امیرخسروکی تاریخ نویسی، خزاین الفتوح کی روشنی میں

*نیلوفرحفیظ
اسسٹنٹ پروفیسر(فارسی) شعبہ عربی وفارسی،
 دانشگاہ الہٰ آباد، پریاگ راج۔

ابوالحسن یمین الدین بن سیف االدین محمودمعروف بہ امیرخسرو دہلوی ہمارےملک وملت کی ان عظیم اورعبقری شخصیات میں سرفہرست ہیں جن کی علمی وادبی خدمات کی آفاقیت اورہمہ گیری نے ازاول تاامروزہزاروں اذہان وقلوب کو اپنے سحرمیں گرفتارکررکھا ہے کاتب ازل نے خسروکوتمام لوازم پسندیدہ اوراوصاف حمیدہ سے نوازاتھا انھوں نے نہ صرف اپنے عہد کی فکرکومتاثر کیابلکہ آیندہ ادوارکو بھی اپنے لافانی آثارکی افادیت سے فیض یاب کیاان کا استدلالی طرزبیان، محققانہ بصیرت،فلسفینہ اندازفکر، تنقیدی گہرائی، انشاپردازنہ سلیس بیانی اورشاعرانہ طرزکلامی میں حددرجہ جاذبیت وجالبیت اورکشش واثرآفرینی پائی جاتی ہے ان کی ہمہ گیراورمتنوع شخصیت کی جامعیت ومعنویت کا اعتراف بڑے بڑے مورخین،منتقدین اورمحققین کی طرف سے کیاجاتارہاہےبلا شبہ وہ ایک بہترین قصیدہ گو، بزرگ ترین مرثیہ نویس، عظیم مثنوی نگار، نابغہ روزگارغزل سرا، بے نظیرماہرفن موسیقی، یگانہ عصرتاریخ نویس، بلند مرتبہ صوفی، قابل قدردرباری، سبک ہندی کے بنیاد گزار،ہندوستانی گنگاجمنی تہذیب کے علبرداراورصاحب سیف وقلم تھے ان جیسی جامع کمالات اورگوناگون صفات کی حامل عظیم وعالی شخصیت فارسی شعروادب میں بہ مشکل ہی کہیں اوردیکھنے کوملے گی علامہ شبلی نعمانی ان کی بے پناہ علمی عظمت وادبی اہمیت کا اعتراف کرتے ہوئے کچھ اس طرح ان کو خراج تحسین پیش کیا ہے:

‘‘ہندوستان میں چھ سوبرس سے آج تک اس درجہ کا جامع کمالات نہیں پیدا ہوااورسچ پوچھوتواس قدرمختلف اورگوناگون اوصاف کے جامع، ایران وروم کی خاک نے بھی ہزاروں برس کی مدت میں دو چارہی پیدا کیئے ہوں گے ’’ ؎۱

امیر خسرودہلوی پوری دنیامیں ایک شاعرکی حیثیت سے مشہورومعروف ہیں لیکن ایک نابغہ روزگارشاعر ہونے کے ساتھ ساتھ وہ ایک بلندپایہ اوربہترین نثرنگاربھی ہیں ان کے منثورآثارمیں اعجازخسروی یارسایل الاعجاز، افضل الفواید اورخزاین الفتوح یا تاریخ علائی خصوصی طورپر اہمیت کی حامل رہی ہیں ان میں اعجازخسروی نثرمرصع ومسجع کی ان اقسام سے بحث کرتی ہے جو خسروکے زمانے میں رائج تھیں اس کا بڑاحصہ خطوط پرمشتمل ہے جوخسرونے الگ الگ لوگوں کو لکھےہیں ان خطوط میں اس دورکے سیاسی، معاشرقی اورادبی مسائل پربڑی سیرحاصل اور پرافادی گفتگو کی گئی ہے اس کا اسلوب نگارش قدرے مشکل اورمبہم ہے جس کی وجہ سے ادبی حلقوں میں اس کی خاطرخواہ پذیرائی نہیں ہوسکی اورعبارت کی پیچیدگی اورایہام کے سبب عام فہم قاری اس میں موجود مفاہیم ومطالب کوسمجھنے میں تھوڑی دشواری محسوس کرتاہے ان کی دوسری منثورکتاب افضل الفواید ہے اس میں حضرت نطام الدین اولیا کے کردارواخلاق اورخسرو کے مابین ان کےمراسم پرروشنی پڑتی ہے اس کے علاوہ ان کے دیوان غرۃ الکمال کا مقدمہ بھی نثرمیں تحریرکیاگیاہے اوران کے دیگر تین دیوان تحفتہ الصغر، وسط الحیات اور بقیہ نقیہ کی ابتدامیں جو دیباچے ملتے ہیں وہ بھی بڑی خوبصورت اور دل نشین رواں نثرمیں ہی تحریرکیئے گئےہیں لیکن انکومستقل طورپرنثری کتابیں نہیں کہاجاسکتا، خسروکی تیسری منثورتصنیف خزاین الفتوح ہے جو ادبی اورتاریخی دونوں اعتبارسے خسروکا بہترین نثری شاہکار کہی جا سکتی ہےخزاین الفتوح دورہ علا الدین خلجی کی ایک مختصرلیکن جامع ترین تاریخ ہے جس میں خسرو نے علاالدین خلجی کے دور کے ان حالات وواقعات کو قلم بند کیا ہے جو ۶۹۵ سے ۷۱۱ ہجری کے درمیانی سالوں میں رونما ہوئے تھے اس کتاب کے مطالعے سے اندازہ ہوتاہے کہ یہ ان کی پہلی نثری کتاب ہے اس کتاب کو تالیف کرنےسے قبل انھوں نے باقاعدہ یاباضابطہ طورپر کوئی منثورکتاب تحریرنہیں کی تھی یہ کتاب از روز تالیف تا امروزادبی حلقوں میں بڑی قدرومنزلت کی نظروں سے دیکھی جاتی رہی ہے اوردانشوران فارسی کے نزدیک تو یہ تاریخی وادبی دونوں ہی اعتبارسے موردتوجہ اور لایق تفکررہی ہے حالانکہ اس دورکی تواریخ کے بالکل برعکس بہت مختصر کتاب ہے لیکن اس میں علاالدین خلجی کے زمانہ حکومت سے متعلق جوبیش قیمت اور پرارزش معلومات فراہم کی گئیں ہیں وہ اس عہد کی کسی بھی دوسری تاریخی کتاب میں دیکھنے کونہیں ملتیں ہیں اس کتاب کی بے پناہ تاریخی افادیت اورادبی اہمیت کی جانب اشارہ کرتے ہوئے پروفیسر وحید مرزا نے قدرے تفصیلی اندازمیں لکھتے ہیں:

‘‘خسرونہ صرف اپنے ممدوح کی تاریخ لکھنا چاہتے تھے بلکہ وہ ایک ادبی تخلیق بھی پیش کرنا چاہتے تھے اس کتاب کی تالیف کااصل محرک خسروکاادبی جذبہ تھا، انھوں نے واقعات کی تصویرکشی میں جوعرق ریزی کی ہے اسکی بناپرہندوستانی مورخین میں ان کا مقام منفرد ہے اگراس کتاب میں عہد علائی کے تمام واقعات کوتفصیل سے بیان کیئے جاتے تو شاید اتنی دلکشی نہ ہوتی بلا شک وشبہ خزاین الفتوح ایک انتہائی پرارزش کتاب ہے اور فارسی تاریخی ادب میں بے نظیر حیثیت رکھتی ہے’’ ؎۲

خزاین الفتوح اس دورکی دیگرتاریخی کتابوں کی مانندحمدخدااورنعت رسول سے شروع ہوتی ہے اس کے بعدسلطان علا الدین خلجی کی مدح وستایش میں حد سے زیادہ مبالغہ سے کام لیا گیا ہے خسرو نےاپنے شاعرانہ فضل وکمال اورشاہی سرپرستی کے متعلق بھی بڑی پرشکوہ اورمبالغہ آمیزگفتگو کی ہے وہ اس بات پرخداشکراداکرتےہیں کہ بادشاہ علاالدین ان کوبہت قریب اورعزیز رکھتاہے،اس باداشاہ بزرگ کی سرپرستی کی سعادت انکوحاصل ہے یہ بادشاہ ان کی شاعری کاحقیقی قدردان اوردلدادہ بھی ہےخسروکواپنے قلم کی کوتاہیوں اور فکر کی نارسائیوں کا بھی اعتراف ہے وہ کتاب کےدیباچے میں اس کا اظہاربھی کرتے ہیں کہ ان کے قلم اورزبان کو اتنی مجال نہیں ہے کہ وہ سلطان کی ذات میں ودیعت کیئے گئے ہمہ اوصاف وکمالات کے کرشموں کو پوری طرح احاطہ تحریرمیں لاسکیں کیونکہ اس کی ذات میں موجود ہمہ اوصاف حمیدہ کو بیان کرسکنا ممکن ہی نہیں ہےوہ آگے یہ بھی کہتے ہیں کہ انھوں نے اپنے قلم کی ساری توانائیاں شعروشاعری کی آرایش وزیبایش پرصرف کیں ہیں اورکبھی نثرنویسی کی طرف متوجہ نہیں ہوئے ہیں یہ ان کا پہلا قدم ہے جواس جانب یعنی نثر لکھنے کی جانب بڑھایاگیاہے لہٰذا اگران کے قلم سے کوتاہی ہوجاتی ہے تو بادشاہ کے کرم اورعدل سے پوری امید ہے کہ وہ ان لغزشوں اورکوتاہیوں کودرگزرکردے گااوران پرلطف وکرم کی نگاہ کرے گا یہ سلطان کی بے انتہا مہربانی اورکرم کا نتیجہ ہے کہ وہ اس کتاب کو تالیف کرنے کی جسارت کر رہے ہیں اوران کو اس کی قبول یابی کی پوری امیدہے لہٰذا کہتےہیں:

‘‘چون یقین کردم کہ مضمونات حروف کژمژبندہ برسان خدمتی مورپیش تخت سلیمانی کہ ابدالاباد فرماندہ جمہورانس وجان باد،شرف قبول مییا، وہرنظمی کہ بندہ پیش میبرداگرچہ ہمہ دروی جزبحرخشک چیزی دیگرنمی باشداوعین عواطف آنراآبی تمام بحاصل میآید،چناکہ سفاین نفایسبندہبہ مدداین موج الطاف درخشکی وتری روان می گردد واستغراقبدین نعم بندہرابرجسارت عبوردادہ تاازآنگونہ کہ دربحورنظم فراوان غوص نمودہ بودم وانبارہای لالی گردآوردہ، خواستم کہ برای سدہ والانثری نیز بیارام۔۔۔۔اگرچہ مشاطہ کلکم ہموارہ بہ برتافتن اشعار موشگاف بودہ است وابکار نثر را در پردہ اوراق کم جلوہ نمودہ بااین ہمہ چون این عروسی زیباروی نیاز بہ شاہ راستین دارد’’ ؎۳

اس تعریف وتوصیف کے بعداس وقت کے تاریخی حالات کی طرف متوجہ ہوتے ہیں کہ کس طرح سلطان علاالدین خلجی نے کڑہ سے نکل کردکن پرحملہ کیاوہ اس بات کی طرف بھی اشارہ کرتے ہیں کہ بادشاہ نے اپنے چچا جلال الدین خلجی کی مرضی کے خلاف اس مہم کوسرکیا تھا اور دھوکہ سے دہلی کی سلطنت پر قابض ہو گیا تھا درباری لوگوں کواس نے مال ودولت کا لالچ دے کراپنا حامی وطرفدار بناکرسلطنت دہلی پراپنی فتح کاپرچم لہرایاتھاخسروکی یہ مورخانہ صداقت وعدالت دیکھ کرحیرت ہوتی ہے،انھوں نے شاہی دربارسے منسلک ہونے کے باوجودبھی  ایک دیانتدارمورخ کے فرایض کو نظراندازنہیں کیاہے اورایک سچے تاریخ نویس کی طرح جو واقعہ جس طرح مشاہدہ میں آیا اس کو بغیر کم وکاست کے اس کے اصل اورحقیقی رنگ میں سپردقلم قرطاس کیاہے خزاین الفتوح میں علاالدین خلجی کے دورحکومت کے اہم تاریخی واقعات کی فہرست اس طرح ترتیب دی جاسکتی ہے۔

۱۔ جب علاالدین کڑہ مانک پورکا حاکم تھا تو اس کی دیوگیر کی مہم کے بارے میں تفصیلی اندازمیں تمام واقعات کو پیش کیا گیا ہے۔

۲۔ ۶۹۵ ہجری میں دہلی کے تخت وتاج کے حصول کے لیئے علا الدین خلجی کی کوششوں اوربلآخراس کے کامیابی حاصل کرنے لینے کے بعد اس کی تخت نشینی کے مفصل حالات درج کیئے گئے ہیں۔

۳۔ حکومت وسلطنت میں خوشحالی وفارغ البالی اورامن وامان قائم رکھنے کے لیئے بادشاہ نے جو عملی اقدامات کیئے تھےان پربھی دقیق بینی کے ساتھ روشنی ڈالی گئی ہے۔

۴۔ علا الدین خلجی کی جانب سے تعمیر کی گئی عمارتیں مثلاً جامع مسجد، علائی مینار، دہلی شہر کی فصیل اور حوض شمسی وغیرہ کی تعمیر ومرمت میں سلطان نے جس ذاتی ذوق وشوق کا مظاہرہ کیا اس کی تفصیل درج کی گئی ہے۔

۵۔ علا الدین کی مغلوں کے خلاف جنگ اس سفاک قوم پراس کا غالب آنا اور ان کو سزا وغیرہ دینے سے متعلق بڑی دلچسپ معلومات فراہم کی گئی ہیں۔

۷۔ ۶۹۸ سے لے کر ۷۰۰ ہجری تک گجرات اوررنتنبھوروغیرہ کی مھمات کا ذکر بھی بڑے دلچسپ اورجالب انداز میں تحریر کیا گیاہے۔

۸۔ مالوہ کی فتح، چتوڑ کی مہم، تلنگانہ کی تسخیراورملک کافورکو فتح کرنااورپھراس کی ظفریافتہ شاہی فوج کی دہلی میں واپسی کے متعلق بڑی مستند معلومات درج کی گئی ہیں۔

خزاین الفتوح دہلی میں علاالدین خلجی کے فتح مند لشکر کی واپسی کے ذکر کےساتھ  اختتام پذیرہوجاتی ہے اس کتاب کے آخر میں خسروکہتے ہیں کہ انھوں نے بڑی محنت ومشقت سے اس کتاب کو تحریرکیا ہے اوراس کودلچسپ وجالب بنانے میں اشعارکی پیوندکاری کی ہے وہ اپنی لغزشوں اور کمیوں کے لیئے بادشاہ اورقارئین سے معافی کے بھی خواستگارہوتے ہیں اوردعائیہ کلمات پراپنی کتاب کو تمام کردیتے ہیں کتاب کے آخر میں یہ عبارت درج ہے:

‘‘اگر رقم خطائی  نگاشتہ شدہ است کہ اہل معانی وبیان رابرحرف اوجای انگشت نہادن تواندبودپرتوقبولی ازعالم عنایت نامزدی فرمای کہ صورت قبحش درنورآن پوشیدہ ماند’’؎۴

امیرخسرو کے ہمہ نثری سرمایہ میں خزاین الفتوح کو ایک انفرادی، بلنداوراعلیٰ مقام حاصل ہے اس کتاب کی تاریخی اعتبارسے سب سے اہم اوربنیادی خوبی یہ ہے کہ اس میں سلطان علا الدین خلجی کے ابتدائی سولہ سالہ حکومت کے جو بھی حالات وواقعات بیان کیئے گئےہیں وہ بڑے مستنداورمعتبرہیں جوبڑی دقت نظری اورصداقت کے ساتھ تحریر ہوئے ہیںاورغالباً یہ علا الدین خلجی کےعہد حکومت کی پہلی اور شاید آخری بھی، ایسی تاریخ ہے جس میں اس دور کے حالات کوبڑے جامع اورحقیقی انداز میں پیش کیا گیاہے خسرو نے بڑی شرح وبسط کے ساتھ اس طرف روشنی ڈالی ہےکہ علا الدین خلجی بہت بہادر، شجاع اور دلیرہونے کے ساتھ ساتھ اعلیٰ درجے کا مدبر،ناظم اور سیاست داں تھا اس میں نظام سلطنت کو چلانے کی غیرمعمولی اور حیرت انگیز صلاحیتیں پائی جاتیں تھیں اس نے سلطنت کی توسیع وکشادگی کے لیئے جو بے مثل تدابیر اختیارکیں وہ اس سے قبل کے بادشاہوں کے یہاں دیکھنے کونہیں ملتیں ہیں اس میں بڑا رعب، دبدبہ اور جاہ جلال پایا جاتاتھا اس نے تمام رعایا کے لیئے ایسے قوانین ترتیب دیئے تھے کہ کوئی کسی پر ظلم وستم کرنے کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا تھااس کے عہد حکومت میں پوری مملکت عدل وانصاف اورامن وسکون کی آماجگاہ بنی ہوئی تھی کسی کو کسی پر ظلم یاکسی کی حق تلفی کی مجال نہیں ہوتی تھی خسرونے تو یہاں تک لکھ دیا تھا کہ عدل فاروقی کو سات سو سال کے طول وطویل انتظار کے بعد ایسا انصاف پسند مربی(سلطان علا الدین خلجی) ملا تھا اب پتہ نہیں یہ خسرو کی بادشاہ وقت کے ساتھ بے پناہ عقیدت مندانہ جذبات کی وجہ سے تھایا پھربادشاہ وقت کا خوف تھا جوان کے ذہن وقلب پراس طرح حاوی ہو گیا کہ ان کے قلم سے ایسے خوشامدانہ جملے تراوش کر گئےحالانکہ خسرو جیسی عظیم اوربے نیازصوفیانہ وعارفانہ شخصیت سے بے جا تملق وچاپلوسی کی امید تو نہیں کی جاسکتی ہے ہاں یہ ممکن ہے کہ اس دورمیں اسی طرح کاطرز تاریخ رایج تھا مورخین بادشاہ وقت کی تعریف وتوصیف میں اس قدر مبالغے سے کام لیتے تھے کہ اس بادشاہ کے انسان ہونےکے بجائے فرشتہ ہونے کا شبہ ہونے لگتا تھاغالباً یہ ہی وجہ رہی ہوگی جس کے سبب خسرو نے علا الدین  کے عدل وانصاف کو عدل فاروقی کے مساوی قرار دیا ہے۔

اس کے علاوہ خسرو نے بادشاہ کی بے پناہ فیاضیوں وبخششوں اور لطف وکرم  کے قصے تحریر کرنے میں بھی غیر ضروری مبالغے وغلوسے کام لیا ہے کہ سلطان وقت بہت بڑا فیاض اوربخشش کرنے والا تھاجو بغیر کسی تفریق کے ایک سحاب پر آب کی طرح تمام لوگوں پراپنے کرم کی بارش کرتا ہے وہ ہنرمندوں کو انعام واکرام کی شکل میں بہترین نسل کے قیمتی گھوڑے بخشتاتھاوہ لوگوں کے محصول معاف کردیتا تھا ان کی ضرورتوں کو ان کے زبان کی ادائگی سے پہلے ہی پوراکر دیتاتھا اس کے دور حکومت میں کوئی بھی پریشان حال، فکرمند اورتنگ دست نہیں تھا محمود غزنوی نے تومحض ایک اونٹ پرسوارانعام واکرام فردوسی جیسے عظیم شاعرکی خدمت میں پیش کیا تھا جبکہ سلطان تواس طرح کے نا جانے کتنے اونٹ غربا، مساکین اور فقرامیں تقسیم کر دیتاہے،اس کے علاوہ وہ علا الدین کی صلاحیتوں اس کے عدل وانصاف اس کی ہمت وشجاعت اس کی ذہانت ولیاقت اور اس کی دقیق بینی ودوراندیشی کا ذکر بھی بڑے جوش وخروش اور تکرارکے ساتھ کرتے ہیں اورجزئیات کو ہرگز بھی فراموش نہیں کرتے ہیں بادشاہ نے ملک کی رعایا کی فلاح وبہبود کے لیئے جوعملی اقدامات کیئے تھے خسروان کی خصوصی طورپرتعریف وتوصیف کرتے ہیں اوراسکی ذات کودنیا کے لوگوں کے لیئے باعث رحمت قراردیتے ہیں بادشاہ کی طرف سے رعایاکے لیئے کیئے گئے اقدامات کچھ اس طرح سے بیان تحریر کیئے ہیں۔

ـ بادشاہ نے ٹیکس معاف کردیاہے جس کی وجہ سے سامان کی قیمتیں بہت ہی زیادہ کم ہو گئیں ہیں۔

ـ بادشاہ نےپیشہ وروں پر ایک ایک محتسب کوفایض کر رکھا ہے جوبازار میں فروخت ہو رہی اشیاکی قیمتوں کی نگرانی کرتا ہے کہ کہیں مقررہ نرخ سے زیادہ میں تو چیزیں تو فروخت نہیں کی جارہی ہیں اوراگر ایسا ہوتا ہے تو سزا دی جاتی ہے۔

ـ بادشاہ نے چیزوں کے صحیح وزن وتول کے لیئے باقاعدہ میزان یا باٹ بنوائے ہیں جن پر سرکاری مہر لگائی جاتی ہے اورانھیں کے مطابق اشیا کو تول کر فروخت کیا جاتاہے۔

ـ سلطان نے رشوت خوری کرنے والوں کے لیئے سزائیں مقرر کیں ہیں اوررشوت خور اور بے ایمان افسران کو سخت سزائیں دی جاتی ہیں۔

ـ بادشاہ نے شراب پر پوری طرح پابندی لگا دی ہے۔

ـ شہنشاہ نے بدکاری جیسے بد فعل کوختم کردیا ہے شہر کی طوایفوں کو کہا گیا ہے کہ وہ شادی کریں اور بدکاری کو چھوڑ دیں، بدکاری کے تمام اڈوں کوبھی ختم کر دیا گیاہے۔

ـ چور، ڈاکو، رہزن اور جیب کتروں وغیرہ کی بھی سخت گوشمالی کی گئی ہے۔

ـ دور دراز کے راستوں پر پہرے داروں کو بٹھایا گیاہے تاکہ ناخوشگوار حادثات ظہور پذیر نہ ہوں۔

ـ جادوٹونا کرنے والوں کوسزائے موت دے دی جاتی ہے۔

ـ بادشاہ کی دوراندیشی کے سبب اس کے حکم کے مطابق بڑی مقدارمیں غلہ جمع کر لیا ہے تاکہ وقت قحط کسی دشواری کا سامنا نے کرناپڑے۔

اسی قسم کی ڈھیروں معلومات علاالدین اوراسکے عہد کے متعلق اس کتاب میں جمع کی گئی ہےخسروبنیادی طورپرشاعرتھے اوران کی طبیعت کی رنگا رنگی، بوقلمونی اورہمہ گیری ان کی منظوم تخلیقات میں اپنے پورے عروج پر نظر آتی ہے یہ ہی وجہ ہے کہ جب وہ نثر لکھتے ہیں تو بھی ان کے شاعرانہ مزاج کی جھلک کہیں نہ کہیں عود کران کی نثر میں بھی آجاتی ہے اور ان کی سیدھی سادھی بات بھی دلکش اور خوبصورت محسوس ہوتی ہے ان کا یہ ہی انداز بیان ہے جس نے ان کی اس تاریخ کو ادبی اعتبار سے بہت پرارزش اور قیمتی بنادیاہے جابجا ان کے موزوں کلمات نثرمیں بھی نظم کا سا لطف پیدا کر دیتے ہیں اس کے علاوہ ان کومنظرنگاری میں بھی خاص ملکہ حاصل ہے وہ جس کسی بھی چیز کے بارے میں گفتگو کرتے ہیں اس کا ہوبہ ہو نقشہ کھینچ دیتے ہیں خزاین الفتوح میں خسرونے جب دہلی کی ان عمارتوں کا ذکرہےکیاجو سلطان نے اپنے دورحکومت تعمیرکرائیں تھیں یا پھران کی مرمت وغیرہ کرانے کاحکم دیاتھا، جب خسرو انکے بارے میں بتاتے ہیں توجملوں کے اختصارکے باوجودبھی پورانقشہ پیش کردیتے ہیں ان عبارتوں کو پڑھ کر ایسامحسوس ہوتاہے کہ جیسے کوئی فلمی مناظر یک بعددیگرے نظروں کے سامنے گردش کر رہے ہوں اورقاری ان مناظر کے سحر میں کھو ساجاتاہے میں اپنے اس دعوی کی تصدیق میں صرف ایک مثال پیش کررہی ہوں:

‘‘مساجددیگردرشہرباستحکامی بنافرمودکہ چون درزلزلہ قیامت نہ بام ہزارچشمہ فلک بیفتدگوشہ ابروی ہیچ محرابی خم نگرددومساجدکہن کہ دیوارش راکع وساجدگشتہ بودو سقف راوقت قعدہ اخیرشدہ ستونہایش راچنان درقیام آوردندکہ قواعد:الصلاۃ عمادالدین:در وی ازسراقامت یافت وارکان اربعہ برسان ابنیہ خمسہ مسلامنی میشدوموید گشت ودرون وبیرون آنرابگچ نورانہ تنوری دادندکہ از نورہای سپید آن گونہ گنبد کبودبگشت’’ ؎۵

 خزاین الفتوح کاایک بڑاوصف اس کا ایجاز واختصارہے لیکن جامعیت ومعنویت میں بھی کوئی کلام نہیں ہے وہ مختصرالفاظ میں بڑے بڑے مطالب کوہنرمندی اورسلیقہ کے ساتھ بیان کرنے کاقرینہ خوب جانتے ہیں اگر وہ کسی واقعہ کی تفصیل بیان بھی کرتے ہیں تو اس بات کا پورا خیال رکھتے ہیں کہ غیرضروری طوالت سے پرہیز کریں اور کم سے کم الفاظ میں زیادہ سے زیادہ مطالب بیان کر دیں اکبر کا درباری مورخ ابوالفضل جس واقعہ کو بیان کرنے میں دس صفحات کو سیاہ کردیتا ہے خسرو محض چند سطورمیں اس کو سمیٹ دینے کا ملکہ رکھتے ہیں ان کے تاریخی مطالب کو بیان کرتے وقت غیرمعمولی احتیاط سے کام لینے کے باوجود عبارت میں کہیں تشنگی یاکسی کمی کا احساس نہیں ہونے دیتے ہیں اوریہ ان کا وہ انفرادی رنگ ہے جو مورخین کے جم غفیر میں انکوایک علیحٰدہ رنگ عطاکرتاہے انھوں نے خزاین الفتوح میں بڑے دلکش انداز میں اپنی سحربیانی کا استعمال کیا ہےیہاں فقط ایک مثال پراکتفا کیا جاتاہے جہاں ایک بہت بڑے واقعہ کو محض چند سطورمیں سمیٹ کر گویا دریا کو کوزے میں سمودیاگیاہے، خسرونے راجارنتنبھورکاذکرکیاہے شاہی لشکرنے اسکے قلعے کامحاصرہ کراسکو ہتھیارڈالنے پرمجبورکیالیکن اس نے شکست قبول کرنے کے بجائے محل کی تمام خواتین کو نذر آتش کروادیا تاکہ ان کی عفت وحرمت پر کوئی آنچ نہ آئے اور خود مقابلے کے لیئے باہر نکل آیااس کے بعدخسرو نے یہ بھی بتایا ہے کہ راجپوت حیرت انگیز حد تک شجاع اوربہادر ہوتے ہیں اور کبھی خاموشی یا دھوکے سے کسی پر وار نہیں کرتے ان کے ساتھ ہمیشہ ایک خادم یا بھاٹ یا مطرب رہتاتھاجو اپنے آقا کے میدان کارزار میں آنے کی اطلاع پہلے ہی دے دیا کرتا تھااور اس کے اعلیٰ حسب ونسب کے بارے میں بھی موثر انداز میں بیان کرتا تھا اوریہ راجپوت اس طرح حملہ آور ہوتے جیسے کوئی عقاب اپنے شکار پر حملہ کرتا ہے خسرواس واقعے کو اسطرح لکھتے ہیں:

‘‘قلعہ مروحہ کہ آب ازحوضہ نیلوفری میبردازبی آبی وبی برگی خارستانی گشت وجہان بررای اززندان غنچہ تنگ ترشد،یک شب ازبس دلتنگی نزدیک بود کہ زہرہ اومترقدبالای کوہ آتش چون لالہ کوہی برافروخت ونارپتانان گلرخ راکہ درپایش اونشوو نمایافتہ بوددرآتش انداخت،چنانکہ فریادازآتش برآمد،چون آن ہمہ بہشتی وشان را بحضورخویش دردوزخ فرستادخودشمشیر چون برگ بیدبردست گرفتہ بایک دوبیدین دیگر برسرپاشیب آمدوخواست کہ بنام نیک جان بباددہد،اگرچہ بادسحرمی وزیداما نرگسہای چشم کمین کشایان ہنوز بستگی خواب نیافتہ بودوچون رای آنجارسیدمطربی بلبل نوابرابراومیآمد،گلبانگی بزدکہ ہرھمہ کمین داران شمشیر ہای سوسنی کشیدہ چون نسیم صبح ازجای بجستندوحملہ آوردندوسرگل آگین رای کہ بادسردرسرداشت برپرانیدند’’ ؎۶

اس کتاب کی ایک اور قابل ذکرخصوصیت ان کا اسلوب نگارش ہے وہ مرصع ومسجع عبارت لکھتے ہیں جس میں معما اور ایہام کی فراوانی ہے لیکن اس کے باجود بھی اصل مطالب ومعانی کے بیان کی روانی میں کسی قسم کا کوئی فرق نہیں آتےاس کے علاوہ خزاین الفتوح میں بے شمار چھوٹے بڑے پیراگراف مندرج ہیں جس کو خسرو نے ‘‘نسبت’’ کا نام دیاہے ہرنسبت کاآغازایک مصرعہ سے کیا گیاہے اوراختتام عربی یا فارسی کے شعرکے ساتھ ہوتاہے انھوں نے بڑے نادراستعارات اورجدید تشبیہات کا بھی بے دریغ استعمال کیا ہے اس کے علاوہ ان کی تحریروں میں صنعت مراۃ النظیر کا سب سے زیادہ لیکن بڑی ہنرمندی کے ساتھ استعمال کیا گیاہے اس کتاب کی ادبی اہمیت اور اس میں بروئے کار لائی گئی صنعتوں بالخصوص صنعت مراۃ النظیر کے متعلق اظہار خیال کرتے ہوئے پروفیسر محمد وحید مرزا کہتے ہیں:

‘‘خسرونے سب سے زیادہ صنعت مراۃ النظیر سے استفادہ کیا ہے یہ تو نہیں کہا جا سکتا کہ خسرواس صنعت کے موجد ہیں مگر اس کو انھوں نے ایسی استادی اورخلاقی سے برتا ہے کہ فکروبیان میں کہیں ایہام یا تعقید نہیں ہے یہ روش آسان نہیں ہے البتہ دور جدید کے قاری کو خسروکی بے شمار تشبیہوں اور استعاروں میں بعض دور از کاراورپرتکلف معلوم ہوں گی میرے خیال میں خسرو قابل معافی ہیں کیونکہ ان کی بیشتر تشبیہں خوبصورت اور فطری ہیں اور ان سے کتاب کی ادبی ارزش میں اضافہ ہوتا ہے’’ ؎۷

خزاین الفتوح کی ایک اوربڑی اور اہم خصوصیت یہ ہے کہ خسرو نے تاریخ بیان کرنے کا ایک جدید، نادراورانوکھا انداز بیان اختیار کیا ہے جواس دورکے دیگر مورخین کے یہاں دیکھنے کو نہیں ملتا انھوں نے اعداد والفاظ کے بجائے مادہ تاریخ  بیان کیاہے جس کے سبب کسی بھی واقعہ کی تاریخ کی درستگی میں کسی قسم کاکوئی شک یا شبہ باقی نہیں رہتایہاں ایک نمونہ تاریخ نقل کیا جا رہا ہے:

‘‘در تاریخ سال معلوم کہ پائی علی بیگ درسلسلہ افتد وسروپای تورفاق نیزھمانجا گرفتارآید، تاریخ معلوم کرنے کے لیئے ان حرفوں کے عدد کو جوڑنا چاہیئے علی بیگ کا پاؤں، یعنی آخری حرف(کاف ۲۰) سلسلہ کا حرف (س ل س ل۱۸۵ تورفاق کا سریعنی پہلا حرف(ت۴۰۰) اورپاؤں یعنی آخری حرف (ق۱۰۰) مکمل مجموعہ ۷۰۵ ہوتاہے اوریہ ان سرداروں کی گرفتاری کا ہجری سن ہے’’ ؎۸

خسرو کی دیگر تصانیف کی طرح خزاین الفتوح میں بھی بعض ہندوی زبان کے الفاظ کا استعمال کیا ہے یہ کہنا تو مشکل ہے کہ وہ ان الفاظ کو شعوری طور پر بروئے کار لائے ہیں یا پھرغیر شعوری طورپر ان کے قلم سے تراوش کر گئے ہیں لیکن ان الفاظ کا استعمال بڑی مہارت، استادی اورہنرمندی کے ساتھ کیا گیا ہے جس کی وجہ سے عبارت کا حسن دو چند ہوجاتاہے ان کے بعض ہندوی الفاظ جو خزاین الفتوح میں بروئے کارلائے گئے ہیں اس طرح ہیں:

ـ  پترہ                 پترا

ـ  کٹھ گھر              کاٹھ کا گھر

ـ  تکہ                 پیشانی پر لگایا جانے والا ٹیکہ

ـ  چندن               صندل

ـ  بیسٹھ               قاصد یا پیغامبر

ـ  اچھوہ               سونے کی چوکور ڈلی

ـ  تلواڑہ              دیہات کی چھوٹی جھونپڑی

ـ  بیڑہ                 کشتی

امیرخسروکی دیگرمنظوم ومنثورتصانیف کی طرح خزاین الفتوح میں بھی وطن سے ان کی بے پناہ محبت وشیگفتگی کا اظہاردیکھنے کو ملتا ہے وہ کشورہند کی ہرادنیٰ واعلیٰ چیز سے والہانہ لگاؤ رکھتے تھے چونکہ ہندوستانی ماں کے بطن سے پیدا ہوئے تھے لہٰذایہاں کی ہرچیزسے لگاؤیامحبت ہوناعین فطری تھاخسروپہلے ایسے ہندوستانی شاعر اورادیب ہیں جنھوں نے اسلامی تعلیمات اورہندوستانی روایات کو ایک لڑی میں پرونے کی کامیاب کوشش کی حالانکہ ان سے قبل اگر ہندوستان کے فارسی شعرواودب کا مطالعہ ومحاسبہ کیاجائے توپتہ چلے گاکہ اس پرایرانی رنگ غالب تھا اورشاعروادیب اسی رنگ میں اپنی تخلیقات پیش کرناباعث افتخارتصورکرتے تھےلیکن امیر خسرونے مروجہ روایات سے انحراف کرتے ہوئے فارسی ادب میں ہندوستانیت کے عناصر کو شامل کیا خسرو کے زمانے میں جہاں ھندوؤں کو کافر، بت پرست اور جہنمی کہا جاتا تھا وہیں خسرو نے ان کی جوانمردی، خوش اخلاقی، مہمان نوازی، نرم رفتاری، دلیری اوروفاداری وغیرہ کی خوب تعریف وتمجید کی ہے اوردیگر مورخین کی طرح ان کی خوبیوں اور اچھائیوں سے دانستہ چشم پوشی اختیارنہیں کی ہے بلکہ ان کی اچھی صفات کو خوب سراہا ہے ہاں یہ ضرور ہے کہ ایک سچے اور ایماندارمورخ کی طرح انھیں جہاں ان کی خامیوں کا احساس ہوا ہے ان کی طرف بھی اشارہ کیاہے اور اور پوری دیانت داری سے ان کو قلم بند کیا ہے، علا الدین کی فوج نے جب ہندوؤں کی تعمیر کردہ عمارتوں کو نیست ونابود کیا اورشہروں کو اجاڑاتو خسرو کا دل اس پر خون کے آنسو بہاتا ہے بس فرق یہ ہے کہ وہ ان آنسوؤں کی نمایش نہیں کرتے اور دبی زبان ہی میں ہی سہی لیکن اس پر اپنی ناراضگی کا اظہار ضرور کرتے ہیں اور ایک سچا ہندوستانی مسلمان ہونے کی حیثیت سے ان کا اس طرح کا رویہ بالکل جایز اورروا تھاخزاین الفتوح میں جابجا اپنے عزیز از جان وطن یعنی کشورہندوستان سے ان کی والہانہ محبت وعقیدت کا اظہارملتاہے لیکن طوالت کی وجہ سے خزاین الفتوح کی اصل عبارتوں کو قلم اندازکیاجا رہاہے۔

خسرونے اپنی اس تاریخ میں میں نثرکے حسن ودلکشی کو افزوں کرنے کے لیئے اس میں نظم کی بھی پیوندکاری کی ہے اورعبارتوں میں عربی وفارسی اشعارکامتعدد جگہوں پراستعمال کیاہے اس کے علاوہ قرانی آیات سے بھی عبارت کومزئین کیا گیاہے اورسیاق وسباق سے مربوط کرتے ہوئے ان کو بروئے کار لانے کی کوشش کی گئی ہے بعض اوقات الفاظ کے ذومعنی سے بھی فایدہ اٹھا کر جملوں میں دلنشیشنی پیداکرنے کی کوشش کی گئی ہے جس ان کی اس تاریخ کا ادبی حسن کئی گنا بڑھ گیاہے ۔

مختصریہ کہ خزاین الفتوح کو ادبی اور تاریخی دونوں اعتبار سے ایک ذی قیمت، منفعت بخش اورپرارزش کتاب قراردی جاسکتی ہے اس کتاب میں امیرخسرونے اس عہد کے ہمہ واقعات وحالات کو پوری صحت، تحقیق اور دیانت داری کے ساتھ تحریر کیاہے اس کتاب میں بعض ایسی اہم تفصیلات درج کی گئیں ہیں جوعلا الدین خلجی کے عہد کے متعلق دیگر تاریخی کتابوں میں نہیں مل پاتیں ہیں یہ اس کتاب کی بے انتہا تاریخی اورادبی اہمیت ہی ہے کہ اتنا طویل عرصہ گزرجانے کے بعد بھی اس میں کسی قسم کی کہنگی یا فرسودگی کا احساس نہیں ہونے پاتا ہے بلکہ جتنی بار اس کا مطالعہ کیا جائے اتنی ہی بار ایک نئی حقیقت آشکارہوکر اذہان وقلوب کو جلا بخشتی ہے اس لیئے اس کتاب۔

                                                                   ماخذ ومنابع

۱۔ شعرالعجم حصہ دوم، علامہ شبلی نعمانی، معارف پریس شبلی اکیڈمی اعظم گڑھ ۲۰۱۰، صفحہ نمبر۱۰۸۔

۲۔ جہان خسرو، مرتبہ فاروق ارگلی، مضمون نگاروحید مرزا، مترجم نورالحسن انصاری، فرید بک ڈپوپرائیویٹ لمٹیڈ،دہلی، ۲۰۰۶، صفحہ نمبر۵۷۳

۳۔ خزاین الفتوح، امیرخسرو دہلوی تصحیح وتنقید وتحشیہ محمد وحید مرزا، رپن پرنٹنگ پریس لیمیٹڈ، لاہور، ۱۹۷۵، صفحہ ۴

۴۔ خزاین الفتوح، امیرخسرودہلوی تصحیح وتنقید وتحشیہ محمد وحید مرزا، رپن پرنٹنگ پریس لیمیٹڈ، لاہور، ۱۹۷۵، صفحہ ۱۸۲

۵۔ خزاین الفتوح، امیرخسرو دہلوی تصحیح وتنقید وتحشیہ محمد وحید مرزا، رپن پرنٹنگ پریس لیمیٹڈ، لاہور، ۱۹۷۵، صفحہ ۲۴

۶۔ خزاین الفتوح، امیرخسرو دہلوی تصحیح وتنقید وتحشیہ محمد وحید مرزا، رپن پرنٹنگ پریس لیمیٹڈ، لاہور، ۱۹۷۵، صفحہ ۵۳

۷۔ جہان خسرو، مرتبہ فاروق ارگلی، مضمون نگار وحید مرزامترجم نور الحسن انصاری، فرید بک ڈپوپرائیویٹ لمٹیڈ،دہلی، ۲۰۰۶، صفحہ نمبر ۵۶۸

۸۔ امیر خسروسوانح عمری، ڈاکٹر وحید مرزا، عفیف آفسیٹ پرنٹرس، دہلی ۲۰۰۶، صفحہ نمبر۲۴۵

Leave a Comment