٭ڈاکٹر مجاہدالاسلام
اسسٹنٹ پروفیسر
مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی
لکھنؤ کیمپس،لکھنؤ(انڈیا)
میرا سامان میری برتھ کے نیچے رکھ کراب بوڑھا قلی میرے سامنے کھڑا تھا۔
’ ’صاحب !…..سامان کو ٹھیک سے دیکھ لیجئے ……مجھے پیسہ دیجئے …..ٹرین اب کھلنے ہی والی ہے….‘‘
گھر سے عین ٹرین کے ٹائم پر نکلنے اور پھر راستے میں جہاں تہاں امڈتاٹریفک، جیسے ہی میں نے اسٹیشن پر قدم رکھا،ٹرین چلنے کے لئے تیار تھی ۔ ایک طرف دوپہر کی شدید گرمی دوسری طرف ٹرین کے چھوٹ جانے کا اندیشہ۔ میرا بدن پہلے ہی پسینے سے تر بتر تھا ۔ اب سر کا پسینہ کمر کے راستے پاؤں تک پہنچ رہا تھا ۔اچانک میرے ذہن کے نہاں خانے میں رقیہ کا چہرہ کوند گیا۔رقیہ میری بڑی بیٹی ہے جو اس وقت ماشاء اللہ سے سٹینڈر فورتھ کی اسٹوڈنٹ ہے۔چونکہ میری پوری فیملی تین ہی افراد پر مشتمل ہے ۔میں اور میری بیوی ہما اور بیٹی رقیہ،لہذا جب کبھی ہمیں بادل نخواستہ باہر نکلنا ہوتا تورقیہ بھی ساتھ ہوتی۔ اس دوران جب کبھی بھی ہما اپنی الٹی سیدھی سانس کو درست کرنے کے لئے رقیہ کو مجھے تھماتی تو وہ چاہے چند لمحے کے لئے ہی کیوں نہ ہو؟رقیہ میری گود میں پیشاب کر دیا کرتی ۔میں اکثر سوچا کرتا ہوں،پتہ نہیں ان دنوں اس کو میری گود سے اتنی بیرکیوں تھی؟ ۔پھر فوراً ہی اس کا پیشاب میری شرٹ وپینٹ کو تر بتر کرتا ہوا میرے جوتے میں داخل ہوجاتا، اور جب میں چلتا تو پاؤں اور جوتے آپس میں مل کر پھچا پچ کی آواز پیدا کرتے ۔
اپنی برتھ کا حال دیکھ کر مجھے سخت افسوس ہوا ۔برتھ کی ریگزین جگہ جگہ سے ادھڑی ہوئی تھی بلکہ دائیں طرف سے برتھ اندر کو کچھ دھنسی ہوئی بھی تھی۔ دوبرتھوں کے بیچ میں اوپر کو شیشہ تو لگا ہواتھا ۔مگر اس پرگرد و غبار کی تہیں کچھ اس طرح سے جمی ہوئی تھیں کہ صورت بھی اس میں ٹھیک سے نظر نہیں آ تی تھی چہ جائے کہ چہرے کہ خطوط نظر آتے۔ ایسا لگ رہا تھا کہ سالوں سے اس کو صاف نہیں کیاگیا ہے ۔
اس چھوٹے سے کمپارٹمنٹ میں تین سلینگ فین لگے ہوئے تھے جن میں سے ایک ہی چل رہا تھا ۔ایک تو Disconnect بھی تھا۔ویسے تو موبائل چارج کرنے کے لئے الگ سے پوائنٹ لگا ہواتھا مگروہ کام نہیں کررہاتھا ۔ میں نے کئی مسافروں کو دیکھا کہ انہوں نے آناً فاناً میں اپنے چارجر سوئچ بورڈ( Switchboard )سے لگائے مگر لاحاصل۔
میں اپنی برتھ پر کھڑکی سے لگ کر کچھ اندر کودھنس کر بیٹھ گیا۔ پورے ڈبے میں ابھی چند ایک ہی مسافرتھے ۔ممکن ہے کسی اور اسٹیشن سے اورمسافروں کو سوار ہونا ہو۔ میری سامنے والی سیٹ پر البتہ ایک شخص پہلے ہی سے براجمان تھا جو اپنے چہرے مہرے سے سردار اور لباس سے فوجی لگ رہا تھا ۔وہ اپنے چہرے کو سیٹ کے بالکل اپوزٹ گھمائے کچھ کھا رہاتھا۔
ٹرین ابھی بھی اسٹیشن پر ہی کھڑی تھی ۔میں نے جیسے ہی اپنی نظرذرا اوپر کو اٹھا ئی ایک خاتون کو اپنے ہی کمپارٹمنٹ میں داخل ہوتے دیکھا۔ اس کے ساتھ ایک چار، پانچ سالہ بچہ بھی تھا جوبڑی ہی سختی سے اس کی انگلیوں کو تھامے ہوا تھا۔عورت کا قد درمیانہ تھا،دیکھنے میں بڑی بھلی لگ رہی تھی۔ہو بہو سنگ مر مر کی مورت لگتی تھی۔ میں نے بیٹھے ہی بیٹھے اپنی برتھ کی طرف آنکھوں سے اشارہ کرکے، اس کویہ محسو س کرانے کی کوشش کی کہ یہ جگہ خالی ہے اور یہ کہ وہ یہاں پر بیٹھ سکتی ہے ۔ عورت کی جسمانی نزاکت اور سردارکے چہرے کی کثافت مجھے بڑی ہی ان میل سی لگ رہی تھی۔
اچانک نیچے سے کھڑکی کے پاس منہ کرکے کسی نے اس عورت کوآواز دینی شروع کی۔پھر وہ فوراً ہی ہاتھوں کے اشارے سے اس سے مخاطب ہوا۔ ادھر بیٹھو ادھر ۔وہ عورت اس کے اشارے پر اس برتھ پر بیٹھ گئی جس پر سردار پہلے ہی سے بیٹھا ہوا تھا۔ وہ شخص جو کھڑکی کے پاس کھڑا تھا وہ فوجی وردی میں ملبوس تھا جس پر کئی اسٹار ٹنکے ہوئے تھے اس کی پریشانی و فکر مندی سے ایسا لگ رہا تھا یہ شخص ہی اس عورت کا شوہر ہے۔
میرے دل میں ایک لمحے کے لئے خیال گزرا کہ ممکن ہے سردار سے اس شخص کی پہلے سے شناسائی ہو ۔ یا پھر فوجی لگی بات ہو۔ ظاہر ہے ایک فوجی عام لوگوں کے مقابلے میں ایک فوجی کے ساتھ ہی زیادہ کمفرٹیبل(Comfortable) محسوس کرے گا۔میرے ذہن کے پردے پر فوراً فارسی کاوہ محاورہ ’کبوتر با کبوتر باز با باز ‘کوند گیا ۔ میری طالب علمی کے زمانے میں میرے فارسی کے ٹیچر ماسٹر عین الحق اکثر کلاس میں نالائق بچوں کے ایک دوسرے کا ساتھ پکڑلینے پریہ محاورہ دہرایا کرتے تھے اگرچہ اس وقت میری استعداد اتنی نہیں تھی کہ میں اس محاورے کا مطلب سمجھ پاتا۔
اس شخص نے باہر کھڑے ہی کھڑے سردار جی کو مخاطب کیا۔
’’ پرسوں اس کے بھائی کی منگنی ہے۔جلدی جلدی میں Date فکس ہوئی ہے اتنی جلدی کہاں ٹکٹ مل پاتا ہے۔جانا تو مجھے بھی تھا مگر….. میں چھٹی نہ مل پانے کی وجہ سے نہیں جا پا رہا ہوں۔ سردار جی! ….تم ہیما کوجھن جھگ اسٹیشن پر اتار دینا ……یہ پھپھوند کے بالکل پاس ہی ہے۔ ٹرین یہاں پر بہت کم دیر کے لئے رکتی ہے۔ ٹھیک سے دیکھ لینا ہیما کوکوئی پریشانی نہ ہو۔منّا بھی ساتھ میں ہے……‘‘
اب وہ عورت بالکل میرے سامنے تھی ،میں نظر بچا کرکبھی اس مرد کو نیچے تو کبھی اس عورت کو سامنے دیکھ لیتا تھا۔ عورت کے مقابلے میں مرد کی شخصیت بالکل معمولی تھی ۔ایسا لگتا تھا کہ جیسے کوئی مادہ جرمن شیفرڈ کسی انڈین لینڈی کے رابطے میں آ گئی ہو۔
عورت شیفون( chiffon) کی ہلکی گلابی رنگ کی ساڑی پہنے ہوئی تھی ۔ بہت حد تک بلاؤز بھی اسی رنگ کا تھا مگر اس میں کچھ سوتی کی ملاوٹ بھی تھی جس کی وجہ سے بلاؤز دیکھنے میں ساڑی کے مقابلے میں کچھ دبیز سالگ رہا تھا ۔مگرکوئی خاص سٹائلسٹک( tylistic S)نہیں تھا ۔یا ممکن ہے ایسی کچھ کاریگری بلاؤز کے پشت( Back) پر رہی ہو،جو مجھے سامنے سے نظرنہ آ رہی ہو۔اس کے پاؤں میں کڑھی ہوئی راجستھانی چپل تھی۔اگر وہ لمحہ بھر کے لئے بھی اپنے ایک پاؤں کودوسرے پاؤں کے گھٹنے سے ٹکاتی تواس کے پیٹی کوٹ کاجھالر نظر آ نے لگتا، جس پر سٹیشن پر لُٹانے کی وجہ سے گرد کی ایک دبیز سی تہ جم گئی تھی ۔
وہ آدمی اب بھی کھڑکی کے باہر ہی کھڑا تھا اور اندرہی اندر بڑابے چین ہو رہا تھا۔ممکن ہے وہ عورت پہلی بار اس کے بغیر سفر کر رہی ہواور اس کو اسے چھوڑے نہ بن رہا ہو ۔ یہ بھی ممکن ہے کہ نہ چاہتے ہوئے بھی وہ اس لئے کھڑا ہو کہ کہیں عورت اسے یہ طعنہ نہ دے کہ ٹرین چلی بھی نہیں کہ تم سٹک لئے۔اور اب اس کو اپنی محبت کا اظہار مقصود ہو ۔
عورت اپنی جسمانی ساخت اور رنگت سے بہت حد تک منی پور ی لگ رہی تھی۔اس کے برعکس فوجی مغربی یوپی کالگ رہا تھا ۔پتہ نہیں کیوں اچانک میرے ذہن میں یہ خیال آیاکہ ممکن ہے فوجی کی کبھی مشرقی بھارت میں تعیناتی رہی ہو اور وہیں یہ لڑکی اس کے رابطے میں آئی ہو، پھر ان دونوں نے شادی کرلی ہو ،مگر اب جب میں نے غور سے دیکھا تو مجھے یہ عورت پورے طور سے مشرقی بھارت کی بھی نہیں لگ رہی تھی۔ اس کی شبیہ ابھی بھی پورے طور سے میرے ذہن میں کلیر نہیں تھی ۔میرے دماغ میں فوراً اصل و نقل کا فلسفہ گھوم گیا ۔میں نے سوچا کہ ہوسکتا ہے کہ اس کے والدین ہی میں سے کوئی ایک مشرقی بھارت کا رہاہو اوردوسرا مغربی بھارت کا۔کیوں کہ اس کے اندر کسی نہ کسی حدتک مشرقی و مغربی بھارت کا ایک ا متزاج نظر آرہا تھا۔
میرے تاریخ کے پروفیسر بوچر سنگھ تاج محل، لال قلعہ اور قطب مینار کومغل، ہند آرٹ کے امتزاج کا حسین نمونہ قرار دیتے تھے۔مگر میری سمجھ سے ہمیشہ ہی یہ بات پرے رہی کہ وہ اپنے اس جملے میں فنون لطیفہ کی بڑائی بیان کرنا چاہتے تھے یا پھر اس کی تضحیک کرنا چاہتے ہیں۔
البتہ میرا یہ شبہ اس وقت ضرور کچھ یقین میں تبدیل ہواجب میں نے کہیں پڑھا کہ گھوڑے اور گدھے کے اختلاط سے جو نسل پیدا ہوتی ہے وہ بڑی ہی مضبوط، سڈول اور خوبصور ت ہوتی ہے اورغالباً اسی کو عرف عام میں خچر کہا جاتا ہے ۔
مجھے اب اس بات میں بھی کوئی تذبذب نہیں رہا کہ جغرافیہ کے دواکر سر جاڑے کی کپکپاتی صبح میں کمپنی باغ میں اپنی دیہاتی کتیا کو لے کر مس بالٹی والا کے بدیشی کتے کاکیوں انتظارکرتے ہیں؟
مجھے بڑا تعجب ہوا کہ ایک بچہ پیدا ہوجانے کے باوجود ابھی بھی عورت کے جسم کا ہر بند کمان پر لگے تانت کی ٹائٹ تھا ۔جب بھی اس کا آنچل دم بھر کے لئے بھی سرک جاتا تو اس کا کسی بھی طرح کے داغ دھبے سے بے نیاز صاف شفاف پیٹ کندن کی طرح دمک اٹھتا ۔
پتہ نہیں کیوں اچانک میرے کان میں ننھوا نانبائی کی آواز گونجنے لگی ۔ننھوا روٹیاں بناکر تھوک کے بھاؤ سے ہوٹلوں میں سپلائی کرتا ہے ۔ میرے یہاں اگرکبھی معمول سے زیادہ مہمان آجاتے تو سالن تو گھر میں ہی بن جاتا ہے مگر روٹی ننھوا نانبائی کے یہاں سے ہی آتی ہے۔ایک مرتبہ جب میں ننھواکے یہاں پہنچا تو اس کو معمول کے بر خلاف دن نکلتے تک آ ٹا گوندھتے ہوئے پایا ،میرے یہ کہنے پر کہ آج بہت ٹائم لگ رہا ہے….کیا بات ہے ؟
وہ بولا۔
’’صاحب! …….نئے گیہوں کا آٹا ہے …… ابھی ٹھیک سے تار نہیں ٹو ٹاہے…..‘‘
میں ابھی انہی خیالوں میں گم تھا کہ اچانک ٹرین اسٹارٹ ہو گئی اور پھر اس نے کب رفتار پکڑ لی مجھے خبر تک نہیں ہوئی۔ ٹرین اب ہوا سے باتیں کر رہی تھی۔لوگ اپنی اپنی سیٹوں پر سنبھل کربیٹھ چکے تھے۔
اچانک میرے موبائل کی گھنٹی بجی ۔ دوسری طرف میری بیوی ہما تھی ۔
’ ’آج تو تم دو برتھوں کا مزہ لے رہے ہوگے؟…..‘‘
مجھے غصہ آگیا۔میں نے اسے ترکی بہ ترکی جواب دیا۔
’’ہاں …..کیوں نہیں….. تم نے موقع جو دیا ہے …..‘‘
’’ مگرمیرے حصے کی برتھ پر…….کسی لڑکی وڑکی کو مت لٹانا…..‘‘
’’ ہاں!…..یہ تو وقت ہی بتائے گا ….‘‘میں نے فوراً جواب دیا۔
’’ظاہر ہے میں وہاں پر تو ہوں نہیں ؟…..مگر تم نے اگر ایسا کچھ بھی کیا تو…..میری روح کو ضرور تکلیف پہچاؤ گے…..‘‘
’’ہما !….اصل میں تم ہو ہی بڑی نوٹنگی باز….مجھے کہیں بھی جانا ہو تو تم میرا اس لئے ساتھ پکڑ تی ہو کہ میں تمہیں کہیں سیر و تفریح کے لئے نہیں لے جاتا …..مگر جب جانے کاوقت آتا ہے تو صاف مکر جاتی ہو …..‘‘
’ ’آپ کی طرح میں پتھردل تھوڑے ہی ہوں ….. میری جب بچوں کے چہروں پر نظر پڑتی ہے تو میرا دل کانپ اٹھتا ہے کہ ان کو چھوڑ کر کیسے کہیں جاؤں؟ ……میں ان کی ماں ہوں ….ماں کا مطلب بھی آپ سمجھتے ہیں؟….‘‘
میں نے کہا۔
’’اگر ایسا ہی ہے توتم آرام سے گھر پر بیٹھو….. پھراس طرح کی باتیں ہی کیوں کرتی ہو؟….‘‘
ہما کی اس طرح کی حرکتوں سے میں ہمیشہ ہی بڑے مخمصے میں پڑجاتا ہوں۔اس مرتبہ بھی قریب قریب ایسا ہی ہوا۔ اس کے انکار پرجب میں آخری دن اس کا ٹکٹ کینسل کرانے کے لئے بکنگ آفس پہنچا تو ٹکٹ ہی کینسل نہیں ہوا۔ونڈو پر ایک ادھیڑ عمر کی کھوسٹ سی بڑھیابیٹھی ہوئی تھی ،کہنے لگی ٹکٹ ایک ساتھ ہے۔ پہلے دونوں ٹکٹوں کو کینسل کراؤ ۔ پھر دیکھیں گے تمہارا ٹکٹ بک ہوبھی پاتاہے یا نہیں؟۔ ایسی صورت میں کبھی ٹکٹ بک ہو بھی جاتاہے اور کبھی نہیں بھی ۔ مجھے بڑا غصہ آیا ۔میں بڑبڑانے لگا۔
’’یہ سالے!…… ریلوے والے بھی بڑے عجیب ہیں۔آئے دن نئے نئے قانون بناتے رہتے ہیں۔اور یہ سالا ڈبے کے اندر تو سہولت کے نام پر خاک اڑ رہی ہے…..‘‘
ایک لمحے کے لئے میرے دل میں گمان گزرا ،ممکن ہے یہ بڑھیا کام ہی نہیں کرنا چارہی ہو۔جب تک عورت کنواری ہوتی ہے سدا بہار ہوتی ہے۔کیا اتر اور دکھن….ہر طرف کا دروازہ کھول کر رکھتی ہے اور جیسے ہی شادی ہوئی،بچہ ہوا ،فوراً ہی برتاؤمیں تبدیلی آجاتی ہے۔ پھر اس کو شوہر ،بچے اور اپنی گھر گرہستی کے علاوہ کچھ بھی نظر نہیں آتا ہے …..رہے یہ سالے ٹکٹ چیکر تو طرح طرح کے سوال کریں گے ۔
’’کون ہے وہ ؟…..اگر اس کو نہ جاناتھا پھر ٹکٹ ہی کیوں لیا؟ ….کیاکچھ دال میں کالا تو نہیں ہے؟….‘‘
ابھی میں کال مکمل کرکے بیٹھا ہی تھا کہ اچانک مجھے اپنے ڈبے میں ایک ہل چل سی محسوس ہوئی۔اسی دوران سردار جی کی برتھ پر بیٹھی ہوئی وہ عورت جو اب تک ہما سے میری ہو رہی گفتگو کو بغور سن رہی تھی،اب ٹھیک میرے بغل میں آکر بیٹھ گئی۔اورمیرے بغیر کسی استفسار کے وہ خود ہی کہنے لگی۔
’’میں ایسٹرن یوپی کی رہنے والی ہوں ۔میری ماں منی پوری تھی ،میرے باپ فوجی تھے ، ان کی تعیناتی مشرقی بھارت میں تھی۔ ویسے وہ رہنے والے مشرقی یوپی کے ہی تھے۔ میرے نانا بڑے ہی مفلوک الحال قسم کے لوگ تھے۔میرے باپ فوجیوں کے کھانے کے سامان میں سے کچھ چرا ،چھپاکر ان کی مد دکردیا کرتے تھے۔ اسی میل جول میں ان کو میری ماں سے محبت ہوگئی اور پھر یہ اتنی بڑھی کہ شادی کی نوبت آ گئی۔میرے نانا بالکل نہیں چاہتے تھے کہ یہ شادی ہو، میری ماں چار بھائیوں کی واحد بہن تھی….. نانا کی بڑی دلاری تھیں ….وہ نہیں چاہتے تھے کہ اتنی دور جائے….‘‘
’’میں نند کی منگنی میں جھن جھگ جا رہی ہوں …..پہلے سے جانے کا میرا ارادہ بالکل نہیں تھا اچانک ہی پروگرام بنا ہے…..‘‘
ہیما جب تک بڑبڑاتی رہی ،میں اندر ہی اندرکہیں نہ کہیں یہ سوچنے پر مجبور ہوتا رہا کہ کیا انسان واقعی اپنی ذات ، مذہب اور فرقے کے مقابلے میں دوسری ذات، مذہب اور فرقے کے لوگوں میں جنسی لحاظ سے زیادہ کشش محسوس کرتا ہے؟….کہا جاتا ہے کہ تقسیم ہند کے فوراً بعد دہلی کی اکثر طوائفوں نے اپنا نام تبدیل کرکے نجمہ،سلطانہ اور ریحانہ کر لیا تھا۔
اچانک میں نے کئی ٹکٹ چیکروں کو پولیس والوں کے ساتھ اپنے ڈبے میں داخل ہوتے دیکھا۔ہیما گھبرا سی گئی۔ اس کے پاس سلیپر کا ٹکٹ نہیں تھا۔وہ میرے اور قریب آگئی ۔
’’ مجھے پتہ ہے آپ کے پاس دو ٹکٹ ہے۔ کیا آپ مجھے ایڈجسٹ نہیں کر سکتے؟….‘‘
’’یہ کیسے ممکن ہے؟….‘‘
’’کیا آپ کی بیوی مجھ سے زیادہ عمر کی ہیں؟….‘‘
’’نہیں….!‘‘
’’ ایسا کچھ بھی نہیں ہے……‘‘
’’ تو پھر…..؟‘‘
’’ہما اور ہیما میں فرق ہی کیا ہے؟…..‘‘
’ ’ہاں یہ تو ٹھیک ہے پر…… تمہاری مانگ میں سندور ،ماتھے پر بندیا اور گلے میں منگل سوترہے اور میں ٹھہرا مسلمان….. میں جھوٹ بول کر مصیبت میں پڑ سکتا ہوں؟….‘‘
’’ نہیں…..نہیں!…میں ایسا بالکل نہیں کر سکتا ہوں…….‘‘
’’کیا ہم آپس میں دوست بھی نہیں ہوسکتے ؟….‘‘
ہیما کا یہ جملہ سن کر میں اندر سے کچھ پگھل سا گیا۔ میں نے فوراً ہی سوچا کہ اگر ٹکٹ چیکر نے زیادہ پوچھا تو کہہ دیں گے یہ میری ہی کالونی میں رہتی ہے اور بچپن میں ہم دونوں دہلی کے ایک کالج میں کلاس فیلوبھی تھے۔ہیما نے میری خاموشی کو میری رضا سمجھا اور اس نے فوراً ہی میرا نام پوچھا اور جھٹ سے میری ہی جیب سے میرا قلم نکال کر اپنی ہتھیلی پر لکھ لیا۔اس کی نرم و گداز گوری گوری ہتھیلیوں پر مائل بہ سیاہ مہندی منقش تھی ۔جو اب پسینے کی وجہ سے کچھ پسیجی ہوئی تھی ۔
ہیمانے اب اپنے بچے کو دائیں سائڈ سے ہٹا کر بائیں سائڈ میں بٹھالیا اورپھر اس نے فوراً ہی اپنے کندھے ، کمر اور کولہے کو کچھ اس طرح سے میر ے ،کندھے،کمر اور کولہے سے پیوست کردیا ۔میری کنپٹیاں بجنے لگیں……. چند ہی ثانیے مجھے اپنا پہلو پسینے سے تربتر ہوتا ہوا محسوس ہوا ۔
اچانک وہ مخاطب ہوئی ۔
’’ آپ کا موبائل نمبر؟…. ‘‘میں نے اپنا موبائل نمبر بھی اسے بتا دیا۔
جب میں اپنا نام بتانے لگا تو اس نے بڑی ہی معصومیت سے اپنی ہتھیلی مجھے دکھائی، جس پر پہلے ہی سے میر نام کنندہ تھا،جو اب بڑی ہی آب و تاب سے چمک رہا تھا۔
اچانک ٹکٹ چیکر میرے قریب آگیا میں نے اپنا ہاتھ بڑھا کر اس کو ٹکٹ دیا ،پہلے تو اس نے ایک نظر مجھ پر ڈالی، پھر دوسری ہیما پرجو اب پوری طرح سے مجھ سے چپکی ہوئی تھی۔جب ٹکٹ چیکر وہاں سے چلا گیا تو ہیماذرا ڈھیلی پڑی….. میری جان میں جان آئی اور اب میں نے کھل کر سانس لی۔
اچانک مجھے خیال آیا کہ اگر ایسی پوزیشن میں ہما مجھے دیکھ لیتی تو کیا کہتی۔ ہما تو ویسے بھی اگر میں سکینڈ بھر کے لئے کسی عورت کی طرف نظر اٹھاؤ ں تو یہی کہتی ہے ۔
’’ تم مردوں اور کتوں میں ذرا بھی فرق نہیں ہے….کتے کو جیسے ہی چھیچڑانظر آیا منہ سے رال ٹپکی……. تم نالی کے کیڑ ے! رانی اورمہترانی کے فرق کو کیا جانو؟…..‘‘
ٹرین پوری رفتار کے ساتھ چھوٹے چھوٹے اسٹیشنوں کو چھوڑتی ہوئی فراٹے بھر رہی تھی جن لوگوں نے کھانے بک کروائے تھے ان کے کھانے ان کی برتھوں ہی پر آگئے تھے، جن سے اب وہ لطف اندوز ہو رہے تھے ۔اچانک میں کیا دیکھتاہوں کہ وہی ٹکٹ چیکرجو کچھ دیر پہلے ہمارے ڈبے کو چیک کرکے گیا تھا ،پھرہمارے ڈبے میں آگیا اور عین ہمارے سامنے سائڈ والی سیٹ پر بیٹھ گیا ۔ میں کچھ گھبرا سا گیا۔
میں نے دیکھا کہ اس نے لوگوں سے ادھر ادھر کی باتیں شروع کردیں جس میں خاص طور سے ملک کی تازہ ترین صورت حال تھی ۔ہیما بھی اس میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہی تھی۔ مجھے بڑی گھبراہٹ ہو رہی تھی ،نہ چاہتے ہوئے بھی مجھے بھی ان کی باتوں میں حصہ لینا پڑ رہا تھا ۔ مجھے ایسا محسوس ہو رہا تھاجیسے کہ ڈبے میں ٹکٹ چیکر کی نظریں کچھ اور ہی تلاش کر رہی ہوں۔ ہیماجو چیکنگ کے بعد اب مجھ سے کچھ الگ ہوکر بیٹھ گئی تھی۔ میں نے زبردستی اس کی کمر میں ہاتھ ڈال کر اس کوپوری قوت سے اپنی طرف کھینچا اس کا کولہا میری ران سے ٹکرایا….وہ ٹھٹھک کر رہ گئی۔ اس کی آنکھوں میں لال ڈورے کھنچ گئے۔
ہیما کے بچے نے پورے ڈبے میں ادھم مچا رکھا تھا۔ اب چیکربھی اس سے کھیلنے لگا۔طرح طرح کے وہ اس سے سوالات کر رہا تھا ۔مجھے اپنے بارے میں صاف خطرہ محسوس ہو رہاتھا ۔اس کی عینک اس کی ناک کے آخری سرے پر ٹکی ہوئی تھی ،اس کی پلکیں منٹوں میں جھپکتی تھی،مجھے وہ بڑا خطرناک لگ رہا تھا۔
’’سالا اب میں مرا….کہیں وہ جان نہ جائے کہ میں مسلمان ہوں…..‘‘
پچھلے دنوں جب میں اسی ٹرین سے سفر کر رہا تھاتو ایک اسٹیشن پر میں چائے پینے کے لئے نیچے اترا،ابھی میں نے چائے ختم بھی نہیں کی تھی کہ اچانک ٹرین چل پڑی ۔میں ایک سامنے والے ہی کمپارٹمنٹ میں گھس گیا۔ مجھے وہاں پر ایک ایسا شخص نظر آیا جس کی داڑھی لمبی اور سر پر گول ٹوپی تھی ۔عمر اس کی لگ بھگ 60/65 کے بیچ میں رہی ہوگی۔ اس کے بغل میں ٹھیک اسی کی عمر کی ایک بڑھیا بھی بیٹھی ہوئی تھی۔ بادی النظر میں ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ جیسے کہ یہ لوگ آپس میں میاں بیوی ہوں ۔
دہلی سے جیسے ہی ٹرین چلی، مجسٹریٹ چیکنگ کا ایک غلغلہ سا پورے ڈبے میں پھیل گیا ۔لوگ سنبھل کراپنی اپنی سیٹوں پر بیٹھ گئے ۔پھر میں نے دیکھا کہ ٹکٹ چیکروں کے چھنڈ کے چھنڈ ڈبوں میں منڈلانے لگے۔اس ڈبے میں بھی کئی ٹکٹ چیکر آئے ۔پہلے تو انہوں نے اس بڈھے سے اس کا ٹکٹ مانگا ۔پھر وہ فوراً ہی اس سے مخاطب ہوئے ۔
‘‘ تمہارا دوسرا آدمی کون ہے ؟….‘‘ اس نے فوراً ہی اس بڈھی کی طرف اشارہ کیا ۔
پہلے تو ٹکٹ چیکروں نے اس بڈھے کو جم کر گالیاں دیں ۔
پھر بولا۔
’’ تم مسلمان اوریہ ہندو پھر میاں بیوی کیسے ہو ئے؟ ….‘‘پھر اس نے بڈھے کے گلے میں ہاتھ ڈال کر زور زور سے اسے جھنجھوڑا ۔بڈھی کی الگ درگت کی۔ بڑی مشکل سے ان دونوں نے چیکروں سے معافی مانگ کر جان بچائی۔
جیسے جیسے ٹرین آگے بڑھتی جا رہی تھی میرا دل طرح طرح کے خدشات کی آماجگا ہ بنتا جارہاتھا۔ مجھے اپنے حرکت پر پچھتاوا ہو رہا تھا۔
’’میں ہیما سے انکار بھی تو کر سکتا تھا؟….یہ تو سراسر فراڈ ہے ….عزت و آبرو کی بات تو دور رہی جیل بھی تو ہو سکتی ہے؟۔نوکری بھی جا سکتی ہے؟…..‘‘
میری ماں کو سرکاری نوکری کی کتنی لالسا تھی۔کچھ بھی ہو۔ مگرآصف کو سرکاری نوکری مل جائے بس یہی اس کی آخری رٹ تھی۔اس نے رشوت دینے کے لئے اپنے کان کے بندے تک اتار کر مجھے دے دیے۔ جس وقت میں ان کو سنار کے حوالے کر رہا تھا ،میں ماں کے کانوں کی مل گجی بو کو بخوبی محسوس کر سکتا تھا ۔بڑی مشکل ہی سے مجھے یہ نوکری ملی تھی۔
اسی شش و پنج میں اچانک پھپھوند آگیا۔کسی نے نیچے سے ٹکٹ چیکر کو آواز دی وہ فوراً ہی اس آواز کے پیچھے بھاگا۔ٹرین اب پھر دوبارہ اسٹارٹ ہوچکی تھی۔ میری جان میں جان آئی، کیوں کہ اب چیکر کے جھن جھگ تک اس ڈبے میں آنے کا دور دور تک کوئی امکان نہیں تھا۔ہیما اب ٹرین سے اترنے کے لئے تیار تھی ۔سردار جی نے اس کے اٹیچی کیس کو پہلے ہی برتھ کے نیچے سے نکال لیا تھا۔ ہیمااب اپنے چہرے مہرے کو اپنے ہاتھوں سے درست کر رہی تھی ۔ اس کی ہتھیلی میں اب بھی میرا نام ٹمٹما رہا تھا ۔جھن جھگ آچکا تھا ۔ہیما بڑی ہی بد دلی سے اپنے ناخونوں کی مدد سے میرے نام کو اپنی ہتھیلی سے کھرچتی ہوئی ٹرین سے نیچے اتر گئی۔(ختم شد)