تجمل اسلام نے رقم کی نئی تاریخ ،ملک کی یونیورسٹیوں میں پہلی مرتبہ کشمیری طالب علم بنا طلبہ یونین کا صدر
حیدرآباد : ملک کی یونیورسٹیوں کی تاریخ میں پہلی بار کسی کشمیری طالب علم کو اسٹوڈنٹس یونین میں ایک اہم ترین عہدہ حاصل ہوا ہے۔ حیدرآباد کی مولانا
آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی جوکہ ایک مرکزی یونیورسٹی ہے، کے شعبہ انگریزی میں پی ایچ ڈی کے اسکالر تجمل اسلام نے یونیورسٹی اسٹوڈنٹس یونین کے لئے جمعرات کو ہوئے انتخابات میں صدر کے عہدے پر شاندار جیت درج کرکے تاریخ رقم کی ہے۔
تجمل اسلام کا تعلق شمالی کشمیر کے ضلع بانڈی پورہ کے ارن سے ہے۔ اس حقیقت کے باوجود کہ یونیورسٹی میں کشمیری طلبہ کی تعداد بہت ہی کم ہے، تجمل نے اپنے مدمقابل کو قریب 250 ووٹوں سے ہرایا ہے۔ تجمل نے یو این آئی اردو سروس سے گفتگو کرتے ہوئے طالب علموں کی حمایت پر اُن کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ وہ اُن کی توقعات اور خواہشات پر کھرا اترنے کی ہر ممکن کوشش کریں گے۔
انہوں نے کہا کہ وہ یونیورسٹی انتظامیہ اور طلبہ کے درمیان پل کا کام کریں گے۔ تجمل نے اس احساس کا اظہار کیا کہ طلبہ کے مفاد میں کام کرنا اور ان کی توقعات کو پورا کرنا ہی ان کا مشن ہے ۔انہوں نے اپنی اس کامیابی کو کشمیر کاز کی کامیابی ماننے سے انکار کر تے ہوئے کہا کہ یہ صلاحیت کی کامیابی ہے ۔ تجمل نے کہا کہ تمام علاقوں کو ایک دوسرے سے جوڑنے کے لئے ہی طلبہ کی جانب سے آزاد نیشنل اسٹوڈنٹس ایسوسی ایشن پینل کا قیام عمل میں لایا گیا تھا اور اس پینل کے بینر تلے لڑے گئے انتخابات میں ان کے پینل کے تمام ارکان کو کامیابی حاصل ہوئی ہے جو ان کے لیے ایک بہت بڑی بات ہے‘۔
یونیورسٹی کے نو منتخب کشمیری صدر نے کہا کہ الیکشن میں تمام طلبہ کا بہتر ردعمل انہیں حاصل ہوا ہے اور پہلی مرتبہ علاقہ واریت کو بالائے طاق رکھتے ہوئے تمام طلبہ نے ان کو منتخب کیا۔انہوں نے کہا’ قبل ازیں طلبہ یونین کے انتخابات علاقہ واریت پر لڑے جاتے تھے جس سے سار ا نظام فیل ہوچکا تھا۔یونین میں کوئی سسٹم نہیں تھا اور جمہوری نظام کی کمی تھی اور اگر کوئی کشمیری ہوتو وہ کشمیری کو ہی ووٹ دیتا تھا اور اگر کوئی اترپردیش کا ہو تو وہ صرف اترپردیشی کو ہی ووت دیا کرتا تھا لیکن انہوں نے اپنے پینل میں تمام علاقوں کے طلبہ کو جگہ دی اور علاقہ واریت نہیں بلکہ صلاحیت کی بنیا دپر وو ٹ مانگا جس کا نتیجہ تمام کے سامنے ہے‘۔
انہوں نے اپنے پینل کے انتخابی منشور کی تفصیلات سے واقف کرواتے ہوئے کہا کہ انتظامیہ اور طلبہ کے درمیان جو خلا ہے اس کو دور کرنا ، کیمپس میں جنسی عدم مساوات کو ختم کرنا اور لڑکوں کی طرح لڑکیوں کو بھی دیگر سہولتوں کی فراہمی کے لیے یونیورسٹی انتظامیہ سے مطالبہ کرنا ان کے منشور کا حصہ رہا ہے اور وہ اس سمت کام کریں گے۔ تجمل نے کہا ’انڈور اسٹیڈیم میں لڑکیوں کو لڑکوں کے مساوی مواقع نہیں ہیں۔کتب خانہ کے اوقات میں بھی امیتاز برتا جاتا ہے ، یہ تمام باتیں ان کے ذہن میں ہیں اور وہ اس سمت کوششیں کریں گے‘۔
انہوں نے اپنی کامیابی کو تاریخی قرار دیتے ہوئے کہا کہ باوجود اس کے کہ یونیورسٹی میں کشمیر سے تعلق رکھنے والے طلبہ کی تعداد بہت ہی کم ہے، اُن کے حق میں بھاری ووٹ پڑے ہیں اور وہ ایک اچھی خاصی اکثریت سے جیت گئے ہیں۔ انہوں نے کہا ’ 250سے زائد ووٹوں سے ان کو کامیابی ملی ہے اور جس پینل سے میں تعلق رکھتا تھا، کے دیگر ارکان بھی منتخب ہوئے ہیں‘ ۔
یونیورسٹی کے حکام نے بتایا کہ یونیورسٹی کی طلبہ یونین کے پانچ انتخابات میں پہلی مرتبہ کشمیر سے تعلق رکھنے والا کوئی طالب علم صدر کے عہدے کے لئے منتخب ہوا ہے۔ طلبہ یونین انتخابات میں ارشد عالم اور شاہدجمال جن کا تعلق کامرس اینڈ بزنس مینجمنٹ سے ہے نائب صدر وخازن منتخب ہوئے ہیں۔محمد امراعظم سکریٹری،محمد علی ( شعبہ انگریزی )کا بلامقابلہ جوائنٹ سکریٹری کے طورپر انتخاب عمل میں آیا ہے۔
کشمیر کے موجودہ حالات پر تبصرہ کرتے تجمل نے کہا’ تمام فریقین سے بات کی جانی چاہیے ۔ پنڈتوں ،سکھوں اور دیگر تمام سے بات کرنے کی ضرورت ہے‘۔ یونیورسٹی میں زیر تعلیم طلبہ کے ایک گروپ نے تجمل کی بحیثیت صدر جیت پر تبصرے کرتے ہوئے کہا ’عصر حاضر میں انتخابات ذات پات،زبان اور علاقہ واریت کی بنیاد پر منعقد ہورہے ہیں۔ایسے حالات میں ہماری یونیورسٹی کے طلبہ نے ایک نئی مثال قائم کی جس کے تحت طلبہ یونین کے انتخابات میں علاقہ واریت کو کوئی جگہ نہیں دی گئی بلکہ صلاحیتوں کے اعتبار سے کشمیرکے ایک طالب علم کو یونین کے انتخابات میں طلبہ نے کامیابی سے ہمکنار کیا گیا ۔
تجمل نے مزید کہا کہ اردو یونیورسٹی کے طلبہ نے کشمیری طالب علم کو طلبہ یونین کا صدر منتخب کرتے ہوئے سارے ہندوستان کو یہ پیام دیا ہے کہ انتخابات میں مذہب،ذات پات کی بنیاد یا علاقہ واریت کی بنیاد پر نہیں بلکہ صلاحیت و انتخابی منشور کی بنیاد پر ووٹ دینا چاہیے ۔
انہوں نے کہا کہ سیاسی نظام میں خامیوں اور نقائص کے سبب آج ملک ترقی نہیں کر رہا ہے۔ذات پات،رنگ ،نسل ،مذہب اورعلاقہ واریت کے خانوں میں لوگ بٹے ہوئے ہیں لیکن اردو یونیورسٹی میں نوجوانوں نے جمہوری انداز میں کشمیرسے کنیا کماری تک صرف طلبہ کے مسائل کی بنیاد پر ووٹ دیے جس کے سبب کشمیری طالب علم طلبہ یونین کا سربراہ منتخب ہوپا یا ہے۔یہ کامیابی کا طریقہ کار سیاسی نظام میں رائج ہوگیا تو اس سے بڑی کامیابی کوئی اور نہیں ہوسکتی۔
اس دوران یونیورسٹی کے شعبہ جرنلزم کے سربراہ پروفیسر احتشام احمد خان نے ان کے انتخاب پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے اسے طلبہ کے کاز کی کامیابی قراردیا ہے۔انہوں نے کہاکہ انتخابات ایک جمہوری عمل ہے اور اس میں طلبہ نے حصہ لیا ہے۔اس سے مستقبل میں نوجوانوں کے بھی سیاست میں آنے کی راہ ہموار ہوسکے گی۔