جذبیؔ اور حالی کا سیاسی شعور

\"\"
از: ڈاکٹر محمد نظام الدین
اسسٹنٹ پروفیسر اردو
ناگرجنا گورنمنٹ کالج خودمختار نلگنڈہ۔تلنگانہ
معین احسن جذبیؔ(1912-2005) نامور ترقی پسند شاعرکے علاوہ ایک اچھے محقق اور نقاد بھی تھے۔ اُردو شعر و ادب کی تاریخ میں جذبیؔ کی شناخت ترقی پسند تحریک سے وابستہ ایک منفرد شاعر کے طور پر ہے۔ جب بھی ہم یہ اشعار پڑھتے یا سنتے ہیں:
مرنے کی دعائیں کیوں مانگوں جینے کی تمنا کون کرے
یہ دنیا ہو یا وہ دنیا اب خواہش دنیا کون کرے
جب کشتی ثابت و سالم تھی ساحل کی تمنا کس کو تھی
اب ایسی شکستہ کشتی پر ساحل کی تمنا کون کرے
تو بے ساختہ ہمیں جذبیؔ کی یاد آجاتی ہے ۔ شاعری کے علاوہ نثر میں بھی ان کے کارنامے قابل قدر ہیں۔ بہت کم لوگ اس حقیقت سے واقف ہیں کہ جذبیؔ ایک وسیع تر مطالعے کے حامل محقق اور ایک اعتدال پسند نقاد بھی تھے۔ جذبیؔ کی تحقیقی و تنقیدی صلاحیتیں اُن کے تحقیقی مقالہ ’’حالیؔ کا سیاسی شعور‘‘ سے جھلکتی ہیں۔ حالیؔ غالبؔ کے شاگرد سرسید کے بااعتماد رفیق کار، اچھے شاعر، جدید اُردو تنقید کے بانی اور سوانح نگار تھے۔ جدید اُردو تنقید میں حالیؔ اپنی تنقیدی بصیرت اور ادب برائے زندگی فلسفہ کے حامی کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ لیکن حالیؔ اپنا کوئی سیاسی شعور رکھتے تھے۔ اُن کے کوئی سیاسی نظریات تھے اور یہ شعور نظریات اُن کے ہاں کہاں سے آیا اور اُسے انھوں نے اپنی تخلیقات میں کس طرح پیش کیا ۔حالی ؔ کی شخصیت کے ان پہلوئوں سے عام اُردو کے حلقے واقف نہیں تھے۔ جذبیؔ نے ’’حالیؔ کا سیاسی شعور‘‘ کے عنوان سے تحقیقی مقالہ لکھ کر حالیؔ کے بارے میں نئے نظریات پیش کئے۔ جذبیؔ کی اس کوشش کو اردو تنقید نے زیادہ اہمیت نہیں دی لیکن اس مقالے کو لکھ کر جذبیؔ بہ حیثیت محقق اور نقاد مشہور ہوئے۔
جذبیؔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں اردو لکچرر منتخب ہوئے۔ انھیں اپنی تدریسی ضرورتوں کے تحت پی ایچ ڈی کرنا پڑا۔ چنانچہ انھوں نے اپنے نگران پروفیسر رشید احمد صدیقی کے مشورے سے اپنے تحقیقی مقالہ کا عنوان ’’حالیؔ کا سیاسی شعور‘‘ طے کیا اور اس موضوع پر ایک مبسوط مقالہ لکھا جس پر جذبیؔ کو ڈاکٹریٹ کی ڈگری ملی۔ جذبیؔ کا یہ مقالہ ۱۹۵۹ء میں شائع ہوا۔

معین احسن جذبیؔ کی تحقیقی و تنقیدی کتاب ’’حالیؔ کا سیاسی شعور‘‘ ۱۹۵۹ء میں شائع ہوئی۔ کتاب کے آغاز میں انتساب کے طور پر تعارفی کلمات پیش کرتے ہوئے جذبیؔ لکھتے ہیں :
’’اس مقالے کی تیاری میں جہاں میں پروفیسر رشید احمد صدیقی کا رہین منت ہوں وہاں پروفیسر شیخ عبدالرشید (سابق صدر شعبہ تاریخ) ڈاکٹر عبدالعلیم (صدر شعبہ عربی اسلامیات) اور پروفیسر آل احمد سرور (صدر شعبہ اردو) کے گراں قدر مشوروں کو بھی فراموش نہیں کرسکتا۔ ۱؎
کتاب کا ابتدائی تعارفی مضمون ’’تقریب‘‘ کے عنوان سے ڈاکٹر سید عابد حسین نے لکھا ہے جس میں اُنھوں نے کتاب کے موضوع کے انتخاب میں جذبیؔ کی موزونیت ظاہر کی اور لکھا کہ کسی شاعر کے کلام کو موضوع بناکر تحقیقی مقالہ لکھنا خطرے سے خالی نہیں۔ لیکن جذبیؔ صاحب چونکہ خود شاعر ہیں اس لئے اُن سے اُمید ہے کہ وہ موضوع کے ساتھ انصاف کریں گے۔ چنانچہ عابد حسین نے لکھا کہ جذبیؔ نے اس مقالے میں حالیؔ کے ساتھ کہیں بھی زبردستی نہیں کی۔ اس مقالے کی اہم خصوصیت بیان کرتے ہوئے عابد حسین لکھتے ہیں :
’ ’جذبی صاحب کا اصل دعویٰ جسے ثابت کرنے کے لئے یہ مقالہ لکھا گیا یہ ہے کہ حالیؔ کے سیاسی خیالات کو سرسید کے خیالات کی صدائے بازگشت کہنا غلط ہے۔ شروع میں اُن کا تصور سیاست کسی حد تک سرسید سے متاثر تھا۔ لیکن آگے چل کر انھوں نے اپنی الگ راہ اختیار کرلی۔ ان عوامل کو جنھوں نے حالیؔ کے سیاسی افکار کی نشوونما پر اثر ڈالا جذبیؔ صاحب نے مناسب ترتیب و تفصیل کے ساتھ بیان کیا ہے۔ جذبیؔ صاحب کی ستھری زبان اور سدھے ہوئے اندازِ بیان نے اسے اور دلچسپ بنادیا ہے۔ ۲؎
سید عابد حسین نے ایک اہم بات کی طرف توجہ دلائی کہ حالیؔ کے سیاسی خیالات اُن کے اپنے ہیں۔ سرسیدکے خیالات کی نقل نہیں اور حالیؔ کے سیاسی خیالات کو اُن کے اشعار سے اخذ کرتے ہوئے جذبیؔ نے نئی تحقیق کی ہے۔
کتاب میں ’’تعارف‘‘ کے عنوان سے اگلا مضمون شعبہ تاریخ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے پروفیسر خلیق احمد نظامی کا ہے۔ مضمون کے آغاز میں اُنھوں نے اٹھارویں صدی کے ہندوستان کے حالات بیان کئے اور اس دور میں مسلمانوں کے سیاسی و سماجی زندگی کے عروج و زوال کی طرف اشارے کئے۔ حالیؔ کے سیاسی خیالات اور اُن کی پیشکشی میں جذبیؔ کی کوششوں کا ذکر کرتے ہوئے خلیق احمد نظامی لکھتے ہیں :
’’حالیؔ کے متعلق عام طور پر یہ خیال کیا جاتا ہے کہ سرسید کے ساتھ اُن کا معاملہ ’’استاد ازل‘‘ کا تھا اور اُن کے خیالات سرسید کے خیالات کی صدائے بازگشت تھے۔ جذبیؔ صاحب نے نہایت مدلل طریقہ پر ثابت کیا ہے کہ یہ خیال صرف ایک حد تک صحیح ہے۔ حالیؔ اگرچہ سرسید ہی کے توسط سے اپنے دور کے بیشتر مسائل سے روشناس ہوئے لیکن ان مسائل پر وہ اپنی رائے بھی رکھتے تھے اور عام طور پر سرسید کے نقطہ نظر سے نہیں دیکھتے تھے ۔ حقیقتاً حالیؔ نے تعلیمی، مذہبی، سماجی مسائل پر خود بڑا غور و فکر کیا تھا اور خود اپنے نتائج پر پہنچے تھے۔ اُن کی مخصوص انفرادیت جگہ جگہ جھلکتی ہے تو اُن کی کسر نفسی اور سرسید سے عقیدت نے اس انفرادیت کو نمایاں نہیں ہونے دیا۔ جذبیؔ صاحب نے جس طرح اس انفرادیت کو اُبھارا ہے اور حالیؔ کے خیالات کو ایک مربوط اور منظم صورت میں پیش کیا ہے اِس سے اُن کی دقت نظر اور گہرے مطالعے کا پتہ چلتا ہے‘‘۔ ۳؎
ابتدائی تعارفی مضامین کے بعد کتاب میں ’’حرف اول‘‘ کے نام سے جذبیؔ نے افتتاحی کلمات لکھے اور اس کتاب کے لکھنے کی غرض و غایت بیان کی۔ چنانچہ جذبیؔ نے لکھا کہ حالیؔ کے تعلق سے یہ عام رائے قائم کی گئی کہ اُن کے تمام خیالات سرسید سے ماخوذ ہیں۔ یہ بات کچھ حد تک صحیح نہیں۔ حالیؔ کی کسر نفسی بھی ایک وجہ ہے۔ حیات جاوید اور ’’مسدس‘‘ میں سرسید کے تعلق سے حالیؔ نے اپنے خیالات بھی پیش کئے۔ اپنی اس کوشش کا خلاصہ پیش کرتے ہوئے جذبیؔ لکھتے ہیں :
’’حالیؔ کے سیاسی شعور کا کھوج لگانے میں اس بات کا بھی احساس ہوا کہ ان کے خیالات ایک منظم صورت رکھتے ہیں۔ اُن کے اس شعر پر بار بار نظر پڑتی تھی :
ہم آج بیٹھے ہیں ترتیب کرنے دفتر کو
ورق جب اُس کا اُڑا لے گئی صبا ایک ایک
لیکن شاعری میں خیالات عام طور سے بکھرے ہوئے ہوتے ہیں۔ کوئی بات کہیںکچھ ہوتی ہے اور کہیں کچھ۔ وہ بھی اشاروں کنایوں میں خوش قسمتی سے ان اشاروں کنایوں کی تفسیر و تعبیر زیادہ تر خود حالیؔ کے مضامین میں مل گئی۔ اس کی وجہ سے نہ صرف یہ کہ اُن کے خیالات کو ایک لڑی میں پرو دیا جاسکا بلکہ بیشتر اُن کی ترجمانی خود اُن ہی کے الفاظ میں ہوگئی۔ آخر میں یہ عرض کرنا ہے کہ حالیؔ کی شاعری میں حالیؔ کے سیاسی شعور کو متعین و ممیز کرنے کی کوشش کا نتیجہ یہ مقالہ ہے اور اس کے جواز میں یہ کہنا بھی بے محل نہ ہوگا کہ اس نوعیت کی بحث اس پیمانے پر اس سے پہلے نہیں کی گئی‘‘۴؎
تحقیقی کتاب ’’حالیؔ کا سیاسی شعور‘‘ میں شامل ابواب کے عنوانات اس طرح ہیں۔
(۱) برطانوی تسخیر کے اثرات (۲) مسلمانوں کی طرف سے انگریزی تسلط کی مخالفت (وہابی تحریک) (۳) انگریزوں اور مسلمانوں کے درمیان مفاہمہت کی کوشش (سرسید کی تحریک) (۴) حالیؔ کے سیاسی شعور کی ابتداء (۵) قدیم اور جدید نظام حکومت کا تصور (۶) حالیؔ اور سماجی اصلاحات (۷) سیاست و کتابیات۔
تحقیقی مقالہ ’’حالیؔ کا سیاسی شعور‘‘ کے پہلے باب میں پس منظر کے طور پر جذبیؔ نے ’’برطانوی تسخیر کے اثرات‘‘ کے عنوان سے ہندوستان پر برطانوی اقتدار کے حالات بیان کئے۔ اس باب کے آغاز میں جذبیؔ نے انگریز اقتدار کی اس لحاظ سے ستائش کی کہ انگریزوں نے ہندوستان میں ستی کی رسم، ٹھگی، غلامی اور بچہ مزدوری کو ختم کرنے اور تعلیم کو عام کرنے کی راہ میں نمایاں خدمات انجام دیں اور ان خدمات کو ہندوستان کے ترقی پسند طبقہ نے سراہا تھا۔ تاہم ہندوستان کے سماجی ڈھانچے میں ہورہی شکست و ریخت، ملک میں بڑھنے والی بے روزگاری اور بد امنی کے لئے انھوں نے انگریزوں کو ذمہ دار ٹھہرایا۔
۱۸۵۷ء کے بعد رونما ہونے والے حالات کا جائزہ لیتے ہوئے جذبیؔ نے ڈاکٹر سید محمود کے حوالے سے لکھا کہ انگریزوں کی آمد سے قبل ہندوستان میں حاکم اور رعایا اپنی اپنی خدمات تندہی سے انجام دیتے تھے۔ لیکن انگریزوں کی آمد مغربی تعلیم کے حصول کے ساتھ مغرب پرستی کے تصورات نے ہندوستان کی قومی اکائی کو شدید نقصان پہونچایا۔ حکمراں طبقہ کی انگریزوں کے روبرو شکست کے بعد نئی نسل کی کمزوری بیان کرتے ہوئے حالیؔ لکھتے ہیں :
’’جہاں تک اس جماعت کا تعلق ہے جو سوشیل اور پولیٹکل لیڈروں، ریاست کے موروثی ملازموں اور زمینداروں پر مشتمل تھی، وہ سیاسی قوت کی شکست کے ساتھ برباد ہوگئی۔ اُن کے لڑکے جو اس تباہی سے بچ گئے تھے، عام طور سے پست ہمتی کا شکار ہوکر کاہلی اور بدچلنی کی زندگی بسر کرنے لگے اور ملکیت کے عوض میں جو خدمات اُن پر واجب تھیں اُن سے تقریباً کنارہ کشی اختیار کرلی۔ یہ موروثی بے منصب جائیدادوں کے مالک جو اولوالعزمی کے جوہر سے محروم ہوچکے تھے نئے سیاسی نظام کے سرگرم حامی بن گئے کیونکہ یہ نیا نظام اُن کے لئے شہرت طلبی یا اقتدار پسندی سے دور ایک تن آسان زندگی کا ضامن تھا‘‘۔ ۵؎
جذبیؔ نے ایک مورخ اور سماجی ماہر کے طور پر اُس دور کے حالات کا تجزیہ کیا۔ انگریزوں نے جب ہندوستان میں قدم رکھا اور یہاں کی سیاست میں دلچسپی لینی شروع کی تو اُن کے سامنے اقتدار پر مسلمان دکھائی دیئے۔ مسلمانوں نے ہندوستان پر کئی سو سال حکومت کی لیکن انھوں نے کبھی یہ احساس نہیں ہونے دیا کہ وہ مذہب کی بنیاد پر کسی سے کم یا زیادہ اچھا یا بُرا برتاؤ کرتے ہیں لیکن انگریزوں نے ہندوستان میں قدم رکھتے ہی شاطرانہ چال چلی اور ہندوستانی قوم کو دو نظروں سے دیکھنے لگے۔ ایک مسلمان دوسرے ہندو۔ انگریزوں کو مسلمان اقتدار پر قابض، طاقتور قوم لگے۔ چنانچہ اُنھوں نے مذہبی نفاق پیدا کرتے ہوئے ہندوؤں کے ساتھ ہمدردی شروع کی اور مسلمانوں سے کھلی نفرت کا ثبوت دیا۔ جذبیؔ نے انگریزوں کی مسلمانوں سے کھلی نفرت کی کئی مثالیں دیں۔ چنانچہ ۱۸۴۳ء میں ہندوستان آئے برطانوی گورنر جنرل لارڈ النبرا کا بیان یوں پیش کیا :
’’میں اس عقیدے کی طرف سے آنکھیں بند نہیں کرسکتا کہ یہ قوم (مسلمان) بنیادی طور پر ہماری مخالف ہے۔ اس لئے ہماری صحیح پالیسی یہ ہے کہ ہم ہندوؤں کو اپنا طرفدار بنائیں‘‘۔ ۶؎
جذبیؔ نے آگے مسلمانوں پر انگریزوں کے ظلم و ستم کی داستان تفصیل سے بیان کی جس میں اُنھوں نے کہاکہ انگریزوں نے جائزہ لے لیا تھا کہ مسلمان حصول آمدنی کے محکمہ جات دیوانی، پولیس، عدالت اور فوج میں چھائے ہوئے تھے۔ انگریزوں نے ان محکموں کا نظام ختم کردیا اور مسلمان بڑی تعداد میں بے روزگار ہوگئے۔ مسلمانوں پر عرصہ حیات تنگ کردینے کے بارے میں جذبیؔ لکھتے ہیں :
طبابت، وکالت اور دیگر غیر سرکاری پیشے جن پر مسلمان تمام و کمال قابض تھے وہ بھی حکومت کی مسلم کش پالیسی، انگریزی تعلیم اور طب مغربی کے اجراء کی بدولت مسلمانوں کے ہاتھ سے جاتے رہے اور رفتہ رفتہ نوبت یہاں تک پہنچی کہ اگر کچھ اسامیاں خالی ہوتیں تو اشتہار میں اس بات کی وضاحت کردی جاتی کہ ہندوؤں کے علاوہ کسی اور کو نہیں دی جائیں گی۔ یعنی جہاں تک ملازمتوں کا تعلق ہے مسلمانوں کی اہلیت یا نااہلی کا کوئی سوال ہی نہ تھا‘‘۔ ۷؎
جذبیؔ نے اپنے تحقیقی مقالے کے پہلے باب میں عمومی طور پر انگریزوں کی ہندوستان میں پالیسی کا ذکر کیا جس کے تحت مسلمانوں کی طاقت کو معاشی اور سیاسی طور پر کم کرنا تھا۔ مقالے کے اگلے باب میں جذبیؔ نے ’’مسلمانوں کی طرف سے انگریزی تسلط کی مخالفت (وہابی تحریک)‘‘ کے عنوان سے انگریزوں کے خلاف مسلمانوں کے ردعمل کے حالات بیان کئے۔ جذبیؔ نے اس باب کے آغاز میں لکھا کہ اورنگ زیب کے ہندوستان میں مغلیہ حکومت کو زوال آنا شروع ہوگیا۔ کمزور حکمرانی کے سبب انگریزوں کے بشمول دوسری طاقتوں نے سر اُٹھانا شروع کیا۔ جاگیردارانہ نظام کو زوال آتا گیا۔ سوداگر اور دستکار اپنا اثر و رسوخ دکھانے لگے۔ ان حالات میں سماجی توازن کے قیام کے لئے شاہ ولی اللہ (۱۷۲۶۔۱۷۰۲ء) نے وہابی تحریک چلائی۔ شاہ ولی اللہ کے افکار کا خلاصہ پیش کرتے ہوئے جذبی لکھتے ہیں :
’’شاہ ولی اللہ کی تحریک دراصل سوداگروں اور کاریگروں کی تحریک تھی۔ یہ طبقہ ہمیشہ سے جاگیرداروں اور امیروں کے رحم و کرم پر تھا۔ شاہ صاحب کے بنیادی اُصولوں پر نظر ڈالئے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ جیسے وہ اسے کمتری کے احساس اور طبقہ اعلیٰ کے دستبرد سے نکالنے اور اُسے سوسائٹی میں صحیح جگہ دینے کی کوشش کررہے ہوں۔ مثلاً وہ قرآنی تعلیمات کے مطابق زندگی بسر کرنے پر سب سے زیادہ زور دیتے ہیں۔ اورظاہر ہے کہ قرآنی تعلیمات، اُخوت و مساوات کے اُصولوں کو اہمیت دیتی ہیں۔ اسی طرح وہ اجتماعی اخلاق کو اقتصادی حالات کے تابع قرار دیتے ہوئے اقتصادی توازن یا مساوات کی اہمیت ذہن نشین کرانا چاہتے ہیں۔ خلافت راشدہ کے عہد کی سادہ معاشرت اختیار کرنے کی تلقین میں بھی یہی نکتہ پوشیدہ ہے کہ صنعتی طبقہ اپنا معیار زندگی اتنا کم کردے کہ دوسروں کا دست نگر نہ رہے۔ الغرض اُخوت و مساوات کی یہ انقلاب آفریں تحریک جاگیرداروں کی مطلق العنانی پر بڑی کاری ضرب تھی‘‘۔ ۸؎
جذبیؔ نے شاہ ولی اللہ کے افکار کو پیش کرتے ہوئے اُن کے اس مقصد کی طرف بھی اشارہ کیا کہ شاہ صاحب کا بنیادی مقصد ہندوستان میں اسلامی حکومت کا قیام عمل میں لانا تھا۔ اسی لئے انھوں نے ایک مضبوط حکمران احمد شاہ ابدالی کو ہندوستان پر حملے کی دعوت دی تاکہ ہندوستان سے مغلیہ سلطنت کے زوال کے بعد قائم ہونے والی مرہٹوں اور جاٹوں کی چھوٹی چھوٹی حکومتوں کا خاتمہ ہوجائے۔ ابدالی نے ہندوستان پر شدید حملہ تو کیا لیکن وہ اپنی حکومت قائم نہیں کرسکا۔ وہ ہندوستان کی دولت لوٹ کر چلا گیا۔ جذبیؔ نے لکھا کہ شاہ ولی اللہ نے قرآن کا ترجمہ فارسی میں کیا تاکہ اس دور کے فارسی جاننے والے قرآن کے مطالب کو آسانی سے سمجھ سکیں اور قرآنی تعلیمات کے مطابق زندگی اختیار کریں۔ جذبیؔ کہتے ہیں کہ اسلامی مملکت کا خواب شاہ صاحب نے دیکھا تھا۔ اُن کی زندگی میں وہابی تحریک کی بنیاد پڑی اور جذبیؔ کے بموجب اُن کے آنے والے جانشین شاہ عبدالعزیز (۱۸۲۴۔۱۷۴۶ء) اُن کے بھائی شاہ عبدالقادر، شاہ رفیع الدین، شاہ عبدالعزیز کے بھتیجے شاہ محمد اسمٰعیل، شاہ کے مرید سید احمد شہید، مولانا ولایت علی اور دیگر نے اس تحریک میں شدت پیدا کی۔ قرآن کے فارسی کے علاوہ اردو تراجم کئے گئے۔ایک فتوے کے ذریعے کلکتے سے دِلّی تک انگریزوں کے زیراقتدار علاقے کو دارالحرب قرار دیا گیا، جہاد کا اعلان کیا گیا۔ مسلمان، سکھوں کے خلاف صف آراء ہوئے۔ انگریز چاہتے تھے کہ ہندوستان کی دو بڑی قومیں آپس میں لڑتے ہوئے کمزور ہوجائیں۔ جذبیؔ نے لکھا کہ تحریک کے کرتا دھرتاؤں نے افغانوں کی مدد بھی لی تاکہ ہندوستان میں انگریزوں کے خلاف طاقت بڑھائی جائے اور شمال میں مسلم حکومت قائم ہو۔ بنگال میں بغٓوت کی گئی۔ شمال میں شورش کی گئی لیکن علماء کی یہ تحریک انگریزوں کی منظم فوجی طاقت کے آگے ٹک نہیں سکی اور ہندوستان میں وہابی تحریک علماء کی گرفتاریوں کے سبب کمزور پڑگئی۔ جذبیؔ تحریک کے زوال کے اسباب بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
’’حکومت نے بنگال اور سرحد کی شورشوں سے خوف زدہ ہوکر دار و گیر شروع کردی۔ سنہ ۱۸۶۴ء میں مولانا یحیٰی علی مولانا احمد اللہ عظیم آبادی، مولانا جعفر تھانیسری وغیرہ جو اس بغاوت کے روح رواں تھے گرفتار کرلئے گئے اور انھیں دائم الحبس بہ عبور دریائے شور کی سزا دی گئی۔ بنگال اور بہار میں گرفتاریوں کا سلسلہ ۱۸۷۲ء تک جاری رہا۔ اس طرح غیر ملکی حکومت کے خلاف مسلمانوں کی ایک انتہائی باغیانہ تحریک کا خاتمہ ہوا۔ اس تحریک کی سب سے بڑی کمزوری یہ تھی کہ یہ اپنی مذہبی نوعیت کی بناء پر صرف مسلمانوں تک محدود رہی۔ اس کے علم برداروں نے اسلامی حکومت قائم کرنے کی فکر میں ہندوؤں کو اپنے ساتھ لانے کی کوشش نہیں کی۔ حالانکہ عام ہندو بھی اس غیر ملکی حکومت کو اتنی ہی نفرت سے دیکھتا تھا جتنا کہ مسلمان۔ لیکن دوسری طرف اس تحریک نے انگریزوں کو مسلمانوں کے مسائل پر ٹھنڈے دل سے غور کرنے پر مجبور کیا۔ ہنٹرنے ۱۸۷۱ء میں اپنی مشہور کتاب ’’ہمارے ہندوستانی مسلمان‘‘ میں ان تمام حالات و واقعات کا جائزہ لیا ہے جو مسلمانوں کی بے اطمینانی کا باعث تھے اور اس نتیجہ پر پہنچتا ہے کہ وہابیوں یا عام مسلمانوں میں باغیانہ رجحانات کی پرورش اُس وقت تک ہوتی رہے گی جب تک وہ معاشی ابتری اور حکومت کی بے اعتنائی کا شکار رہیں گے‘‘۔ ۹؎
جذبیؔ نے وہابی تحریک کے عروج و زوال کی داستان کے تمام اہم گوشوں کو اس باب میں روشن کرنے کی کوشش کی۔ انگریز مورخین اور اُن کی کتابوں کے اُردو ترجموں کے حوالہ سے انھوں نے یہ واضح کرنے کی کوشش کی کہ اٹھارویں صدی کے ہندوستان میں اقتدار کی رسہ کشی کے دعویداروں میں مسلمانوں نے بھی کوشش کی۔۔یہ کوشش مغلوں کی طرف سے نہیں بلکہ مقامی مذہبی گروپوں کی طرف سے تھی۔ وہابی تحریک اپنے وقت کی پیداوار تھی۔ اس تحریک کی کوششوں سے مذہبی اقدار کی اچھی خاصی تبلیغ ہوئی اور اسلامی تعلیمات عام ہوئیں۔ انگریزوں کے خلاف رائے عامہ ہموار ہوئی اور جدوجہد آزادی کے ابتدائی نقوش واضح ہوئے۔
جذبیؔ نے اپنے تحقیقی مقالے کے اگلے باب میں ’’انگریزوں اور مسلمانوں کے درمیان مفاہمت کی کوشش (سرسید کی تحریک)‘‘ کے عنوان سے اپنے خیالات پیش کئے۔ انیسویں صدی کی ہندوستان کی تاریخ میں سرسید احمد خاں بہت بڑے مصلح قوم کے طور پر سامنے آئے۔ سرسید نے اپنی مخصوص پالیسیوں سے ہندوستان کی سماجی زندگی پر اور خاص طور سے مسلمانوں کی سماجی اور تہذیبی زندگی پر گہرے اثرات چھوڑے۔ سرسید نے اپنی تعلیم و تربیت اور فکر کی روشنی میں حالات کا جس طرح جائزہ لیا اس کا خلاصہ جذبیؔ نے بڑے مبسوط انداز میں یوں پیش کیا :
’’سرسید نے ۱۸۵۷ء کی بغاوت میں مسلمانوں کی تباہی کو دو باتوں پر محمول کیا۔ پہلی یہ کہ اُن میں تعلیم و تربیت نہیں تھی۔ دوسری یہ کہ انگریزوں سے جن کو خدا نے ہم پر مسلط کیا ہے میل جول اور اتحاد نہ تھا اور باہم ان دونوں میں مذہبی اور رسمی منافرت بلکہ مثل آب زیر کا عداوت کا ہوتا تھا۔ چنانچہ انھوں نے مسلمانوں کی عام بہبودی کے لئے تعلیم و تربیت اور انگریزوں سے ربط و اتحاد پر خاص طور سے زور دیا‘‘۔ ۱۰؎
سرسید نے مسلمانوں کو تعلیم سے آراستہ کرانے میں ہی اُن کی بھلائی محسوس کی تھی۔ دوسری طرف وہ نہیں چاہتے تھے کہ مسلمان انگریزوں سے مخالفت مول کر بدنام ہوجائیں۔ چنانچہ جذبیؔ نے سرسید کی تقاریر، اُن کے افکار اور خیالات پیش کرتے ہوئے واضح کیاکہ سرسید نے مسلمانوں کے معاشی اور سیاسی مسائل کے حل کے لئے انگریزوں کی قربت کو پسند کیا تھا۔ سرسید نے اپنی تحریروں سے یہ واضح کرنے کی کوشش کی کہ انگریزوں کے خلاف بغاوت کے لئے مسلمان ذمہ دار نہیں تھے۔ جذبیؔ نے لکھا کہ سرسید نے اپنی تصنیف ’’اسباب بغاوت ہند‘‘ میں وہ تمام حالات بیان کئے جو بغاوت کا سبب بنے۔ سرسید کی اس تصنیف میں پیش کردہ خیالات بیان کرتے ہوئے جذبیؔ لکھتے ہیں :
’’جو اسباب انھوں نے بتائے ہیں اُن میں بڑی صداقت ہے۔ مثلاً اُمور مذہبی میں مداخلت، زمینداروں اور تعلقوں کی ضبطی، عدالتوں کی بدانتظامی، طریقہ تعلیم کی خرابی، نامناسب آئین، مفلسی، اعلیٰ ملازمتوں سے محرومی، مسلمانوں کی بے روزگاری اور اُن کی نفسیاتی کیفیت وغیرہ۔ اس میں شک نہیں کہ انھوں نے اس پُرآشوب دور میں جبکہ مسلمانوں پر حکومت کا شدید عتاب نازل ہورہا تھا بڑی جرأت سے کام لیا اور بغاوت کی ساری ذمہ داری خود انگریزی حکومت کی خامیوں اور بدعنوانیوں کے سر ڈال دی‘‘۔ ۱۱؎
جذبیؔ نے سرسید کی تصنیف ’’اسباب بغاوت ہند‘‘ کے حوالے سے سرسید کی ان کوششوں کا ذکر کیا جو انھوں نے مسلمانوں کے بارے میں انگریزوں کو اپنی رائے تبدیل کرانے کے لئے کی تھیں۔ لیکن جذبیؔ نے سرسید کی ان حرکتوں پر کڑی تنقید کی جس میں سرسید نے مسلمانوں کو بری کرانے کے لئے جھوٹ اور مبالغہ سے کام لیا۔ جذبیؔ کی سرسید پر تنقید ملاحظہ ہو :
’’یہ بھی حقیقت ہے کہ انھوں نے بغاوت کے کردار کو مسخ کیا۔ اُن کا یہ کہنا کہ بغاوت قومی نہیں تھی، اس حقیقت کو جھٹلانا ہے کہ اس میں ہر مذہب، ہر ملت اور ہر طبقے کے لوگ شریک تھے۔ اس طرح جہاد کے فتوے کو جعلی قرار دینا اصل واقعہ پر پردہ ڈالنا ہے۔ سینکڑوں عالموں کو پھانسی اور حبس دوام کی سزائیں اور پھر مولانا فضل حق خیرآبادی کا انگریزی عدالت میں یہ بیان حقیقت کے رُخ سے نقاب اٹھانے کے لئے کافی ہے ’’وہ فتویٰ صحیح ہے،میرا لکھا ہوا ہے اور آج اس وقت بھی میری وہی رائے ہے‘‘۔ مسلمانوں کو بری کرنے کی کوشش میں سرسید نے یہ بھی کہاکہ بغاوت کی تمام تر ذمہ داری ہندوؤں سے منسوب کردی۔ ۱۲؎
سرسید کے بارے میں جذبیؔ کے ان نتائج سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ ایک اعتدال پسند نقاد تھے اور جہاں ضرورت ہو حق بات کہنے سے نہیں کتراتے تھے۔ اور یہ دیکھا گیا ہے کہ حق بات ہمیشہ کڑوی ہوتی ہے۔ سرسید نے انگریزی تعلیم حاصل کی تھی اور ایک درد مند انسان کا دل رکھتے تھے۔ مذہب اسلام کے بارے میں وہ سائنٹفک نقطہ نظر رکھتے تھے۔ چنانچہ ایک بڑے فائدے کی خاطر اور مسلمانوں کو انگریزوں کے عتاب سے بچانے کی خاطر اگر انھوں نے کچھ جھوٹ بھی کہا ہو وہ مصلحت کی خاطر ہوگا۔ تاہم جذبیؔ حالیؔ کے سیاسی شعور کے مطالعے کے پس منظر میں سرسید کے رول کو اعتدال پسند نقطہ نظر سے دیکھتے ہیں اور مسلمانوں کے مصلح اور ہندوستان میں مسلمانوں کی تعلیم و ترقی کے معمار سرسید کے کردار پر تنقید کرنے سے نہیں چوکتے۔
جذبیؔ سرسید کی خدمات کو اُن کی تصانیف کے حوالے سے پیش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ چنانچہ اُنھوں نے سرسید کی جانب سے شروع کردہ رسالہ ’’لائل محمڈنس آف انڈیا‘‘ میں تحریر کردہ اُن کے مضامین کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ اس رسالے کے ذریعہ سرسید نے اُن مسلمانوں کے کارناموں کو اُجاگر کیا جنھوں نے بغاوت میں انتہائی خطرات کے باوجود انگریزوں کا ساتھ دیا تھا۔ اس سے سرسید انگریزوں کے روبرو یہ ثابت کرنا چاہتے تھے کہ بغاوت میں مسلمانوں کی شرکت قومی حیثیت کی نہیں تھی۔ اس لئے حکومت کا عتاب ساری مسلم قوم نہیں بلکہ وہ لوگ ہیں جنھوں نے بغاوت میں حصہ لے کر بقول جذبیؔ نمک حرامی اور ناشکری کا ثبوت دیا تھا۔جذبیؔ نے آگے لکھا کہ سرسید نے ایک خاص مقصد کے تحت بائبل کی تفسیر لکھی۔ سرسید یہ واضح کرنا چاہتے تھے کہ مسلمان عیسائیوں یا اُن کی حکومت کے بدخواہ نہیں ہوسکتے اور یہ کہ اسلام تلوار کے زور پر نہیں پھیلا۔
جذبیؔ سرسیدکے ’’خطبات احمدیہ‘‘ کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ ان خطبات سے سرسید نے یہ ظاہر کیاکہ اسلام تہذیب اور شائستگی کا مذہب ہے۔ سرسید نے مسلمانوں کی تعلیم معاشرت اور مذہب کے سدھار کی طرف زیادہ توجہ دی۔سرسید کی اصلاحی تحریک کا اہم جُز اُن کا رسالہ ’’تہذیب الاخلاق‘‘ ہے۔ یہ رسالہ ۱۸۷۰ء میں جاری ہوا۔ تہذیب الاخلاق میں سرسید اور اُن کے رفقاء کے تحریر کردہ مضامین کی اشاعت کی غرض و غایت بیان کرتے ہوئے جذبیؔ لکھتے ہیں :
’’تہذیب الاخلاق نے جاگیرداری دور کی زوال آمادہ تہذیب و معاشرت پر سخت حملے کئے اور مسلمانوں کو مغربی تہذیب اختیار کرنے پر مائل کیا ۔ سرسید جانتے تھے کہ آج قوموں کی ترقی کا مدار عقلیت اور سائنس پر ہے اور مسلمانوں کو اگر اپنی موجودہ پستی سے اُبھارنا ہے تو لبرل تہذیب کو جو ان تصورات کی حامل ہے اپنائے بغیر چارہ نہیں۔ اس خیال کے تحت اُنھوں نے جاگیرداری دور کے فرسودہ اخلاق و معاشرت کو عقلیت اور نیچر کی کسوٹی پر پرکھا۔ انیسویں صدی کے مغرب کی قدروں کو سامنے رکھ کر جہاد، غلامی اور عورتوںکی محکومی کی مذمت کی اور اس طرح تعصب تقلید اور بیہودہ رسم و رواج کی بندشوں کو ڈھیلا کیا۔ سرسید کو اس سلسلے میں اپنے دوستوں سے بھی بڑی مدد ملی۔ جن کے مضامین تہذیب الاخلاق کے صفحات میں اُن کی تائید اور حمایت کرتے تھے۔ تہذیب الاخلاق اگرچہ معاشرت کی اصلاح سے متعلق تھا لیکن مذہبی نقطہ نظر سے بھی اس کی اہمیت ثابت کرنا ضروری تھا ۔ تہذیب الاخلاق نے کافی گہرے نقوش چھوڑے‘‘۔ ۱۳؎
جذبیؔ نے اس باب میں سرسید کی خدمات اور اُن کے افکار کو تفصیلی طور پر بیان کیا۔ سرسید کے کارنامے بے شمار تھے۔ تہذیب الاخلاق کے ذکر کے بعد جذبیؔ نے سائنٹفک سوسائٹی کے قیام کے ضمن میں سرسید کی خدمات بیان کیں۔ جبکہ سرسید نے یہ سوسائٹی انگریزی علوم و فنون کی کتابوں کا اردو میں ترجمہ کرنے کیلئے قائم کی تھی۔ سرسید کا سب سے اہم کارنامہ علی گڑھ اسکول، کالج اور یونیورسٹی کا قیام تھا۔ جذبیؔ نے علی گڑھ کالج اور یونیورسٹی کے قیام اور اُس کی کارگذاری بیان کرتے ہوئے سرسید اور انگریزوں کے روابط کو بھی بیان کیا۔ جبکہ سرسید نے کالج کے قواعد میں یہ بات شامل رکھی تھی کہ کالج کے اسٹاف میں مسلمانوں کے ساتھ انگریز اسٹاف کو بھی لیا تاکہ مسلمانوں اور انگریزوں میں اتحاد کا اظہار ہوسکے۔ سرسید کی تعلیمی پالیسی کے ذکر کے بعد جذبیؔ نے اُن کی سیاسی پالیسی کا تذکرہ مفصل طور پر کیا۔ جس میں کانگریس کا قیام، ہندوستان میں جدوجہد آزادی کی تحریک کا فروغ اور دیگر عوامل شامل ہیں۔ سرسید نے اس دور میں مسلمانوں کے لئے قوم کا لفظ استعمال کیا تھا اور قومیت کے تصور سے ابنائے وطن کو آشنا کیا۔ ۱۸۸۶ء میں سرسید نے محمڈن ایجوکیشنل کانفرنس قائم کی۔ جس کا مقصد مسلمانوں کی عام تعلیمی اصلاح تھا۔ جذبیؔ نے یہ خیال ظاہر کیا کہ سرسید نے علی گڑھ یونیورسٹی میں مختلف علاقوں سے آئے طلباء کو ایک رنگ میں پیش کرتے ہوئے اُن میں قومیت کا تصور اُجاگر کیا۔ جبکہ طلباء کے لئے لازمی تھا کہ وہ یونیورسٹی کا مخصوص یونیفارم زیب تن کریں۔ مردوں کے مقابلے میں عورتوں کی انگریزی تعلیم کی سرسید نے مخالفت کی تھی۔ سرسید کے اس خیال کو قدامت پرستی تصور کرتے ہوئے جذبیؔ لکھتے ہیں :
’’سرسید بعض معاملات میں قدامت پرست اور تنگ نظر بھی تھے۔ مثلاً موجودہ حالات میں وہ عورتوں کے پردے کے حامی تھے اور اُن کی انگریزی تعلیم کے مخالف وہ عورتوں کے لئے اخلاق اور دینیات کی تعلیم ہی کافی سمجھتے تھے۔ اُن کا عقیدہ تھا کہ عورتوں سے پہلے مردوں کا تعلیم یافتہ ہونا ضروری ہے۔ اس کے بعد وہ خود عورتوں کو تعلیم سے آراستہ کرلیں گے جہاں کے مرد تعلیم یافتہ ہوگئے ہیں وہاں کی عورتیں بھی تعلیم یافتہ ہوگئی ہیں‘‘۔ ۱۴؎
جذبیؔ نے سرسید کی مخالفت کے احوال بیان کرتے ہوئے لکھا کہ ابتداء میں بعض مذہبی حلقوں کی جانب سے سرسید کے جدید نظریات کی مخالفت کی گئی اور خود سرسید کی ذات کو بھی نشانہ بنایا گیا۔ لیکن گزرتے وقت کے ساتھ قدیم روایتیں اور نئے اقدار میں ہم آہنگی پیدا ہوتی گئی اور سرسید کی مخالفت میں کمی واقع ہوئی۔ سرسید کی اردو خدمات بھی اُن کے کارناموں کا اہم حصہ ہیں۔ علی گڑھ تحریک کے ضمن میں سرسید اور اُن کے رفقاء نے اردو نثر میں مضامین لکھ کر اُسے سادگی سے ہمکنار کیا تھا اور یہ کام سرسید نے شروع کیا تھا۔ سرسید کی اردو ادب کے فروغ سے متعلق خدمات کا احاطہ کرتے ہوئے جذبیؔ یوں رقم طراز ہیں :
’’سرسید کی داستان نامکمل رہ جائے گی اگر ہم شعر و ادب کی دنیا میں اس انقلاب کا ذکر نہ کریں جو اُن کی توجہ کا رہین منت ہے۔ اُنھوں نے مختلف النوع موضوعات پر قلم اُٹھاکر زبان کو ہر قسم کے خیالات کی ادائیگی کے قابل بنایا۔ تکلف اور تصنع کے بجائے سادگی اور سلاست کو رواج دیا۔ اس طرح اردو کو جہاں تک نثر کا تعلق ہے سرسید کی بدولت پہلی بار وسعتیں نصیب ہوئیں۔ اُن کی تحریر ایک عرصے تک نثر لکھنے والوں کے لئے نمونہ بنی رہی حالیؔ، شبلیؔ ، سبھی اُن کے خوشہ چیں ہیں۔ نظم بھی اُن کی کچھ کم احساس مند نہیں۔ مولانا محمد حسین آزادؔ اگرچہ نئی اور نیچرل شاعری کے بانی ہیں لیکن اس کے رُخ کو سادگی اور افادیت کی طرف موڑنے میں سرسید کا بہت بڑا ہاتھ ہے‘‘۔ ۱۵؎
سرسید کی اردو ادب کے لئے کی گئی خدمات کے احاطے کے ساتھ سرسید سے متعلق کتاب کا یہ باب اختتام پذیر ہوتا ہے۔ اس باب میں جذبیؔ نے سرسید کی تمام سیاسی، سماجی، ادبی و دیگر خدمات کا احاطہ کیا۔ جہاں مناسب سمجھا وہاں پر سرسید پر نکتہ چینی بھی کی اور سرسید کی زندگی اور اُن کے افکار سے متعلق کچھ نئے پہلو سامنے لانے کی کوشش کی۔ جذبیؔ کے تحقیقی مقالے ’’حالی کا سیاسی شعور‘‘ کے پس منظر میں سرسید کی ان خدمات کا تعارف حالیؔ کے افکار کو بہتر طور پر سمجھنے میں معاون ثابت ہوتا ہے۔ حالیؔ سرسید کے رفیق کار تھے۔ تو دوسری طرف سرسید حالیؔ کے مُربی تھے۔ سرسید کی فرمائش پر حالیؔ نے ادب برائے زندگی کا نظریہ قائم کیا اور اُس نظریے کی ترویج کے لئے اپنی مشہور نظم ’’مد و جزر اسلام‘‘ ، رباعیات، غزلیں اور نظمیں کہیں۔ مقدمہ شعر و شاعری جیسی اہم تنقیدی کتاب لکھی اور تین سوانحی کتابیں حیات جاوید، یادگار غالب اور حیات سعدی تحریر کیں۔ جذبیؔ کا بنیادی کام حالیؔ کے سیاسی شعور کی کھوج تھا۔ اس کے لئے انھوں نے حالیؔ کی شخصیت پر اثرانداز شخصیت سرسید احمد خاں، اُن کے عہد اور اُن کی خدمات کا جائزہ لیا۔
تحقیقی و تنقیدی کتاب ’’حالیؔ کا سیاسی شعور‘‘ کے اگلے باب کا نام ’’حالیؔ کے سیاسی شعور کی ابتداء‘‘ ہے۔ ابھی تک جذبیؔ نے حالیؔ کے فن اور شخصیت پر اثرانداز ہونے والے حالات اور عوامل کا تفصیلی تجزیہ پیش کیا تھا۔ ’’حالیؔ کے سیاسی شعور کی ابتداء‘‘ والے باب سے وہ کتاب کے اصل موضوع کی طرف آتے ہیں۔ چنانچہ اس باب کے ابتداء میں جذبیؔ، حالیؔ کے خاندان، پیدائش اور بچپن کے حالات پیش کئے اور لکھا کہ حالیؔ کی پرورش متوسط نچلے طبقے کے گھرانے میں ہوئی۔ اس لئے اُن کی شخصیت میں محنت، مستقل مزاجی، سادگی، دل سوزی اور رواداری کے عناصر غیر شعوری طور پر داخل ہوگئے اور اُن کے کردار کا حصہ بن گئے۔ جذبیؔ نے حالیؔ کے جائے پیدائش پانی پت سے اُن کے دِلّی پہنچنے کا حال بیان کیا۔ بیس سال کی عمر میں حالیؔ نے دِلّی میں ۱۸۵۷ء کے حالات کا مشاہدہ کیا۔ وہاں کے نامساعد حالات میں زندگی گذاری اور اپنی شاعری میں دِلّی کی بربادی کا تذکرہ کیا۔حالیؔ نے اپنے مرثیہ دِلّی میں جو غم کے جذبات پیش کئے۔ اُن سے متاثر ہوتے ہوئے جذبیؔ نے اُن کے یہ اشعار نقل کئے۔
تذکرہ دہلی مرحوم کا اے دوست نہ چھیڑ
نہ سنا جائے گا ہم سے یہ فسانہ ہرگز
داستانِ گل کی خزاں میں نہ سنا ، اے بلبل
ہنستے ہنستے ہمیں ظالم نہ رلانا ہرگز
لے کے داغ آئے گا سینہ پہ بہت اے سیاح
دیکھ اس شہر کے کھنڈروں میں نہ جانا ہرگز
چپے چپے پہ ہیں یاں گوہر یکتا نہ خاک
دفن ہوگا نہ کہیں اتنا خزانہ ہرگز
مٹ گئے تیرے مٹانے کے نشاں بھی اب تو
اے فلک اس سے زیادہ نہ مٹانا ہرگز
جس کو زخموں سے حوادث کے اچھوتا سمجھیں
نظر آتا نہیں اک ایسا گھرانا ہرگز
رات آخر ہوئی اور بزم ہوئی زیر و زبر
اب نہ دیکھو گے کبھی لطف شبانا ہرگز
(بحوالہ کلیات نظم حالیؔ)
۱۸۵۷ء کے حالات نے اُس دور کے سبھی شعراء اور ادیبوں کو متاثر کیا تھا۔ میرؔ نے دل اور دِلّی کی تباہی کے جو نقشے اپنی شاعری میں پیش کئے۔ وہ آج بھی قاری کو اُس دور کی ہولناکیوں کی یاد دلاتے ہیں۔ میرؔ نے دِلّی کی تباہی کو اپنی تباہی تصور کرلیا تھا۔ جبکہ حالیؔ نے سرسید کی صحبت میں رہ کر حالات کا مقابلہ کرنا سیکھ لیا تھا اور نہ صرف خود اپنی ذات کے لئے بلکہ خواب غفلت میں سوئی ہندوستانی قوم کو جگانے کے لئے اُنھوں نے ادب برائے زندگی کا نظریہ پیش کیا اور اس پر کاربند رہے۔ جذبیؔ نے حالیؔ کی شخصیت کی تعمیر میں اُن کی ابتدائی زمانے کی مشرقی علوم کی تعلیم، دہلی کے ۱۸۵۷ء کے حالات کے بعد حالیؔ کی شیفتہ سے صحبت کا ذکر کیا۔ حالیؔ شیفتہ کے شاگرد تھے اور اُن کی صحبت میں ۱۸۶۳ء تا ۱۸۷۲ ء تقریباً آٹھ سال رہے۔ جذبیؔ کہتے ہیں کہ حالیؔ کو اس بات کا اعتراف تھا کہ انھیں اپنے ادبی ذوق کے سنوارنے میں غالبؔ سے زیادہ شیفتہ کی صحبت نے فائدہ پہونچایا۔ شیفتہ مبالغے کو ناپسند کرتے تھے اور بات کو سادگی اور دلچسپی سے بیان کرنے پر زور دیتے تھے۔ حالیؔ نے اپنے تنقیدی خیالات اور شاعری کے ذریعہ مبالغہ آرائی سے اپنی ناپسندیدگی کا اظہار کیا ہے۔ جبکہ اردو کے سبھی نامور غزل گو شعراء نے مبالغے کو شاعری کا حسن قرار دیا ہے اور اُسے شعر کے جذبے کو نکھارنے کے لئے استعمال کیا ہے جبکہ حالیؔ کی تربیت اور مزاج کی تعمیر اس انداز میں ہوئی کہ وہ غزل کے بشمول شاعری کی دیگر اصناف میں مبالغے کو سختی سے ناپسند کرتے تھے۔ جذبیؔ کہتے ہیں کہ شیفتہ کی صحبت نے حالیؔ کے مزاج کی تعمیر میں اہم حصہ ادا کیا۔جذبیؔ حالیؔ کی شخصیت کی تعمیر کے حالات بیان کرتے ہوئے آگے لکھتے ہیں کہ حالیؔ کو مذہب اسلام سے کافی لگاؤ تھا اور وہ اُس زمانے میں چلی وہابی تحریک سے بھی کافی متاثر تھے۔ اس ضمن میں جذبیؔ تفصیلات بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
’’حالیؔ کو مذہب سے کافی لگاؤ تھا۔ دِلّی اور پانی پت کے عالموں کی تعلیم اور فیض صحبت نے حالیؔ میں اگر مذہبی شغف پیدا کردیا ہو تو کچھ عجب نہیں۔ اس زمانے میں مسلمانوں کا ایک طبقہ وہابی عقائد سے بہت متاثر تھا۔ حالیؔ بھی غالباً ان عقائد کو تسلیم کرتے تھے … شیفتہ کے علم و تقدس اور مذہبی انہماک کا بھی اُن پر ایک عرصے تک سایہ رہا۔ حالیؔ نے خود اپنے مضامین میں جس طرح شاہ ولی اللہ کے اقتباسات سے اپنی دلیلوں کو تقویت پہنچائی ہے اس سے بھی یہ نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ وہ جہاں شاہ صاحب کے مذہبی افکار کے قائل تھے وہاں اُن کے انقلاب آفریں سیاسی تصورات سے بھی ضرور متاثر ہوئے ہوں گے‘‘۔ ۱۶؎
حالیؔ کے مذہبی نظریات اور مذہب سے اُن کی گہری وابستگی کے اثرات پیش کرنے کے بعد جذبیؔ نے حالیؔ کی زندگی پر پڑنے والے سرسید کے اثرات کی تفصیلات بیان کیں جبکہ حالیؔ سرسید سے متعارف ہوئے تھے۔ سرسید کی شروع کردہ سائنٹفک سوسائٹی رسالہ تہذیب الاخلاق اور اُن کے دیگر اصلاحی کاموں سے حالیؔ نے نہ صرف اتفاق کیا بلکہ سرسید کی ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے تعلیمی اعتبار سے وہ انگریزوں کو بہتر ماننے لگے تھے۔
حالیؔ کی زندگی کا دوسرا پڑاؤ وہ ہے جب وہ ایک اور ملازمت کے سلسلے میں ۱۸۷۲ء میں لاہور جاتے ہیں جہاں دوران ملازمت انگریزی ادب کے تراجم کے مطالعے سے اُنھیں انگریزی شاعری اور تنقید سمجھنے کا موقع ملا تھا۔ حالیؔ اپنی ملازمت کے ضمنی اثرات کے بارے میں لکھتے ہیں :
’’نواب شیفتہ کی وفات کے بعد پنجاب گورنمنٹ بک ڈپو لاہور میں ایک اسامی مجھ کو مل گئی۔ جس میں مجھ کو یہ کام کرنا پڑتا تھا کہ جو ترجمے انگریزی سے اردو میں ہوتے تھے اُن کی اردو عبارت درست کرنے کو مجھے ملتی تھی۔ تقریباً چار برس میں نے یہ کام لاہور میں رہ کر کیا۔ اس سے انگریزی لٹریچر کے ساتھ الحمدللہ مناسبت پیدا ہوگئی اور نامعلوم طور پر آہستہ آہستہ مشرقی اور خاص کر عام فارسی لٹریچر کی وقعت دل سے کم ہونے لگی‘‘۔ ۱۷؎
حالیؔ نے مغربی ادب کا مطالعہ کیا۔ لیکن سرسید کی صحبت کا اثر کہئے یا انسانی فطرت کہ جس میں دور کے ڈھول سہانے نظر آتے ہیں۔ حالیؔ کے دل میں مشرقی علوم اور ادب کی اہمیت کم ہوگئی اور وہ مغرب کے پرستار ہونے لگے۔ انگریزی ادب کے مطالعے کا حالیؔ پر یہ اثر پڑا کہ وہ شعر و ادب کے افادی پہلو کی اہمیت کو سمجھنے لگے تھے۔ یہیں سے حالیؔ کے مزاج میں وہ تبدیلی آئی جس کی بناء اُنھوں نے زور دے کر ادب برائے زندگی نظریے کا پرچار کرنا شروع کیا۔ اور بالآخر یہ نظریہ اُن کی شناخت بن گیا۔
حالیؔ کی شخصیت کی تعمیر میں انجمن پنجاب لاہور کے مشاعرے بھی رہے جس میں آزادؔ کی کوششوں سے نیچرل شاعری اور موضوعاتی نظمیں کہنے کا رواج پروان چڑھا۔ حالیؔ نے ان مشاعروں میں چار مثنویاں پڑھیں جن کے نام برکھارت، نشاطِ مید، حب وطن اور مناظرۂ رحم و انصاف ہیں۔ جذبیؔ نے اُن کی تین مثنویوں کا تجزیہ پیش کیا جن میں نشاطِ امید، حب وطن اور مناظرۂ رحم و انصاف ہیں۔ جذبیؔ نے حالیؔ کی ان مثنوی نما نظموں سے منتخب اشعار پیش کرتے ہوئے اُن کی فکر کو سمجھانے کی کوشش کی ہے۔ ان نظموں کے بارے میں جذبیؔ لکھتے ہیں :
’’حالیؔ کی ان نظموں سے جو لاہور کے زمانۂ قیام کی پیداوار ہیں اُن کی ابتدائی سیاسی اور سماجی شعور کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ ہندوستان کی نا کسی و بے حسی، قومیت کا تصور، مغرب کی عقلیت، جمہوریت، انفرادی آزادی اور غلامی کا انسداد، یہ ساری چیزیں اُن کے ذہن پر منعکس ہونے لگی تھیں۔ یہ زمانہ درحقیقت حالیؔ کے ذہنی انقلاب کا دور ہے جس میں وہ قدیم و جدید کی کشمکش سے نکلنے اور نئے حالات اور نئے خیالات سے آشنا ہونے لگے تھے۔ ۱۸؎
حالیؔ کی ان نظموں کے تجزیے کے ساتھ ہی کتاب کا یہ باب ختم ہوتا ہے۔
جذبیؔ نے مرحلہ وار مختلف ابواب میں حالیؔ کی فکر و فن اور اُن کے سیاسی شعور کے ارتقاء کو پیش کیا ہے۔ چنانچہ اُن کی کتاب کے اگلے باب کا عنوان ’’قدیم اور جدید نظم حکومت کا تصور‘‘ ہے۔اس باب کے آغاز میں جذبیؔ نے لکھا کہ حالیؔ ۱۸۷۵ء کے قریب لاہور سے دِلّی واپس آگئے اور سرسید کی فرمائش پر انھوں نے اپنی مشہور مسدس ’’مد و جزر اسلام‘‘ ۱۸۷۹ء میں لکھی۔ جذبیؔ کے خیال میں یہ نظم لکھ کر حالیؔ شعوری طور پر اسلامی سیاست کے میدان میں قدم رکھتے ہیں۔ حالیؔ کی مختلف نظموں سے اشعار کے انتخاب کے ذریعے جذبیؔ نے اُن کی سیاسی فکر کو پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ حالیؔ کے چند نظموں کے خیالات کا نچوڑ پیش کرتے ہوئے جذبیؔ لکھتے ہیں :
’’حالیؔ نے ملکی اور اخلاقی زوال کے جو اسباب بیان کئے ہیں وہ روحانی نہیں بلکہ خالص مادی ہیں۔ ہندوستان کے تمام امراض کی جڑیں ایشیائی طرز حکومت اور طبعی حالات میں ملتی ہیں۔ ایشیائی نظام نے سماج میں جمود، مایوسی، بیکاری، سستی اور بزدلی پیدا کردی۔ دوسری طرف ہندوستان کے طبعی حالات نے بد کو بدتر بنادیا۔ اوہام عقل پر غالب آگئے اور سماج اپنی مجبوری اور ناچاری پر ایمان لاکر تقدیر کا پرستار اور تدبیر سے کنارہ کش ہوگیا۔ یہی وہ اسباب ہیں جن کی بناء پر ہندوستان میں کسی سلطنت کو استحکام نصیب نہیں ہوا اور وہ کسی نہ کسی بیرونی طاقت کا غلام بنارہا۔ جو قوم یہاں آکر حکمران ہوئی کچھ عرصے کے بعد ان ہی کمزوریوں کا شکار ہوکر کسی بیرونی حملہ آور سے مغلوب ہوگئی۔ گویا غلامی ہندوستان کے فاتحین کا مقدر ہوگئی‘‘۔ ۱۹؎
جذبیؔ نے اس باب میں حالیؔ کی جن نظموں کا تجزیہ پیش کیا اُن میں انگلستان کی آزادی اور ہندوستان کی غلامی، شکوۂ ہند، مناظرہ رحم و انصاف اور مسدس شامل ہیں۔ حالیؔ کی نظم شکوہ ہند سے جذبیؔ نے ان اشعار کا انتخاب پیش کیا جس میں مسلمانوں کے شاندار ماضی اور اُن کی اعلیٰ صفات کا ذکر ملتا ہے۔ حالیؔ کے چند اشعار اس طرح ہیں :
ہاشمی آداب و عباسی فضائل ہم میں تھے
نطق اعرابی و عدنانی فصاحت ہم میں تھی
ضرب کراری و حرب خالدی رکھتے تھے ہم
سطوت حمزی و فاروقی جلالت ہم میں تھی

آج خاور تھا مقام اپنا توکل تھا باختر
عیش و عشرت کی نہ فرصت تھی نہ عادت ہم میں تھی
پھوٹ سے واقف نہ تھے ہم تیری اے ہندوستان
احمدی اخلاق و اسلامی اخوت ہم میں تھی
چھین لی سب ہم سے یاں شانِ عرب آن عجم
تو نے اے غارت گر اقوام و اکال الامم
(شکوۂ ہند ۔ کلیات نظم حالیؔ)
جذبیؔ نے حالیؔ کی نظم ’’شکوۂ ہند‘‘ کے اشعار پیش کرتے ہوئے جذبیؔ کے ہندوستان سے متعلق سیاسی نظریات کو واضح کرنے کی کوشش کی ہے۔ آگے انھوں نے سید ہاشمی فرید آبادی کے ایک مطالعہ کا تجزیہ پیش کیا۔ جس میں ہاشمی فریدآبادی نے حالیؔ کی نظم شکوۂ ہند کے پہلے شعر
الوداع اے کشور ہندوستاں جنت نشاں
رہ چکے تیرے بہت دن ہم بدیسی میہماں
کے حوالے سے اپنے ایک مضمون مطبوعہ رسالہ اردو کراچی اپریل ۱۹۵۲ء میں لکھا کہ حالیؔ کے اس شعر سے یہ اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ وہ نظریہ قیام پاکستان کی طرف اشارہ کرتے ہیں اور مسلمانوں کی ہندوستان سے نقل مکانی قیام پاکستان کے حقیقی حالات کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ جبکہ حالیؔ کو الہام کی کیفیت ہوچکی تھی۔ جذبیؔ ہاشمی فریدآبادی کے اس مطالعے کی نفی اور تردید کرتے ہوئے تنقیدی انداز میں کہ کہتے ہیں :
’’ہاشمی صاحب نہ جانے کیوں الوداع اے کشور ہندوستان کو ہندوستان چھوڑنے کا اعلان تصور کرتے ہیں جبکہ مصرعہ ثانی
ع۔ رہ چکے تیرے بہت دن ہم بدیسی میہمان
سے ظاہر ہے کہ حالیؔ ایک بدیسی قوم کی حیثیت سے جو کبھی عمل و اخلاق کی صفات سے آراستہ اور جہانبانی و جہانداری کی دولت سے پیراستہ تھی، رخصت ہورہے ہیں۔ لیکن اب وہ اپنی قوم کو اس طرح دیسی سمجھتے ہیں جس طرح باہر سے آئی ہوئی دوسری قومیں انحطاط و زوال کے بعد اپنے آپ کو دیسی تصور کرنے لگی تھیں۔ ۲۰؎
جذبیؔ نے دیوان حالیؔ کے دیباچہ اور مقالات حالیؔ سے بھی حالیؔ کے سیاسی نظریات اُجاگر کرنے کی کوشش کی۔ اس کے لئے انھوں نے حالیؔ کے تحریر کردہ مختلف اقتباسات پیش کئے۔ ان اقتباسات میں حالیؔ نے برطانوی سامراج کی خوبیوں اور خامیوں کو اُجاگر کیا۔ جذبیؔ کہتے ہیں کہ سرسید نے انگریزوں کی صرف تعریف ہی کی تھی۔ جبکہ حالیؔ نے روشن خیالی کے ساتھ انگریزی حکومت کے فوائد اور نقصانات بیان کئے۔ برٹش حکومت کی حالیؔ نے ان لفظوں میں تعریف کی ہے :
’’اگرچہ ہم برٹش گورنمنٹ کے نہایت شکر گذار ہیں کہ اس نے ہم کو برخلاف شاہانِ سلف کے ہر طرح کی آزادی دی ہے۔ ہم اپنی ترقی اور اصلاح کی ہر طرح کی تدبیریں عمل میں لاسکتے ہیں۔ جس طرح ہم اپنی تعلیم و تربیت کا سامان بغیر مداخلت گورنمنٹ کے کرسکتے ہیں۔ اسی طرح ہر قسم کی سوشل اصلاحیں بغیر گورنمنٹ کی دست اندازی کے کرسکتے ہیں‘‘۔ ۲۱؎
حالیؔ کے مضامین اور اُن کی نظموں کی روشنی میں جذبیؔ نے ہندوستان کی قدیم اور جدید حکومتوں کے بارے میں حالیؔ کی سیاسی فکر کو پیش کرنے کی کوشش کی۔
تحقیقی کتاب ’’حالیؔ کا سیاسی شعور‘‘ کے اگلے باب کا عنوان ’’حالیؔ اور سماجی اصلاحات‘‘ ہے۔ حالیؔ کے دور میں سرسید نے سماجی اصلاح کو اہم موضوع بنایا تھا۔ سرسید چاہتے تھے کہ مسلمانوں کی اصلاح اُسی وقت ممکن ہے جبکہ وہ قدیم روایات، تعصب اور توہم پرستی کو چھوڑ کر جدید ترقی کو اختیار کریں۔ حالیؔ نے اس معاملے میں سرسید کی پیروی کی اور وہ چاہتے تھے کہ مسلمان انگریزوں کی لائی ہوئی ترقی کو اختیار کریں۔ مسدس حالیؔ میں حالیؔکہتے ہیں :

زمانہ کا دن رات ہے یہ اشارہ
کہ ہے آشتی میں مری یاں گذارا
نہیں پیروی جن کو میری گوارا
مجھے اُن سے کرنا پڑے گا کنارا
سدا ایک ہی رُخ نہیں ناؤ چلتی
چلو تم ادھر کو ہوا ہو جدھر کی
(مسدس حالیؔ)
جذبیؔ مقالات حالیؔ سے حالیؔ کا یہ اقتباس نقل کرتے ہیں جس میں حالیؔ نے انگریزوں کی معاشرت و ترقی کی تعریف کی ہے۔ حالیؔ کہتے ہیں :
’’ایک اعلیٰ درجے کی شائستہ قوم جوہماری خوش قسمتی سے ہم پر حکمران ہے اس کا چال چلن اسکے اخلاق اُس کے طریق معاشرت اس کے علوم و فنون اُس کی دانشمندی اُس کی تہذیب اس کے نئے نئے ایجادات جو ہر وقت ہماری آنکھوں کے سامنے موجود ہیں جب ان باتوں کو اپنے ملک کی موجودہ صورت کے ساتھ مقابلہ کریں تو ضرور ہے کہ ہم کو اپنی اور اپنے ہم وطنوں کی نہایت وحشیانہ حالت پر افسوس آئے اور ہمدردی کا جوش ہمارے دلوں میں موجزن ہو۔ ۲۲؎
جذبیؔ نے حالیؔ اور سماجی اصلاحات کے باب میں حالیؔ کی جانب سے اُن کے عہد کے مسلمانوں کی اخلاق و معاشرت میں سدھار اور جدید علوم سے واقفیت جیسے اُمور پر زور دینے کا تذکرہ کیا ہے۔ سرسید کی ایماء پر حالیؔ نے بھی اپنی تحریروں کے ذریعہ مسلمانوں کی اخلاق و معاشرت میں سدھار کی شعوری کوشش کی ہے۔ حالیؔ نے اپنے مسدس میں مسلمانوں کی اخلاقی گراوٹ اور ان کی زبوں حالیؔ کی جذباتی تصویر پیش کی ہے۔ حالیؔ نے یہ خیال ظاہر کیا تھا کہ مفلسی میں انسان جانور سے بدتر ہوجاتا ہے۔ اچھے اور بُرے کی تمیز کھو دیتا ہے۔ اس لئے اگر کسی انسان کے اخلاق سدھارنا ہو تو پہلے اُس کی معاشی تنگی کو دور کرنا ہوگا۔
مسلمانوں کی غریبی کا نقشہ کھینچتے ہوئے حالیؔ مسدس میں کہتے ہیں :
فلاکت جسے کہئے الم الجرائم
نہیں رہتے ایماں پہ دل جس سے قائم
بناتی ہے انسان کو جو بہائم
مصلی ہیں دل جمع جس سے نہ صائم
وہ یوں اہل اسلام پر چھارہی ہے
کہ مسلم کی تو یا نشانی یہی ہے
(مسدس حالی ص ۴۹)
جذبیؔ نے معاشرتی اصلاح کے لئے حالیؔ کی کوششوں کا ذکر کیا ہے۔ سرسید اور حالیؔ نے اس بات پر زور دیا تھا کہ مسلمان بے جا رسم و رواج سے پرہیز کریں۔ اوہام پرستی چھوڑیں تعلیم کو اختیار کریں حالیؔ نے پردے میں رہ کر عورتوں کی تعلیم کی حمایت کی تھی۔ مسلمانوں کی اخلاقی و معاشرتی اصلاح کے ضمن میں حالیؔ کے نظریات کا خلاصہ پیش کرتے ہوئے جذبیؔ لکھتے ہیں :
’’حالیؔ کا اخلاق و معاشرت کی اصلاح کا نظریہ اگرچہ وہی ہے جو سرسید کا تھا لیکن حالیؔ کا اضافہ یہ ہے کہ وہ اس کے عملی پہلو پر بھی غور کرتے ہیں اور وہ بھی مسلمانوں کی معاشی حالت کے پس منظر میں۔ اسی لئے اُن کے یہاں تجارت اور تاجروں کے طبقے کو اخلاق و معاشرت کی اصلاح میں اس قدر اہمیت حاصل ہے نیز اس معاملے میں وہ سرسید کی انتہا پسندی اور جلد بازی کو ناپسند ہی نہیں کرتے بلکہ اُن کے طرز عمل کی درشتی کے شاکی نظر آتے ہیں‘‘۔ ۲۳؎
جذبیؔ نے حالیؔ کے مذہب کے بارے میں نظریات کا تجزیہ کرتے ہوئے لکھا کہ امتداد زمانہ کے سبب بعض رسوم اور اوہام مذہبی درجہ اختیار کرلیتی ہیں لیکن ترقی کے لئے ضروری ہے کہ اصل مذہب پر قناعت کی جائے اور بے کار رسوم کو ترک کیا جائے۔ حالیؔ کو ڈر تھا کہ صنعتی اور مادی ترقی سے مذہب پرستی کو نقصان نہ پہونچے۔ سرسید نے مذہب کو مغرب کی عقلیت اور سائنس کی روشنی میں پیش کیا تھا۔ حالیؔ نے اس بات پر زور دیا کہ دین آسان ہے۔ اُنھوں نے مذہب کی باتوں کو نئے حالات سے ہم آہنگ کرنے کی کوشش کی۔ تصوف، تقدیر، توکل اور دیگر اُمورپر جذبیؔ نے حالیؔ کے تصورات پیش کئے اور مذہب اسلام کے بارے میں اُن کے نظریات واضح کئے جو مجموعی طورپر قدیم و جدید کا مجموعہ تھے۔
مذہب کے علاوہ تعلیم ایک ایسا موضوع ہے جس پر سرسید حالیؔ اور اُس دور کے دیگر دانشوروں نے زور دیا تھا۔ سرسید کی طرح حالیؔ بھی اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ قدیم علوم سے اُس دور میں معاشی ترقی ممکن نہیں۔ اس کے لئے مسلمانوں کو جدید علوم سے آراستہ ہونا ضروری ہے۔ سرسید نے مغربی علوم کی حمایت اس لئے کی تھی کہ مسلمان انگریز حکومت میں ملازمت حاصل کرسکیں۔ کیوں کہ انگریزوں نے مسلمانوں پر ملازمت کے دروازے بندکردیئے تھے اور ہندو اپنی تعلیم کے سبب اور انگریزوں کے نرم رویے کے سبب انگریزی ملازمت آسانی سے حاصل کررہے تھے۔ جذبیؔ نے مسدس حالیؔ کے مختلف اشعار کے انتخاب کے ذریعہ حالیؔ کے تعلیمی نظریات کو اُجاگر کیا۔ سرسید نے روایتی تعلیم پر زور دیا تھا جبکہ ایک قدم آگے بڑھتے ہوئے حالیؔ نے روایتی تعلیم کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کو فنی اور تکنیکی تعلیم کے حصول پر بھی زور دیا تاکہ وہ اپنے پیروں پر کھڑے ہوسکیں اور اپنی معاشی تنگی کو فراخی میں بدل سکیں۔ حالیؔ کا مخاطب مسلمانوں کا متوسط طبقہ تھا جس کو اصلاح کی زیادہ ضرورت تھی اور جس سے اُمید تھی کہ وہ ہی کچھ کرسکے گا۔ جذبیؔ نے حالیؔ کا ایک اقتباس پیش کیا جس میں سرسید سے اختلاف کرتے ہوئے حالیؔ نے یونیورسٹی تعلیم کی اہمیت کو کم ظاہر کیا۔ حالیؔ کہتے ہیں :
’’ایک گروہ وہ ہے جس کی بڑی دوڑ بی اے یا ایم اے کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد یہ ہے کہ مڈل پاس کئے ہوئے طلباء کی طرح سرکاری نوکری کے لئے اِدھر اُدھر جنبانی کرتا پھرے اور ذریعوں اور سفارشوں کی تلاش میں ایک مدت تک سرگرداں اور پریشان رہے اُن کو اپنے دست و بازو پر اتنا بھی بھروسہ نہیں ہوتا جتنا کہ چرندوں اور پرندوں کو اپنی قوت لایموت کی تلاش میں ہوتا ہے۔ ۲۴؎
مجموعی طور پر حالیؔ نے تعلیم کے ضمن میں یہ خیال پیش کیاکہ مسلمان روایتی تعلیم کے ساتھ فنی تعلیم حاصل کریں اور ملازمت نہ ملنے پر خود روزگار کے ذریعہ فکر معاش کریں۔
سماجی اصلاحات کے ضمن میں سیاست کے موضوع پر حالیؔ کے نظریات کا تجزیہ کرتے ہوئے جذبیؔ لکھتے ہیں کہ حالیؔ ہندوستان میں ہندو مسلم اتحادکے علمبردار تھے۔ حالانکہ انگریزی دور میں مسلمانوں سے منافرت بڑھ گئی تھی۔ وہابی تحریک کے زیراثر حالیؔ بھی دو قومی نظریے کے حامی دکھائی دیتے ہیں اور وہ مسلمانوں کے لئے الگ شناخت کی حمایت کرتے ہیں۔ حالیؔ مسلمانوں کا سلسلہ عربوں سے بھی جوڑتے ہیں حالیؔ نے اکثر اپنی تحریروں میں قوم کا مفہوم پیش کیا ہے۔ چنانچہ وہ کہتے ہیں :
نیشن وہ جماعت ہے کم از کم
زباں جس کی ہو ایک اور نسل و مذہب
(کلیات نظم حالیؔ)
حالیؔ نے مسدس میں ساری دنیا میں مسلمانوں کے کارناموں کو یاد کرتے ہوئے واضح کیاکہ مسلمانوں کا ماضی شاندار ہے اور وہ کسی ایک ملک تک محدود نہیں بلکہ کلمہ کی بنیاد پر وہ سارے عالم پر چھا سکتے ہیں۔ حالیؔ کی سیاسی بصیرت کے مزید چند نکات کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
’’حالیؔ کا معاشی لائحہ عمل اُن کے سیاسی نصب العین کے حصول کا سب سے بڑا ذریعہ نظر آتا ہے۔ مختصر الفاظ میں وہ اپنے عہد کے تقاضوں کے مطابق صنعت و حرفت اور دوسرے آزاد پیشوں سے مسلمانوں میں وہ اقتصادی اور اخلاقی قوت پیداکرنا چاہتے ہیں جو آگے چل کر انگریزوں کی حریف بن سکے۔ اُن کے نزدیک صرف یہی راہ مسلمانوں کو آزادی و خود مختاری کی منزل تک لے جاسکتی ہے‘‘۔
اس مقصد کے حصول کی خاطر وہ مسلمانوں کے متوسط یعنی تعلیم یافتہ طبقے کو خاص طور سے ملازمت سے باز رکھنے کی کوشش کرتے ہیں کیونکہ اگر یہ لوگ بھی جنھیں وہ قومی ترقی کے ضروری آلات تصور کرتے ہیں۔ ملازمت کے چکر میں پھنس گئے تو پھر قومی ترقی کا کوئی منصوبہ بھی عملی شکل اختیار نہ کرسکے گا۔ ۲۵؎
جذبیؔ نے مقالات حالیؔ، کلیات حالیؔ اور مسدس کے حوالے سے حالیؔ کے سیاسی نظریات کو واضح کرنے کی کوشش کی۔ بیسویں صدی کی ابتدائی دہائی میں جبکہ ایک طرف ہندوستان میں جدوجہد آزادی کی تحریک زور پکڑ رہی تھی دوسری طرف حالیؔ کی زندگی کا آخری دور تھا۔ حالیؔ نے اپنے دور کے تناظر میں سیاسی نظریات پیش کئے تھے۔ ان نظریات کو جذبیؔ نے حالیؔ کی تحریروں کے اقتباسات کے ساتھ پیش کیا۔
حالیؔ کی نظر ہندوستان کے علاوہ عالم اسلام کی سیاست پر بھی تھی۔ ترکی خلافت کے بارے میں حالیؔ کے نظریات بیان کرتے ہوئے جذبیؔ لکھتے ہیں :
’’حالیؔ کے سیاسی افکار کے سلسلے میں اس گہری وابستگی کا ذکر بھی ضروری معلوم ہوتا ہے جو انھیں دنیائے اسلام سے تھی۔ ہندوستان کے مسلمان اگرچہ غلام ہوچکے تھے۔ لیکن اُن کے ہم مذہبوں کی آزاد سلطنتیں اب بھی قائم تھیں اور ترکی کا خلیفہ اب بھی اُن کا اپنا خلیفہ اور روحانی پیشوا تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ اُخوت اسلامی کے نظریہ میں بھی عقیدہ رکھتے تھے جو اُنھیں ایک طرح کی اخلاقی ہی نہیں سیاسی قوت بھی دیتا تھا۔ انگریز اس سے واقف تھے اسی لئے ہندوستانی مسلمانوں کی وفاداری انھیں ہنر کی طرح مشتبہ نظر آتی تھی‘‘۔ ۲۶؎
حالیؔ کے ان سیاسی افکار کی پیشکشی کے ساتھ ہی جذبیؔ کی اس تحقیقی و تنقیدی کتاب کا اختتام عمل میں آتا ہے۔ جذبیؔ نے اپنی اس تحقیقی کتاب کی تیاری کے لئے تقریباً ۶۰ اردو اور ۳۰ انگریزی کتابوں اور رسائل و اخبارات سے استفادہ کیا اور حالیؔ کی سیاسی فکر کو اس انداز میں پیش کیاکہ حالیؔ کے سیاسی نظریات کے ساتھ قاری کو انیسویں اور بیسویں صدی کے ابتدائی دور کی ہندوستان کی سیاسی و سماجی تاریخ سے آگہی ہوتی ہے اور اُس وقت کے مسلمانوں کے نشیب و فراز سے تعلق بھرپور معلومات ملتی ہیں۔
جذبیؔ کی تحقیق و تنقید کا عمومی جائزہ:
معین احسن جذبیؔ اپنی تحقیقی کتاب ’’حالیؔ کا سیاسی شعور‘‘ کے ذریعہ ادب کی دنیا میں ایک اعتدال پسند محقق اور نقاد کے روپ میں پیش ہوتے ہیں۔ جذبیؔ نے اس کتاب میں مبسوط اور مربوط انداز میں واقعاتی شہادتوں کے ذریعہ اور مختلف حوالہ جات کی پیشکشی کے ذریعہ حالیؔ کے سیاسی شعور کو اُجاگر کرنے کی کوشش کی ہے۔ جذبیؔ کی اس کاوش کے بارے میں مشتاق صدف لکھتے ہیں :
’’اس کتاب میں جذبیؔ اپنے اصل دعوے کو ثابت کرنے میں پوری طرح کامیاب نظر آتے ہیں۔ انھوں نے اپنے مقالے میں کہیں بھی سکّہ بند نقادوں کے تنقیدی Tools کو استعمال نہیں کیا ہے اور اُن کی عینک سے حالیؔ کو نہیں دیکھا ہے۔اس لحاظ سے دیکھا جائے تو جذبیؔ کے شعری سرمایے کے ساتھ اُن کا نثری سرمایہ بھی کمیت سے زیادہ کیفیت کی بنیاد پر پرکھے جانے کا تقاضہ کرتا ہے۔ حالیؔ کے سیاسی افکار کے سلسلے میں جذبیؔ نے جن باتوں کی نشاندہی کی ہے اور جو دلائل پیش کئے ہیں وہ اُن کی تنقیدی کاوش، تنقیدی بصیرت اور علمی دیانت داری کو نمایاں کرتے ہیں۔ انھوں نے تغیر پذیر معاشرے میں حالیؔ کے بدلتے خیالات کو جس طرح منظم شکل میں پیش کیا ہے اس سے تحقیق و تنقید میں تلاش و جستجو کا معیار بلند ہوتا ہے۔۲۷؎
جذبیؔ نے اپنی اس کتاب میں حالیؔ کی تصانیف اور اُن کی تخلیقات کا گہرائی سے تجزیہ کیا ہے اور نتائج اخذ کئے ہیں۔ جذبیؔ کی یہ تصنیف اس لئے بھی اہمیت اختیار کرجاتی ہے کہ اس میں ہندوستانی مسلمانوں کے مصلحین کے نظریات ہیں۔ اس دور کی سیاسی فضاء کی سچی تصویریں اور علی گڑھ تحریک کے اہم نکات سامنے آتے ہیں۔ اس کتاب کے ذریعہ جذبیؔ نے واضح کیاکہ حالیؔ سرسید سے کئی اُمور میں اتفاق رکھنے کے باوجود بعض بنیادی باتوں میں سرسید سے اختلاف بھی رکھتے تھے۔ جذبیؔ نے اپنی بات کو مدلل طور پر پیش کرنے کے لئے مقالات حالیؔ اور کلیات حالیؔ سے اقتباسات اور اشعار کا انتخاب پیش کیا۔ اس کتاب سے جہاں بہ حیثیت محقق جذبیؔ کا مقام بلند ہوتا ہے بلکہ جگہ جگہ اُن کے پیش کردہ تنقیدی نظریات سے جذبیؔ ایک اچھے نقاد کے طور پر سامنے آتے ہیں اور اُن کی تنقیدی رائے سے اختلاف کی گنجائش کم ہی رہتی ہے۔ مشتاق صدف جذبیؔ کی تنقیدی خوبیوں کو اُجاگر کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
’’حیرت اس بات پر ہوتی ہے کہ حالیؔ کے بعد کچھ اہم شاعر نقادوں میں فراق گورکھپوری اور اثر لکھنوی وغیرہ پر تو لوگوں کی نظر گئی۔ لیکن جذبیؔ کو نظرانداز کردیا گیا۔ حالانکہ جذبیؔ کو نقاد ثابت کرنے کے لئے اُن کا مضمون ’’مجروح میری نظر میں‘‘ ہی کافی ہے۔ ’’حالیؔ کا سیاسی شعور‘’ تو بہت آگے کی چیز ہے۔ شاعر کے وجدانی شعور کو سمجھنا نقاد کا سب سے بڑا امتحان ہوتا ہے اور یہ اس وقت آسان ہوتا ہے جب کوئی نقاد شاعر بھی ہو۔ جذبیؔ خود بھی ایک ممتاز شاعر تھے۔ اس لئے وہ حالیؔ کے منفرد سیاسی افکار کا بھید کھولنے اور اُن کے تخلیقی عمل میں خود کو شریک کرنے میں کامیاب نظر آتے ہیں۔ جذبیؔ کی یہ شاعرانہ سوجھ بوجھ ہی تھی کہ اُنھوں نے حالیؔ کے سیاسی نظریات کو بالکل واضح کردیا اور اُن کے اشعار کی پُراسرار کیفیتوں سے ہمیں آشنا کرایا ہے۔ لہذا جذبیؔ بجا طور پر اس بات کے مستحق تھے کہ ناقد اور محقق کی حیثیت سے بھی اُن کو تسلیم کیا جاتا لیکن ایسا نہیں ہوا اور وہ اس میدان میں گمنام ہی رہے‘‘۔ ۲۸؎
مشتاق صدف نے یہ بجا کہا ہے کہ اردو تنقید نے جذبیؔ کے اس گراں قدر کارنامے کی قدر نہیں کی اور بہ حیثیت محقق اور نقاد اُن کے فن کی پذیرائی نہیں ہوسکی۔ جبکہ جذبیؔ کی تصنیف ’’حالیؔ کے سیاسی شعور‘‘ کے تفصیلی جائزے سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ جذبیؔ نے حالیؔ کی نظموں اور کلام کے منتخب اشعار اور حالیؔ کی زندگی کے مختلف ادوار سے داخلی شواہد اور نتائج اخذ کرتے ہوئے حالیؔ کے سیاسی شعور کو واضح کرنے کی کامیاب کوشش کی ہے اور اس تصنیف سے ایک شاعر کی تنقیدی و تحقیقی صلاحیتیں بھی اُجاگر ہوتی ہیں۔
جذبیؔ کا نثری اسلوب:
جذبیؔ نے اپنی اس نثری تصنیف ’’حالیؔ کا سیاسی شعور‘‘ میں صاف ستھری اور سادہ و سلیس زبان استعمال کی ہے۔ جذبیؔ نے دوران تحقیق خیالات کو مربوط اور واضح انداز میں پیش کیا ہے۔ جذبیؔ نے قاری کے ذہنی سطح پر اُتر کر اپنے اسلوب کو پیش کیا۔ وہ خیالات کو واضح انداز میں پیش کرتے ہیں۔ تحقیق کے دوران بات کو ثابت کرنے کے لئے دلائل پیش کرنے پڑتے ہیں۔ چنانچہ جذبیؔ تاریخی واقعات اور حالیؔ کے اشعار کے انتخاب کے ذریعہ اپنی بات کو دلائل کے ساتھ پیش کرتے ہیں۔ جذبیؔ نے چھوٹے چھوٹے جملوں کے ذریعے اپنی نثر کی تعمیر کی ہے۔ اُن کی نثر میں تاریخ گوئی کے فن کی جھلک دکھائی دیتی ہے۔ مجموعی طور پر جذبی کا نثری اسلوب سادہ سلیس اور دلچسپ ہے۔ قاری کو اُن کے اسلوب سے بیزارگی کا احساس نہیں ہوتا اور تحقیقی و تنقیدی نثر ہونے کے باوجود اسلوب میں دلچسپی برقرار رہتی ہے۔
اردو تحقیق و تنقید میں جذبیؔ کا مقام:
تحقیق و تنقید کے شعبہ میں عموماً شاعر دخل اندازی نہیں کرتے۔ آل احمد سرور نقاد کے طور پر مشہور ہوئے۔ اُنھوں نے شاعری بھی کی۔ لیکن بہ حیثیت شاعر وہ مشہور نہیں ہوسکے اور اردو تنقید میں اپنا نام بنا گئے۔ جذبیؔ بہ حیثیت شاعر مشہور ہوئے۔ یونیورسٹی کی ملازمت کے تقاضوں کے تحت انھوں نے پی ایچ ڈی کا مقالہ ’’حالیؔ کا سیاسی شعور‘‘ تحریر کیا۔ اُن کا مقالہ کتابی شکل میں شائع ہوا۔ جس کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ جذبیؔ اچھے محقق اور نقاد بھی ہیں۔ جذبیؔ نے تحقیق و تنقید کے میدان میں مزید کوئی جستجو نہیں کی اس لئے وہ تحقیق و تنقید کے میدان میں اپنا کوئی گہرا نقش نہیں چھوڑ پائے۔ اس کے باوجود اگر اعتدال پسند اور منصفانہ رائے قائم کی جائے تو جذبیؔ کی تحقیق و تنقید کے میدان میں چھوڑی گئی یہ واحد کاوش ’’حالیؔ کا سیاسی شعور‘‘ انھیں ایک کہنہ مشق محقق اور نقاد کے طور پر پیش کرتی ہے۔ جذبیؔ کے اس کام کی انفرادیت اس طرح بھی ہے کہ اُنھوں نے حالیؔ کے سیاسی افکار کو اُن کی زندگی کے واقعات اور شاعری سے اخذ کیا ہے اور ایک مبسوط انداز میں انھیں پیش کیا ہے۔ جذبیؔ نے جگہ جگہ حالیؔ پر تنقید بھی کی ہے اور سرسید سے اُن کے بعض واضح اختلافات کو اُجاگر کیا۔ اس طرح مجموعی طور پر جذبیؔ اپنی اس کاوش سے اردو کے ایک منفرد محقق و نقاد قرار پاتے ہیں۔

حوالے
۱؎۔ معین احسن جذبی ۔ حالیؔ کا سیاسی شعور۔ ۱۹۵۹ء علی گڑھ ۔ ص۱
۲؎۔ سید عابدحسین ۔ پیش لفظ ۔ حالیؔ کا سیاسی شعور ۔ ص ۹۔۱۰
۳؎۔ خلیق احمد نظامی ۔ حالیؔ کا سیاسی شعور ۔ تعارف ۔ ص ۱۴
۴؎۔ معین احسن جذبی ۔ حرف اول ۔ حالیؔ کا سیاسی شعور ۔ ص ۱۷۔۱۸
۵؎؎۔ معین احسن جذبی ۔ حالیؔ کا سیاسی شعور ۔ ص ۲۶
۶؎۔ لارڈ النبرا ۔ بحوالہ ہمارے ہندوستانی مسلمان از ڈبلیو ڈبلیو ہنئر ۔ مشمولہ ’’حالی کا سیاسی شعور‘‘ ص ۲۹
۷؎۔ معین احسن جذبی ۔ حالیؔ کا سیاسی شعور ۔ ص ۳۱۔۳۲
۸؎۔ معین احسن جذبی ۔ حالی کا سیاسی شعور ۔ ص ۳۶ ۔ ۳۷
۹؎۔ معین احسن جذبی ۔ حالی کا سیاسی شعور ۔ ۴۵ ۔ ۴۶
۱۰؎۔ معین احسن جذبی ۔ حالیؔ کا سیاسی شعور ص ۴۹
۱۱؎۔ معین احسن جذبی ۔ حالیؔ کا سیاسی شعور ۔ ص ۵۱
۱۲؎۔ معین احسن جذبی ۔ حالیؔ کا سیاسی شعور۔ ص۵۲
۱۳؎۔ معین احسن جذبی ۔ حالیؔ کا سیاسی شعور ۔ ص ۵۴
۱۴؎۔ معین احسن جذبی ۔ حالیؔ کا سیاسی شعور ص ۷۶
۱۵؎۔ معین احسن جذبی ۔ حالیؔ کا سیاسی شعور ص ۸۱
۱۶؎۔ معین احسن جذبی ۔ حالیؔ کا سیاسی شعور ص ۸۶۔۸۷
۱۷؎۔ الطاف حسین حالیؔ مقالات حالیؔ ص ۲۷۶ ۔ جامعہ پریس دہلی ۱۹۳۴ء
۱۸؎۔ معین احسن جذبی ۔ حالیؔ کا سیاسی شعور ۔ ص ۱۰۳۔۱۰۴
۱۹؎۔ معین احسن جذبی ۔ حالیؔ کا سیاسی شعور ص ۱۰۸
۲۰؎۔ الطاف حسین حالیؔ ، مقالات حالیؔ حصہ دوم ص ۳۸
۲۱؎۔ الطاف حسین حالیؔ مقالات حالیؔ ، حصہ دوم ، ص ۴۵
۲۲؎۔ معین احسن جذبی ۔ حالیؔ کا سیاسی شعور ۔ ص۱۳۶
۲۳؎۔ معین احسن جذبی ۔ حالیؔ کا سیاسی شعور ۔ ص۱۵۶
۲۴؎۔ الطاف حسین حالیؔ ۔ مقالات حالیؔ۔ حصہ اول ۔ ص ۱۷۶
۲۵؎۔ معین احسن جذبی ۔ حالیؔ کا سیاسی شعور ص ۱۸۰
۲۶؎۔ معین احسن جذبی ۔ حالیؔ کا سیاسی شعور ص ۲۰۱
۲۷۔ مشتاق صدف ۔ معین احسن جذبی ۔ ۸۴۔۸۵
۲۸؎۔ مشتاق صدف ۔ معین احسن جذبی ص ۱۰۱

Leave a Comment