکبر الٰہ آبادی۔ مکتبہ جامعہ ۔نئی دہلی ۹۵؎
۲؎ ۔ FAO.Production year book 1974 vol.28.1
۳؎ ۔ Economics Botany in the Tropics by S.L.Kochhar.Page No.194
۴ ؎ ۔ یاد گارِ غالب ؔ ( حصّہ اُردو) مرتبہ مالک رام صفحہ نمبر ۸۱
۵ ؎ ۔ —-//—- —-//—- —-//—- —-//—- —-//—-
۶ ؎ ۔ —//—– —-//—- —-//—- —-//—- —-//—- -۸۲
۷ ؎ ۔ دیوانِ غالبؔ —-//—- —-//—-۱۹۷۔ ۱۹۸
۸ ؎ ۔ مشاہیرِ عالم کے ۔ اے ۔حمید —-//—-۲۳۰
۹؎ ۔ نقشِ اقبالؔ اسلوب احمد انصاری —-//—- ۱۵۰
۱۰؎ ۔ ذکرِ اقبالؔ عبدالمجید سالکؔ —-//—- ۲۲۹
۱۱؎ ۔—-//—- —-//—- —-//—-
۱۲؎ ۔—-//—- —-//—- —-//—-

Leave a Comment