٭عشرت معین سیما،جرمنی
دنیا کے ہر خطے میں ادب انسانی معاشرے کی تنزلی یا ترقی کا پیمانہ مانا جاتا ہے۔ ادب کی تاریخ انسان کی سماجی و ثقافتی زندگی کے ساتھ اتنی مربوط ہے کہ وہ انسان کی تاریخ کے ساتھ ساتھ سفر کرتی ہوئی تخیلاتی داستانوں اور الہٰامی کتب سے لے کر سائنس اور منطقی علوم کے ساتھ جڑ جاتی ہے۔ یہ ادب ہی کا سرمایہ ہے جس کے زریعے انسان نے نہ صرف اپنی تاریخ کو محفوظ کیا ہے بلکہ اپنے منفی و مثبت تجربات رقم کرکے اسے زندگی گزارنے کے آداب و سلیقوں اور ناسازگار ماحول کو بہتر بنانے کی تراکیب سے آگاہ کیا ہے۔
یورپی لٹریری سرکل بھی یورپ بھر کے کئی ادبی و علمی تنظیموں اور افراد کا ایک ایسا گروہ ہے جس نے دنیائے ادب میں اردو زبان اور باالخصوص پاکستان سے تعلق رکھنے والے جید ادباء، شعراء، صحافی، اور ادبی محافل کے منتظمین کو ایک گلدستے کی صورت میں جمع کر رکھا ہے۔ اس دائرہ ادب کی تاریخ اردو کے نامور شاعر اور بے مثال ترقی پسند مفکر جناب فیض احمد فیض کی دنیا بھر میں منائی جانے والی صد سالہ تقریات کے یورپی خطے کے ساتھ منسلک ہے۔ اس سرکل کی صدر ڈنمارک کی نہایت ذہین اور باعلم خاتون قلمکار صدف مرزا ہیں اور بیلجئم کے نامور شاعر و صحافی جناب عمران چودھری جرنل سیکٹریری ہیں۔ اس کے علاوہ فرانس سے تعلق رکھنے والے شاعر و دانشور جناب ڈاکٹر ندیم حسین خزانچی ہیں۔ اس سرکل کے سرپرستوں میں جرمنی سے اردو کے استاد و شاعر و ادیب جناب عارف نقوی، انگلینڈ سے معروف شاعر محترم باصر کاظمی اور ممتاز براڈ کاسٹر رضا علی عابدی ہیں۔ ان تمام حضرات اور خاتون کی نمائندگی میں یہ قافلہ اسپین ، اٹلی، فرانس ، بیلجئم ، جرمنی ، انگلینڈ ، ڈنمارک، ناروے ، سوئیزر لینڈ اور یورپ کے کئی اہم ممالک کے ادباء و شعراء کے ساتھ ساتھ صحافیوں و مفکروں کے ساتھ ایک شان سے یورپ کی دیگر زبانوں کے دائرہ ادب میں مقبولیت پارہا ہے اور علمی و فکری سطح پر اردو کا دامن ترجمے کی وساطت سے بھی بڑھا رہا ہے۔
اس لٹریری سرکل کے زیر اہتمام یورپ بھر میں ادبی کانفرنس اور اردو سیمنار کا انعقاد مسلسل کیا جارہا ہے جس میں اردو زبان کی ادبی صورتحال کے ساتھ ساتھ اہم موضوعات کو بھی زیر غور لایا جاتا ہے اور اردو زبان اور معاشرے کی دیگر صورتحال کا ادبی و سماجی رابطہ اور اس کو درپیش مسائل پر گفتگو کی جاتی ہے اور اس کے حل کی جانب تجاویزات سے آگاہی دلائی جاتی ہے۔
اس سال کے پہلے پروگرام میں یورپی لٹریری سرکل نے مہاجر عورت اوراس کی سماجی ہم آہنگی و ترقی کو مد نظر رکھتے ہوئے ایک پر مغز کانفرنس کا اہتمام یورپی پارلیمنٹ کے تعاون سےکیا اور یورپ میں ہجرت کرکے آنے والی ان کامیاب خواتین کی گفتگو کو کانفرنس کا حصہ بنایا جو ایک غیر معاشرے میں اپنی سماجی ذمہ داریوں کو نبھاتے ہوئے اور ثقافت و زبان کا علم اٹھا کر نہ صرف اپنے طور پر کامیاب زندگی گزار رہی ہیں بلکہ یورپ بھر میں اُن ہجرت کرکے آنے والی خواتین کے لیے ایک عملی مثال ہیں جو ایک نئے معاشرے میں اپنی مضبوط شناخت بنانے کی خواہشمند ہیں۔
اس کانفرنس میں سرکل کی خواتین کے ساتھ ساتھ دیگر سماجی شعبے سے تعلق رکھنے والی خواتین کی ایک کثیر تعداد کے ساتھ ساتھ یورپی برسلز میں یورپین لٹریری سرکل کے تمام ممالک کے ڈائریکٹرز اور اراکین نے شرکت کی اور کانفرنس کو کامیاب بنایا۔ بیلجئم کے شہر برسلز کے منعقدہ اس اجلاس کے شرکاء نے اس بات سے اتفاق کیا ہے کہ ثقافت ایک ایسا مشترکہ اثاثہ ہے جسے اگر اُس کے وسیع تناظر میں دیکھتے ہوئے اس پر عمل کیا جائے تو وہ ہر معاشرے کیلئے خیر اور ہر باہر سے آنے والوں کیلئے جائز مواقع کے حصول کا سبب بن سکتا ہے۔خواتین کا اہم کردار ادب و ثقافت کے فروغ کے ساتھ ساتھ معاشرے کی ناہموار سطح کو بھی بہتر بنانے میں اہم ہے۔ اس حوالے سے یورپین لٹریری سرکل کے سیکریٹری جنرل چوہدری عمران ثاقب کی دعوت پر یورپ بھر سے آئے ہوئے دانشوروں ، ادیبوں ، شاعروں اور شاعرات نے برسلز کی اہم ترین تاریخی عمارت 1000 برسلز کی سینٹرل کمیون منعقدہ اجلاس میں اپنے خیالات کا اظہار کیا۔جس کا اہتمام اسی میونسپلٹی کے پہلے پاکساتنی نژاد کونسلر محمد ناصر چوہدری کے تعاون سے کیا گیا تھا ۔جبکہ اس کے شرکاء میں ڈنمارک سے صدف مرزا، ناروے سے ڈاکٹر ندیم سید، جرمنی اسٹٹ گارڈ سے ہُُما مالنی، برلن سے ڈاکٹر عشرت معین سیما، بون سے سیمی زیدی ،برطانیہ سے فیض امن میلے کے آرگنائزر اکرم قائم خانی، برمنگھم اپوا برطانیہ کی چئر پرسن رفعت مغل، اپواہی کی رعنا شمع نذیر، لیورپول پول یونیورسٹی سے دلنوازگل، تیونسی نژاد ڈاکٹر منال، ہالینڈ سے پاکستان میلے کے روح رواں اعجاز سیفی، آدم جی ایوارڈ یافتہ ادیب خالد فاروق , صفدر نوید زیدی ،عدیل شاکر، منصور عالم ، اسپین سے راجہ شفیق کیانی،اٹلی سے چوہدری نواز گلیانہ ، فرانس سے عاکف غنی ، نبیلہ آرزواور آصف جاوید آصف،جبکہ بیلجئم سے چوہدری عمران ثاقب اور شیراز راج کے علاوہ دیگر ادب نواز احباب شامل تھے۔
اس دوران ایک رپورٹ زیر بحث آئی جس میں بتایا گیا کہ یورپ میں اس وقت لاکھوں خواتین جسم فروشی میں ملوث ہیں ۔ جس کی بنیادی وجہ رہائش کی عدم دستیابی کی ابتدائی مشکلات ہیں ۔ جنمیں زبان سے ناوقفیت اور اپنی ثقافت کے کھو جانے کا خوف شامل ہیں ۔
جس کے باعث سیکھنے کی صلاحیت میں مسلسل کمی واقع ہوتی ہے اور پھر مالی مطالبات اور ضروریات اُنہیں ہوس پرستوں کا شکار بنادیتی ہیں ۔ اسی تناظر میں سماج کے اندر خواتین کے حقوق اور انکا کردار بھی زیر بحث آیا جس میں یہ نکتہ اہمیت کا حامل تھا کہ خواتین برابری نہیں بلکہ انصاف چاہتی ہیں ۔
اس دوران یہ بات خاص طور پر نوٹ کی گئی کہ تعلیم و تربیت کی ضرورت صرف خواتین ہی کو نہیں بلکہ مردوں کو اس کی زیادہ ضرورت ہے۔ جیسا کہ کونسلر لامیہ خان نے کہا کہ صحیح سوچ اور تعلیم و تربیت ان کے شوہر کی طرح انکے کام میں رکاوٹ نہیں بلکہ ان کی مدد سے آگے بڑھنے کے راستے ہموار کرتی ہے۔
دوسری جانب لٹریسی سرکل کی صدر صدف مرزا کا یہ کہنا بھی بجا تھا کہ کچھ بننے کیلئے خواتین کو اپنی منزل اور اس کیلئے محنت کا راستہ خود متعین کرنا ہو گا ۔اسٹڈی سرکل کی ڈائریکٹر ڈاکٹر عشرت معین سیما نے بیرون ملک مقیم پاکستانی کمیونٹی کے معاشروں میں خواتین کی غیر مودگی کو توجہ کا مرکز بنایا ۔
اُنہوں نے متوجہ کیا کہ ان محافل سے خواتین کی غیر موجودگی دراصل مردوں کے اپنے خوف کی علامت ہے۔ جس کے ذریعے وہ یہ تاثر دے رہے ہوتے ہیں کہ خواتین کے حوالے سے انکی اپنی سوچ ناپختہ اور اس کے نتیجے میں اُنہیں اپنی ہی جنس کے دیگر لوگوں پر اعتبار نہیں ۔
بعد ازاں ادب وثقافت کی ترویج، کتب کی رونمائی اور کلا م شاعر بزبان شاعر کے عنوان سے تیسری نشست ہوئی۔ جس میں فیض میلہ کی آرگنائزنگ کمیٹی برطانیہ کے صدر اکرم قائم خانی۔ بیلجئیم سے کونسلر عامر نعیم ،چوہدری نواز گلیانہ، راجہ شفیق کیانی اور اعجاز سیفی نےروشنی ڈالی۔
اکرم قائمخانی نے فیض امن میلے کے یورپ اور امریکہ میں انعقاد کے حوالے سے گفتگو کی اور اس کے لئے باہمی تعاون پر زور دیا ۔ دیگر مقررین نے اس خیال سے اتفاق کیا کہ ان سرگرمیوں میں اضافے کیلئے مزید کوششوں اور اس میں خواتین و فیملیز کی بھر پورشرکت ضروری ہے۔
اس موقع پر ہالینڈ سے آدم جی ایوارڈ یافتہ خالد فاروق ، جرمنی سے ہُما مالنی ، جرمنی سے ڈاکٹر عشرت معین ، ہالینڈ سے عدیل شاکر۔ڈنمارک سے صدف مرزا ، صفدر نوید زیدی اور فرانس سے عاکف غنی کی کتب کی رونمائی ہوئی جس کے بارے میں مصنفین نے مختصراً اظہار خیال بھی کیا ۔
نشست کے آخری حصے میں چوہدری عمران ثاقب ، شیراز راج ، سیمی زیدی ، عدیل شاکر ، عاکف غنی ، نبیلہ آرزو، اور آصف جاوید آصف نے اپنا کلام سنایا اور خوب داد وصول کی۔
بعد ازاں یورپین لٹریری سرکل کی صدر صدف مرزا اور جنرل سیکرٹری عمران ثاقب نے اس پروگرام کو کامیاب بنانے کے لئے 1000 برسلز کمیون کے کونسلر ناصر چوہدری، سماجی کارکن روبینہ خان ، ایم ندیم بٹ، اور دیگر ممالک کے شرکاء کا خصوصی شکریہ اداکیا ۔ دور دور سے آئے ہوئی مہمانوں کی پذیرائی میں بیلجئم کی معروف سماجی کارکن، سیف پاکستان این جج او کی چئیرپرسن روبینہ خان نے اہم کردار ادا کیا۔اس موقع پر آفیشل گائیڈ کے ذریعے یونیسکو کی جانب سے ثقافتی ورثہ قرار دی جانے والی اس عمارت کا دورہ کرانے کا بھی اہتمام کیا گیا۔
یہ ذو لسانی کانفرنس علمی و ادبی سطح پر ہجرت کرنے والی عورت معاشرے کے مسائل پر منعقد کردہ یادگار اور کامیاب کانفرنس تھی۔ اس کانفرنس کے زریعے نہ صرف علمی و ادبی سطح پر مہجری ادب کو دنیا میں روشناس کروایا گیا بلکہ اسے معاشرے کے ساتھ ہم آہنگ کرکے اردو ادب و زبان کی بھی اہمیت کو اجاگر کیا
گیا جو دنیا بھر میں جاری ادبی و علمی کانفرنس کے لیے ایک تاریخی حیثیت رکھتی ہے۔