تخلیق کار کبھی نہیں مرتا، وہ مر کے بھی زندہ رہتا ہے
دائیں سے پروفیسر کوثر مظہری ، عتیق انظر ، پروفیسر خالد محمود ، پروفیسر شہپر رسول ، ڈاکٹرخالد جاویداور ڈاکٹر خالد مبشر
نئی دہلی،(اسٹاف رپورٹر)ایسی حرب جو لڑنے کے لئے نہیں بلکہ برائیوں کے خاتمے کے لئے پہلے اپنے اندرون اور پھر بیرون سے لڑی جائے در اصل حقیقی جنگ وہی ہے، ایک جینوین تخلیق کار اسی کی فصل کاٹنے کی کوشش کرتا ہے، اس کا مقصد لا متناہی ہوتا ہے ،جو سماج میں امن،محبت اور زندہ دلی کا چراغ جلاتا ہے۔ ان خیالات کا اظہار معروف شاعر، دہلی اور جامعہ ملیہ اسلامیہ، شعبہء اردو کے سربراہ پروفیسر شہپر رسول نے غالب اکیڈمی بستی حضرت نظام الدین میں منعقدہ خان جمیل مرحوم کے شعری مجموعہ ’’جنگ یہ کتنی بڑی ہے‘‘ کی رسم اجرا کے موقع پر اپنے صدارتی خطبے میں کیا۔ پروفیسر شہپر رسول نے کہا کہ خان جمیل ایک بہترین شاعر تھے، جنھوں نے زندگی کے حقائق کو اپنی شاعری کے ذریعے بیان کرنے کی کوشش کی ہے، ان کے کلام میں نیا پن ہے جو قاری کو اپنی گرفت میں لے لیتا ہے۔
اس موقع پر پروفیسر خالد محمود نے ایک تخلیق کار کے حوالے سے حساسیت کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ یہ حساسیت دو طرح کی ہوتی ہے ایک وہ جو صرف اپنے لئے ہو جب کہ دوسری قسم ان لوگوں کی ہوتی ہے جو دوسروں کے لئے بھی حساس ہوں، خان جمیل کا تعلق حساسیت کی دوسری قسم سے تھا۔ انھوں نے زندگی کی حقیقتوں کو اچھی طرح پہچان لیا تھا جس کا عکس ان کی شاعری میں بھی نظر آتا ہے۔ ان کے کلام کے کئی لہجے ہیں اور ہر لہجے سے بے انتہا شاخیں پھوٹتی ہیں۔ انھوں نے کہا کہ انسان کی زندگی ایک جنگ ہے جس سے وہ تا دمِ مرگ لڑتا رہتا ہے،خان جمیل نے اپنی شاعری میں اسی جنگ اور کشمکش کو دکھانے کی کوشش کی ہے اور اس میں وہ کامیاب رہے ہیں۔
پروفیسر کوثر مظہری نے کہا کہ خان جمیل کی شاعری معروضیت اور تسلسل کا پرتو ہے۔ انھوں نے جو کچھ بھی ادبی سرمایہ چھوڑا ہے وہ ایک شاہکار کا درجہ رکھتا ہے۔ ان کی باقی ماندہ تخلیقات کو بھی منظرِ عام پر لانا چاہئے تاکہ وہ ضائع نہ ہونے پائے۔ انھوں نے کہا کہ خان جمیل کی شاعری حقیقت اور سچائی کے رنگ میں ڈوبی ہوئی ہے اور یہی وہ وجوہ ہیں کہ اس کا مطالعہ کرتے ہوئے انسان خود اس کے اندر غرق ہو جاتا ہے۔ خان جمیل کے اندر ایک پر اسرار شخص چھپا ہوا تھا، انھوں نے کہا کہ ان کے کلام میں وہ پراسراریت خوب دکھائی دیتی ہے،جس کو تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔
ڈاکٹر نجمہ رحمانی نے کہا کہ ایک تخلیق کار کبھی نہیں مرتا، خان جمیل آج اگرچہ ظاہری طور پر ہمارے درمیان نہیں ہیں لیکن ان کی تخلیق ہمارے سامنے ہے ،جن سے ہم روشنی حاصل کر سکتے ہیں۔ شاعری کی خوبی یہ ہے کہ قاری اسے اپنے جذبات کا آئینہ تصور کرتا ہے، یہ آئینہ خان جمیل کی شاعری میں خوب نظر آتا ہے، جس میں محض لفظوں کی بازی گری نہیں ہے بلکہ ہلکے اور سادے انداز میں بڑی گہری باتیں کہی گئی ہیں۔ کتاب کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ زندگی بذات خود ایک جنگ ہے اور تخلیق کار نے اس جنگ کو اپنی تخلیق کے ذریعہ امر بنا دیا ہے۔
ڈاکٹر سرورالہدیٰ نے خان جمیل کی شاعری کی خصوصیات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ان کے یہاں جدید اور قدیم کا حسین امتزاج ہے، خان جمیل نئے زمانے میں نئے انداز کے اشعار کہتے ہیں لیکن اس میں بھی ماضی کی روایت اور اس کی اقدار کو ہاتھ سے جانے نہیں دیتے اور یہ ان کی بہت بڑی خوبی ہے جو ان کو کلاسیکیت تک پہنچا دیتی ہے۔ اس موقع پر انھوں نے خان جمیل کے کچھ اشعار بھی پیش کئے جسے سامعین نے کافی پسند کیا۔
خان جمیل بریلی کے ایک شاعر تھے، شاعری کے علاوہ آرٹ اور تاریخ سے بھی انھیں دلچسپی تھی۔ ان کے شعری مجموعہ کی رسم اجرا کی تقریب ان کے دوست اور اردو کے معروف فکشن نگار، فلسفی اور جامعہ ملیہ اسلامیہ شعبہ اردو کے پروفیسر ڈاکٹر خالد جاوید کی خصوصی دلچسپی سے مضامین ڈاٹ کام کے زیرِ اہتمام عمل میں آیا ، اس موقع پر ڈاکٹر خالد جاوید نے خان جمیل سے اپنے دیرینہ تعلقات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ خان جمیل بے حد تخلیقی اور فعال شخصیت کے حامل انسان تھے۔ وہ ایک اچھے شاعر کے علاوہ بہت اچھے آرٹسٹ بھی تھے ،جس کا عکس ان کی شاعری میں بھی خوب نظر آتا ہے۔ انھوں نے ایک تخلیق کار کی زندگی کو ٹریجڈی سے تعبیر کرتے ہوئے کہا کہ اسے المیہ ہی کہا جائے گا کہ ایک شخص جس کی کتاب چھپ چکی ہوتی ہے اور وہ اس کی ایک جھلک دیکھنے کے لئے بیتاب رہتا ہے لیکن نہیں دیکھ پاتااور موت اس کو اچک لے جاتی ہے۔
اس موقع پر خان جمیل کی صاحبزادی فرزانہ جمیل نے بھی انتہائی جذباتی اور رقت آمیز انداز میں اپنے والد سے متعلق احساسات و جذبات اور ان سے وابستہ یادیں بیان کیں، انھوں نے کہا کہ بیٹی ہونے کے ناطے انھوں نے اپنے والد کی زندگی کو بہت قریب سے دیکھا، ان کی زندگی میں جو بھی مصائب و آلام تھے وہ کسی پر ظاہر نہیں ہونے دیتے تھے، اس کا اثر ان کی تخلیق میں بھی نظر آتا ہے اور پھر وہ شاعری ہو یا آرٹ انسان جب اس کو دیکھتا یا پڑھتا ہے تو اس کو اس میں اپنا عکس نظر آتا ہے اور ایک تخلیق کار کی یہی کامیابی ہے۔
کاروانِ اردو قطر کے صدر عتیق انظر نے بھی ان کی شاعری کے حوالے سے گفتگو کی جس میں انھوں نے شاعری کی خوبی بتاتے ہوئے کہا کہ اس میں لفظ ضائع نہیں ہوتے اور ایک کامیاب تخلیق کار کی یہ نشانی ہوتی ہے کہ وہ اسے خوش اسلوبی سے برتے خان جمیل کے یہاں یہ خصوصیت خوب پائی جاتی ہے، ان کے کلام کے ہر لفظ میں شعریت ہے، ان کی یہی خصوصیت انھیں تادیر زندہ رکھے گی ۔
تقریب کی نظامت کے فرائض ڈاکٹر خالد مبشر اسسٹنٹ پروفیسر شعبہ اردو نے انجام دیتے ہوئے بطور خراج عقیدت خان جمیل کا منتخب کلام بھی پیش کیا۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ کے طالب علم فیض الرحمان نے اپنے مخصوص انداز میں خان جمیل کی غزل سنائی۔ معروف مترجم اور جامعہ سینئر سیکنڈری اسکول کے پرنسپل ڈاکٹر عبد النصیب خان نے خان جمیل کی ایک نظم \’\’زوال جاری ہے۔۔۔\’\’ کا انگریزی ترجمہ پیش کیا جسے سامعین نے کافی پسند کیا۔کلمات تشکر مضامین ڈاٹ کام کے سربراہ اور مدیر عرفان وحید نے ادا کئے، پروگرام کا آغاز عبد الرحمن کی تلاوت سے ہوا۔