بہار اردو اکادمی کا دو روزہ قومی اردو ریسرچ سیمینار اختتام پذیر

\"DSC_022dfd5\"

پٹنہ (اسٹاف رپورٹر) تحقیق تلاش کا نام ہے۔ اس کام میں تعصب سے احتراز ضروری ہے۔ تحقیق میں باریکی سے موضوع کا مطالعہ ہونا چاہئے اور منطقی نتائج کے حصول کالحاظ رہنا چاہئے۔ ایسے موضوعات کا انتخاب ہونا چاہئے جن پر مستند مواد ملے۔ اصل متن کا مطالعہ، نئے زاویوں کی تلاش، نگراں کا چاق و چوبند ہونا، وقت کی پابندی ، دیانت داری، روایتی طریقے سے اجتناب ، واضح ہدایتی نوٹ کا اہتمام تحقیقی معیار کی بلندی اور تحفظ کے لئے ضروری ہے۔
مذکورہ خیالات کا اظہار کرتے ہوئے پروفیسر صغیر افراہیم نے مزید کہا کہ تحقیق کے کام میں کجی کبھی اس کا حسن نہیں کہلا سکتی، تحقیق کا بنیادی مقصد احتیاط کے ساتھ باریکیوں کی تلاش ہے۔تحقیق کام میں ریسرچ اسکالروں کے لئے ضروری ہے کہ وہ خلوص کے ساتھ جدید اصول اپنائیں، دائرہ کا ر کا شعوری یقین رکھیں، نتائج اور سفارشات کی شمولیت لازمی بنائیں۔ دعوے و دلیل کی زبان اپنائیں، ابواب کی تقسیم عمدہ اور کتابیات کی ترتیب معیاری ہو۔ مرکزی ،ثانوی اور ضمنی دلائل کا فرق و استعمال ملحوظ رہے۔ طلبا و طالبات تحقیق و تدوین کے اصولوں پر توجہ دیں، تکرار کی صورتوں سے بچیں ، گھسے پٹے معیار کو بدلیں اور انتظامیہ ، نگراں اور تعلیمی بورڈ بھی ریسرچ اسکالرز کو ہمت و اعانت دیتے رہیں۔ یہ بھی ضروری ہے کہ جو کچھ تحقیق کام کے دوران دسترس میں نہ آسکے، اس کی عدم دستیابی کا اظہار و اعتراف ہو اور جو کچھ جہاں سے ملے جن اشخاص اور اداروں سے ملے، ان کا بھی ذکر ہو۔
پروفیسر موصوف آج 27 اگست کو بہار اردو اکادمی کے ریسرچ اسکالر سمینار کے دوسرے دن اپنا کلیدی خطبہ پیش کر رہے تھے۔ انہوں نے تحقیق کے طریق کار کے عنوان پر اپنے اس پر مغز اور نفیس کلیدی خطبہ میں جہاں دبستان عظیم آبادی کے اثرات کی طرف اعترافی اشارے کئے وہیں اصل موضوع کے تعلق سے ، تحقیق کے جدید طریق کار سے کام لینے پر زور دیا۔
پروفیسر موصوف نے اپنے خطبہ میں ، طلبا و طالبات کو حوصلے دیتے ہوئے اور تحقیق کے رہنما اصول بتاتے ہوئے عالمی تناظر میں تحقیق کی موجودہ صورت حال کا تقابلی جائزہ بھی لیا۔ اور کہا کہ یہ افسوس کی بات ہے کہ ہمارے یہاں تحقیقی کام کرنے والوں کی تعداد نسبتاً کم ہے اور ہم وقت کی پابندی کے عادی بھی بہت کم ہیں اور یکسوئی سے فرصت نکال کر کام کرنے کا مزاج بھی کم ہی رکھتے ہیں۔ ہمارے یہاں قاری کم اور کتابیں زیادہ ہیں۔ ہمارے یہاں تازہ کتابیں ذرا کم ہی دیکھی جاتی ہیں اور بالعموم قدیم حوالوں سے ہی کام نپٹا لیا جاتا ہے۔ ریسرچ تحقیق مزید کا نام ہے اور تحقیق کا انحصار ٹھوس دلائل پر ہوتا ہے۔ آج سرحد کے اس پار اور اس پار یہ فرق ہے کہ وہاں مستقل ملازمت سے وابستگان عموما اس کام میں لگے ہیں جب کہ ہمارے یہاں عموما ریسرچ اسکالرز ، وظائف کے سہارے مستقبل میں ملازمت ملنے کی امید پر تحقیق کے کام میں مصروف ہیں۔ لہذا مواد کی تلاش اور چھان پھٹک پر پوری طرح وقت نہیںدیا جاتا ، آج جو مسائل ہیں ان کے لئے ہم سب ذمہ دار ہیں۔ موصوف نے سرحد پار کے رسائل کے تحقیقی مقالات کا تفصیلی حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ وہاں صدفی صد معیار نہ ہی ، مگر اصول و ضوابط اور محنت نسبتاً نمایاں ہے۔ پروفیسر موصوف نے پریم چند اور داغ کی باقیات کا تذکرہ کرتے ہوئے عملی تحقیق کے کئی نکات اور زاویوں کی وضاحت کی اور کہا کہ گفتگو میں موضوع کے رخ کا بہر صورت لحاظ ہونا چاہئے۔ مثلا شخصیت پر کام ہو تو سوانح نگاری سے متعلق معیار کا خیال رکھا جائے اور کسی شاعر کے مکتوبات پر کام ہو تو اس کی شاعری سے نہیں اس کے نثری پیرائے سے ہی گفتگو کا ترجیحی تعلق رہنا چاہئے۔اور بہر صورت تحقیق کے جدید طریق کا ر پر ہر حال میں پوری نظر رکھنی چاہئے، انٹرویو کی بھی تحقیق ہونی چاہئے تاکہ تحقیق کے تقاضے مجروح نہ ہوں اور تحقیق کے معیار میں ہم سبھی آگے بڑھتے رہیں۔
واضح رہے کہ اکادمی کے زیر اہتمام دو روزہ قومی ریسرچ اسکالر سمینار کا افتتاح گزشتہ 26 اگست کو جناب محمد شہریار اقبال فیصل اسپیشل سکریٹری محکمہ اقلیتی فلاح نے کیا تھا اور آجس اس سمینار کے دوسرے دن کا پروگرام حسب اعلان اکادمی ہال میں 10 بجے دن سے شروع ہوا۔
پروفیسر محمد کاظم اور پروفیسر رئیس انور کی مشترکہ صدارت میں منعقدہ آج کے پہلے اجلاس میں سکریٹری اکادمی مشتاق احمد نوری نے اپنے استقبالیہ خطاب میں طلبا و طالبات کو خصوصیت سے اپنا مخاطب بتاتے ہوئے مقالات کی تلخیص کاری کے اہم گرتبائے اور خطابی پیش کش کے ہنرسے متعلق اہم باتوں کی طرف توجہ دلائی ۔ انہوں نے کہا کہ مائیک پر بولنا بڑا فن ہے۔ اس سلسلے میں انہوں نے چند اہم کتابوں کی بھی نشاندہی کی۔
آج کے پہلے اور سابقہ تربیت کے لحاظ سے تیسرے اجلاس میں جناب محمد رکن الدین (جواہر لال یونیورسیٹی) نے اردو کی نئی بستیوں میں اردو کی تحقیق و تنقید ، جناب محمد اسد (دہلی یونیورسیٹی) نے اردو فکشن میںمذہبی و ریاستی جبرا ور آزادی اظہار کے مسائل، محترمہ زینب ناز (جے پرکاش یونیورسیٹی، چھپرہ) نے سید علی حیدر نیر کے تعلیمی نظریات و خیالات ، محترمہ مہوش نور (جواہر لال نہرو یونیورسیٹی) نے اردو کی نئی بستیوں میں اردو افسانہ نگاری، جناب جان محمد رضوان (دہلی یونیورسیٹی دہلی) نے اردو شاعری کا تہذیبی و ثقافتی مطالعہ ، ایرانی طالبہ محترمہ منیرہ نژاد شیخ (جواہر لال نہرو یونیورسیٹی، دہلی) نے غالب کے اردو اور فارسی کلام کا تقابلی مطالعہ ، جناب شاداب شمیم (دہلی یونیورسیٹی) نے مکاتیب سرسید کے حواشی و تعلیقات جناب عبدالرزاق (جواہر لال نہرو یونیورسیٹی، دہلی) نے بیسویں صدی میں ادبی تحقیق ، ایرانی طالبہ محترمہ مہدیہ نژاد شیخ (جواہر لال نہر و یونیورسیٹی، دہلی) نے سیمیں دانشور اور عصمت چغتائی کے فکشن کا تقابلی مطالعہ اور جناب محمد یوسف (دہلی یونیورسیٹی، دہلی) نے عربی اردو قصائد کا تقابلی مطالعہ ، پر اپنے اپنے مقالات پیش کئے۔
اس موقع پر پروفیسر محمد کاظم رضا نے اپنی صدارتی تقریر میں اکادمی کے پروگرام کو لائق تحسین قرار دیتے ہوئے کہا کہ بے شک اس طرح تحقیق سے تازہ آشنائی کی راہ کھلی ہے۔ انہوں نے پروفیسر صغیر افراہیم کے کلیدی خطبہ کو مبسوط و رہنما بتاتے ہوئے اس اجلاس میںپڑھے گئے مقالات پر تجزیاتی روشنی ڈالی اور طلبا و طالبات کو مفید مشوروں سے نوازا۔ انہوں نے موضوع میں تکرار سے بچنے اور اردو کی نئی بستیوں اور مہجری ادب پر معلومات بڑھانے اور بدلتے تصورات پر نظر رکھنے کی ضرورت پر زور دیا۔ انہوں نے خود اعتمادی میں توازن رکھنے، تعریف اور عملی تجزیہ میں برجستگی، مقصد کی وضاحت ، استد لال اور زبان و لہجہ میں یکسانیت اور مقصدیت پر توجہ دیتے رہنے کی ہدایت کی ۔
پروفیسر رئیس انور نے اپنے صدارتی خطاب میں عمدہ معلومات سے نوازا ور اس اجلاس میں پڑھے گئے مقالوں کا تجزیہ کرتے ہوئے مقالہ نگاروں کے حوصلے بڑھائے۔ انہوں نے کہا کہ مستشرقین اور مہاجر اور نئی بستی کے فن کاروں کا فرق ملحوظ رہنا چاہئے۔ مشکل مہجری جذبات کے الفاظ پر خصوصیت سے غور کرنا، مثالوں کی پیش کش میں متعلقہ عہد کا خیال رکھنا اور تلمیحات و اشارات کے فرق کو سمجھنا ضروری ہے۔ تحقیق انہماک ، پتہ ماری اور علمی ریاضت کا نام ہے۔ انہوں نے پروفیسر صغیر افراہیم کے کلیدی خطبے کو جامع اور معلوماتی بتاتے ہوئے کہا کہ آج کی صورت حال کے واقعی ہم سبھی ذمہ دار ہیں اور ہمیں محنت کرنے،نئے گوشے نکالنے اور بہت سارے پہلوئوں پر نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔
سوال وجواب کے مختصر وقفہ کے ساتھ یہ اجلاس سکریٹری اکادمی کے کلمات تشکر پر ختم ہوا ۔ انہوں نے برسبیل تذکرہ اردو تعلیم کے تعلق سے گارجین حضرات کو ان کی ذمہ داریاں بھی یاد دلائیں۔
وقفہ طعام کے بعد آج کے دوسرے سابقہ ترتیب کے بموجب چوتھے اجلاس کا آغاز ہوا جس کی مشترکہ صدارت کے فرائض پروفیسر اعجاز علی ارشد ، پروفیسر توقیر عالم ، پروفیسر جاوید حیات اور پروفیسر فصیح الدین احمد نے انجام دئے۔ اس اجلاس میں پروفیسر محمد کاظم رضا نے ’’جامعات میں اردو تحقیق کے مسائل اور حل ‘‘ پر اپنا مقالہ پیش کرتے ہوئے ، اکادمی کے اس کام کو اہم اور بنیادی بتایا اور اپنے مدلل مقالے میں ، سندی مقالات کی موجودہ کیفیات کا بھر پور تجزیہ کیا۔ انہوں نے حوالوں کے ساتھ بتایا کہ سرحد پار بھی تحقیق کا معیار تشفی بخش نہیں۔ پروفیسر کاظم نے کہا کہ آج بیشتر مقالے نہایت مایوس کن اور ناقابل اشاعت و التفات ہوئے ہیں۔ آج ہمارے ریسرچ اسکالر جدید محصلہ سہولیات سے بے جا فائدہ اٹھارہے ہیں ۔ تحقیقی کام میں ایک ہی پہلو سے موضوع کی تکرار نہیں ہونی چاہئے۔ زندہ شخصیات یا کسی ایک کتاب کو موضوع بنانا بھی مناسب نہیں۔ ریسرچ اسکالرز کے لئے ضروری ہے کہ وہ وقت برباد کئے بغیر کام شروع کریں اور کتابوں کی خرید کا ذوق پیدا کریں۔ انہوں نے یوجی سی کے جامع آئین وضوابط کی طرف اشارے کرتے ہوئے کہا کہ جامعاتی مقالات کو بہر صورت تحقیقی اصول پر پورا اترنا چاہئے۔ موصوف نے اس بات پر بھی زور دیا کہ اساتذہ ، طلبا و طالبات میںا دب کی فہم پیدا کریں۔انہوں نے اس بات کی طرف بھی توجہ دلائی کہ آج حواشی اور کتابیات کے لئے رہنما اصول وضع کرنے کی سخت ضرورت ہے ۔
اس اجلاس میں جناب ریحان احمد قادری (متھلا یونیورسیٹی دربھنگہ) نے عطا عابدی کی شخصیت ادبی خدمات ، جناب محمد علی رضا (بہار یونیورسیٹی) نے نسائی فکر اور مختصر افسانہ، محترمہ نکہت پروین (دہلی یونیورسیٹی) نے تانیثیت اور ہم عصر ار دو افسانہ، محترمہ نعیمہ پروین (بی این منڈل یونیورسیٹی، مدھے پورہ) نے قاضی عبدالستار کے افسانوں اور ناولوں میںمخصوص ادبی تکنیک کا تجزیاتی مطالعہ ، محترمہ افشاں بانو (پٹنہ یونیورسیٹی) نے ہند وپاک دوستی کی نظمیں احمد فراز اور علی سردار جعفری کے حوالے سے، محترمہ حسن جہاں (مگدھ یونیورسیٹی) نے آخر شب کے ہم سفر میں تانیثی نقطہ نظر، محترمہ نشاط اختر (پٹنہ یونیورسیٹی) نے تمنا مظفر پوری حیات اور خدمات ، ناہیدہ خاتون (ویر کنور سنگھ یونیورسیٹی، آرہ) نے عصر حاضر کے تقاضے اور افکار سرسید کی افادیت ، محترمہ عالیہ عرشی (ویر کنور سنگھ یونیورسیٹی، آرہ) نے اردو تحقیق پر قاضی عبدالودود کے اثرات پر اپنے اپنے مقالات پیش کئے ۔
سوال و جواب کے مختصر وقفہ کے بعد پروفیسر فصیح الدین احمد نے اپنی صدارتی تقریر میں اس پروگرام کی انفرادیت اور افادیت کا ذکر کرتے ہوئے اسے ایک عظیم الشان علمی اجتماعی قرار دیا اور مقالہ خواں طلبا و طالبات کی حوصلہ افزا ستائش کی۔
پروفیسر جاوید حیات نے کلمات تبریک کے ساتھ اپنے صدارتی بیان میں کہا کہ بلاشبہ بہار آج بھی کسی طرح تحقیقی آب و تاب میں کمتر نہیں۔ تحقیق حق کی جستجو اور چھپے ہوئے وجود کی تلاش کانام ہے۔ ہمیں تحقیق میں اپنی شناخت پیدا کرنے اور موضوع و مواد کی پیش کش میں اپنی نظر شامل رکھنے کی ضرورت ہے، آج جو گراوٹ آرہی ہے۔ وہ تحقیق کے کام کو محض ڈگری کے حصول سے جوڑنے کے سبب ہے۔
پروفیسر توقیر عالم نے اپنے صدارتی کلمات میں طلبا و طالبات کو حوصلہ افزاکلمات سے نوازتے ہوئے کہا کہ شخصیت پر کام کرتے ہوئے اس کے عہد کی تاریخ سے وقوف بھی لازمی ہے۔ علاقائی بڑے ناموں پر خاص توجہ سے اچھے کام کرنے کی ضرورت ہے ۔
پروفیسر اعجاز علی ارشد نے اپنے صدارتی خطاب میں ریسرچ اسکالروں کو مشورہ دیا کہ وہ تقابلی مطالعہ میں متن پر کم سے کم باتیں کریں اور انداز پیش کش پر ترجیحی توجہ رکھیں اسی طرح شخصیت پر کام ہو تو اس کے امتیازات پر زیادہ سے زیادہ روشنی ڈالی جائے اور جب نظریاتی معنویت کی بات ہوتو اس کی عصری افادیت خاص طور سے دکھائی جائے۔
اس اجلاس کے اختتام پر شکریہ کے کلمات ادا کرتے ہوئے سکریٹری اکادمی جناب نوری نے استعارے کی زبان میں ایک بہت خوبصورت بات کہی کہ تحقیق بجھی ہوئی راکھ کو کرید کر چنگاری تلاش کرنے کا نام ہے۔
آج کے پروگرام کی نظامت کا فریضہ بھی جناب فخر الدین عارفی نے انجام دیا اور دوران نظامت کہا کہ اس پرگرام نے نفسیاتی مایوسی کو سرخوشی میں بدل دیا ہے۔
اس اجلاس کے اختتام پر ریسرچ اسکالروں کے درمیان اسناد کی تقسیم عمل میں آئی۔ بعدازیں جناب سلطان اختر کی صدارت میں شعر و شاعری اور اظہار خیالات کی ایک مختصر محفل سجائی گئی جس میںریسرچ اسکالرز اور عام شرکا نے حصہ لیا۔ اس پروگرام کا مقصد تفنن طبع کا حصول تھا۔ اس میں سکریٹری اکادمی جناب نوری اور پروفیسر اعجاز علی ارشد نے اپنا کلام سنایا اور اشفاق احمد، محمد رحمت اللہ افضل، احمد معراج، ارتضیٰ حسین آزاد( فوٹو گرافر) ، محمد رکن الدین ، نعیمہ پروین،محمد یوسف، طلعت پروین، خان رضون، ریحان حمد قادری، شاداب شمیم، رحمت یونس، افشاں بانو اور ایرانی طالبہ منیرہ شیخ نے حصہ لیا اور آخر میں جناب سلطان احمد نے اپنے کلام سے سامعین کو محظوظ فرمایا۔ سکریٹری اکادمی کے شکریہ کے ساتھ یہ دو روزہ سمینار اختتام پزیر ہوا۔
\"DSC_0153\"
\"21083045_648051672203652_3846071736795761220_o\"

 

Leave a Comment