اُردو ادب کا ایک ’’اورجنل رائٹر‘‘ ۔۔ڈاکٹراسلم جمشید پوری

٭ڈاکٹر ایم۔اے۔حق

\"970db279-4712-4c82-aa91-91b3a619b861\"

اسلم جمشید پوری کا نام لیتے ہی ذہن میں ایک ایسے فنکار کا تصوّر اُبھرتا ہے جن میں افسانہ یا کہانی کے تعلق سے ڈھیر ساری خصوصیات یکجا ہو گئی ہیں۔ میں نے یہ رائے یوں ہی نہیں دی ہے ۔ٹھوس حقائق کی روشنی میں جب میں اُن کی نگارشات کا تجزیہ پیش کروں گا تو مجھے قویٰ اُمیدہے کہ آپ بھی میرے ہم خیال بننے پر مجبور ہو جائیں گے۔
اسلم جمشید پوری کی سب سے پہلی اور سب سے بڑی خصوصیت اُن کے افسانوں کا طرزِ بیان ہے، جو بے انتہا دلچسپی سے لبریز ہوتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ قاری جب اُن کے افسانے کو پڑھنا شروع کرتا ہے تو اُسے بغیر ختم کئے نہیں رہتا ہے۔آج کے مصروف ترین دور میں ہمیں ایسے ہی طرزِ بیان والے مصنّفوں کی اشد ضرورت ہے جن کی کہانیاں اپنے آپ کو پڑھوانے کی قوّت رکھتی ہیں اور قاری نہ چاہتے ہوئے بھی اُس کے مطالعہ کے لئے راغب ہو جاتا ہے ۔ اسلم جمشید پوری کا یہ انداز اُردو ادب کی خدمت میں ایک گراں قدر اضافہ ہے۔آیئے کچھ مثالیں دیکھیں
’’فوجی نے پھر انگریزی کی ٹوٹی پھوٹی سڑک پر عشق کے گھوڑے کو دوڑانا شروع کر دیا۔‘‘ (افسانہ:۔ہوئے تم دوست جس کے)
’’ ایک برق رفتار گاڑی وہاں آ کر رُکی ۔بریک کی آواز نے سنّاٹے کی چہرے پر تھپّڑ رسید کر دیا تھا‘‘ (افسانہ:۔بنتے مٹتے دائرے)
’’ ٹرین شرمندہ شرمندہ سی ،کیوں کہ وہ پہلے ہی لیٹ ہو چُکی تھی ،دبے قدموں الہ آباد میں داخل ہوتی ہے اور کونے کھسرے چھٹے یا ساتویں نمبر کے پلیٹ فارم پر مسافروں کو رخصت کرتی ہے۔‘‘ (ہوئے تم دوست جس کے)
’’سیتا کے علاوہ بھی کالونی میں کئی عورتیں کام کرتی تھیں۔سب ایک دوسرے کو اچھی طرح جانتی تھیں۔ایک کا جغرافیہ دوسرے سے سُن لو اور دوسری کی تاریخ تیسری سے پتہ کر لو سب ایک دوسرے کے توسط سے ہر گھر کے اندر پہنچی رہتی ہیں۔(افسانہ:۔ بے آبرو)
’’ سورج دیوتا کو ذرا بھی شرم نہیں آتی کہ کم از کم تھوڑی دیر کے لئے بادلوں میں مُنہ چھپا لے‘‘ (بنتے مٹتے دائرے)
’’یہ رائے بریلی اور بریلی مجھے بہت دنوں تک پریشان کرتا تھا ۔ لوگ بھی نہ جانے کیسے کیسے نام رکھ دیتے ہیں۔یہ بھی کوئی تُک ہوئی بریلی کے آگے ’رائے‘ لگا دیا ۔ارے بھائی ! آپ کو اپنی رائے دینی تھی تو دے دیتے ،سب کو رائے دینے کے لئے مجبور کیوں کرتے ہو۔‘‘
(ہوئے تم دوست جس کے)
’’گائوں میں ’امیبا‘ کی طرح جب خاندان بڑھنے لگے تو مکانات قدموں قدموں چلتے گائوں کے باہر بھی نکل آئے تھے۔‘‘ ( افسانہ:۔ دن کے اندھیرے رات کے اُجالے)
ڈاکٹر اسلم جمشید پوری کی دوسری خوبی کرداروں کی مناسبت سے مکالمے کی ادایئگی ہے۔برّ صغیر کے معروف افسانہ و مضمون نگار محمد بشیر مالیر کوٹلوی اپنے مضامین کے توسط سے ہمیشہ اس جانب کہانی کاروں کو تاکید کرتے رہتے ہیں۔ آپ بھی اُن کے مکالموں کا لطف اُٹھائیں
ایک توتلی لڑکی آشا کہتی ہے ’’ میں تھمالی چھکایت کلوں گی بابا چھے‘‘( میں تمہاری شکایت کروں گی بابا سے)
’’ماں ۔۔۔۔او ماں۔۔۔۔۔تھانا دو بھوت لدی ہے‘‘ (ماں۔۔۔او ماں۔۔۔کھانا دو بھوک لگی ہے) ( افسانہ :۔نبتے مٹتے دائرے)
رام چندر نے لاٹھی کو مضبوطی سے پکڑتے ہوئے بڑے غصّے سے کہا ، ’’ بابو جی ! آپ اک اور ہو جائو، میں ابھی گرادن گو یا کی لاش۔۔۔۔دوال تو بن کر رے گی‘‘ ( افسانہ:۔ دن کے اندھیرے رات کے اُجالے)
چاچا نثار نے کہا ، ’’ دھرم ویر نے قبرستان کی پلی اور اپنا مکان بھی بنا لیو ہے موئے تو وا کی نیت پر شک ہوئے ہے۔‘‘ (دن کے اندھیرے رات کے اُجالے)
اسلم جمشید پوری کی تحریروں میں حقیقت کی صحیح ترجمانی نظر آتی ہے۔لگتا ہے جیسے وہ کہانی کے ریشے ریشے میں پیوست ہو کر اپنے کہانی کار کے وجود کو ضم کر دیتے ہیں۔اس سلسلے میںاُن کی کاوش قابلِ تقلید ہے۔کچھ بانگی دیکھیں
’’ سر کا پسینہ خود راہ بناتے ،پورے جسم کا سفر کرتے ہوئے ٹانگوں تک پہنچ جاتا ‘‘(افسانہ:۔ بنتے مٹتے دائرے) اس جُملے میں اسلم صاحب نے جس حقیقی انداز میں ایک محنت کش مزدور کی صحیح عکّاسی کی ہے وہ بلا شبہ قابلِ داد ہے ۔
’’بھئی جرا جلدی چلو۔۔۔۔۔کہیں ایسا نہ ہو ، نماز ہی چھوٹ جائے۔رمجان کی ساری محنت مِٹّی میں مل جاوے گی‘‘ (عید گاہ سے واپسی)
غور سے دیکھیں ۔۔۔۔اس تحریر میں گائوں والوں کی سادگی کس حد تک پوشیدہ ہے یہ صرف تصوّر ہی کی جا سکتی ہے۔
’’غریبی،بے بسی اور بے غیرتی اُس سے چمٹی یوں چلی آئی تھی گویا وہ اس کے جہیز کا حصّہ ہو‘‘ (افسانہ:۔ بنتے مٹتے دائرے)
اس جملے میں کہانی کار نے نہایت باریکی سے اُس مظلوم عورت کے حرکات و سکنات کا جائزہ لیا ہے اور اپنے ’اورجنل‘ ادیب ہونے کا حق ادا کر دیا ہے۔
میں نے زمین سے جُڑے بہت کم ہی مصنّف کو دیکھا ہے۔جی ہاں! اسلم جمشید پوری میں یہ گُن بدرجہ اتم موجود ہے ۔میرے خیال میں شہروں شہروں گھومنے والے ،ماڈرن معلومات سے لبریز اور مختلف سائینسی ایجادات سے واقف اسلم کے دل و دماغ میں ابھی تک اپنے آبائی وطن کے رسم و رواج نے زبردست قبضہ جما رکھا ہے۔یقین نہیں آتا ہے تو ’’ایکھ بوائی ‘‘ کے متعلق اُن کی تحریر دیکھیں
’’ترکھا بابا کے یہاں ’’ایکھ بوئی ‘‘ جانے والی تھی ۔ایک دن پہلے ہی گائوں میں خبر کر دی گئی ’’ بھئی کل باگ والے کھیت میں ایکھ بوئے گی ،جرور آیئو‘‘ چار بیگھہ کھیت میں ایکھ بونے کا کام دس بجے تک پورا ہو گیا تھا۔آخر میں کھیت میں بکھرے کوڑ کباڑ کو اکٹھا کیا گیا اتنے میں ترکھا بابا کی آواز گونجی ’’ سب گھر چلن گے کھیر پوری کی داوت ہے‘‘(افسانہ:۔ دن کے اندھیرے رات کے اُجالے)
’’ اب وہ پہلے جیسی بے لوث محبت نہیں رہی تھی۔پہلے گائوں کے کسی ایک شخص کا داماد ہوتا تھا اُس کی اتنی خاطر کی جاتی تھی کہ وہ خاطر و مدارات میں ڈوب جاتا ۔ہندو مسلم شیر و شکر کی طرح مل جل کر رہتے تھے ، ایک دوسرے کے تہواروں میں شریک ہونا، ایک دوسرے کے کام کروانا،’چھان‘ اُٹھانا،’ایکھ بوانا‘ شادی بیاہ میں ہاتھ بٹانا اُن کا معمول تھا ‘‘ (افسانہ:۔ عید گاہ سے واپسی)
کہانیوں کے غیر مناسب یا غیر موزوں عنوانات مجھے ہمیشہ Irritateکرتے رہتے ہیں۔خاص کر ویسے عنوانات جس سے کہانی کا اختتام
قبل از وقت پتہ چل جاتا ہے۔لیکن اسلم صاحب کے مجموعہ ’’عید گاہ سے واپسی‘‘ کے تمام افسانوں کے عنوانات مجھے کافی پسند آئے اور میں غیر ضروری کُڑھن سے نجات پا گیا۔
اسلم جمشید پوری نے اپنی ہر کہانی میں حت المقدور اہم معلومات پروسنے کی کوشش کی ہے ۔اُن کی تحریروں سے محظوظ ہونے والوں کو یہ یقین رہتا ہے کہ کچھ نہ کچھ نئی باتوں سے ضرور آگاہی ہوگی۔چلیئے آپ بھی اپنی معلومات میں اضافہ کر لیں۔
’’بلند شہر ، اتر پردیش کا ایک قدیم شہر ہے۔بہت پہلے اس کا نام ’برن‘ تھا۔اسی مناسبت سے یہاں کے باشندے خود کو ’برنی‘ لکھتے ہیں۔بعد میں اس کا نام بلند شہر رکھ دیا گیا۔‘‘
’’بلند شہر میں ’کالے عام چوراہا‘ خاصا مشہور ہے۔سُنا ہے 1857اور اس کے بعد انگریز حاکم ہندوستانیوں کو اسی چوراہے پر پھانسی دیا کرتے تھے۔‘‘(افسانہ:۔ لمبا آدمی)
’’ الہ آباد کی دو مشہور ٹرینیں ہیں۔نو چندی اور سنگم ایکسپریس ۔یہ دونوں ہی ٹرینیں الہٰ آباد سے چل کر میرٹھ تک جاتی ہیں۔سنگم کا راستہ کانپور سے اٹاوہ ،ٹونڈلہ،فیروز آباد ، علی گڑھ، بلند شہر کو چھوتے ہوئے ہاپوڑ اور میرٹھ پہنچتا ہے۔جبکہ نوچندی ایکسپریس لکھنئو ،بریلی، شاہ جہاں پور،رام پور،مراد آباد، ہوتے ہوئے ہاپوڑ اور میرٹھ پہنچتی ہے۔الہٰ آباد سے ان دونوں ٹرینوں کی روانگی شام میں 5منٹ کے فاصلے سے ہوتی ہے۔میرٹھ اور الٰہ آباد کے فاصلوں کو ایک شب میں طے کرنے والی یہ دونوں ٹرینیں خاصی مشہور ہیں۔یہ اتر پردیس کی سیاسی راج دھانی لکھنئو اور صنعتی راجدھانی کانپور کو مِس کرتی ہوئی گذرتی ہیں۔اس سے یہاں کے لوگوں کے دلوں کے فاصلے بھی کم ہوتے ہیں اور پریشانیاں بھی ۔یہ دونوں ٹرینیں میرٹھ اور الٰہ آباد کی شناخت ’’نو چندی میلہ‘‘ اور گنگا جمنا کے ملن ’’سنگم‘‘ کے ناموں سے جانی جاتی ہیں۔‘‘(افسانہ:۔ ہوئے تم دوست جس کے)
اس افسانہ کے مطالعہ کے قبل مجھے خود اس بات کا علم نہیں تھا ’’نو چندی ایکسپریس ‘‘ لکھنئو،بریلی،رام پور اور مراد آباد سے بھی ہو کر گذرتی ہے۔
آپ اسلم جمشید پوری کی تصنیفات پر ناقدانہ نگاہ ڈالیں تو پائیں گے کہ وہ کبھی بھی روایتی انداز کی تحریروں میں اپنے آپ کو مقیّد کرنے کے عادی نہیں رہے ہیں۔اُن کا منفرد ٹاپک اور کہانی کو برتنے کا مخصوص اسٹائل ہمیشہ زیر بحث رہا ہے اور قارئین و نقّاد حضرات سے تحسین بٹورنے میں کامیاب رہا ہے۔
مجموعے کی کہانی ’’لمبا آدمی‘‘ میں ایک ایسے شخص کا کرب پیش کیا گیا ہے جو ہنسی اور قہقہوں کے درمیان اپنے اوقات گذارتا ہے۔
’’دن کے اندھیرے رات کے اُجالے‘‘ میں ایک قبرستان کی روداد بیان کی گئی ہے۔’’پانی اور پیاس‘‘ پانی کے حصول کے لئے شدید جدّو جہد کا اظہاریہ ہے۔یہ سارے ٹاپک منفرد ہیں یا بہت کم تخلیق کاروں نے اسے اپنی کہانیوں کا موضوع بنایا ہے۔
اب آیئے اسلم جمشید پوری کے اسٹائل پر ۔’’ایک ادھوری کہانی‘‘ میں کس ڈرامائی اسٹائل میں ایک ضعیفہ کہانی سُنانے کے درمیان ایک درد انگیز کہانی کو پایۂ تکمیل تک پہنچا دیتی ہے اور کمال کی بات تو یہ ہے کہ اس کا عنوان ہے ’’ادھوری کہانی‘‘ ۔یہاں اسلم صاحب نے نہایت کامیابی سے اپنا Message قارئین تک پہنچا دیا ہے۔
’’دن کے اندھیرے رات کے اُجالے‘‘ میں بھی اسلم صاحب نے ایک قبرستان کی آپ بیتی پیش کرکے کہانی سُنانے کے ایک نیا اسٹائل
سے اُردو ادب کو روشناس کرایا ہے۔
مندرجہ بالا تمام خصوصیات اگر کسی ایک فنکار میں یکجا ہو جائیں تو بے ساختہ مُنہ سے نکل پڑتا ہے’’ اُردو ادب کا ایک اورجنل رائٹر‘‘
\"ce3d1bdb-de75-4149-b0ec-acf7248d1f43\"
\"4e7daa93-b15f-45ed-b452-5db682c8f5b2\"

Leave a Comment