مقالوں کی پیش کشی کے علاوہ ہمہ لسانی مشاعرے اور ــ’’بلقیس بیگم وقف خطبے ‘‘کا اہتمام
رپورتاژ
٭ڈاکٹر سیدہ نسیم سلطانہ
اسسٹنٹ پروفیسر ۔ سی ۔ ویمنس کالج کوٹھی جامعہ عثمانیہ
رود موسی کے شمال میں واقع موجودہ ویمنس کالج کوٹھی ، کرک پیٹرک بریٹش ریزیڈنسی مشرقی اور مغربی تہذیبوں کی علم بر دار عمارت شہر حیدرآباد کی عظیم الشان تاریخی عمارتوں میں شمار کی جاتی ہے ۔کرک پیٹرک اور خیر النساء کی داستان عشق کی بھولی بسری یادیں اسی ریزیڈنسی سے وابستہ ہیں ۔ ویمنس کالج کوٹھی میں تبدیل اس کرک پیٹرک ریزیڈنسی سے فارغ التحصیل بے شمار علم وادب کے نگینے دنیا بھر میں اپنی روشنی بکھیر رہے ہیں ۔ جامعہ عثمانیہ صدی تقاریب کے ضمن میں کرک پیٹرک ریزیڈنسی ، ویمنس کالج کوٹھی میں 7 اور 8 ڈسمبر 2017 کو علمی و ادبی انجمن روشن کی گئی جس میں دوروزہ بین الاقوامی سمینار منتخب موضوعات \’\’ سلاطین دکن اور اردو زبان و ادب کا فروغ اور 1857 ء کے بعد مطبوعہ صحا فت \’\’ کے علاوہ بلقیس بیگم میموریل لکچرو ہمہ لسانی مشاعرے کا اہتمام کیا گیا ۔ اس انجمن کو \’\’فرزند اردو \’\’ پروفیسر مظفر علی شہ میری وائس چانسلر ڈاکٹر عبد الحق یونی ورسٹی، عالی جناب زاہد علی خاں صاحب مدیر اعلی \’\’ روز نامہ سیاست\’\’ عالمی شہرت یافتہ نقاد و محقق ، خطیب پروفیسر مولی بخش علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی ، شمالی ہند کے معروف ادیب پروفیسر آصف ظہری جے این یو ، ممتاز شاعر و محب اردو خطیب رفعت اللہ رفعت ( نیو یارک ) عالی جناب سلیم فاروقی بانی ء اردو اکیڈیمی جدہ ، پروفیسر قاضی حبیب مدراس یونی ورسٹی ،ریاست کرناٹک کے نام ور نقاد و محقق اور شاعر ڈاکٹر داؤد محسن جیسے ادبی کہکشاں کے درخشاں ستاروں نے اپنے خطابات اور کلام سے منور کیا ۔ اس موقع پر صحافیوں ، محبان اردو ، مشاہیر ادب ، سماج کی سر کردہ شخصیات کے علاوہ ریسرچ اسکالرس و عثمانین کی کثیر تعداد موجود تھی ۔اس موقع پر پروفیسر مظفر علی شہ میری وائس چانسلر ڈاکٹر عبد الحق یونی ورسٹی کو \’\’ فرزند اردو\’\’ ایوارڈ عطا کیا گیا جب کہ پرانے شہر میں بے لوث تعلیمی خدماتانجام دینے کے صلے میں انجینئر جناب سید حیدر علی جسارت گروپ آف انسٹیٹیو شنس کو \’\’ سر سید\’\’ ایوارڈ عطا کیا گیا ۔
سمینار ڈائرکٹر محمد نذیر احمد صدر شعبہ ء اردو ویمنس کالج کوٹھی گزشتہ تین ماہ سے سمینار کی تیاریوں میں مشغول تھے ۔ جامعہ عثمانیہ میں درپیش تعلیمی و تدریسی بحران کے پیش نظر مختلف رکاوٹیں حائل رہیں ، باوجود اس کے سمینارکامیاب رہا اور خوش گوار اختتام عمل میں آیا ۔
سمینار کے افتتاحی اجلاس میں مخصوص طرز ادا سے نظامت کے فرائض انجام دئے گئے ۔
عالی جناب زاہد علی خاں صاحب مدیر اعلی \’\’ روز نامہ سیاست \’\’ کا استقبال ممتاز مزاحیہ شاعر اکبر الہ آبادی کے اس شعر کے ساتھ کیا گیا ۔
کھینچو نہ کمانوں کو ، نہ تلوار نکالو
گر توپ مقابل ہو ، اخبار نکالو
پروفیسر مطفر علی شہ میری وائس چانسلر ڈاکٹر عبد الحق یونی ورسٹی کے نام اس شعر کو منسوب کیا گیا ۔
بجھتے ہوئے چراغ ،فروزاں کریں گے ہم
تم آؤ گے تو جشن بہارا کریں گے ہم
جناب سلیم فاروقی بانئ اردو اکیڈیمی جدہ کا استقبال اس شعر کے ساتھ کیا گیا ۔
قدم قدم پہ بچھے ہیں گلاب پلکوں کے
چلے بھی آؤکہ ہم انتظار کرتے ہیں
نئی نسل کے زبر دست حامی سمینار ڈائرکٹر و صدر شعبہء اردو محمد نذیر احمد کے نام اس شعر کو معنون کیا گیا ۔
یا ترا تذکرہ کرے ہر شخص ۔۔۔۔ یا کوئی مجھ سے گفتگو نہ کرے
سمینار ڈائرکٹر و صڈر شعبہ اردو محمد نذیر احمد نے خیر مقدمی تقریر میں اس سمینار کے انعقاد کے اغراض و مقاصد بیان کرتے ہوئے کہا کہ ان دنوں جامعہ عثمانیہ کے علاوہ مختلف یونی ورسٹیوں میں تعلیمی اور تدریسی بحران جاری ہے جس کے سبب جامعہ عثمانیہ میں بھی موثر اقدامات میں تاخیر ہو رہی ہے ۔ انہوں نے مزید کہا کہ وہ اس سمینار کے ذریعے ویمنس کالج کوٹھی میں سینئر اساتذہ کی سبکدوشی کے بعد عر صے دراز سے طاری جمود ٹوڑنا چاہتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ اپنے شعبے کو فعال اور متحرک بنانے اور علمی و ادبی سر گر میوں کو پروان چڑھانے کے لیے نئی نسل کو تیار کیا ہے جنہوں نے اپنے کام کو بحسن خوبی نبھایا ۔ صدر شعبہء اردو آرٹس کالج ڈاکٹر معید جاوید نے افتتاحی کلمات اداکیے اور نئی نسل کی کاوشوں کو سراہا ۔
پروفیسر مظفر علی شہ میری وائس چانسلر ڈاکٹر عبد الحق یو نی ورسٹی نے کلیدی خطبے میں دکن میں تعلیمی سر گرمیوں کے متعلق شواہد پیش کیے کہ عہد آصفیہ میں دکن میں تراجیم کا آغاز ہوا جہاں طب ، کیمیاء ، طبعیات ، ریاضی اور سائنس وغیرہ کی تعلیم اردو زبان ہی میں دی جاتی تھی ۔ انہوں نے بہمنی ، عادل شاہی ، قطب شاہی اور عہد آصفیہ میں اردو زبان کے ارتقاء پر روشنی ڈالتے ہوئے سلاطین دکن کے اقدامات کو سراہا ہے ۔ پروفیسر صاحب نے واضح کیا کہ درباری اور سر کاری زبان الگ الگ ہے ۔
جناب زاہد علی خاں مدیر اعلی روز نامہ سیاست نے ان کی مدح میں پیش کیے گئے شعر کو بر موقع و بر محل قرار دے کر سراہنا کی نیز کہا کہ یہ اٹیم بم کا زمانہ ہے ۔ اس موقع پر عالی جناب زاہد علی خان نے چیف منسٹر چندر شیکھر راؤ کو مسلمانوں سے کیا گیا ان کا وعدہ \’\’کیا ہوا تیرا وعدہ ۔۔ ۔ وہ قسم وہ ارادہ \’\’ کے مصداق یاد،دلایا کہ \’\’ ٹی آر ایس بر سر اقتدار آتے ہی چار ماہ کے اندر ہی مسلمانوں کو 12 فیصد تحفطات فراہم کرے گی \’\’ ۔ آج ضرورت اس بات کی ہے کہ مسلمان حالات سے با خبر رہیں اور ترقی کی طرف اپنے قدم بڑھائیں ۔ روزنامہ سیاست کی خدمات پر روشنی ڈالتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ہر سال ملت فنڈ کے ذریعے طلباء میں ایک کروڑ کے اسکالرشپس کی تقسیم عمل میں لائی جارہی ہے تاکہ مسلمانوں میں تعلیمی پسماندگی کے خاتمے کو یقینی بنا یا جاسکے ۔
پروفیسر ایس اے شکورڈائرکٹر اردو اکیڈیمی نے کہا کہ 2017 ء ایک طرف صدی تقاریب کا سال ہے تو دوسری طرف تلنگانہ کی عوام کے لیے بھی اہمیت کا حامل ہے کیوں کہ کچھ دن قبل ہی چیف منسٹر صاحب نے تلنگانہ کے تمام اضلاع میں اردو کو دوسری سرکاری زبان کا درجہ دینے کا اعلان کیا ہے ۔ اس اعلان پرعمل آوری کے لیے جلد ہی جی او جاری کیا جائے گا نیز دو ماہ کے اندر 66 عہدوں پر اردوداں کے تقررات کے احکامات جاری کیے ۔ ڈی ایس سی کے تحت 900 اردو کی جائدادوں کو پر کرنے کا اعلامیہ جاری کیا جا چکا ہے ۔ انہوں نے محبان اردو سے اپیل کی ہے کہ وہ اسکولی سطح پر طلباء کو اردو پڑھائیں ۔ بانئ اردو اکیڈیمی جدہ جناب سلیم فاروقی نے کہا کہ اردو ایک زندہ زبان ہے اور ہر زبان کو اپنے اندر جذب کر نے کی صلاحیت رکھتی ہے ۔
پروفیسر مولا بخش نے \’\’ آصف سابع میر عثمان علی خاں بحیثیت دانشور اور ان کی ملی و ہ قومی خدمات \’\’ موضوع پر \’\’ بلقیس بیگم میمو ریل لکچر \’\’ سے خطاب کر تے ہوئے آصف سابع میر عثمان علی خاں کے مختلف روشن پہلو اجا گر کیے اور ان کی بے لوث خدمات کو خراج تحسین پیش کیا ۔
اسی دن بعد مغرب مشاعرے کا اہتمام کیا گیا جس میں نوجوان نسل کو بھی موقع دیا گیا ۔ اس مشاعرے میں پروفیسر مطفر علی شہ میری ، ڈاکٹر معید جاوید ، پروفیسر مولی بخش جناب رفعت اللہ رفعت اور ڈاکٹر داؤد محسن چھائے رہے ۔
دوسرے دن مکمل طور پر مقالے پرھوائے گئے اور شام سارھے پانچ بجے پروفیسر ایس اے شکور صاحب کی زیر صدارت اختتامی اجلاس عمل میں آیا اور مقالہ نگاروںمیں اسنادات تقسیم کیے گئے ۔