مساوات کا مطلب یک رنگی نہیں، اسلام میں خواتین کے حقوق کا بھرپور لحاظ
حیدرآباد، 18؍ اکتوبر (پریس نوٹ) مساوات کا مطلب یک رنگی نہیں ہے، قانون، روایات اور ثقافت کا محض ایک چھوٹا سا حصہ ہے، اسلام نے خواتین کو کافی حقوق دیئے ہیں۔ دیگر مذاہب میں ایسی مثال نہیں ملتی۔
ان خیالات کااظہار ممتاز ماہر قانون پروفیسر فیضان مصطفی ، وائس چانسلر نلسار یونیورسٹی آف لا، حیدرآباد نے مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کے سید حامد لائبریری آڈیٹوریم میں منعقدہ تربیتی پروگرام کے افتتاحی اجلاس میں بحیثیت مہمانِ خصوصی خطاب کرتے ہوئے کیا۔ ’’حقوق نسواں‘‘ کے زیر عنوان ایک روزہ تربیتی پروگرام کا مرکز برائے مطالعاتِ نسواں نے قومی انسانی حقوق کمیشن، نئی دہلی کے تعاون سے کیا۔ افتتاحی اجلاس میں پروفیسر احمد اللہ خان، سابق ڈین فیکلٹی آف لا، عثمانیہ یونیورسٹی نے مہمانِ اعزازی کی حیثیت سے شرکت کی جبکہ پروفیسر ایس ایم رحمت اللہ، ڈین اسکول برائے فنون و سماجی علوم نے صدارت کی۔
پروفیسر فیضان مصطفی نے اپنے پر مغز لکچر میں نشاندہی کی کہ ہندو کوڈ بل میں بہت ساری باتیں اسلام سے ماخوذ کی گئی ہیں۔ اس سلسلہ میں قانونِ وراثت کا حوالہ دیا۔ ہندو قانون کے تحت طلاق بھی ناقابل تصور تھی۔ اسلام وہ پہلا مذہب ہے جس نے شادی کو کنٹراکٹ قرار دیتے ہوئے اختلاف یا مجبوری کی صورت میں علیحدگی کی گنجائش رکھی۔ ہندوستان میں مختلف قوانین کی تدوین کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ انگریزوں نے ہندوئوں اور مسلمانوں کے قوانین کو منضبط شکل تو دی لیکن اس پر عمل آوری کے معاملے میں ان کی ذہنیت بائبل کی تعلیمات سے متاثر رہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مردوں نے خواتین کو ان کی انفرادیت اور آزادانہ وجود کے ساتھ قبول ہی نہیں کیا۔ اس کے برخلاف اسلام ان ساری باتوں کو قبول نہیں کرتا۔ انگریزوں کے دور میں ولیم جونس نے ہدایہ اور دھرم شاستر کا ترجمہ کروایا۔ مترجم چونکہ عربی سے واقف نہیں تھا اسی لیے پہلے فارسی میں ترجمہ کیا گیا اور پھر انگریزی میں۔ ناشر نے قارئین کی سہولت کے لیے چار جلدوں کو ایک کتاب کی شکل دے دی۔ انگریزوں نے اسے ضابطہ سمجھ لیا۔ جبکہ یہ محض فقہی آراء کا مجموعہ تھا۔ ممتاز ماہر قانون نے دریافت کیا کہ سپریم کورٹ، فقہی آراء کے دستوری جواز کا فیصلہ کیوں کر کرسکتا ہے۔
سپریم کورٹ میں حکومت کے داخل کردہ حلف نامہ اور یکساں سیول کوڈ کے نفاذ کے مطالبات کا حوالہ دیتے ہوئے پروفیسر فیضان مصطفی نے بتایا کہ ملک کی سب سے بڑی عدالت نے گذشتہ سال ایک ہندو خاتون کے کیس پر رولنگ دیتے ہوئے مسلم خواتین کے معاملے میں بھی مفاد عامہ کے تحت درخواست دائر کرنے کا مشورہ دیا تھا۔ چونکہ اس سے قبل کوئی بھی متاثرہ مسلم خاتون سپریم کورٹ سے رجوع ہی نہیں ہوئی۔ ماضی میں سپریم کورٹ نے یہ معاملہ پارلیمنٹ کی صوابدید پر چھوڑ دیا تھا۔ حکومت کے حلف نامہ میں طلاق ثلاثہ اور تعدد ازدواج جیسے معاملات میں مسلم ممالک کے حوالے کو پروفیسر فیضان مصطفی نے نامناسب قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ جن ممالک میں جمہوریت ہی نہیں ہے وہ ہمارے لیے کیونکر مثال ہوسکتے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ مسلمانوں کے مقابلے میں ہندوئوں میں دوسری شادی کا رجحان زیادہ پایا جاتا ہے اور متاثرہ ہندو خواتین اسے عدالت میں ثابت بھی نہیں کرسکتیں۔ سپریم کورٹ کی رولنگ کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ بنیادی حقوق کی قیمت پر رہنمایانہ خطوط کا نفاذ تباہ کن ہوگا۔
قانونی نظام میں بتدریج اور مرحلہ وار اصلاحات کی جائیں۔ یکساں سیول کوڈ محض یکسانیت کے لیے مسلط کرنا مناسب نہیں۔ محض قوانین سے مسائل حل نہیں ہوتے۔ خواتین کے تعلق سے مردوں کے انداز فکر میں تبدیلی کی ضرورت ہے۔
پروفیسر احمد اللہ خان نے اپنے لکچر میں میں کہا کہ دستور سازوں نے حقوق انسانی کی بنیاد پر ہی بنیادی حقوق کی گنجائش رکھی۔ انسانی حقوق وہ ہیں جنہیں قدرت نے بحیثیت انسان انہیں عطا کیا ہے۔ انہوں نے خواتین کے حقوق کے دستوری اور قانونی جواز پر روشنی ڈالی۔ اس سلسلہ میں انہوں نے بتایا کہ برسرکار خواتین چونکہ گھریلو اور بیرونی دہری ذمہ داری کا بوجھ اٹھاتی ہیں، ان کی ترقی کے معیار اور پیمانے میں رعایت کی گنجائش رکھی گئی ہے۔
پروفیسر ایس ایم رحمت اللہ نے اپنی صدارتی تقریر میں کہا کہ انسانی حقوق مہذب زندگی کو زمین پر برقرار رکھنے کے لیے ضروری ہے۔ انسانی حقوق منشور کی تمام دفعات کا بنیادی حقوق میں احاطہ کیا گیا ہے۔ ہمیں چاہئے کہ فروعی اختلافات میں الجھنے کے بجائے علمی شعور کے ذریعہ مسائل حل کریں۔ اسلام فطری مذہب ہے اور اس کے قوانین لچکدار ہیں۔ ابتداء میں ڈاکٹر آمنہ تحسین، ڈائرکٹر مرکز نے خیر مقدم کیا، تربیتی پروگرام کے مقاصد بتائے اور مہمانوں کا تعارف کروایا۔ پروگرام کا آغاز عائشہ جبین، پی ایچ ڈی اسکالر کی تلاوت و ترجمہ سے ہوا۔ ریسرچ اسکالرس، طلبہ ، اساتذہ اور ارکان عملہ کی بڑی تعداد شریک تھی۔