اُردو صحافت میں مولانا ابوالکلام آزاد کی خدمات

\"\"
٭سید شبیر سید وزیر (ریسرچ اسکالر)
ڈاکٹر بابا صاحب امبیڈکر مراٹھواڑہ یونیورسٹی
اورنگ آباد۔
٭پرفیسر ڈاکٹر مقبول سلیم
ریسرچ گائیڈ: صدرشعبہ اردو ،پرمِلا دیوی پاٹل آرٹس اینڈسائنس کالج،
نیک نور،ضلع بیڑ۔

صحافت عربی زبان کا لفظ ہے ۔جس کے معنی ہیں اخبار نویسی ،لفظ صحافت کے ساتھ کئی مربوط الفاظ استعمال کیے جاتے ہیں مثلاًصحیفہ جس کے لغوی معنی اخبار ،کتاب یا رسالہ ہیں۔صحافی یعنی اخبار نویس یا اڈیٹر ۔صحف اور صحائف صحیفہ کی جمع ہیں۔صحاف جِلد ساز یا کتب فروش ،صحفی بمعنی ذاتی مطالعہ سے علم حاصل کرنے والا وغیرہ۔صحیفہ سے ایک فارسی ترکیب وضع کرلی گئی ہے ،صحیفہ نگار بمعنی اخبار نویس۔ان تمام الفاظ اور تراکیب سے واضح ہے کہ صحافت کا تعلق آگاہی سے ہے اور صحافت میں واقعات کی عکاسی کی جاتی ہے ۔صحافت ہر لمحہ پیش آنے والے واقعات کی عکاسی اور اس کے پس منظر سے ابھرنے والے نظریات کی ترویج و اشاعت کا نام ہے۔تازہ خبریں اور حالات حاضرہ پر مختلف قسم کے مضامین جمع کرکے ،انھیں ایک خاص مدت یا وقفے سے شائع کرنا صحافت ہے۔صحافت بنیادی طور پر اخبار نویسی اور رسالہ نگاری کے عمل کا نام ہے۔صحافت ایک ایسی تحریر کو کہتے ہیں جس میں زندگی کے تمام پہلوؤں کا احاطہ کیا جاتا ہے۔سیاسی ،سماجی،ثقافتی،سائنسی ،قومی ،بین الاقوامی،غرض ہر قسم کے خیالات و افکار و معاملات اس میں شامل ہوتے ہیں۔یہاں صحافت کے دو مقصد کار فرما ہوتے ہیں۔اطلاعات کی فراہمی نیز رائے عامہّ کی تشکیل اس کے علاوہ اس میں کسی ادیب کا ادب ،مفکر کا خیال ،مبصر کا تبصرہ ،فلسفی کا فلسفہ،سائنسی ایجاد ،لطائف ،اصلاحی مضامین وغیرہ تمام چیزیں جگہ بنا سکتی ہیں۔
اگر ہم اردو صحافت کا مطالعہ کریں تو ہم دیکھیں گے کہ اردو صحافت نے گزرے ہوئے وقت میں کئی نشیب و فراز دیکھے ،انگریزوں کی ہندوستان میں بڑھتی اجارہ داری دیکھی،مغلیہ سلطنت کے چراغ کو بجھتے ہوئے دیکھا،معاشی اور معاشرتی تبدیلی دیکھی ،اردو صحافت نے اپنے اس دور میں ہندوستان کی ہر اس چھوٹی بڑی تبدیلی کو دیکھا ،پرکھا اور اپنے دامن میں ان واقعات کو جگہ دی جن سے ہمارا ماضی جڑا ہوا ہے ۔اردو صحافت جو بتدریج ترقی کی سمت رواں دواں نظرآتاہے۔محققین اخبار’جامِ جہاں نما‘کو اردو کا پہلا اخبار تصور کرتے ہیں جو ۱۸۲۲ء میں جاری ہوا۔اس کے متعلق انور علی دہلوی فرماتے ہیں:
’’جام جہاں نمااردو کا پہلا اور ہفتہ وار اخبار تھا۔وہ ایسٹ انڈیا کمپنی نے اپنی مصلحتوں کے تحت نکلوایا اورکبھی اردو کبھی فارسی کبھی دونوں زبانوں میں نکلا۔‘‘ (۱)
اسی عہد میںمولوی محمد باقر نے ۱۸۳۷ء میں ’دہلی اردو اخبار‘کے نام سے اردو اخبار شائع کیا،۱۸۵۷ء تک درجنوں اردو اخبارات منظر عام پر آئے ۔غدر کے ہنگاموں میں انگریز وں نے مولوی محمد باقر پر غداری کا الزام لگایا اور انھیں موت کی سزا دی۔مولوی باقر اردو کے پہلے شہید ایڈیٹرہیں۔ انگریزی حکومت کے خلاف لکھنے کے جرم میں دلی کے ایک اور اردو اخبار ’صادق الاخبار‘کے ایڈیٹر سید جمیل الدین ہجر کو تین سال کی سزا سُنائی گئی۔اس کے علاوہ لکھنؤ کا سحر سامری ،طلسم لکھنؤ ،بریلی کا عمدۃالاخبار ،بدایوں کا ’حبیب الاخبار‘پشاور کا ’اخبار مرتضائی ‘وغیرہ اخبارات کو انگریزوں کے خلاف لکھنے پر مختلف تکلیفوں کا سامنا کرنا پڑا۔
۱۸۵۷ء کے غدر کے دوران ہندوستان کے تمام اردو اخبارات مغلیہ سلطنت کے آخری بادشاہ بہادر شاہ ظفر کی تائید میں اور انگریزوں کے خلاف نبرد آزما دکھائی دیتے ہیں۔اردو اخبارات کے ایڈیٹر اس بات سے بخوبی واقف تھے کے غدر میں نا کامی اردو صحافت اور خود ان کی تباہی کا پیش خیمہ ہوگی۔مگر اس کے باوجودبلا خوف و خطر اردو صحافت کا بے باک انداز ،اس کی شجاعت،حوصلہ مندی،ہندوستان سے بے پناہ محبت اور آزادی کی خواہش کو پیش کرتا ہے۔غدر کی ناکامی کے بعد انگریزوں نے مسلم قوم کو اپنی تخریبی کاروائیوں کا محور بنایا ۔اس کے علاوہ غدر کی آگ جن جن ریاستوں اور شہروں میں پھیلی وہاں پر اردو اخبارات کی اشاعت پوری طرح بند ہوگئی۔مگر ان مقامات پر اردو اخبارات شائع ہوتے رہے جہاں پر غدر کے ہنگامے برپا نہیں ہوئے تھے۔۱۸۵۸ء تا ۱۸۶۰ء ان برسوں میں ممبئی،کلکتہ،لکھنؤ،مدراس،جون پور،اجمیر،کان پور،بنگلور،کوٹہ،سورت اورفتح گڑھ سے گیارہ اخبارات جاری ہوئے۔ غدر کے تین سال بعد دکن میں اردو صحافت کی ابتدا ہوئی ،شمالی ہند کے مقابلے دکن میں صحافت کی ابتدا دیر سے ہوئی اور اس کی ترقی کی رفتار شمالی ہند کی بہ نسبت کم ہی تھی۔دوسری جانب شمالی ہند میں ’سرسید احمد خاں ‘نے اردو صحافت کو کمر بستہ کرنے کے لیے اپنی کوششیں تیز کردی تھیں۔۳۰؍مارچ ۱۸۶۶ء کو سر سید کا پہلا اخبار ’سائنٹفک سوسائٹی‘شائع ہوا۔اردو ادب کا مطالعہ کیا جائے تو ہم دیکھتے ہیں کہ غالباًاردو کے سبھی شعراء وادبا کسی نہ کسی طرح صحافت سے جڑے نظر آتے ہیں ۔لیکن سر سید احمد خاں کے بعد اردو صحافت کو جس نے صحیح سمت دکھائی وہ مولانا ابوالکلام آزاد تھے۔
مولانا ابوالکلام آزاد بتاریخ ۱۱ ؍نومبر ۱۸۸۸ء مکہ معظّمہ میں پیدا ہوئے ۔ان کے والد محترم کا نام خیر الدین اور والدہ محترمہ کا نام عالیہ بیگم تھا۔آزاد کا اصل نام ابوالکلام غلام محی الدین ،تاریخی نام فیروز بخت ،لقب ابوالکلام اور تخلص آزاد تھا۔مولانا آزاد اپنے بھائی اور بہنوں میں چھوٹے تھے ۔ان کی تین بڑی بہنیں اور ایک بڑا بھائی تھا۔آزاد اپنے بھائی اور بہنوں میں نسبتاًبہت ذہین تھے،ان کے مزاج میں بچپن سے ہی مولانا جیسی صفات شامل تھیں ۔وہ بہت کم دوسرے بچوں کی طرح کھیلا کرتے تھے ۔عربی ان کی مادری زبان تھی اور اس پر ان کی زبردست گرفت تھی۔انھوں نے فارسی اور اردو زبانیں سیکھیں اور ان پر عبور حاصل کیا۔انگریزی اور فرانسیسی زبانوں سے بھی انھوں نے بخوبی واقفیت حاصل کی تھی ۔مذہبی تعلیم ،فقہ ،علم ِکیمیا اور فلکیات کا تفصیلی مطالعہ کیا تھا ،ریاضی اور طب کی بھی تعلیم حاصل کی تھی۔
مولانا ابوالکلام آزاد کی شخصیت ہمہ جہت صلاحیتوں کی حامل ہے۔وہ عالم دین بھی تھے اور مدبر بھی،مفسر ِ قراآن بھی تھے اور مفکر بھی،بیباک صحافی بھی تھے اور شاعر و صاحب ِطرزِادیب بھی،صف اول کے سیاست داں بھی تھے اور بے مثال مقرر بھی،مکتوب نگار بھی تھے اور انشا پرداز بھی،مجاہد آزادی بھی تھے اور وزیر تعلیم بھی،مزید یہ کہ لسانیات ،لغات ،اصلاحات ،ترجمہ ،سائنس ،تاریخ و جغرافیہ ،منطق و فلسفہ ،حدیث و فقہ ،قیادت و سیاست اور تعلیم و ثقافت جیسے متعدد میدانوں میں انھوں نے مقام ِامتیاز حاصل کیا تھا۔
مولانا آزاد کی ذہنی تربیت بچپن سے ہی ایسے ماحول میں ہوئی تھی جہاں ادبی ذوق مزاج کا جز بن گیا ،چنانچہ مولانا کی ادبی زندگی کی ابتدا شاعری سے ہوئی ۔عبدالواحد جو اکثر مولانا کے گھر آیا کرتے تھے ۔مولانا کو اکثر اشعار سنایا کرتے تھے ۔ان کی صحبت میں مولانا کو شعر گوئی سے رغبت ہوئی اور انھیں کی تجویز پر مولانا نے تخلص ’آزاد ‘ اختیار کیا۔مولانا نے دس،گیارہ سال کی عمر سے اشعار کہنا شروع کیا اور شاعری کی تمام مشہور اصناف ِسخن میں طبع آزمائی کی ۔مولانا کے زمانے میں مختلف شہروں سے شعری گلدستے نکلاکرتے تھے جن میں مولا ناکاکلام شائع ہوتا تھا۔ارمغان فرخ ،نیرنگ ِ عالم ،انتخاب ،سفینہ نجات ،صحن ِچمن،مخزن ،الپنچ وغیرہ میں مولانا آزاد کے کلام کی کثرت سے اشاعت عمل میں آئی ہے۔گلدستوں میں شائع ہونے ،مشاعروں میں شرکت کرنے اور دادوتحسین کے پانے سے مولانا میںخود ایک گلدستہ شائع کرنے کی خواہش پیدا ہوئی۔چنانچہ انھوں نے ۱۸۹۹ء میں کلکتہ سے ایک گلدستہ ’نیرنگِ عالم‘شائع کیا۔اس کے آٹھ شمارے نکلے اور پھر وہ بند ہوگیا۔ان دنوں مولانا آزاد اس خیال کے حامی تھے کہ بلند مقام کی تحصیل کے لیے کسی اخبار یا رسالے کا مدیر ہونا ضروری ہے۔
رسالہ ’نیرنگِ عالم ‘ بھلے ہی زیادہ عرصے تک شائع نہیں ہو پایا اور جلد ہی بند ہوگیا ،لیکن اس رسالے نے ان کی صحافتی دنیا میں قدم رکھنے کی راہ ہموار کردی۔اس کے بعد انھوں نے ایک ہفت روزہ رسالہ’المصباح‘جاری کیا۔لیکن وہ بھی زیادہ عرصے تک قائم نہیں رہ پایا،جلدہی کسی سبب مولانا آزادکاشاعری کی طرف سے مزاج بدل گیا اور نثر نگاری کی جانب توجہ دینے لگے ۔پھر مضمون نگاری کی طرف مائل ہوگئے۔مولانا کے مضامین کچھ دینی و علمی ہیں تو کچھ معلوماتی ،کچھ تحقیقی ہیں تو کچھ اصلاحی ،کچھ میں فکر و فلسفے کی گہرائی ہے تو کچھ میں انشاکا زور اور کچھ میں خطابت کا نمونہ ہیں تو کچھ اسلوب کا پیکر۔مولانا کے متعلق عبدالقوی دسنوی تحریر کرتے ہیں:
’’ایسا محسوس ہوتا ہے کہ مولانا آزاد صحافت کے ذریعے اردو زبان و ادب اور قوم کی خدمت کرنا چاہتے تھے اور اس کے لیے بہتر موقع کی تلاش میں تھے ۔چنانچہ ’المصباح‘کے بند ہوجانے کے بعد انھوں نے مضامین لکھنے کا سلسلہ جاری رکھا۔فن ِاخبار نویسی کے عنوان سے ایک مضمون لکھا جو مخزن لاہور مئی ۱۹۰۲ء میں شائع ہوا۔‘‘(۲)
مولانا کی تحریروں کی یہ خاص بات تھی کہ وہ جس موضوع پر قلم اُٹھاتے تھے اس کا حق ادا کرتے تھے۔لہذااس زمانے میں مولانا کی نثر اور اس کے اسلوب نے لوگوں کو بے حد متاثر کیا تھا۔حسرت موہانی مولانا آزاد کی نثر نگاری سے بہت متاثر نظر آتے ہیں ،حسرت فرماتے ہیں:
جب سے دیکھی ابولکلام کی نثر
نظمِ حسرت میں کچھ مزا نہ رہا
مولانا آزاد کی شخصیت کا ایک اور تابناک پہلو ان کی صحافت نگاری ہے۔مولانا عبدالماجد دریا آبادی مولانا آزاد کی صحافت نگاری سے بے حد متاثر نظر آتے ہیں ،مولانا کی صحافت نگاری کے متعلق وہ فرماتے ہیں:
’’وہ اپنے طرز ِانشا کے جس طرح موجد ہیںاسی طرح اس کے خاتم بھی ہیں۔تقلید کی کوشش بہتوں نے کی۔۔۔۔تقریباًسبھی ناکام رہے۔۔۔بحیثیت مجموئی ابوالکلام اپنی انشا پردازی میں اب تک بالکل منفرد و یکتا ہیںاور بظاہر احوال یہی نظر آتے ہیں کہ غالب کی طرح ان کی بھی یکتائی وقتی نہیں مستقل ہے۔حال ہی کے لیے نہیں مستقبل کے لیے بھی۔‘‘
اردو جرنلزم کے لیے آج جو لفظ ’صحافت ‘ رائج ہے اس کا سہرا مولانا آازاد کے ہی سر جاتا ہے ۔کیو نکہ اس سے قبل اردو زبان میں انگریزی لفظ جرنلزم یا جرنلسٹ کے لیے کوئی متبادل لفظ نہیں تھا ۔اخبار کے رپورٹر اور اس کے قلم کار کو کس لقب سے پکارا جائے اس کے لیے کوئی لفظ اس وقت تک تشکیل نہیں پایا تھا۔
’المصباح‘ کے بند ہوجانے کے بعد لکھنؤ سے نوبت رائے کی ادارت میں ماہنامہ ’خدنگِ نظر‘شائع ہورہا تھا۔ابتدا میں یہ شاعری کا گلدستہ تھا۔۱۹۰۲ء میں اس میں نثری حصے کا اضافہ کیا گیا نثری حصے کے اضافے کے بعد مولانا آزاد کے مخالفین ’خدنگِ نظر‘کے صفحات کی زینت بنے ۔ان کے مضامین کی فکر اور گہرائی کو دیکھ کر نوبت رائے نے اپنے اخبار کی مجلس ادارت میں شامل ہونے کی دعوت دی جسے مولانا نے قبول کرلیا اور اس طرح ۱۹۰۳ء میں وہ بحیثیت سب ایڈیٹر ’خدنگِ نظر‘سے منسلک ہوگئے اور اس کے نثری حصے کی ایڈیٹنگ کے فرائض انجام دینے لگے۔خدنگِ نظر سے مولا نا کا تعلق بہت زیادہ دنوں تک نہیں رہا،تقریباًسوا سال کی مدت تک وہ خدنگِ نظر سے وابستہ رہے اس دوران انھوں نے خدنگِ نظر کے لیے کئی اہم اور قیمتی مضامین لکھے۔جیسے کبوترکی ڈاک،پنکچوئیشن،مبادلہ سنین ،آثارقدیمہ ،مینار ِخسرو،اور ایکس ریزقابل ذکر ہیں۔خدنگِ نظر سے وابستگی کے دوران انھوں نے جہاں اردو قاری کو کئی معلوماتی مضامین سے استفادہ کرنے کا موقع دیا وہیں اردو صحافت کے معیار کو بلند کرنے کی کوشش کی۔
خدنگِ نظر سے علحیدگی کے بعد شاہ جہاں پور سے شائع ہونے والے اخبار،ایڈورڈگزٹ ،کی ادراتی ذمے داری سنبھالی لیکن چند مہینے کے بعد وہ اس سے بھی الگ ہوگئے اور اپنا اخبار نکالنے کا فیصلہ کیا۔’خدنگِ نظر‘اور’ ایڈورڈ گزٹ ‘ سے وابستگی نے ان کے ادارتی صلاحیت کو نکھاردیا تھا۔اور اب وہ اپنے دیرینہ خواب کی تکمیل کے لیے کمر بستہ ہوچکے تھے۔اور یہ خواب ۲۰؍نومبر ۱۹۰۳ء کو ماہنامہ ’لسان الصدق ‘کی شکل میں عمل میں لایا گیا۔اس ماہنامے کے ابتدائی شمارے میں ہی مولانا نے اس کے مقاصد کو واضح کیا۔مولانا مختلف علمی و ادبی جلسوں میں مقرر کی حیثیت سے مدعو کیے جانے لگے اور ان کا اندازِ خطابت سامعین کو بے حد متاثر کرنے لگا۔پندرہ سولہ سال کی کم عمر میں خطیبانہ لہجے میں تقریر کرنا اور لسان الصدق جیسے موقر ماہنامے کی ادارت کے فرائض انجام دینا مولانا آزاد کے غیر معمولی کارہائے نمایاں تھے۔لسان الصدق تقریباًڈیڑھ برس تک شائع ہوتا رہا۔۱پریل اور مئی ۱۹۰۵ء کے مشترکہ شمارے کے ساتھ لسان الصدق کو مولانا آزاد نے بند کردیا۔
لسان الصدق کے بند ہوجانے کے بعد جب ان کی ملاقات مولانا شبلی نعمانی سے ہوئی تو شبلی نعمانی نے انھیں اپنے رسالے ماہنامہ’ الندوہ‘کے لیے مضامین لکھنے اور ساتھ ہی الندوہ کی مجلس ِادارت میں بحیثیت معاون مدیر شامل ہونے کے لیے مدعو کیا۔جسے مولانا آزاد نے قبول کرلیااور وہ الندوہ سے وابستہ ہوگئے۔الندوہ کے ساتھ وابستگی کے دوران انھوں نے اس رسالے کے لیے کئی بیش قیمتی مضامین لکھے۔لیکن الندوہ سے بھی ان کے مراسم زیادہ دنوں تک قائم نہیں رہ سکے اور تقریباًچھ ماہ بعد انھوں نے الندوہ سے کنارہ کشی اختیار کرلی۔
’الندوہ‘سے کنارہ کشی کے بعد امرتسر سے شائع ہونے والے سہ روزہ اخبار ’وکیل‘کی ادارت سنبھالنے کی دعوت دی جسے مولانا نے قبول کرلیا اور امرتسر چلے گئے ۔مولانا نے سہ روزہ وکیل میں کئی خوشگوار تبدیلیاں کیں۔امرتسر میں وکیل کے ساتھ مولانا آزاد کا قیام دو ادوار میں ہے پہلا اپریل سے نومبر ۱۹۰۶ء تک آٹھ مہینوں کا اور دوسرا اگست ۱۹۰۷ء سے جولائی ۱۹۰۸ء تک۔وکیل سے علحیدگی کے بعد مولانا آزاد نے ملک کے سیاسی حالات کا گہرائی سے مطالعہ کیا ،مولانا نے یہ محسوس کیا کہ انگریزوں کو در بدر کیے بغیر ملک و قوم کی ترقی نہیں ہوسکتی ۔اس لیے انھوں نے صحافت کو بطور ہتھیار استعمال کرکے مسلمانوں کے اندر انگریزوں کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے اور اسے ملک بدر کرنے کا جذبہ بیدار کرنے کا فیصلہ کیا۔ان دنوں جامعہ اظہر سے علامہ رشید رضا مصری کی ادارت میں عربی رسالہ ’المنار‘شائع ہوتا تھا۔جس کی انقلابی تحریریں ،ظاہری حُسن طباعت اور ٹائپ رائٹر کی چھپائی سے مولانا بے حد متاثر تھے اور اسی طرز پر ہندوستان میں ایک اخبار شائع کرنے کا فیصلہ کیا۔
اس طرح کلکتہ سے ۱۳ ؍جولائی ۱۹۱۲ء کو دُنیا ئے صحافت کے افق پر ہفت روزہ ’الہلال‘طلوع ہوا۔اردو صحافت میں ’الہلال‘ایک سنگِ میل کا درجہ رکھتا ہے،الہلال کی صحافت دراصل تجدید ِاحیا ئے ملت ،اتحاداور متحدہ قومیت کی تحریک تھی۔مولانا آزاد نے مسلمانوں کو نہ صرف تحریک آزادی میں شرکت کے لیے مدعو کیا بلکہ ان کے لیے اس کو مذہبی فریضہ بھی قرار دیا ۔اس رسالے کی اشاعت کو ۱۸ ؍جنوری ۱۹۱۴ء کا شمارہ شائع ہونے کے بعد بند کردینا پڑا۔کیونکہ انگریزی حکومت نے اس رسالے کی دو ہزار روپیوں کی پرانی ضمانت کو ضبط کرتے ہوئے دس ہزار روپیوں کی نئی ضمانت کا مطالبہ کیا تھا۔
الہلال کے بند ہوجانے کے ایک سال بعد مولا نا نے اپنی زیر ِصدارت میں الہلال ہی کی طرح ایک ہفت روزہ اخبار ’البلاغ‘کو بتاریخ ۱۲؍نومبر ۱۹۱۵ء میں جاری کیا۔انگریزی حکوت کی جانب سے مولانا کے صوبہ بدر کردیے جانے پر اپریل ۱۹۱۶ء میں البلاغ کو بھی بند کردینا پڑا۔تحریک آزادی کی مصروفیات کی بنا پر مولانا آزاد کئی سال تک صحافت سے دور رہے۔تاہم ان کی صحافتی خدمات کا آغاز پھرسے اس وقت ہواجب ’الہلال‘ کے دوسرے دور کے پہلے شمارے کی اشاعت بتاریخ ۱۰؍جون ۱۹۲۷ء عمل میں آئی۔مگر انگریزوں کی سازشوں اور مولانا آزاد کی سیاسی مصروفیات کے باعث ۹؍دسمبر ۱۹۲۷ء کے شمارے کی اشاعت کے بعد اس کو بھی بند کردینا پڑا۔اس طرح مولانا آزاد کا صحافتی سفر جس کا آغاز ۱۸۹۹ء میں ہوا تھا۔۱۹۷۷ء میں اختتام کو پہنچا۔معروف ادیب و ناقد ’مالک رام‘مولانا ابوالکلام آزاد کے متعلق فرماتے ہیں:
’’الہلال ‘ان کی عہد ِشباب کی یاد گار ہے اور’ غبار خاطر‘بڑھاپے کی مگرکوئی بھی شخص اسے پڑھ کر یہ نہیں کہہ سکتا کہ یہ کسی تھکے ہوئے دماغ یا قلم کی تخلیق ہے۔یہاں بھی ان کے ذہن کی گرم جولانی اور قلم کی گل افشانی میں وہی دلکشی ہے جو روز اول سے ان سے منسوب رہی۔اگر تمام مشغولیتوں سے قطع نظر کرکے اپنے آپ کو علم وادب ہی کے لیے وہ وقف رکھتے تو نہ معلوم آج اردو کے خزانے میں کیسے کیسے قیمتی جواہر کا اضافہ ہوگیا ہوتا۔

٭٭٭

حولاجات:
(۱)( اردو صحافت۔مرتبہ۔انور علی دہلوی۔۱۹۸۷ء)
(۲)( ابولکلام آزاد ۔عبدلقوی دسنوی۔صفحہ ۲۵)
کتابیات :
(۱) آزاد کی کہانی خود ان کی زبانی ۔ ابوالکلام آزاد
(۲)آثار ابوالکلام آزاد ۔ قاضی عبدالغفار
(۳) ابولکلام آزاد:سوانح و افکار ۔ شورش کشمیری
(۴) کچھ ابوالکلام آزاد کے بارے میں ۔ مالک رام
SYED SHABBIR SYED VAZEER
(Research Scholar)
Dr.Babasaheb Ambedkar Marathwada University,Aurangabad.
Mob: 9923143197
Gmail: shabbir.nanded@gmail.com

Leave a Comment