اُردو افسانہ میں علامت نگاری کے رجحانات

\"thumbnail\"
٭شاہد حسین

پی ایچ ڈی ریسرچ اسکالر
شعبۂ اردو سینٹرل یونیورسٹی آف کشمیر،سری نگر۔
ای میل۔darshahid514@gmail.com

علامت انگریزی لفظ (symbol ) کا ترجمہ ہے اور یہ یونانی لفظ سمبالین(symboline ) سے نکلا ہے۔جس کے معنی ہیں’’دو چیزوں کو ایک ساتھ رکھنا‘‘۔لغوی اعتبار سے علامت کے معنی نشان،مارک،کھوج،اشارہ،کنایہ وغیرہ ہیں۔ اصطلاحی مفہوم میںعلامت نمائندگی کا ایک ایسا وسیلہ ہے جو کسی لفظ ،شئے،کردار،واقعہ یا تصور کو کسی خاص معنی ،مقصد یا مفہوم میں پیش کرتا ہے۔مثلاً پھول ایک شئے ہے۔یہ محبت کی علامت بھی ہے اور ماتم کی نشانی بھی۔اب یہاں پر پھول کے حقیقی معنی کے برعکس جو دوسرے معنی سامنے آتے ہیں اس کی نمائندگی علامت کرتی ہے۔
علامت نگاری (Symbolism)جب کوئی لفظ یا چیز اپنے لغوی معنی کے علاوہ وسیع تر اور مخصوص معنی کے لیے استعمال ہو تو اسے علامت کہتے ہیں۔ لفظ کے معنی دو طرح کے ہوتے ہیں ایک لغوی اور ظاہری اور دوسر اباطنی جن کا کوئی مخصوص پس منظر ہوتاہے یا اس سے کوئی معاشرتی ، تہذیبی ، اساطیری ، مذہبی یا ادبی حوالہ یا واقعہ وابستہ ہوتاہے اس طرح لفظ یا چیز کو استعمال کرنے سے جو جسے وسیع تر مفہوم حاصل ہوتاہے اسے علامتی مفہوم کہتے ہیں اور علامتوں کو برتنے کے اسلوب کو علامت نگاری یا سمبلزم (SYMBOLISM ) کہتے ہیں۔علامتی مفہوم کے بارے میں ڈاکٹر نگہت اپنی کتاب میں لکھتی ہیں کہ
’’ علامت کسی لفظ کے معنی کے مفہوم کو کہا جاتا ہے۔اس مفہوم کا بھی ایک مخصوص پس منظر ہوتا ہے علامت کی سب سے آسان صورت ایڈرین ایچ۔ جیف اور ورجل اسکاٹ نے پیش کی ہے لکھتے ہیں۔
In its simplest form a symbol is something which stands for something else\”‘‘
یعنی کسی ایک چیز کے لیے دوسری چیز مخصوص کر کے اسی کا ذکر کیا جائے۔یہ کوئی شئے (Object) بھی ہو سکتی ہے، آواز (sound) بھی اور کوئی حرکات جسمانی یا وضع (Gesture) بھی ہماری زندگی کی سب سے عام علامت الفاظ ہیں اور تخلیق کا ر الفاظ ہی کو اظہارِ خیال کا میڈیم بناتے ہیںاور چونکہ الفاظ علامت ہی ہوتے ہیں ۔۱؎
علامات کی ابتداء انسانی زندگی کے ساتھ ہوئی۔ادب میں بھی ان کا استعمال ادب کی ابتدا کے ساتھ ہی ہوا۔ خیالات کی علامتوں نے لفظوں کی اہمیت کو بڑھایا۔انسانی زندگی کے ابتدائی دور سے مذہب،دیو مالا،نفسیات، آرٹ، فلسفہ وغیرہ میں علامتوں کا وجود ملتا ہے۔معمولی اور غیر معمولی باتوں کے اظہار کے لیے علامتوں ہی کا سہارا لیا گیا۔
غرض علامتیں زمانہ قدیم ہی سے استعمال ہوتی چلی آرہی ہیںلیکن ایک تحریک کی حیثیت سے علامت کو ۱۸۸۵ء میں فرانس میںبودلیر کی تحریروں میں پیش کیا گیا۔جو ادب میں فطرت پسندی کا ردعمل تھی۔بودلیرؔنے فطرت کوایک حقیقت کے سمبل کے روپ میں دیکھا تھا۔ ایڈگرایلن پوؔ کی تحریروں نے اس تحریک کو تقویت پہنچائی۔ریمبوؔ اس تحریک کے مفسر تھے۔فرانس کے مشہور علامت پسند بودلیرؔ،املارمےؔ۔اریمبوؔ،اِذراپائونڈ،پال ویلریؔ ہیں۔امریکہ میں پوؔ،ایمرسنؔ ،وِٹ من، ہاتھارنؔ، میلولؔ انگلینڈ میں روزیٹیؔ،پیٹرؔ،وائلڈؔ وغیرہ اور جرمنی میں اسٹیفن جارجؔ،میریالکیؔ،ہیں ۔روس میں الگزینڈر بلاکؔ، نے بہت شہرت حاصل کی۔ایمرسنؔ،اورمیلولؔ نے عالمی ادب میں علامت کے استعمال میں ایک خاص درجہ پایا۔
علامتوں کا استعما ل ا ردو ادب میں بہت عرصے سے ہوتا آرہاہے۔کلاسکی شاعری اور نثر میں استعاروں، کنائیوں اور مختلف علامتوں کے ڈھیروں نمونے ملتے ہیں۔مثلا صنم،شیخ،واعظ،بت خانہ، ناگن، مو، دشت، صحرا،وغیرہ، اسی طرح داستانوں میں دیو مالائی عناصر،طلسم،آب حیات ،خضر، جنگل، وغیرہ مختلف علامتیں استعمال ہوتی رہیں ہیں۔
علامت کی تین بنیادی اقسام ہیں۔
۱۔آفاقی ( universal synbols )
۲۔علاقائی (Regional symbols)
۳۔ شخصی (Personal symbols)
آفاقی علامتیں وہ ہیںجن کا تعلق پوری انسانیت سے ہے مثلاً پیار(love) خدا(God)وغیرہ۔
علاقائی علامتیں وہ ہیں جن کا تعلق کسی مخصوص خطے سے ہو مثلاًہیر رانجھا،شیریں فرہاد،رومیو جیولیٹ وغیرہ۔
شخصی علامات وہ ہیں جن کی تخلیق کسی شخص کی اپنی ذات کے مرہون منت ہو۔
علامت نگاری کا باقاعدہ آغاز بیسویں صدی میں ہوا۔یہ رجحان یورپی ادب سے اردو ادب میں در آیا اوربہت کم عرصے میں اردو ادب میں رواج پاگیا۔ علامت نگاری نے شاعری میں نظم اور غزل کو ایک نیا جہاںدیا۔ ،میرؔ،غالبؔ ،اقبالؔ، فیضؔ،ناصرؔ،راشدؔ اور بعد کے سینکڑوں شعرا ء نے علامت نگاری کے نئے نئے دروا کیے ہیں۔
مثلاً اقبالؔ کے یہاں شاہین، لالہ، جگنو، ستارہ، وغیرہ،یہ علامتیں کثرت سے استعمال ہوئیں ہیں۔
فیضؔ کے یہاں غزل ونظم میں علامتوں کی عمدہ مثالیں ملتی ہیں۔ان کی مشہور نظموں میں،صبح آزادی،اے دلِِ بیتاب ٹہر،کتے،بول، ملاقات، وغیرہ شامل ہیں۔
جدید نظم میں راشد کو امام کی حیثیت حاصل ہے۔انکی اہم ترین علامتی نظموں میں زنجیر، انتقام، من وسلوی، حسن، کوزہ گر، اندھا کباڑی، وغیرہ شامل ہیں۔
اردو ادب میںشاعری میںشروع سے ہی علامتی اظہار ملتا ہے۔ اردو کی کلاسکی شاعری میں ہمیںمیرؔ،غالبؔ،اقبالؔ،وغیرہ کے یہاں استعاراتی اور اشاراتی رنگ میں علامت نظر آتی ہیں۔شاعری میں علامت نگاری کو بہتریں زریعہ اظہار تصور کیا جاتا تھا۔علامت کا استعمال نہ صرف شاعری میں ہوا ہے بلکہ فکشن میں بھی ہوا ہے۔خاص طور پر افسانے میں علامت کا استعمال ذیادہ ہوا ہے، نثر میں خاص کر افسانے میں جدید دور سے اس طرز کا اظہار صاف نظر آتا ہے۔اگرچہ علامتی اظہار ترقی پسند دورمیں ہی کچھ افسانہ نگاروں کے یہاں ملتا ہے ۔مگرجدید افسانے کا آغاز ہی علامتی افسانہ کی بنیاد کہا جا تا ہے کیونکہ جدید دور میں افسانہ نگاروں نے اردو افسانے میں علامت نگاری کو طرہ امتیاز سمجھا۔
مختلف اصنافِ ادب اور تحریکات کی طرح علامت نگاری کی تحریک کا آغاز بھی مغرب میں انیسویں صدی کے آخر میں ہو ا جو نیچرلزم(Photographic Exactness)کے ردِ عمل کے طور پر شروع کی گئی تھی۔ مغرب کے برخلاف اُردو میں علامتی افسانے کی عمر بہت مختصر ہے۔علامت نگاری بہت وقت طلب عمل ہے۔ یہ ادیب وفنکار سے بہت محنت، ریاضت ، ذہانت ا ورمہارت چاہتی ہے۔ علامت نگاری کے لئے فنکار کا حقائق کائنات سے اچھی طرح متعارف ہونا ضروری ہے،کیونکہ علا مت کی بنیادعموماً کسی قدیم داستان ، مذہبی قصہ یا واقعہ اور اساطیر یا حکایت پر ہوتی ہے۔علامتی افسانہ نگار ماضی سے مواد فراہم کرکے اس کے تناظر میں حال کی زندگی کو پیش کرتے ہیں۔ ساتھ ہی مستقبل کے کچھ مبہم اشارے بھی دے دیتے ہیں۔ علامتی افسانہ ماضی اور حال کوجوڑنے کا کام کرتاہے۔علامتیں واضح اور مبہم دونوںطریقے کی ہوتی ہیں۔علامتی افسانہ اپنے قاری سے بھی ذہانت کا طلبگار ہوتاہے کیونکہ افسانہ نگار علامتی افسانوں میں اکثر و بیشتر اشاریت سے کام لیتاہے اور جس حقائق کی طرف وہ اشارہ کرتاہے اس تک رسائی حاصل کرناقاری کا ہی کام ہوتاہے۔
اردو افسانہ میں افسانہ نگار وںنے کون سا علامتی مفہوم پیش کیا ہے یہ سمجھنا ہر ایک کی بس کی بات نہیں اس کے لیے وسعی مطالعہ عمیق نظراورعلمی بصیرت کی ضرورت ہیں۔افسانہ میں کون سا علامتی مفہوم استعمال ہواہے اس کی طرف شہزاد منظر نے اپنی کتاب ،جدید اردو افسانہ ،میں لکھا ہے۔کہ
’’ادب میں عام طور پر دو طریقوں سے علامتی مفہوم پیدا کئے جاسکتے ہیں۔اول موضوع کے ذریعہ دوئم واقعات کے ذریعہ،خواہ واقعہ جسمانی ہو یا ذہنی سب سے بڑی ضرورت اس بات کی ہے کہ افسانے میں علامت استعمال میں ایک ایسی تکنیک اختیار کی جائے کہ وہ کہانی کا ایک فطری اور لازمی حصہ معلوم ہو اور یہ محسوس نہ ہو کہ علامتیں گڑھی گئی ہیں‘‘۔ ۲؎
اس کے علاوہ شہزاد منظر نے اردو ادب میں علامت نگاری کے کون سے طریقے رائج ہیں ۔اس کی طرف بھی اشارہ کیا ہے۔
’’علامت نگاری کے عام طور پر تین معروف طریقے رائج ہیں۔پہلا طریقہ آسمانی صحائف ، اساطیر ، لوک کہانیوں، حکایتوں اور قدیم داستانوں کا استعمال ۔ان میں قرآن اور انجیل سے استفادہ عام ہے۔ قدیم اساطیر میں یونانی اور ہندوستانی دیو مالائیںخاص طور پر استعمال میںآتی ہیں۔ اسی طرح زیادہ ترعربی اور فارسی کی حکایات، ملفوظات اورداستانوں سے علامتیں اخذ کی گئی ہیں۔ تاریخی شخصیتوںکو بھی علامت کے طور پر استعمال میں لایا گیا ہے ۔ دوسرا طریقہ فطرت اور مظاہر فطرت میں سے بعض اشیاء اور چرندوپرند کوعلامت کے طور پر استعمال کر نے کا رہا ہے۔ تیسرا طریقہ بعض ایجادات اورروز مرہ استعمال میں آنے والی چیزوںکوبطور علامت پیش کرناہے۔علامت سازی کے ان تین طریقوںکے علاوہ بھی دیگر طریقے موجود ہیںجسے علامت نگار گاہے گاہے استعمال میں لاتاہے۔ ۳؎
پروفیسر خورشید احمد افسانے میں علامت نگاری کی چار قسمیں دریافت کرتے ہیں ۔
۱۔شے بطور علامت ۔۲۔منظر بطور علامت۔۳۔کردار بطور علامت۔۴۔افسانہ بطور علامت۔۴؎
مذکورہ بیانات سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ علامتی افسانہ نگار ضرورت کے مطابق بعض وقت کسی بے جان شے کو علامت کے طور پر استعمال کرتے ہیں تو بعض وقت کسی منظر کی اس طرح تصویر کشی کرتے ہیںکہ اس میںعلامتی معنویت پیداہوجاتی ہے اور کبھی افسانے کا کردارعلامتی حیثیت اختیار کرکے سامنے آتاہے۔جدیددور میں جب علامت نگاری اپنے عروج پر پہنچ گئی توافسانہ نگاروںنے افسانے کی مکمل ساخت کو علامتی انداز میں پیش کرنے کے کامیاب تجربے کئے ۔انتظار حسین ، انور سجاد، سریند پرکاش اور بلراج منیرا وغیرہ افسانہ نگاروں نے اس ضمن میں قابلِ قدر کارنامے انجام دئے۔
اردو میں علامتی افسانوں کی بنیاد کسی قدیم داستان، مذہبی قصہّ،تلمیح، اساطیر، بچوں کی کہانی یا حکایت پر ہوتی ہے۔واضح رہے کہ اُردو افسانہ میں علامت نگاری کا رجحان جو جدید دور میں پروان چڑھا، اس کی ابتدا حقیقت پسندی کے دورمیں ہوچکی تھی۔ منٹو اور کرشن چندرنے افسانے کے فن میںعلامت نگاری کے تجربے کئے ۔ وہ لوگ حقیقت پسند افسانے میں ہی ضرور ت کے مطابق اشیا کو علامت بنا کر پیش کرتے رہے تھے۔ اس ضمن میں منٹو کا افسانہ ’’پھندے‘ ‘ اور کرشن چندر کا افسا نہ’’دو فرلانگ لمبی سڑک‘‘ قابل ذکر ہیں۔
اُردو افسانے میں تجربات کا عمل منٹو کے افسانے ’’پھندے ‘‘ سے شروع ہوتاہے اور بیشتر ادب کے ناقد اور افسانہ نگار اس ضمن میں اتفاق رائے کا اظہار کرتے ہیں۔ معتبر افسانہ نگار اورنقاد کمار پاشی نے اپنے مضمون’’نیا اُردو افسانہ‘‘ کا آغاز ہی ان لفظوںمیں کیا ہے:
’’نئے افسانے کے سلسلے میں منٹو کے پھندنے کا ذکراکثرکیا جاتاہے ۔بہت سے نئے ناقد اور افسانہ نگار اس بات پر متفق نظر آتے ہیں کہ نئے افسانے کی ابتدا پھندنے سے ہوئی ہے‘‘ ۵؎
’’پھند نے‘‘میں علامت نگاری کی جو نوعیت ہے اس کی نشاندہی مرزا حامد بیگ نے اس طریقے سے کی ہے:
’’علامت نگاری کے ضمن میںمنٹو کاافسانہ’’پھندنے‘‘ کامیاب ترین کوشش کہی جاسکتی ہے۔اس میں کردار کا تجزیہ علامتوں اور استعاروں کے ذریعہ کیا گیا ہے۔ ۶؎
’’پھندنے‘‘ کا موضوع منٹو کے دوسرے افسانوںکی طرح جنسی بے راہ روی اور اس سے پیدا ہونے والے مختلف معاشرتی مسائل ہیں۔ کما رپاشی اپنے مضمون کو آگے بڑھاتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’افسانے کا موضوع منٹو کا وہی من پسند موضوع یعنی جنسی بے راہ روی ہے۔ جس میں معاشرے کے ہر طبقے کے ہرفرد کو لتھڑا ہوا دکھایا گیاہے۔ جنسی ابتری اور اس سے پیدا شدہ اخلاقی زوال ، برہنگی ، قتل و خون اور زنا کاری کے افکارسے اس افسانے کا خمیر تیار کیا گیا ہے۔ ۷؎
اسی طرح کرشن چندر کا’’ دو فرلانگ لمبی سڑک‘‘ کامیاب علامتی افسانہ ہے۔ اس افسانے میںسڑک جوبظاہر ایک بے جان شے ہے ،کرشن چندر نے سماجی استحصال کے نتیجے میں سنگ دلی اور بے حسی کی علامت بناکر پیش کیاہے۔ بلراج منیراکے افسانوں میں بھی سڑک کا ذکر بار بار آتاہے۔ ان کے یہاں سڑک باطنی خلا، تنہائی ، ویرانی اور اداسی کی علامت بن جاتی ہے۔ افسانہ’’سڑ ک ماضی کی ‘‘ اس طرح شروع ہوتاہے:
’’میں اپنی محبوب ، کشادہ ، ہموار ، کالی ، چکنی اور اداس سڑک پر دن ڈھلے ٹہل رہا تھا۔
شام راکھ ہورہی تھی اور میرا دِل ڈوب رہا تھا…
رات بھی ادا س تھی اور میں بھی
ہمارا عشق بھی خوب تھا
میں تھکے تھکے قدموں سے ٹہل رہا تھا اور سوچ رہا تھا۔
’’سڑک کی اُداسی سڑک کا سکون تو نہیں…‘‘ ۸؎
مذکورہ افسانوںکے علاوہ منٹو کے افسانے ’’ہتک ‘‘ اور ’’کالی شلوار‘‘ میں بھی علامت نگاری کی بعض جھلکیاں موجود ہیں جس میں منظر کی تصویر کشی علامتی پیرایے میں کی گئی ہے۔ مثلاً افسانہ’’ہتک‘‘ میں سوگندھی کے کمرے کی صورتِ حال اس کی بے ترتیب اور بے زار زندگی کا علامیہ ہے اور’’کالی شلوار‘‘ میں سلطانہ کی ذہنی کیفیت کی مناسبت سے ریل کی پٹری کا چمکنا ، ٹرین کا پٹری پر چلتے رہنا، کبھی اکیلے ڈبے کو پٹری پر دھکا د ے کر چھوڑ دینا، انجن کا منہ سے دھواںاگلنا وغیرہ مناظر تخلیق کرکے منٹو نے سلطانہ کی زندگی کی صورتِ حال اور ذہنی کیفیت کو علامتی انداز میں پیش کیاہے۔
علامتی افسانہ نگاری میں انتظار حسین ایک خاص نام ہے۔علامتی افسانہ نگاری میں شاید ہی کوئی انتظار حسین کی طرح لکھ پائے گا۔ مثال کے طور پر اپنی کہانی ’’ آخری آدمی‘‘ میںانتظار حسین نے عہد نامئہ عتیق کی فضا پیش کی ہے۔اس کا مرکزی کردار الیاسفؔ آخری آدمی ہے جو سب میں دانا ہے اور پوری کوشش کرتا ہے کہ کہیں وہ بھی اپنے ساتھیوں کی طرح آدمیت کے درجے سے گر نہ جائے۔ اپنی پووزیشن کو قائم رکھنے میں اُسے جو جدوجہد کرنی پڑتی ہے،جس اذیت ناک کشمکش سے وہ گذرتا ہے،اسے افسانہ نگار نے موثر پیرائے میں بیان کیا ہے۔انہوں نے تمثیلی پیرائے میں اس دلچسپ حقیقت کا اظہار کیا ہے کہ انسان منفی خصائل سے بچنے کی کتنی کوشش کرے، اپنی سرشت سے نہیں بچ سکتا۔منفی خصائل صرف حرص وطمع تک محدود نہیں ہیں بلکہ اس میں ہر قسم کی اشتہا آجاتی ہے جو اخلاقیات کے دائرے سے باہر ہے۔اس میں جنسی بھوک بھی شامل ہے۔ الیاسفؔ ان سب سے اجتناب کرتا ہے یہاں تک کہ وہ محبت و نفرت سے،غصّے اور ہمدردی سے، ہنسنے اور رونے سے ،غرض ہر کیفیت سے گزر کر اپنی ذات کے خول میں سِمٹ جاتا ہے اور پھر سمٹتا ہی چلا جاتا ہے۔اس میں جسمانی طور پر کچھ تبدیلیاں رونما ہونے لگتی ہیں اور آخر کار وہ بھی بندر کی جُون میں منتقل ہو جاتا ہے۔ اس افسانے میں انتظار حسین نے بند رمیں جس خوبصورتی کے ساتھ انہوں نے ترقی اور انسان کی بنیادی جبلت کو بیان کیا ہے وہ کمال ہے۔ انتظار حسین کی اس کہانی میں ایک بندرپہلی بار انسانی بستی میںجاکرترقی دیکھ کے حیران ہوجاتاہے اور اس نتیجے پر پہنچتا ہے کہ ہماری ترقی کی راہ میں بنیادی رکاوٹ ہماری دم ہے۔انسان نے اپنی دم کاٹ کے کیسی ترقی کرلی۔ چنانچہ اس بندر کی بات سن کر پورا غول اپنی دم کاٹنے کا فیصلہ کرتاہے۔ مگر ایک بوڑھا بندر کہتاہے کہ جس استر ے سے تم اپنی دمیں کاٹوں گے کل اسی استرے سے ایک دوسرے کے گلے بھی۔یہ انتظار حسین کا غیر معمولی افسانہ ہے جس مین انہوں نے اچھوتے اسلوب بیان میں انسان کی اخلاقی اقدار کی تخریب، روحانی کشمکش اور اُس پر جبلّی قوتوں کے غلبے کو مئوثر انداز میں بیان کیا ہے۔یہ روحانی اور اخلاقی زوال جو ان کے پیشتر افسانوں کا موضوع ہے۔پہلے انفرادی اور پھر اجتماعی سطح پر اس افسانے میں ظاہر ہوا ہے جس میں انہوں نے بنی اسرائیل کے الہامی اسلوب کا اثر لیا ہے اور قرآن شریف اور عہد نامئہ قدیم کے طرز پر پورا افسانہ لکھا ہے۔استعارے اور علامت بھی الہامی کتب سے لی ہیں۔
اُردو افسانے میں کردار کو بطور علامت پیش کرنے کے طریقے کو کثر ت سے برتا گیا ہے ۔ اس ضمن میں سریندر پرکاش کا افسانہ ’’بجو کا ‘‘ ، بلراج منیرا کا ’’وہ‘‘ ،، اقبال مجید کا ’’دو بھیگے ہوئے لوگ‘‘ ، انور سجاد کا ’’گائے‘‘ اور غیاث احمد گدی کا ’’تج دو تج دو‘‘ وغیرہ کو خاص اہمیت حاصل ہے۔ان علامتی افسانوں کا مختصر تعارف مندرجہ ذیل ہے۔
’’بجو کا ‘‘ سریندر پرکاش کابہترین علامتی افسانہ ہے جس میں افسانہ نگار نے ایک بے جان شے میں جان ڈال کر اسے زندہ جاوید کردار بنادیا ہے۔ افسانے میں بجو کا (جو بظاہر پھوس کا بنا ہوا پتلا ہوتاہے ، جسے کھیت کی رکھوالی کے لئے کھڑا کیا جاتاہے) چلتا پھرتاہے، بات چیت کرتاہے، کام کرتاہے، ساتھ ہی اپنا حق وصولنا بھی جانتاہے۔ یہاں پر بجو کا بے جان شے نہیں بلکہ موجودہ نظامِ حکومت کی علامت ہے ، نیز سماجی استحصال کی جدید صور تِ حال ہے۔
بلراج مین راکا’’ وہ ‘‘ علامتی افسانہ ہے جس کا اسلوب بظاہر بیانیہ ہے ۔ افسانے کا کردار ’’وہ‘‘ ماچس کی تلاش میں رات کے وقت گھر سے نکل پڑتاہے۔ افسانے میں ماچس زندگی کی علامت ہے اور افسانے کا کردار جدید دور کے ایک باشعور انسان کی علامت ہے جو زندگی کی معنویت کی تلاش میںوقت سے بے خبر ، مقام سے بے خبر اور جسمانی تھکان سے بے خبر ، کبھی نہ ختم ہونے والے سفر پر چلا جارہاہے:
’’ماچس کہا ں ملے گی؟ نہ ملی تو۔وہ وقت سے بے خبر تھا۔
لیمپ پوسٹوںسے بے خبر تھا ، سڑک سے بے خبر تھا، اپنے بدن
سے بے خبر تھا۔
وہ گرتا پڑتا بڑھ رہاتھا۔
اس کے لغزش زدرہ قدموںمیں نشے کی کیفیت تھی۔
پوپھٹی اور وہ دم بھر کور کا
سنبھلا اور اس نے قدم اُٹھانا ہی چاہاکہ۔
سامنے سے کوئی آرہاتھا اور اس کے قدم لغزش کھار ہے تھے
وہ اس کے قریب آکررکا۔
اس کے لبوں میں سگریٹ کانپ رہاتھا۔
آپ کے پاس ماچس ہے؟
وہ اس کی بات سنے بناہی آگے بڑھ گیا۔
آگے ۔جدھر سے وہ خود آیاتھا۔
اس نے قدم بڑھائے۔
آگے ۔جدھر سے وہ آیا تھا۔ ۹؎
’’دو بھیگے ہوئے لوگ‘‘ اقبال مجید کا نمائندہ افسانہ ہے ۔ اس افسانے کے دونوںکردار دو مختلف زمانوں (حال اور مستقبل) کے علامیہ ہیں۔موجودہ زمانہ جو رفتہ رفتہ گزررہا ہے، اس میں زمانے کے سرد و گرام کو برداشت کرنے کی سکت ختم ہوگئی ہے۔ا وردوسرا زمانہ وہ ہے جس پر مستقبل کا دار و مدار ہے، جو مشکلات کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت رکھتاہے، آلام روز گار کی صعوبتوں کو سہارسکتاہے ، اس کے حوصلے بلند ہیں اور اس فرق کی سب سے بڑی وجہ ان دونوں کی ذہنی سوچ اور نظریات کی علیحدگی ہے۔
’’گائے‘‘ انور سجاد کا مشہور افسانہ ہے جس کا کردار ایک دبلی پتلی لاغر گائے ہے جس کی دیکھ بھال کرنے کے بجائے اس کا مالک بے کار کی چیز خیال کرکے اسے بوچڑ خانے میں دے دینے کا فیصلہ کرتاہے ۔ لہٰذااس کو لے جانے کے لئے بوچڑ خانے سے ٹرک آتاہے۔ لوگ گائے کو ٹرک میںچڑھانے کی ہر طرح سے کوشش کرتے ہیں۔ لیکن گائے ٹس س مس نہیں ہوتی۔ آخر میں انہی ایک ترکیب سمجھ میںآتی ہے اور وہ لوگ گائے کے بچھڑے کو ٹرک میںچڑھا دیتے ہیں۔نتیجتاً تھوڑی کوشش کے بعد گائے بھی ٹرک میںچڑھ جاتی ہے۔ اس طرح سے افسانے میں گائے سماجی جبرواستحصال زدہ بے زبان معصوم ہستی کی علامت بن جاتی ہے۔اس کے مالک برسوں کی خدمت کو فراموش کرکے اس ساتھ بے رحمانہ سلوک کرتے ہیں۔
علامتی افسانے کے ضمن میں غیاث احمد گدی کا افسانہ’’ تج د وتج دو‘‘ خاص اہمیت کا حامل ہے۔ اس افسانے میں افسانہ نگار نے دم کٹے کتیّ کو ضمیر کی علامت بناکر پیش کیا ہے۔ کتا جو بظاہر ایک بے حد وفادار جانور ہوتاہے لیکن اس کی دم اسے چاپلوس بنادیتی ہے اورچاپلوسی بے ضمیر ی سے عبارت ہے۔ کسی کی چاپلوسی کرنے کو اپناضمیر بیچنا تصور کیا جاتاہے۔ لہٰذا کتّے کی چاپلوسی کی صفت اس کی وفاداری پر حاوی ہوجاتی ہے اور اسی لئے کتادم کے ساتھ بے ضمیری کی وجہ سے حقارت کی نظر سے دیکھا جاتاہے۔ چنانچہ یہ تصور رائج ہوا کہ کتے کی دم چونکہ ضمیر کے غائب ہونے کی وجہ بنتی ہے اس لئے اگر اس کے جسم سے دم کو الگ کردیا جائے تو اپنی وفاداری کے ساتھ با ضمیر مخلوق بن جائے گا۔
افسانہ نگار نے اس افسانے میں دم کٹے کتّے کاکردار تخلیق کرکے یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ موجودہ زمانے میں انسان جن مشکلات اور پریشانیوں میں گرفتار ہے اس سے نجات تبھی مل سکتی ہے جب وہ اپنے ضمیر کو خود سے الگ کردے۔ ساتھی ہی انہوں نے یہ نقط پیش کیا ہے کہ انسان بھلے ہی وقتی طور پر اپنے ضمیر کو خو دسے الگ کرلے لیکن اس کی انسانیت اور فطری جبلت جلد ہی اس پر حاوی ہوجاتی ہے اور انسان زیادہ دیر تک اپنے ضمیر کو خودسے جدا نہیں کرپاتا۔
افسانے کا مرکزی کردار اپنے ضمیر کو خود سے الگ کرنے کی بہت کوشش کرتاہے لیکن اس کو ہر صورت میں ناکامی سے ہی دو چارہونا پڑتاہے۔
مجموعی طور پر جدید دور میں ایک تجربہ یہ بھی کیا گیا کہ افسانہ نگاروں نے زندگی کے بدلتے ہوئے تصور، پیچیدگی اور تہہ داری کو مدِ نظر رکھتے ہوئے افسانہ کی مکمل ساخت کو علامتی انداز میں پیش کرنے کا عمل شروع کیا۔ اس ضمن میں انتظار حسین کو پیش رو کی حیثیت حاصل ہے۔ انہوں نے اپنی علامات کا مواد قدیم دیو مالائی عناصر، لوک کتھائوں، قبل اسلام اور اسلامی تاریخ ، داستانی روایات و حکایات وغیرہ سے فراہم کرکے ماضی کا رشتہ حال سے جوڑا ہے۔ ’’زرد کتا ‘‘ ، شہر افسوس‘‘، ’’ آخری آدمی ‘‘، ’’نرناری ‘‘ اور ’’ کچھوے ‘‘ ان کے بہترین علامتی افسانے ہیں۔
انتظار حسین کے علاوہ بلراج مین راکا’’وہ ‘‘ ، ’’کمپوزیشن دو‘‘ ، سریندر پرکاش کا ’’رونے کی آواز‘‘ ، ’’رہائی کے بعد‘‘ ، انور سجاد کا’’ سنڈریلا‘‘ ، اقبال مجید کا ’’پیٹ کا کیچوا‘‘ ، رشید امجد کا ’’لیمپ پوسٹ‘‘ ، غیاث احمد گدی کا ’’پرندہ پکڑنے والی گاڑی‘‘ ، اقبال متین کا ’’لکڑی کا آدمی‘‘ ، بلراج کومل کا’’کنواں‘‘ ، سلام بن رزاق کا ’’بجو کا ‘‘ اور ساجد رشید کا ’’اوپر سے گزرتااندھیرا ‘‘ وغیرہ افسانے علامتی نوعیت کے حامل ہیں۔
آخرپرہم یہ کہہ سکتے ہیںکہ اردو افسانہ میں علامتی رجحان جدید دور کا ایک نیاتجربہ ہے۔اس تجربے نے اردو افسانہ کے مطالعہ کو وسیع کر دیا۔اور دیکھتے دیکھتے اردو افسانے میں بہت سارے علامتی افسانے تخلیق ہوئے۔جنہوں نے افسانوی ادب کو لازوال علامتوں سے مالامال کر دیاساتھ ہی قاری کو بھی سوچنے پر مجبور کر دیا۔جس کے نتیجہ میں اردو افسانے سے قاری دور چلا گیا۔قاری علامتوں کا معنی ومفہوم میں گم ہو گیا۔
حوالہ جات۔
۱؎ اردو افسانہ فنی و تکنیکی مطالعہ، ڈاکٹر نگہت ریحانہ خان، ایجوکیشنل پبلنشگ ہائوس،دہلی،۹۸۶ ۱ ء ،ص ۴۵
۲؎ جدید اردو افسانہ،شہزاد منظر،عاکف بک ڈپو،دہلی،۱۹۸۸ء ،ص۱۴۲
۳؎ ایضاً ۔۔۔ص ۱۴۵
۴؎ جدید اردو افسانہ (ہیئت و اسلوب میں تجربات کا تجزیہ) ،پروفیسر خورشید احمد ، ایجوکیشنل بک ہائوس ، علی گڑھ ۱۹۹۷ء ،ص ۱۲۸
۵؎ مشمولہ ،جدیدیت،تجزیہ و تفہیم،مرتب مظفر حنفی،نسیم بک ڈپو،لکھنو،۱۹۸۵ء،ص۳۳۵
۶؎ مرزا حامد بیگ، اردو افسانے کی روایت، ص ۱۱۵
۷؎ ؎ مشمولہ ،جدیدیت،تجزیہ و تفہیم،مرتب مظفر حنفی،نسیم بک ڈپو،لکھنو،۱۹۸۵ء،ص۳۳۸
۸؎ ’’سرخ و سیاہ‘‘(کلیات)،بلراج مین را،مرتب سرور الہدیٰ،ایجوکیشنل پبلشنگ ہائوس،دہلی،۲۰۰۴ء،ص ۲۴۶
۹؎ ایضاً۔۔۔ص ۴۷۔۴۸

شاہد حسین ڈار
پی۔ایچ۔ڈی۔ ریسرچ اسکا لر سنیٹرل یونیورسٹی آف کشمیر
ای میل۔darshahid514@gmail.com
فون نمبر۔+917006571067

Leave a Comment