تبصرہ ’’ماہنامہ تریاق ‘‘

\"\"
٭صالحہ صدیقی

ریسرچ اسکالر جامعہ ملیہ اسلامیہ ،نئی دہلی۔

تبصرہ
نام کتاب ماہنامہ ’’تریا ق‘‘
ایڈیٹر میر صاحب حسن
صفحات 56
قیمت 30 روپئے
سال اشاعت جنوری 2020
مبصر صالحہ صدیقی (ریسرچ اسکالر جامعہ ملیہ اسلامیہ ،یونیورسٹی ،دہلی)

ماہنامہ’’ تریاق ‘‘گذشتہ کئی سالوں سے ہر مہینے بڑی آب و تاب سے شائع ہوتا آرہا ہے۔میر صاحب حسن کی نگرانی میں نکلنے والا یہ رسالہ کئی اوصاف کی بنیاد پر انتہائی اہم ہے ،اس رسالے میں حمد،نعت،منقبت،نظمیں ،غزلیں ،کہانیاں اور غیر نثری اصناف کے ساتھ ادبی سرگرمیوں کو بھی منظر عام پر لاتا ہے ۔ہر ماہ اس رسالے میں کسی ممتاز شخصیت کا انٹر ویوں بھی شائع کیا جاتا ہے ۔
اس رسالے میں نوجوان قلم کاروں کو خاص جگہ دی جاتی ہے ،ہر ماہ ایسے اسکالر کی خدمات کے اعتراف میں ’’ماہتاب تازہ ‘‘ کے عنوان سے ایک کالم نکالا جاتا ہے جنھوں نے بہت کم وقت میں اپنی قابلیت کا لوہا اردو دنیا میں منوایا ۔ایسا کالم ہندستان کے شاید ہی کسی رسالے میں دیکھنے کو ملے جہاں اسکالرس کو اتنی عزت اور حوصلہ افزائی کی جاتی ہو ،اس منفرد کام کو انجام دینے کے لیے یقینا تریاق کے ممبران خصوصا ایڈیٹر میر صاحب حسن،سب ایڈیٹر حنیف قمر اور نگراں فیض الحسن مبارکباد کے مستحق ہیں ۔
اس رسالے کے کور پیج کی بھی دلچسپ کہانی ہے ،اس کے کور پیج پر ہی لکھا ہوا ہے ’’عہد ساز رحجان کا آئینہ دار ‘‘ ہر ماہ اس رسالے کے کور پیج سے ہی ہندستان کی سرگرمیوں کا اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اس ماہ ملک میں کیا چل رہا ہے اس کی عمدہ مثال جنوری کا شمارہ ہے جس کے سیاہ کور پیج پر فیض کی دوبارہ سرخیوں میں آئی نظم ’’ہم دیکھیں گے ‘‘ شائع ہوئی ہے ۔اس رسالے کاسیاہ رنگ اور اس پر شائع نظم ملک کے حالات اور اس سیاہ دور کی کہانی خود بیاں کرتے ہیں ،ملک کے حالات کسی سے پو شیدہ نہیں،اس نظم کو بھی سیاست کے کھیل میں منفی نظریے سے بدنا م اور غلط معنی میں سیاست کا حصہ بنایا گیا ، ایسے میں اس نظم کو رسالے کے کور پیج پر جگہ دینا ہمت کی بات ہے نظم ملاحظہ فرمائیں :
ہم دیکھیں گے ،ہم دیکھیں گے
لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے
وہ دن کہ جس کا وعدہ ہے
جو لوح ازل میں لکھا ہے
جب ظلم و ستم کے کوہ گراں
روئی کی طرح اڑ جائیں گے
ہم محکوموں کے پاؤں تلے
یہ دھرتی دھڑ دھڑ دھڑ کے گی
اور اہل حکم کے سر اوپر
جب بجلی کر کڑ کڑکے گی
ہم دیکھیں گے ،ہم دیکھیں گے
لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے
اس نظم کے سلسلے میں اداریہ لکھتے ہوئے میر صاحب حسن نے اپنے نظریات کا اظہار کیا وہ لکھتے ہیں :
’’فیض احمد فیض کی یہ نظم ان دنوں ہر جگہ پڑھی اور گائی جارہی ہے چاہے علی گڑھ ہو،جامعہ ہو،یا جے این یو ،ممبئی ہو یا پھر کوئی اور شہر ،ہندو ہو یا مسلم سبھی اس نظم کو گنگنا رہے ہیں ۔سی اے آر کے خلاف پورے ملک میں احتجاج ہو رہا ہے ۔‘‘
جنوری ماہ ل کا یہ شمارہ بے حد معلوماتی اور تازگی سے بھرا ہوا ہے ۔شاندار رسالہ’’ تریاق ‘‘میں شائع تمام تخلیقات ہی بے حد لاجواب ہیں ۔قارئین کے خطوط کے مطالعہ سے بھی اس رسالے کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے جو ملک اور بیرون ممالک سے اپنے تاثرات لکھتے ہیں۔ ان تاثرات کو ’’ تریاق‘‘ کی ٹیم ڈاکیہ بابو کی دلچسپ تصویر کے ساتھ شائع کرتا ہے ۔اس رسالے میں ’’جہان اردو ‘‘ کے عنوان سے اردو ادب کی سرگرمیوں کو بھی شائع کیا جاتا ہے۔عموما اردو کے رسالے صرف اردو دنیا تک ہی محدود ہوتے ہے لیکن تریاق نے یہ رسم توڑ دی ہے اس رسالے میں فلم انڈسٹری سے متعلق اہم خبریں اور اس میں ہونے والی سرگرمیاںجن کا تعلق اردو زبان سے ہوتا ہے بڑی خوش اسلوبی سے مع تصویرشائع کرتا ہے اور ان شخصیات کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے ان سے متعلق ان کی خدماتا کا جائزہ بھی پیش کرتا ہے جنھوں نے اردو کو فلم انڈسٹری کی زینت بنایا ۔جنوری ماہ میں شائع ’’ادب سے فلموں تک کا منظر نامہ ‘‘ اس کی عمدہ مثال ہیں جس میں بڑے ہی معلوماتی انداز میں اردو ادب اور فلم کے رشتے پر روشنی ڈالی گئی ہے ۔
مختصر یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ رسالہ اردو دنیا میں اپنی بے لوث خدمات انجام دے رہا ہے اور ہر ماہ نت نئے گوشے منظر عام پر لا رہا ہے جس کے لیے تریاق ٹیم قابل مبارباد ہے ۔امید ہے یہ کارواں اسی طرح اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ رواں دواں رہے گا۔۔۔۔

Leave a Comment