حقانی القاسمی کی زیر تکمیل کتاب’ایک موسم من کے اندر‘ سے ایک انٹرویو عورتوں کواستحصال نماآزادی ہی ملی ہے:نگارعظیم

دریچہ دل کا
حقانی القاسمی کی زیر تکمیل کتاب’ایک موسم من کے اندر‘ سے ایک انٹرویو
عورتوں کواستحصال نماآزادی ہی ملی ہے:نگارعظیم

\"184789_104997936245513_7227443_n\"
حقانی القاسمی

H-1Batla House,jamia Nagar ,Okhla ,New Delhi-110025
Cell:09968097929

\"12961652_1604010366590006_7031379746279089253_n\"
سیاسی نظام اور اس سے جڑے افراد کے لیے Viable Alternative خطرے کا نشان ہوتا ہے اسی طرح یہ سماج کے لیے بھی مضرت رساں ہے۔اس نوع کے متبادل کی موجودگی ازدواجی تعلق کی تمکنت کو بھی تلخیوں میں بدل دیتی ہے۔ یہ متبادل ازدواجی دائرے میں ہو یا ماورائے ازدواج طرفین کے جذباتی اور ذہنی کشمکش کا سبب ہے۔ عورتوں کے لیے تو یہ متبادل سم قاتل سے کم نہیں کہ مرد عورت کے مابین جب کوئی تیسری لہر آجاتی ہے یا مرد اپنے جذباتی تعیش اور جنسی تسکین کے لیے ازدواجی رفاقت میں کسی اور کو قانونی یا شرعی طورپر شامل کرلیتا ہے تواس سے خاندانی اقداری نظام کی دیواریں متزلزل ہونے لگتی ہیں۔ کیونکہ محبت کسی کی شرکت گوارا نہیں کرتی اور اسے توجہ کی تقسیم بھی منظور نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ کوئی بھی عورت اپنے گھر آنگن میں کسی حریف یا رقیب کی مہکار ،جھنکار اور سولہ سنگار برداشت نہیں کرسکتی۔اسے یہ قطعی منظور نہیں کہ اس کی اہمیت اور قدروقیمت کم کردی جائے۔اس متبادل کی وجہ سے عورتوں کی ذاتی انا بھی جاگ جاتی ہے۔ یہی سبب ہے کہ معاشرتی خاندانی ساخت کو صحتمند رکھنے کے لیے کثرت ازدواج کو کچھ مذاہب نے عورت مرد کی مساوات کے منافی عمل قراردیا ہے۔ہاں کچھ مذاہب میں تعدد ازدواج کی مشروط اجازت ہے۔افزائش نسل ،تولیدی عمل اور خاندانی وراثت کے تحفظ کے لیے اس کی گنجائش نکالی گئی ہے اور تعدد ازدواج کو حیاتیاتی جبریت سے جوڑ کر بھی دیکھا گیا ہے۔مگرکیا تعدد ازدواج ہی خاندانی بحران کا حل ہے۔اس پر بہت سے لوگوں نے سوالا ت اٹھائے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ پرانے زمانے میں خاندانی نجابت کے لیے سگے بھائی بہنوں میں شادی کی رسم عام تھی جس کے بارے میں آج سوچتے ہوئے بھی گھن آتی ہے۔تو کیا صرف خاندانی وراثت کو بچانے کے لیے عورت کی زندگی سے کھلواڑ صحیح ہے۔
تعدد ازدواج کا مسئلہ سوشیوبائلوجی سے جڑا ہوا ہے۔ معاشرتی ارتقا اور تبدیلیوں کے ساتھ ساتھ اس طرح کے مسائل کی شکلیں بدلتی رہتی ہیں۔ایک زمانے میں صرف Polygyny نہیں بلکہ Polyandry (ایک سے زائد شوہر) بھی معاشرے میں قبیح یا مذموم عمل نہیں تھی۔دروپدی پانچ پانڈوؤں کی بیوی تھیں تو تبت اور سری لنکا میں مشترکہ شوہروںکی روایت عام رہی ہے۔بلکہ حیرت ہوتی ہے کہ بعض جگہوںمیں باپ اور بیٹے کی مشترکہ بیوی کی رسم بھی رہی ہے۔ظاہر ہے کہ یہ رسمیں تہذیبی انحطاط کے دور کی ہیں اور تہذیبی ارتقا کی روشنی نے ان بہت سی رسموں اور روایتوں کو منسوخ کردیا ہے۔ایک سے زائد بیوی کی روایت بھی قدیم زمانے میں رہی۔ رام چندرجی کے والد راجہ دسرتھ کی تین بیویاں تھیں مگر ہندو مذہب میں اب یہ ممنوع ہے۔صرف یہودیت اور اسلام میں تعدد ازدواج کی مشروط اجازت ہے جوکہ اب بہت ہی گمبھیر مسئلے کی صورت اختیار کرتا جارہا ہے کیونکہ حقوق نسواں کی علمبردار تنظیمیں تعدد ازدواج کو عورت کے ساتھ جبر اور استحصال کی شکل مانتی ہیں۔تانیثیت سے متعلق فکشن میں بھی تعدد ازدواج کو موضوع بنایا گیا ہے۔ بشیرالدین احمد نے ’اقبال دلہن‘ اور اکبری بیگم نے ’ گوڈر کا لعل‘ میں اس مسئلے پر گفتگو کی ہے اور عورتوں کے تئیں ہمدردی کے باوجودتعدد ازدواج کا شرعی نقطہ نظر سے دفاع ہی کیا ہے۔صرف ایک خاتون نذر سجاد حیدر والدہ قرۃ العین حیدر ایسی تھیں جنہوں نے تعدد ازدواج کی کھل کر مخالفت کی اور اپنے ناول’ آہ مظلوماں ‘میں کثرت ازدواج کی بھیانک تصویریں دکھا کر خاندان اور سماج پر اس کے پڑنے والے منفی اثرات کے حوالے سے باتیں کی ہیں۔گلدستہ محبت، عفت نسواں،شعلہ پنہاں جیسے ناول لکھنے والی اکبری بیگم جنہوں نے سماجی جبر کے تحت اپنے نام کو بھی پردے میں رکھا۔ والدہ افضل علی یا عباس مرتضیٰ کے مردانہ نام سے ناول لکھا۔انہوں نے گودڑ کا لعل میں کثرت ازدواج کے انسداد کو ضروری امر تو قراردیا مگر مجبوریوں کی حالت میں اس کے جواز کی وکالت بھی کی ہے۔
تعدد ازدواج کے تعلق سے بہت سے ذہنوں میں سوالات اب بھی اٹھ رہے ہیں مگر سوال مذہبی معاشرہ اور اس سے جڑی ہوئی فناٹسزم کا بھی ہے کہ جہاں آرا شاہنواز نے لاہور کی ایک کانفرنس میں تعدد ازدواج کے خلاف خطاب کیاتھا تو فی سبیل اللہ فساد کرنے والوں نے ان کے خلاف ایک محاذ کھول دیا تھا جب کہ ان کی نیت نیک تھی ، ان کا مقصد شریعت سے مزاحمت نہیں بلکہ حقوق نسواںکی حفاظت تھا۔انہوں نے تعدد ازدواج کے رائج عمل کو روح اسلام کے منافی قراردیا تھا اور جبر کی ایک شرمناک حرکت سے تعبیر کیا تھا۔ 1918میں لاہور میں منعقدہ آل انڈیا مسلم لیڈیز کانفرنس میں تعدد ازدواج پر پابندی کا مطالبہ بھی کیا گیاتھا مگر مرد معاشرے نے مذہب کی آڑ میں اس طرح کی آوازوں کو خاموش کردیا۔دراصل قصور مذہب کا نہیں معاشرے کا ہوتا ہے جو اپنی مرضی کے مطابق احکامات اور ہدایات کی تاویلیں کرتا رہتا ہے۔ تعدد ازدواج کے باب میں بھی یہی ہوا کہ مشروط اجازت کے دائرے کو اتنی وسعت عطا کردی گئی کہ مشروطیت کی معنویت ہی مجروح ہوکر رہ گئی۔
مذہب نے جنسی انار کی کے انسداد کے لیے یہ ایک اچھی راہ تھی۔ یک زوجگی(Monogamous culture) معاشرے میں بھی Polygymyباانداز دیگر داخل ہوتی جارہی ہے تو ایسے میں ایک سے زائد شادی کا فارمولہ زیادہ مفیدہے کہ کم از کم بچے کوڑے کا حصہ بننے سے تو بچ جاتے ہیں اور ناجائز رشتوں کی صلیب پر زندگیاں لٹکنے سے محفوظ تو رہ جاتی ہیں پھر بھی تعدد ازدواج موجودہ آزاد معاشرے میں بھی عورتوں کے سروں پر خوف کی تلوار کی مانند لٹک رہی ہے۔اب دوہی راستے بچ جاتے ہیں مفاہمت یامزاحمت اور یہ عورتوں کو طے کرنا ہے کہ ان کے لیے کون سی راہ عافیت کی ہے اور کون سی اذیت کی۔
اردو کی معروف ادیبہ اور افسانہ نگار ڈاکٹر نگار عظیم عورتوں کے داخلی اورخارجی مسائل سے اچھی طرح آگاہ ہیں۔ نسائی نفسیات پر بھی ان کی گہری نظر ہے۔ وہ عورتوں کے مسائل خاص طورپر جبر اور استحصال کے تعلق سے افسانے لکھتی رہی ہیں۔گہن اور ابارشن جیسی کہانیاں عورتوں کی نفسیاتی جنسی کشمکش سے متعلق ہیں۔انہوں نے عورت ذات کی تمام جہتوںکو تخلیقی زاویے سے دیکھا اور پرکھا بھی ہے۔اس لیے انہوں نے عورتوں سے متعلق گفتگو کرتے ہوئے۔ اپنی نظر اور نظریے کو منطقی اورمتوازن رکھا ہے۔
کہنہ مشق شاعر ثروت میرٹھی مرحوم کی صاحبزادی نگار عظیم نے آگرہ یونیورسٹی سے ایم اے کی ڈگری حاصل کی اور جامعہ ملیہ اسلامیہ سے منٹوکی افسانہ نگاری کا تنقیدی جائزہ پر تحقیقی کام کیا۔ ان کے تین افسانوی مجموعے عکس (1990)، گہن(1999) اور عمارت (2010)شائع ہوچکے ہیں۔ منٹو کا سرمایہ فکر وفن منٹو شناسی کے ضمن میں ایک اہم کتاب سمجھی جاتی ہے۔ ان کا سفر نامہ ازبکستان ’’گرد آوارگی‘‘ ادبی حلقوںمیں بہت مقبول ہوا تھا۔انہوں نے ناروے میں مقیم مشہور افسانہ نگار ہرچرن چاؤلہ پر ایک اچھی کتاب بھی مرتب کی تھی۔کلام ثروت ، ان کے والد ثروت میرٹھی کی شاعری کا انتخاب ہے۔ بہادرشاہ ظفر پر بھی ان کا ایک مونو گراف شائع ہوچکا ہے۔ان کے شوہر عظیم صدیقی بھی اچھے رائٹر تھے۔

پیش ہے ڈاکٹر نگار عظیم سے حقانی القاسمی کی طویل تحریری گفتگو کا ایک مختصر حصہ

کیا آپ gender discrimination پر یقین رکھتی ہیں ؟
نگار عظیم: Gender ہماری Societyکا Construct ہے اور Sex قدرت کا۔ اور یہ اب سب ہی جانتے ہیں 23 Chromosome میں سے صرف ایک Chromosome الگ ہے جس سے Male اور Female بنتے ہیں۔ تو جب قدرت نے یہ فرق نہیں رکھا تو اس طرح کی درجہ بندی ہم کیونکر کریں۔ لیکن ہمارے سماج اور گھر میں یہ تفریق ہوتی ہے۔ میں صنفی امتیازی سلوک کے بہت خلاف ہوں۔ جسمانی ساخت جو قدرت نے وضع کی ہے وہ تویقینی ہے لیکن اس کے بنا پر کسی طرح کے امتیازی سلوک کی میں قائل نہیں۔

کیا gender system کو ختم کیا جانا ممکن ہے ؟

نگار عظیم:gender system کو ختم کرنا تو ناممکن ہے۔ (0-1) (B1-nary) عورت اور مرد زندگی کی اکائی ہیں کسی نہ کسی محور پر انہیں ملنا ہی ہوتا ہے انسان ہی نہیں چرند پرند بھی اس قدرتی سسٹم کو Follow کرتے ہیں۔ 0 کے بغیر 1 بیکار ہے اور 1 کے بغیر 0 کی کوئی اہمیت نہیں۔ تجرد سے بچنا چاہیے۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ وقت بدل رہا ہے، انسان بدل رہا ہے، قدریں بدل رہی ہیں، تہذیب بدل رہی ہے، رشتے بدل رہے ہیں، لباس اور پیرہن بدل رہے ہیں، عورت اور مرد کا اندرون بدل رہا ہے۔ آزادی کا مطلب بدل رہا ہے۔ Anima اور Animus (Trans gender youth) جیسی حسیاتی تبدیلیاں پہلے خال خال نظر آتی تھیں اب عام ہیں۔ عورت اور مرد کے کام کرنے کے اختیارات بدل رہے ہیں۔ ادب، آرٹ، تاریخ میں عورت اور مرد کے عادات، شوق، لباس، رہن سہن Anima اور Animus کے تعلق سے بہت کچھ موجود ہے۔ یہ سب اب عام ہوگیا ہے۔ اس میں اضافہ ہوگیا ہے۔ ابھی یہ اتھل پتھل اور بڑھے گی کیونکہ اس نے بھی کاروبار کی شکل لے لی ہے اس کے اسباب اور ذرائع گھر گھر ہر ایک فرد کی جیب میں موجود ہیں اس کے بازار کاروباری طور سے دنیا میں پھیلتے جارہے ہیں۔ ہاں ابھی کچھ سماجی اور قدرتی کام اپنے مقصد اور قدرت کے اصول کے عین مطابق ہورہے ہیں جیسے مرد بچہ پیدا نہیں کرسکتا عورت مرد کے جین کے بغیر حاملہ نہیں ہوسکتی۔ مسجد میں بھی مرد اذان دیتا ہے اور پادری بھی مرد ہی ہوتا ہے ہماری آنے والی نسلوں کے لیے حالات مشکل ہیں۔ شاید میں اپنی بات سمجھا سکی ہوں۔

توانائی کے تمام مراکز پہ کنٹرول کے باوجود عورت کمزور کیوں کہلاتی ہے ؟

نگار عظیم:ہاں اس میں کوئی شک نہیں کہ توانائی کے تمام مراکز پر عورت اپنی اہمیت درج کراچکی ہے ہاں اس کا کنٹرول بھی ہے لیکن پھر بھی اس کو کمزور کہا جاتا ہے۔ اس کی بھی کئی وجہیں ہوسکتی ہیں پہلی شاید مرد کے ذہن پر نسائیت زیادہ ہی سوار رہتی ہے یا پھر اسے ڈر ہے کہ اس حقیقت کو قبول کرکے وہ عورت کو اور مستحکم نہ بنادے یا پھر اس کے پیچھے اس کی خود کی کمزور ہوتی توانائی ہے اور شاید اسے اس بات پر یقین ہوکہ سچ کو اتنی مرتبہ اتنی شدت سے جھوٹ کہو کہ وہ جھوٹ لگنے لگے۔ میرے خیال سے تو اس بات کو مسئلہ بنانا ہی نہیں چاہیے کیونکہ اس سے کوئی فرق پڑنے والا ہے نہیں۔ ویسے بھی اس قسم کی توانا اور مستحکم عورت کا فیصد کمزور عورت کے فیصد سے بہت کم ہے۔ اس بات سے بھی انکار نہیں کہ عورت ہے تو عورت ہی اس کی نسائیت کو مجروح کرنے کے مرد نے دس طریقے نکال لیے ہیں۔ یہ بھی ان میں سے ایک ہے۔

کیا social conservatism عورتوں کی تعلیم ،ترقی اور آزادی کی راہ میں رکاوٹ ہے ؟

نگار عظیم: Social Conservatism عورتوں کے لیے ایک ابھی شاپ ہے۔ عورت ہی کیا مرد بھی اس کی لپیٹ میں ہیں۔ کیونکہ عورت گھر سے علیحدہ تو نہیں ہے۔ دیہات اور چھوٹے شہروں میں تو یہ وبا کی طرح پھیلی ہوئی ہے۔ آج بھی ہندوستانی عوام کی زندگی قدامت پسندی اور دقیانوسیت میں بری طرح پھنسی ہوئی ہے جس کا شکار طبقۂ نسواں زیادہ ہے۔ کمسنی کی شادی، ستی پرتھا، دیوداسی کا چلن، بیواؤں کے ساتھ زیادتیاں، پردے کی زیادتی ،تعلیم سے محرومی۔ ان تمام رسم ورواج اور خود کردہ بندھنوں سے عورت کی جسمانی ذہنی نشوونما بھی متاثر ہوئی اور اس کی معصومیت اور اس کے عورت پن کے وجود کو بھی ٹھیس پہنچی۔ حالانکہ کچھ تحریکوں نے سماج کے اس بھیانک منظرنامے کو بدلا لیکن آج بھی بہت سی جگہوں پر عورت اس دلدل میں پھنسی ہوئی ہے جس سے نہ صرف عورت کی تعلیم، ترقی اور آزادی متاثر ہے بلکہ پورا خاندان متاثر ہے۔

فیمنزم سے عورتوں کو فائدہ ہوا ہے یا نقصان ؟

نگار عظیم:Feminism؟؟ فائدہ؟ یا پھر نقصان؟ کس طور پر؟ دیکھئے محترم شور شرابا تو بہت مچا۔ انٹرنیشنل پیمانے پر اس تحریک کے اثرات نمایاں ہوئے۔ سماجی، ادبی، تنظیمی تعلق سے کام بھی ہوا۔ کئی کتابیں، ناول لٹریچر کے روپ میں سامنے آئیں اردو کی بہ نسبت ہندی میں استری وِمرش وغیرہ وغیرہ پرکچھ زیادہ کام ہوا۔ جی ڈبلو کرٹس کے بقول ’’تہذیب کا مطالعہ ہی اصل میں عورت کا مطالعہ ہے۔‘‘ اس بات کے مدنظر اگر ہم اپنی تہذیب کے اوراق پلٹیں اور پھر موجودہ منظرنامے پر نگاہ ڈالیں تو بخوبی اس بات کا اندازہ ہوجاتا ہے کہ کن محاذوں پر اسے فائدہ ہوا ہے اور کن پر نقصان۔ حبس، گھٹن، بے حرمتی، جہیز، ظلم وزیادتی کی ہمیشہ سے عورت شکار رہی ہے۔ آج بھی ہورہی ہے اس کی ذاتی زندگی کو تو کوئی فیض نہیں پہنچا۔ اس کے لیے مرد کو اپنے اندر تبدیلی لانا ہوگی۔یہ بڑی سچی اور تلخ حقیقت ہے کہ عورت کی ترقی کے ساتھ ساتھ اس کے استحصال کی راہیں بھی بہت تیزی سے ہموار ہوئی ہیں ۔صنعتی نظام اور میٹریلسٹک دورنے عورت کو خطرناک دلدل میں ڈھکیل دیا ہے جہاں وہ ایک شے بن گئی ہے۔ زندگی کی دوڑ میں اشتہار بنی اس عورت کے جسم کو ہم ہزاربار اپنے گھر میں ننگادیکھتے ہیں ٹی وی پر ۔ کیونکہ سماجی اصول بدل رہے ہیں۔ استحصال کے ذرائع اور نام بدل رہے ہیں۔ کیا آپ اسے فائدہ کہیں گے۔ اگر ہاں تو پھر ٹھیک ہے۔ یہاں بھی اصل رول تو مرد کا ہی ہے تحریک کو ہی غلط طریقے سے پیش کیا گیا۔

کیا عورتوں کے چست ‘ تنگ اور مختصر لباس کو آپ ترغیبات جنسی میں شمار کرتی ہیں ؟

نگار عظیم:چست تنگ اور مختصر لباس کمزور ذہن کے لیے جنسی ترغیبات کا سبب بن سکتا ہے۔ اس کا تعلق مرد کی اندرونی اور ذہنی کجروی سے ہے۔ آدی واسیوں میں ایسا کیوں نہیں ہے؟ جنسی نفسیاتی اور معاشرتی پیچیدگیوں سے یہ بیماری پیدا ہوتی ہے جو جنون کی شکل اختیار کرلیتی ہے اس طرح کا ذہن عورت کو صرف اور صرف جنسی معروض کی شکل میں دیکھتا ہے ۔ اسے ڈھکی چھپی عورت بھی بے لباس ہی نظر آتی ہے۔ چست لباس کے تعلق سے انڈونیشیائی خواتین بھی فتنوں کی زد میں ہیں۔یہ بھی فیشن کی ایک شکل ہے کہ سرپر تو اسکارف ہے لیکن لباس اتنا چست ہے کہ بدن کے حساس حصے نمایاں ہیں جسے دیکھ دیکھ کر مرد بیچارے پریشان ہیں۔اب آپ کہاں کہاں دھیان دیں گے بہتر یہی ہے کہ اپنا ذہن صاف اور مضبوط رکھیں۔ یہ الگ بات ہے کہ عورت کو لباس کے معنی کا پاس رکھنا چاہیے۔ویسے مشینوں کی آوازیں بھی بعض مردوں کی شہوت کو برانگیختہ کردیتی ہیں۔ لیکن یہ مرد وہی ہیں جو بیمار ذہن سے تعلق رکھتے ہیں۔

آپ کی ترقی اورکریئر پر ازدواجی زندگی کے کتنے منفی اور کتنے مثبت اثرات پڑے ہیں ؟

نگار عظیم:میری ترقی اور کریئر پر ازدواجی زندگی کے مثبت اثرات زیادہ پڑ ے ہیں۔ میری خود اعتمادی اور تجربہ میں اضافہ ہوا ۔ شوہر بچوں یا خاندان سے ملی محبت توانائی بخشتی ہے جو ترقی اور کریئرکے لیے بہت اہم ہوتی ہے۔ ذہن سازی کا بہتر موقع والدین کے بعد شوہر اور سسرال کے دوسرے لوگوں کے ساتھ رہنے سے ہی میسر ہوتا ہے ۔ میں نے اس سے پورا پورا فائدہ اٹھایا ہے۔ اگر شوہر سوشل سمجھدار اور تعلیم یافتہ ہو تو اس میں مزید اضافہ ہوجاتا ہے میں اس معاملہ میں خوش نصیب رہی۔قلمکار کو ذہنی وسعتوں کی پرواز کے لیے جو آزا دی چاہیے وہ مجھے میسر تھی۔دراصل نامساعد حالات ترقی کی راہ میں رکاوٹ پیدا کرتے ہیں اور وہ ہرگھر ہر خاندان میں ہوتے ہیں ۔نوعیت منفرد ہوتی ہے۔ یہ میرے ساتھ بھی رہے بلکہ بہت زیادہ رہے لیکن میں نے ان منفی رویوں کو چیلنج کے طورپر قبول کیا اور اپنی محنت ہمت اور قربانی سے انہیں اپنے لیے مثبت بنایا تو راہیں ہموار ہوتی چلی گئیں دیر سے ہی سہی دراصل میں کچھ باتوں میںپرانی قدروں سے ابھی تک جڑی ہوئی ہوں میں گھر کی ذمہ دار عورت کو ہی مانتی ہوں۔عورت کو زمین سے تعبیر کرنے کے فلسفہ پر یقین رکھتی ہوں اس لیے ایسی ترقی اور کریئر کے لیے گھر کی ذمہ داریوں سے منہ نہیں موڑا اور نہ ہی انہیں اپنے راستے کی رکاوٹ سمجھا۔میں بچوں کی پرورش اور گھریلو ذمہ داریوں کے لائق مرد کو سمجھتی ہی نہیں۔ ہاں اس میں میرا نقصان بھی ہوا اپنی ڈگریوں اور قابلیت کے مطابق اپنے کریئر کو پروان نہیں چڑھا سکی اور ایک اسکول پر ہی قناعت کرنا پڑی ۔ ادب اورآرٹ میں بھی اتنا کام نہیں کرسکی جتنا کرنا چاہیے تھا۔ لیکن اس پر مجھے افسوس اور پچھتاوا بالکل نہیں ہے کیونکہ میرے شوہر خاندان اور بچوں نے اس تعلق سے میری قدر کی۔ ورنہ آج جس مقام پر میرے بچے ہیں شاید وہ نہ ہوتے مجھے خوشی ہے کہ میرا خاندان میرے شوق ترقی اور کریئر کی زد میں آنے سے بچ گیا۔

من کی کوئی ایسی بات جو دنیا سے شیئر کرنا چاہتی ہوں ؟

نگار عظیم:جی واقعی میرادل چاہتا ہے اپنے دل کی کم از کم ایک بات توشیئر کرہی لوں ’’مجھے مرد بہت معصوم اور بیچارہ لگتا ہے‘‘۔

\"13173785_1618987355092307_1197110554402998835_n\"

Leave a Comment