الہ آبادیونیورسٹی کے شعبہ عربی و فارسی میں ڈاکٹر اسلم جمشیدپوری کی افسانہ خوانی اور افسانے کے فن پر مذاکرہ

کبھی کبھی موضوع افسانہ نگار کے ذہن میں برسوں پیچ و تاب کھانے کے بعد افسانوی شکل اختیار کر پاتے ہیں:ڈاکٹر اسلم جمشیدپوری
\"_20170422_165409\"

الہ آباد(اسٹاف رپورٹر) عہد حاضر کے ممتاز افسانہ نگار ڈاکٹر اسلم جمشید پوری نے الہ آباد یونیورسٹی کے شعبہ عربی و فارسی میں اپنا تازہ و منفرد افسانہ ’’ریلہ‘‘ پیش کیا۔گذشتہ دنوں آپ کا افسانہ ’’لینڈرا‘‘ الہ آباد یونیورسٹی کے ادبی حلقہ میں موضوع بحث رہا اور تب سے اس حلقہ کی خواہش تھی کہ وہ اس منفرد افسانہ نگار کے رو برو ہو سکے۔ شعبہ عربی و فارسی نے ڈاکٹر اسلم جمشیدپوری کی الہ آباد آمد پر ایک افسانوی نشست کا اہتمام کیااور یونیورسٹی کی ادب نواز شخصیات نے اس میں شرکت کی ۔واضح ہو کہ موصوف کا افسانوی مجموعہ لینڈرا،دکھ نکلوا،اور افسانچوں کا مجموعہ کولاج کے نام سے شائع ہو چکے ہیں جن کی ادبی حلقوں میں خاطر خواہ پذیرائی بھی ہوئی ہے۔
پروگرام کا آغاز محمد عابد کی تلاوت کلام پاک سے ہوا۔شعبے کے ریسرچ اسکالر محمد جاوید نے شعبہ کی جانب سے ڈاکٹر اسلم جمشیدپوری،صدر شعبہ ڈاکٹر صالحہ رشید اور شعبہ تاریخ کی سربراہ معروف ادیبہ پروفیسر پشپا تیواری کا خیر مقدم کیا۔ انھوں نے صدر شعبہ کی اس کاوش کوطلبا کے لئے ایک خوش آئند قدم بتایاجس کی بدولت انھیں چند معروف تخلیق کاروں کے رو برو ہونے کی سعادت نصیب ہوئی۔ صدر شعبہ نے ڈاکٹر اسلم جمشیدپوری کا مختصر تعارف پیش کرتے ہوئے بتایا کہ ان کے افسانوں پر مصر کی الیکزنڈریہ یونیورسٹی کی ڈاکٹر زینب صدیق نے تحقیقی مقالہ لکھا ہے اور لینڈرا کی کہانیوں کا عربی ترجمہ بھی کیا ہے۔ ڈاکٹر صالحہ رشید نے اسلم صاحب کی کہانی لینڈرا کا فارسی ترجمہ کیا ہے ۔یہ مرد کے استحصال کی کہانی ہے۔ آپ کی کہانیاں ہندی میں بھی ترجمہ ہو کر شائع ہو چکی ہیں۔ اس کے بعد ڈاکٹر اسلم جمشیدپوری نے اپنے تازہ افسانے ’’ریلا‘‘ کی مخصوص لب و لہجے میں قرأت کی۔ سامعین دم بخود سنتے رہے اور محظوظ ہوتے رہے۔افسانہ خوانی کے بعد سوال و جواب کا سلسلہ شروع ہوا جو کافی دیر چلا۔عربی و فارسی افسانہ نگاری کی صورت حال پر بھی روشنی ڈالی گئی۔محمد عابد،اخلاق احمد، عابدہ خاتون، تحسین بانو ،محمد مکرم ،عبد القادراور دیگر بی ۔اے ۔ کے طلبا نے کھل کر سوال کئے اور افسانہ نگاری کے تعلق سے اپنے تجسس کو دور کرنے کی کوشش کی۔ اس گفتگو کا رخ افسانہ نگاری سے خالص تخلیقیت کی جانب مڑ گیاجو بہت دلچسپ رہا۔پروفیسر پشپا تیواری نے ایک تخلیق کار کی تخلیقیت کے دوران دلی و ذہنی کیفیت کیا ہوتی ہے ،اس امر پر تفصیلی گفتگو کی اور اپنے شعر سنا کر سامعین کا دل جیت لیا۔شعبہ کے ریسرچ اسکالر محمد جاوید نے چند دوہے پیش کئے۔اس موقع پر ڈاکٹر صالحہ رشید کی کتاب ’’تفہیم‘‘کا اجرا ء بھی مہمانان کے ہاتھوں عمل میں آیا۔ اس پر مغز ادبی نشست کا اختتام ڈاکٹر فیروز اختر کے شکریہ کے کلمات کے ساتھ ہوا۔ اس پروگرام میں عربی فارسی اردو ہندی کے اساتذہ اور طلبا کثیر تعداد میں موجود رہے۔
\"_20170422_165641\"

Leave a Comment