٭جاوید عادل سوہاوی جرمنی
معروف شاعرہ \”صائمہ اسحاق\”نے بہت کم عر صے میں شعرو شاعری کے حوالے سے اپنی شعری تخلیقی صلاحیتوں کا لوہا جس خوبی اورقدرتی فنی صلاحیتوں کے تحت منوایا ہےوہ نہ صر ف قابلِ رشک ہےبلکہ موجودہ شاعرات میں ان کو ممتاز بھی کرتا ہے
صائمہ اسحاق کی آواز میں قوت ِجمال اور ایسا حسنِ پذیرائی ہے جو ان گنت آوازوں میں رہ کر بھی اپنی چاشنی، ترنم، سحر، اثر ،اورکھنکھناہٹ کوبرقرار رکھے ہے بلکہ جب یہ سماعتوں
، شعور و ادراک اور حسن ذوق کی فضا میں گونجتا ہےتو اور زیادہ نکھرتا چلا جاتا ہےگویا جہانِ عصر میں ان کی قوت تخلیق ایسا بحر۔ِبیکراں ہےجس کے پھیلاو اور ظرف کا اندازہ نہیں کیا جا سکتا۔اس تخلیقی سمندر میں تحسین و نیاز کے دریا تو گرتے ہیں لیکن یہ اپنی رنگا رنگی اور وسعت کو مزید قبولیت کا جمال بخشتا جاتا ہے۔مجھے وثوق کامل ہے کہ محترمہ صائمہ سحاق اپنے ندرت ِخیال اور منفرد انداز اظہار کے حوالے سے مستتقبل میں ایک الگ مقام بنائےرکھیں گی کیونکہ ان کا اسلوب جدا گانہ اور تخلیقی صلاحیتیں سب سےمنفرد ہیں !!!
آئیے ان کی خوبصورت شاعری کا فکری و فنی جائزہ لیتے ہیں!
خوبصورت ودلکش۔ لب ولہجے کی شاعرہ صائمہ اسحاق کی شاعری کا مجموعی جائزہ
صائمہ اسحاق کی شاعری۔!!
صائمہ اسحاق کی شاعری رنگوں کی شاعری ہے۔جس میں تقریبا ہر موضوع پر ایک منفرد تخّیلاتی نظرئیے کو دلکش طرز میں نظم کیا گیا ہے۔ان کی شاعری میں نسائی افکار و جذبات کا ہر زاوئیے سے عکس تصویر کرکے دکھایا گیا ہے۔جہاں عورت پر معاشرے کے رجحانات اور عوامل اثر انداز ہوتے ہیں اور ایک روایتی طرز ِفکر کے تحت جو سلوک روا رکھا جاتا ہے اسکی مختلف علامتوں اور احساسات کے ساتھ شعری روپ میں ترجمانی کی گئی ہے۔۔اور میں سمجھتا ہوں، یہ نسائی رنگ مختلف انداز و اشکال میں ڈھل کر ان کی شاعری کا حصہ بنا ہے۔کہیں یہ بارش ،بہار، پھول ،تتلی، پرندوں ، رنگوں ،خوشبووں، کو اپنے لہجے کی چاشنی سے شعری ِپیرہن عطا کرتی ہیں اور اسے شاداب و دلنشیں بناتی ہیں، وہاں معاشرے کی بے حسی اور عورت پر مظالم سے کڑھتی بھی ہیں طنزیہ لہجے میں لفظوں سے اس کے خلا ف آواز اٹھاتی ہیں
شعر دیکھیں
-احتجاجی صدا زیرِ لب تھی مگر
چیر ڈالے گئے ہیں ردا اور ہم
نوحہ
احترام ردا کی بات نہ کر
تجھ ہوس زاد کو نہیں ملحوظ
حیف عصمت یہ بنت۔ حوا کی
بعد مرنے کے بھی نہیں محفوظ
صائمہ اسحاق میں بلا کا حوصلہ ہے ۔ دل و افکار میں زمانے کی بے مہریوں اور رسموں کی تندی سے نمٹنے کاقابل رشک جذبہ موجزن اور فطرت میں\” خود اعتمادی\” بدرجہ اتم موجود ہے
شعر دیکھیں
-اتار پھینکوں گی آج شانوں سے بوجھ سارے
پروں میں تازہ لہو کی گردش سی پا رہی ہوں
-ہم نہیں ہیں وہ جن کے دامن پر
بے بسی خاک ڈال جائے گی
-اپنی ہمت کو سینچتی لڑکی
تم سمجھتے تھے ٹوٹ جائے گی
-سوچ لے مجھ سے بچھڑ کر تو جڑے گا کس سے
میں تو اُگ جاوں گی آنگن ہو کہ جنگل کی زمیں
-بڑھا کر ہاتھ چھو سکتی ہوں تم کو
فلک اونچا ہے پر اتنا کہاں ہے
-ابھی تو آزمائش آ رہی ہے
اے میرے دوست تو جاتا کہاں ہے
-اسے بھی صائمہ احساس ہو گا
کہ اب کی بار وہ الجھا کہاں ہے
-عشق دربار ہے یہ تیری عدالت تو نہیں
کہ جہاں دل سے گواہی نہیں لے جائے گی
صائمہ اسحاق \”جہاں حُب الوطنی کے جذبے سے سرشار ہیں وہاں حاکمِ وقت کی ذات پرستی اور بے حِسی پر نالاں بھی، اور اپنے شہر کے آئے دن بگڑتے حالات اور دنگا وفساد پر بھی مضطر و بیتاب نظر آتی ہیں
شعر ملاحظہ فرمائیں!!
-خدایا اب تو اسے بھی عروج حاصل ہو
ہمارے شہر پہ کب سے زوال ٹھہرا ہے
-یہ روشنی کا عادی رہا ہے تمام عمر
تاریکیوں نے شہر کا نقشہ بدل دیا
-شہر سلگا ہوا ہے کچھ دن سے
کوئی تازہ بیان مت دینا
-منہ کے لقمے بھی ماگ لیتا ہے
میرا حاکم بڑا بھکاری ہے
-صائمہ کس پر عتاب آنے کو ہے
آج میر۔ِشہر کچھ دلگیر تھا
جہاں روزمرہ زندگی میں اتنے سارے آلام ہیں غمِ روزگار ،اپنوں کے غم ،حالات و قسمت کی ستم ظریفیاں ،وہاں انسان اگر مایوس ہو جائے تو نظریات و خیالات کی بینائی بھی ماند پڑ جاتی ہے، لیکن اگر انسان پُر امید رہے، اور آنکھوں اور دل میں روشنی رہے، تو زندگی کی دشوار رہگزاروں پر بھی امکانات کے ماہتاب اور چراغوں کی تابانی سے منزل شناس ہونے کی اُمید اسے زندہ و شاداب رکھتی ہے۔۔۔۔
ایسا ہی صائمہ اسحاق کے ہاں بھی ہے
اسی تناظر میں کچھ اشعارملاحظہ فرمائیے
-خطا کاری پہ شرمندہ ہوں ،پر یہ کفر کیونکر ہو
کہ امّت آپ کی ہو کر بھی میں مایوُس ہو جاؤں
-میرے لفظوں سے شجر پھوٹ پڑیں گے اک دن
کوئی قرطاس کی مٹی کو زرا نم کر دے
-لپیٹے تن پہ اک اجلا سویرا
میں گہری شب میں داخل ہو رہی ہوں
-ہتھیلیوں پہ دھری ہے ابھی دعا میری
اسی نے اب تو کوئی معجزہ دکھانا ہے
-آج لوٹا دیں گے جو کچھ بھی ہمیں سونپا گیا
قرض خواہو آؤ ہم نے دل کشادہ کر لیا
-اگر سورج ہوتو پھیلاؤ اپنی روشنی ،یہ کیا
جہاں سے تم نکلتے ہو وہیں پر رات کرتے ہو
-بوجھل نگاہ کو ہی سہارا بنائیے
بہر۔تماشہ کوئی نظارہ بنائیے
-گلاب رت کا پرندہ اڑان چاہتا ہے
خزاں سے کہہ دو کہ دامن سمیٹ لے اپنا
-شب نے بخشے صائمہ وہ آفتاب
کیا کریں صبحیں سہانی دیکھ کر
جہاں صائمہ اسحاق اپنے احباب اور اپنوں کیساتھ وفا داری کا جذبہ رکھتی ہیں، وہاں وہ ان سے اپنے لئیے بھی وہی صدق وخلوص ، سچی لگن اور محبت و شفقت کی متمنی ہیں ،جس کا اظہار، دعوٰی رکھتے بے تکلفانہ ان کی تغافلپسندی کو جنجھجوڑتی بھی ہیں اورخود پر بے جا ستم بھی انہیں گوارہ نہیں ،اس کے بر عکس جہاں ممکن ہو احباب کی رضا میں ڈھل کر کہیں کہیں اپنے جذبات خواہشات کی پروا کئے بغیر خود کو نثار کرتی نظر آتی ہیں۔ اور شاید یہی ان سچے رشتوں کے بیچ ایک اٹل صداقت ہے جو مراسم کے پاکیزہ پنَوں پر اپنی یادیں اور یادوں کے حسیں نشانات چھوڑ جاتی ہے
اسی حوالے سے کچھ اور اشعار ملاحظہ فرمائیے!!
-گو جیتنا ہماری بقا کا سوال تھا
لیکن بساط۔ وقت نے مہرہ بدل دیا
-طریقہ کچھ نیا تم سیکھ رکھنا مات دینے کا
اسی اثناء میں کوئی چال چلنا سیکھ لیں گے ہم
-آپ سے شکوہء بے نام سنبھالا نہ گیا
اور سہہ لوں میں کڑ ے طنز کا تاؤ ،جاؤ
-اطاعت محبت میں ہے شرط۔ اوّل
تو بس اسکی مرضی ،نکالے، بلا لے
-مانگ بھی لوں اگر محبت میں
تم مری جان، جان مت دینا
-عذابوں میں اضافہ ہی کرے گا
یہ جو تیرا شعور۔ِآگہی ہے
-شست باندھیں سکون سے صاحب
میں نے ہٹنا نہیں نشانے سے
-تم پکارو تو سہی فکر۔ جہاں رہنے دو
دل سے نکلے گی اگر دل سے سنی جائے گی
-میرا ہر رنگ جدا اپ کے اندازے سے
پیکر۔ سوز اٹھے گا مرے شیرازے سے
-دل دُکھا تہمت سے لیکن خوش بھی ہوں
آپ سب کی یک زبانی دیکھ کر
-اسکی ہر بات میں ہوتے ہیں ہزاروں معنی
میں بھی گفتار کے غازی سے الجھ بیٹھی ہوں
-تم سے منسوب ہو کے اترائیں
کبھی ایسا بھی کوئی کام کرو
-سر جھکائے ہوئے گزرے ہیں گلی سے ورنہ
سب سنے ،آپ جو کستے رہے آوازے ،سے
-تم نے سن لی ہے ان کہی اپنی
دیدنی کیوں نہ ہو خوشی اپنی
–چاہتا ہے کہ مری ذات کے ہالے میں رہے
پھر مری قوت۔ تسخیر سے ڈر جاتا ہے
ان موضوعات کے علاوہصائمہ اسحاق کی شاعری میں ،حسن ،غم، فراق ،امید۔ وصال،رنگ، بہار۔،پھول، تتلی خوشبو۔ غرضیکہ ہر حسین وچنچل افسردہ و پر مسرت موضوع ، اسم، اور علامت، پر شعر میں موجود ہے
کچھ اشعار دیکھئے
-نظر کے آگے سے سارے پردے ہٹے ہوئے ہیں
میں خوشبووں کی برہنگی دیکھ پا رہی ہوں
-آج آنچل گلابوں سے لڑ جائے گا
گھر کو مہکائیں دست۔ِصبا اور ہم
-صائمہ جسم رہ گیا خوشبو
روح نے اوڑھ لی ردائے عشق
-اس کے کمرے سے میں اک پُھول چرا لائی تھی
یوں وہ شامل ہے مرے حسن میں ،رعنائی میں
-اب بے رنگی میں ہی خوش ہے
چنری میری رنگ گزیدہ
ـ-سب لکیروںنے مجھے مل کےبدھائی دی ہے
تھام لی اس نے ہتھیلی جو جنائی میری
-آج یونہی بچھڑ گیا کوئی
آج کی شام دل پہ بھاری ہے
-ترا آنا ہے بے موسم کی بارش
دل وجاں کو بھگونا چاہتی ہوں
-خوشبؤں سے بھر گیا شہر۔ِخیال۔ِآرزو
پھول جو بھیجے کسی نے کل ہمارے نام کے
-رخ پہ کچھ رنگ۔ِشفق اور بھڑک اٹھا ہے
ایک بے باک نظر ضد پہ اَڑی ہے اب کے
-ایک موہوم سی اہٹ کا سہارا ہے مجھے
ورنہ تنہائی تو شدت کی پڑی ہے اب کے
کچھ اور متفرق اور اچھے اشعار—–
-گریز ہو کہ سپردگی ہو کوئی اشارہ نہیں رہا ہے
جو مل رہا تھا تھا قدم قدم پر وہ اب سہارا نہیں رہا ہے
-لہو میں صائمہ غیرت کی تھوڑی سی تو لالی ہو
حیا رخصت ہوئی اور ڈھل گیا ہے آب دیدوں کا
-وہ میرا آئینہ حیران سا رہا کچھ پل
مرے نقوش میں ایسا نیا نیا کیا تھا
-ہمیں تو مار گئی ہے گھٹن درونِ بدن
تمہارے پاس یہ گنجینہ ء صبا کیا تھا
-آج دشوار مسافت کا گلہ ہے تجھ کو
تُو نے بستی ہی بڑی دور بسائی میری
-سہج سہج کر چلتے ہیں اب
شہرِفسوں کے ڈھنگ گزیدہ
-کیسی سنگلاخ چٹانوں پہ مجھے لا ڈالا
جانتا تھا کہ مجھے راس ہے ململ کی زمیں
-کب اجازت تھی کہ تعبیر کے سپنے دیکھوں
خواب دفنا دئیے سب آنکھ کی گہرائی میں
-خوں میں اجداد کی وراثت کو
جس طرح چاہے آزمائے عشق
-ٹھوکر پر رکھتے ہیں دنیا
دِل جب ضِد پر اَڑ جاتے ہیں
-حرف گونگے ہوگئے ، قرطاس بنجر ہوگیا
کیا کریں تدبیر پانی سر سے اُوپر ہوگیا
-کردار جس میں سارے ہوں سرکشی پہ مائل
ایسی کہانیوں کو انجام کب ملا ہے
-گو بہت گہرے ہیں ڈھونڈو گے تو مل جائیں گے
ہو چکےصائمہ ،اب شام کے سائے ہم بھی
صائمہ اسحاق کی شاعری کے محاسن
صائمہ کی شاعری میں ایک بہت پر کشش تاثر قائم کرنے والی بات دیکھی ہے۔۔۔کہ الفاظ کا چناؤ تراکیب اور مصرع سازی میں ان کو ملکہ حاصل ہے۔ یہ فن ان کوعصر۔ِحاضر کے موجودہ شعرا میں ایک معتبر مقام پر فائز کئے ہوئےہے اور ان کے شعر کو الگ پہچان عطا کرتا ہے۔صنعتوں کا استعمال بخوبی کرتی ہیں ۔اور ان کا کلام مختلف بحور میں ہے ۔جو ان کی فنی مہارت کا آئینہ دار بھی ہے اور قاری کے لئے اکتاہٹ سے بچنے اورشعریت بھری دلچسپی برقرار رکھنے کا سامان بھی۔ان کی ہر آنے والی تخلیق جس میں غزل بطور خاص مضامین کے اعتبار سےجدا ہوتی ہے ۔ یعنی اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے یہ اپنی زمینیں خود تراشتی ہیں
اور ان میں جو شعر کے پھل پھول اگتے ہیں وہ قاری کےقلب و فکر اور ذوق کو معطر کیے رکھتے ہیں
ان کی شاعری میں جہاں غزل کو دلکش اسلوب میں ڈھال کر اس کے اشعار کو نادر خیالات کے حسین پیراہن سے نوازا گیا ہے وہاں\” آزاد نظم\” اور \”معری نظم\” بھی اس خداداد صلاحیتوں کی مالک شاعرہ کی قابلِ تحسین تخلیقی استعداد کا قابل داد فنی ثبوت ہے
اللہ کرے زور۔ِقلم اور زیادہ ۔۔۔آمین