خاک قبرش از من و تو زندہ تر !

مختار مسعود کی یاد میں
\"amn\"

٭عالم نقوی، علی گڑھ
اتوار ۱۶ اپریل کو ہمیں وہاٹس ایپ پر ایک پیغام ملا کہ ’’آہ مختار مسعود بھی ہم سے جدا ہوگئے ‘‘ کس نے بھیجا تھا یہ بتا پانا تو اب مشکل ہے لیکن نیچے’ از طرف زبیر قیصر اور ان کے آٹھ دیگر ساتھی ‘درج تھا ۔ لکھنے والے نے اِس مصرع سے خبر کی ابتدا کی تھی کہ ’’‘ڈوبتی جاتی ہیں مٹی میں بدن کی کشتیاں‘‘ اور پھر پہلا ہی جملہ اس کتاب دوست اہل قلم نے اس طرح لکھا تھا کہ نہ صرف اُن کی تینوں کتابوں کے نام آگئے تھے بلکہ ان کے ہزاروں یادگار جملوں میں سے ایک کی یاد بھی تازہ ہو گئی تھی کہ ’’قحط ا لغذا اور’ قحط ا لرجال‘ میں فرق بتانے والے مختار مسعود کو آخری ’سفر نصیب ‘ ہو گیا لیکن ’لوح ایام ‘ پر لکھی ہوئی تحریریں ’آواز دوست ‘بن کر اردو زبان و ادب کے مداحوں کوسنائی دیتی رہیں گی ۔مختار مسعود ،سر سید احمد خان کی مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کے فارغ ا لتحصیل اور پاکستان کے ابتدائی عشروں کے نہایت اہم بیوروکریٹ تھے ۔’لوح ایام‘ میں انقلاب ایران کا احوال انہوں نے RCDکی رحلت کے دنوں میں ،اپنی جان پر کھیل کر رقم کیا(تھا) ۔یہ کتاب دل اور دماغ کو ملا کر پڑھنے والی تصانیف میں سے ایک ہے ۔ان کی دیگر دو کتب ’آواز دوست ‘اور ’سفر نصیب ‘ بھی اپنی جگہ منفرد اور دستاویزی اہمیت کی حامل تحریریں ہیں ۔اردو نثر کا گلستان آج ایک قد آوَر’ برگد‘ سے محروم ہو گیا ۔ اللہ انہیں جہان دگر میں سکون عطا فرمائے ‘‘
اوپر جس RCDکا تذکرہ ہے وہ ’علاقائی تعا ون برائے ترقی ‘Regional Cooperation fir Developmentہے جس کا قیام ۱۹۶۴ میں ’سنٹو‘Central Treaty Organasation (Cento)کے بنیادی اراکین پاکستان ،ایران اور ترکی نے کیا تھا اور مختار مسعود اس کے سکریٹری جنرل کی حیثیت سے اس وقت ایران گئے تھے جب وہاں شاہ مخالف تحریک شباب پر تھی ۔جب امام خمینی کی قیادت میں وہاں اسلامی انقلابی حکومت قائم ہوئی، وہ تہران ہی میں تھے ۔ ۱۱ فروری ۱۹۷۹ کو شاہ ِخائن کے فرار کے بعداسلامی حکومت کے قیام کے ساتھ ہی RCDتحلیل کر دی گئی۔لیکن اُن کی آخری کتاب ’لوحِ ایام‘ ،جو ۱۹۹۶ میں شایع ہوئی، انقلاب ِایران کی ایک ایسی آنکھوں دیکھی دستاویز ہے جو آج بھی کسی غیر ایرانی کے غیر جانبدار قلم سے لکھی ہوئی سب سے زیادہ معتبر اور سب سے زیادہ مستند کتاب کا درجہ رکھتی ہے ۔
ان کا ’بے مثل و بے نظیر ‘ انداز ِ نگارِش خالص اُن کا اپنا تھا ۔اردو کے ہر بڑے اہل قلم کے اُسلوب سے بالکل ا لگ ،منفرد اور ممتاز !ان کی تینوں کتابوں کی مجموعی ضخامت ایک ہزار صفحات سے زیادہ نہیں لیکن وہ ہم جیسوں کے ہزاروں لاکھوں صفحات پر بھاری ہیں ۔ ’’اُسلوبِ مختاری و مسعودی ‘‘کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ ِاس بھاری پتھر کو چوم کے چھوڑ دینے ہی میں عافیت ہے کہ صاحبان ِاُسلوب اَہلِ قلم تو بلا شبہ اور بھی ہیں لیکن اُس عالمِ حقیقی نے جو قادرِ مطلق ہے، اِس طرزِ نَوِی کو اُن ہی کے ساتھ مخصوص کر دیا ہے۔
ان کی آخری کتاب’ لوحِ اَیام ‘ کی پشت پر شایع اُن کی تینوں کتابوں کا یہ مختصر ترین تعارف ،اُن کتابوں ہی کی طرح یاد گار ہے :
آواز دوست: ـلفظ لفظ قابل داد ،بعض فقرے لاجواب اور بعض صفحات داد سے بالا تر !
سفر نصیب ـ : چشم بینا کا سفر جو زادِ حیات سمیٹے تلاشِ حق میں سرگرداں ہے ۔اِس میں شامل دو خاکے اُردو کے بہترین خاکوں میں شمار کیے جا
سکتے ہیں ۔
لوح ایام: موضوع ایران کا انقلاب ،مخاطب اہل پاکستان ، لکھنے والا انقلاب کا چشم دید گواہ ،واقعات حیران کن ،بیان مسحور کن ،نتیجہ
ایک منفرد ادبی شاہکار ۔
’آواز دوست ‘انہوں نے اپنے والدین کو منسوب کی ہے لیکن ذرا اِنتساب کا بانکپن ملاحظہ فرمائیے : ’’پر ِکاہ اور پارہء سنگ کے نام ۔وہ پرِ کاہ جو والدہ مرحومہ کی قبر پر اُگنے والی گھاس کی پہلی پتی تھی اور وہ پارہء سنگ جو والد مرحوم کا لوح مزار ہے ! اس کا ’دیباچہ ‘ بھی صرف تین سطروں پر مشتمل ہے ۔لکھتے ہیں : ’’اس کتاب میں صرف دو مضمون ہیں ۔ایک طویل مختصر اور دوسراطویل تر ۔ان دونوں مضامین میں ’فکر اور خون ‘ کا رشتہ ہے ۔فکر سے مراد ’فکر فردا (کل کی فکر )ہے اور خون سے (مراد )’خونِ تمنا ‘(آرزوؤںاور خواہشوں کا خون)!
ان کے والد شیخ عطا ء اللہ (۱۸۹۶۔۱۹۶۸)۱۹۲۹ سے ۱۹۴۸ تک علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں معاشیات کے پروفیسر رہے انہوں نے مشاہیر اور ہم عصروں کے نام سر سید ،شبلی نعمانی اور اقبال کے خطوط جمع کر کے شایع کر دیے جو بلا شبہ ا یک بڑا کارنامہ ہے ۔شیخ عطا ء اللہ نے اورنگ زیب عالمگیر کے فارسی خطوط اور مترجم ِقرآن محمد مارما ڈیوک پکتھال کی مشہور انگریزی کتاب Oriental Encountersاور اسلامی ثقافت پر ان کی تقریروں کو اردو کا جامہ پہنا کر ، اردو والوں پر احسان عظیم کیا ۔مختار مسعود کی پوری تعلیم مسلم یونیورسٹی اور اس کے اسکولوں میں ہوئی ۔ لیکن تقسیم کے فوراً بعد وہ پاکستان ہجرت کر گئے۔ وہاں پہلی ہی بار میں سول سروس کے امتحان میں کامیابی حاصل کی اور قدرت اللہ شہاب و جمیل ا لدین عالی کی طرح سامراج کے قائم کردہ اِس ملوکانہ نظام میں بھی دیانت ،امانت ،حق گوئی اور راست بازی کے ریکارڈ قائم کیے اور بازار حکومت میں کبھی اپنے ایمان اور ضمیر کا سودا نہیں کیا ۔ این سعادت بزور بازو نیست !اس لیے کہ اُن ہی کے بقول ’’(سرکاری) دفتر میں کام کرنے کا ایک نقصان یہ بھی ہے کہ نظر صرف ’کاغذ ‘پر جمی رہتی ہے اور’ اِنسان‘ اس سے اُوجھل رہتا ہے ‘‘۔جو بات انہوں نے پاکستان کے لیے لکھی ہے وہی ہندستان پر بھی بعینہ، صادق آتی ہے کہ ’’ شاید (اِس طویل عرصے ) میں مائیں صرف اَفسر اور تاجر جنتی رہی ہیں ۔۔قدرت کا سارا نظام اصولوں کے تابع ہے ۔بڑے آدمیوں کی پیدائش کے بھی تو کچھ اصول ہوں گے ! ایسا معلوم ہوتا ہے کہ بڑے آدمی انعام کے طور پر دیے (جاتے ہیں ) اور سزا کے طور روک لیے جاتے ہیں ۔۔آخر قدرت ایک سپاس نا آشنا (اپنے ا َچھوں اور بڑوں کی قدر نہ کرنے والی ) قوم کوبڑے آدمی کیوں عطا کرے ؟ اُسے اپنے عطیے کی رسوائی اور بے قدری ناگوار گزرتی ہے ۔عطا کا پہلا حق یہ ہے کہ انسان اس کا شکر ادا کرے ۔دل شکر سے لبریز ہو تو روشن ہوجاتا ہے ۔شکوہ کیجئے تو بجھ جاتا ہے ۔ ناشکر گزار ہو تو پتھر بن جاتا ہے ۔شکر گزار ہمیشہ روشن ضمیر اور روشن دماغ ہوتا ہے ۔نا شکر گزار بے ضمیر اور بد دماغ ہو جاتا ہے ۔۔جو ملک اور قومیں اِس میزان پر پوری اُتریں اُنہیں مزید بڑے آدمی عطا ہوئے اور جو ناکام رہیں اُنہیں سزا کے طور پر اَیسے لوگ ملے جو ’’شامتِ اَعمال ‘‘ ہوا کرتے ہیں ‘‘۔۔جیسے آج کہ’’ بڑے آدمی زندگی میں کم اور کتابوں میں زیادہ‘‘ (ملتے ہیں )اور جو ہیں وہ مودیوں سے یوگیوں تک’ شامت ِاَعمالِ ما‘ ہمارے کیے کی سزا ہی تو ہیں !
انہوں نے ۹۱ سال کی بھر پور زندگی پائی ۱۵ دسمبر ۱۹۲۶ کو سیالکوٹ (غیر منقسم پنجاب )میں پیدا ہوئے اور ۱۵ اپریل ۲۰۱۷ کو لاہور (منقسم پنجاب)میں پیوند خاک ہو گئے ۔ انہوں نے آواز دوست کے آخری باب کے اختتام پر،قائد اعظم کے خاکے کی ا ٓخری سطور میں ان کی ایک تقریر کا یہ اقتباس نقل کیا ہے کہ : ’’آئیے اس ولندیزی ضرب ا لمثل کو اپنا دستور ا لعمل بنائیں کہ۔۔اگر انسان حوصلہ کھو دے بہت کچھ کھو جاتا ہے اور اگر آبرو چلی جائے تو سب کچھ کھو جاتا ہے لیکن روح مٹ جائے تو سب کچھ مٹ جاتا ہے ۔۔‘اور پھر لکھا کہ ۔’’یہ الفاظ اس شخص کے
ہیں جو انتقال کے ۔۔بعد بھی ’زندہ باد ‘ کہلاتا ہے اور کیوں نہ ہو کہ ’خاک قبرش از من و تو زندہ تر‘‘ ہم یہی بات مرحوم مختار مسعود کے لیے دہراتے ہوئے اپنے اِس ناقص کالم کو ،جو بلا شبہ اآن کے شایان شان نہیں ، تمام کرتے ہیں کہ وہ بھی زندہ باد ہیں اور اردو ادب کی تاریخ میں ہمیشہ’ زندہ باد ‘ ہی رہیں گے کیونکہ ’اُن کی قبر کی مٹی بھی ہما شما سے کہیں زیادہ زندہ و پائندہ ہے !
aalimnaqvi61@gmail.com
7300527442/8439508722

Leave a Comment