الہ آباد یونیورسٹی میں ’’امیر خسرو اور ہندوستانی گنگا جمنی تہذیب ‘‘ توسیعی لیکچر اختتام پذیر

\"_20170427_200915\"

الہ آباد (اسٹاف رپورٹر)شعبہ عر بی و فارسی الہ آباد یونیورسٹی میں ’’امیر خسرو اور ہندوستانی گنگا جمنی تہذیب ‘‘عنوان سے ایک لکچر کا انعقاد کیا گیا۔جس کی صدارت پروفیسر کے ایس مشرا ، ڈین فیکلٹی آف آرٹس نے کی ۔دہلی یونی ورسٹی کے سابق صدر شعبہ فارسی پروفیسر شریف حسین قاسمی نے مقرر خاص کی حیثیت سے شرکت کی ۔یہ پروگرام یونیورسٹی کی سنٹرل کلچرل کمیٹی کے تعاون سے کیا گیا۔ پروگرام کا آغاز محمد قاسم کی تلاوت قرآن پاک سے ہوا۔صدر شعبہ ڈاکٹر صالحہ رشید نے مہمانان کا استقبال کیا اور پروفیسر شریف حسین قاسمی کا کا تعارف پیش کرتے ہوئے بتایا کہ وہ فارسی اور اردو کے معتبر محقق اور ناقد ہیں۔ ان کے اب تک ڈھائی سو سے زائد تحقیقی مقالے اور پچیس سے زیادہ کتابیں منظر عام پر آ چکی ہیں ۔ تنقید و تحقیق کے لئے ایران کا سب سے اعلیٰ انعام انجمن آثار و مفاخر ایران نے آپ کی خدمت میں پیش کیا ہے۔ پریسیڈنٹ آف انڈیا کا سرٹیفیکیٹ آف آنر بھی آپ کو دیا جا چکا ہے۔ دوحہ قطر نے گذشتہ دنوں اردو تنقید و تحقیق کے لئے اعلیٰ ترین انعام آپ کی خدمت میں پیش کیا۔ آپ کے علمی شاہکار میں حافظ کے دیوان، فردوسی کے شاہنامہ اور ہندومقدس کتابوں کے فارسی تراجم کا کیٹلاگ ہے۔پروفیسر قاسمی نے اپنی تقریر کے دوران بتایا کہ خسرو کا مطالعہ ہندوستان کی تیرہویں صدی کی وہ تصویر ہے جس میں ملک کی ملی جلی تہذیب کے نقوش بہت واضح ہیں۔ امیر خسرو کو اپنے وطن ہندوستان سے بہت محبت تھی اور اس محبت کو عام کرنے کے لئے انھوں نے اپنی جان کی بازی لگا دی۔ خسرو کا مقصد حیات تھا لوگوں کو نزدیک لانا ۔ہماری گنگا جمنی تہذیب کا مطلب ہے کہ ہم مذہباً تو وہی رہیں گے جس کے ہم پیرو ہیں مگر جب آپس میں ملیں گے تو ایک دوسرے کا لحاظ کریں گے۔ پروفیسر کے ایس مشرا نے اپنے صدارتی خطبے میں خسرو کی پہیلیوں کی معنویت پر گفتگو کی۔ پروفیسر اے ۔اے۔فاطمی نے مہمانان کا شکریہ ادا کیا۔ اس موقعے پر عمائدین شہر کے علاوہ یونیورسٹی کے اساتذہ اور طلبا نے کثیر تعداد میں شرکت کی۔
\"18118879_1018157461650723_1236876282804234550_n\"

Leave a Comment