خیر پورسندھ میں انٹرنیشنل کانفرنس اور موہنجو ڈروکا مطالعاتی دورہ

(ادب اور ماحولیات)
\"10399912_100535539962261_7224601_n\"
تحریر:ڈاکٹر محمد اشرف کمال
صدر شعبہ اردو گورنمنٹ کالج بھکر

شاہ عبداللطیف یونیورسٹی خیر پور سندھ میں ۲دن کی بین الاقوامی کانفرنس کے بعد ڈاکٹر یوسف خشک اور ڈاکٹر صوفیہ خشک کی قیادت اور رہنمائی میںتیسرے دن تمام ملکی و غیر ملکی شرکائِ کانفرنس کو جن میںجرمنی سے ڈاکٹر تھامس اسٹیمر، ترکی سے ڈاکٹر آرزو،ایران سے ڈاکٹر وفا یزداں منش،سویڈن سے پروفیسر ڈاکٹر ہینز ورنر ویسلر ، مصر سے ڈاکٹر ابراہیم محمد ابراہیم ،ڈاکٹر اسامہ شیلبی،ڈاکٹر ہند عبدالحلیم،برطانیہ سے یشب تمنا ،مہ جبین غزل انصاری،امریکا سے بینا گوئندی، ڈنمارک سے صدف مرزا، پاکستان سے ڈاکٹر فاطمہ حسن، ڈاکٹر وحیدالرحمن، ڈاکٹر عقیل احمد جعفری، ڈاکٹر مقبول گیلانی،ڈاکٹر اشرف کمال،، سید طارق حسین، میجر اعظم کمال، ڈاکٹر ظفر حسین ظفر، ڈاکٹر عبداللہ جان عابد، ڈاکٹر نبیلہ رحمٰن،ڈاکٹر عظمیٰ سلیم،ڈاکٹر نورین رزاق، ڈاکٹر جاوید اقبال(کوئٹہ)، عامر سہیل (ایبٹ آباد)، ڈاکٹر غلام قاسم مجاہد بلوچ ،ڈاکٹر قاضی عبدالرحمٰن عابد ، ڈاکٹر عابد حسین سیال ،رخسانہ بلوچ، طیبہ نگہت، شامل تھے۔
دو دن کی کانفرنس ، عالمی مشاعرے اور موسیقی کی محفل کے بعد موہنجوڈرو کی سیر کرائی گئی۔ یہ چار ہزار سال پرانے شہر کی باقیات تھیں ۔ اچھا خاصا ترتیب سے بسایا گیا شہر تھا ۔شہر سے کچھ فاصلے پر بادشاہوں کے رہنے کے لیے محلات کے کھنڈرات کے آثار تھے اور ذرا سی دور فوجیوں کی چھاؤنی کے آثار موجود تھے جہاں اُس وقت اُن کی سپاہ قیام کرتی تھی۔
آثار قدیمہ کے مطابق وادیٔ سندھ کی تہذیب معاصر سمیری اور مصری تہذیبوں سے پیچھے نہیں تھی۔یہ تہذیب ۳۲۵۰ سے ۳۷۵۰ ق م سے تعلق رکھتی ہے۔
آر ڈی بینر جی(R.D Banerji)وہ آفیسر تھا جس نے ۱۹۲۲ء مین اس جگہ کا سروے کیا اور اسے بدھا سٹوپا کے حوالے سے دریافت کیا۔۱۹۳۰ء میں میجر ایکسکیویشن(Excavations)نے مارشل کی قیادت میں اس جگہ کا معائنہ کیا۔ ڈی کے ڈکشٹر، ارنسٹ میکے اور اس کے بعد ۱۹۴۵ء میں احمد حسن دانی اور مورٹائمر ویلر(Mortimer Wheeler)نے یہاں دریافتیں کیں۔ ۱۹۶۴ء میں ڈاکٹر جارج ایف ڈیلز نے اس جگہ پر کام کیا۔ ۱۹۸۰ء میں جرمن اور اتالوی سروے گروپ نے ڈاکٹر مائیکل اور ڈاکٹر موریزیو ٹوسی(Dr. Mauriziu Tosi)نے یہاں سروے کیااور موہنجوڈرو کے بارے میں مزید معلومات فراہم کیں۔یہ علاقہ 300 Hectarcsپہ پھیلا ہوا ہے جس میں اندازاً ۴۰۰۰۰ کے قریب لوگوں کی آبادی رہی ہوگی۔یہاں دو بڑے اسمبلی ہال تھے یہاں چھوٹے کنووں سے پانی نکالا جاتا تھا۔اور نکاسی کے لیے جو نالیاں استعمال ہوتی تھی وہ اوپر سے ڈھانپ دی جاتی تھیں۔یہ نالیا ں مختلف گلیوں سے گزرتی تھیں۔بعض مکانات ڈبل سٹوری تھے۔یہاں سے پرسٹ کنگ نامی مجسمہ،نیکلس اور ڈانسنگ گرل کا مجسمہ جیسی اشیاء برآمد ہوئیں۔
جہاں تک شہر کا تعلق ہے تو شہر خاصی اونچی جگہ پر بنا ہوا تھا۔سیڑھیاں چڑھ کر اوپر گئے۔شہر کے درمیان میں ایک اونچی جگہ سٹوپا تھا جہاں وہ لوگ اپنے دیوتاؤں کی عبادت کرتے تھے۔سٹوپا کے ارد گرد گلیاں اور مکانات تھے۔مکانات میں الگ الگ کمرے اور چھوٹے سٹور وغیرہ کے آثار تھے ۔باہر گلیوں میں پانی کی نکاسی کے لیے نالیوں کا نظام بھی تھا۔آبادی کے ایک طرف ایک بہت بڑا پختہ حوض تھا جہاں وہ کسی موقع یا تہوار پر نہاتے ہوں گے۔حوض کی لمبائی اور چوڑائی اچھی خاصی تھی حوض کا فرش چھوٹی ٹائلوں سے بنایا گیا تھا حوض کی دیواروں میں بھی چھوٹی اینٹیں ہی استعمال کی گئی تھیں۔حوض کے ایک جانب نیچے حوض میں اترنے کے لیے ایک سیڑھی انیٹوں سے بنائی گئی تھی جس کے آٹھ پائدان تھے۔جن کی چوڑائی چار فٹ کے قریب ہوگی۔آٹھویں سیڑھی نیچے اتر کر پھر ایک قدرے بڑا پائدان تھا جو حوض کی پوری چوڑائی کو محیط تھا ۔حوض میں ایک طرف شہر کی جانب سے پانی آنے کی نالی تھی جب کہ اس کے مخلاف سمت میں ایک نالی کے ذریعے نکاسی کا انتظام تھا۔حوض سے باہر جانے والی نالی کی گہرائی تین فٹ کے قریب تھی جو کہ شہر سے باہر نشیبی جگہ کی طرف چلی گئی تھی۔ہوسکتا ہے پہلے کبھی وہاں کھیت وغیرہ رہے ہوں گے۔ شہر کی گلیوں ہی میں مختلف جگہ پر چھوٹی سی دیوار کھڑی کرکے کوڑا کرکٹ جمع کرنے کی جگہ بھی بنائی جاتی تھی، جس سے ان کی تہذیب کا پتہ چلتا تھا کہ وہ صفائی پسند تھے۔مکانات چھوٹے چھوٹے تھے اور جیسا کہ ہمارے پرانے شہروں میں قیام پاکستان سے پہلے کے بنے ہوئے چھوٹے چھوٹے مکانات ہوتے ہیں اور ان مکانوں کے درمیان کوئی فاصلہ نہ تھا۔اس سے یہ پتہ چلتا تھا کہ ان کے ہاں لوگوں میں آپس میں زیادہ فاصلہ نہیں ہوتا تھا۔وہ اکٹھے رہنے کے عادی تھے۔
شاہی محلات کی طرف گئے تو تھوڑا سا فاصلہ طے کرنے کے بعد موہنجدڑوکے کھنڈرات کے آثاردکھائی دینے لگے۔ایک حد بندی کراس کر کے آگے بڑھے تو وہاں سامنے ہی شروع میں ایک کھلا گراؤنڈ تھا جس کے بارے میں یہ پتہ چلا کہ یہ ان کاا سمبلی ہال تھا جہاں یہاں کے بڑے مختلف اوقات اور مسائل کے حوالے سے اکٹھے ہوتے ہوں گے۔یہاں لوگ بیٹھتے ہوں گے اور اپنے مسائل اور حالات وواقعات کی روشنی میں مختلف فیصلے کرتے ہوں گے۔
آگے بڑھے تو ابھی زیادہ فاصلہ طے نہیں کیا تھا کہ محلات شروع ہوگئے ۔شروع ہی میں کنویں تھے اور یہ کنویں آگے جاکر بھی جگہ جگہ نظر آئے کئی کنویں سطح زمین کے ساتھ تھے اور کئی اوپر آٹھ دس فٹ اونچے تھے۔ لگتا ہے کہ دوسری منزل سے پانی نکالتے ہوں گے۔چونکہ ان محلات کی چھتیں گردش زمانہ کی وجہ سے موجود نہیں تھیںمگر چونکہ یہاں کئی جگہ سیڑھیاں بنی ہوئی تھیں جس سے پتہ چلتا ہے کہ یہ مکانات دو منزلہ رہے ہوں گے۔جن کے مکانات اوپر دوسری منزل پر تھے ان کے لیے یہ کنویں اونچے بنا دیے گئے تھے تاکہ وہ اوپر ہی سے ڈول یا کسی اور ذریعے سے پانی نکال کر استعمال کر سکیں۔
یہاں مکان ذرا بڑے تھے۔ بلکہ ایک اور چیز جو کہ اہمیت کی حامل تھی یہاں بڑے بڑے کمروں کی دیواریں دوہری تھیں۔ یعنی باہر پکی اینٹوں کی دیوار اور اندر کچی دیوار بنائی گئی تھی۔ کہیں ان دونوں دیواروں کے درمیان دو تین فٹ کا فاصلہ تھا اور کہیں چار پانچ فٹ کا۔ ہر کمرے میں اوپر پانچ چھ فٹ اونچا اور ڈھائی تین فٹ چوڑا شگاف چھوڑا گیا تھا تاکہ ہوا کا گزر ہو اور کمرے ہواداراور ٹھنڈے رہیں۔یہ ایک ایسا نظام تھا کہ جو دستیاب وسائل کو مد نظر رکھتے ہوئے کسی بڑے ماہر تعمیرات کا ہی ہوسکتا ہے۔کمروں کے ساتھ اندر سٹور بھی بنے ہوئے تھے جن میں مختلف قسم کا ضروری اور قیمتی سامان رکھا جاتا ہوگا۔
ان کمروں کی دیواریں پانچ فٹ تک موٹی تھیں۔آگے جاکر ایک چوڑی گلی آئی جس کے بارے میں یہ قیاس آرائی تھی کہ یہاں ان کا بازار لگتا ہوگا۔کیوں کہ یہاں سے کچھ ایسی چیزیں برآمد ہوئی جن کا تعلق تجارت سے تھا۔
قیاس کیا جاسکتا ہے کہ اس بازار کے دوسری طرف بھی اسی قسم کے مکانات اور محل چوبارے بنے ہوئے ہوں گے، کیونکہ ہمیشہ بازار آبادی کے درمیان میں ہوتا ہے۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ مزید کھادائی سے ان لوگوں کا کوئی شاہی خزانہ اور قیمتی سازوسامان بھی برآمد ہوجائے۔
اس سے آگے کی جگہ کو ابھی ایسے ہی بغیر کھدائی کے چھوڑ دیا گیا تھا ، نجانے یہاں کیا کیا تہذیبی وثقافتی خزانے دفن ہیں ۔افسوس ہمارے پاس اتنے ذرائع ، ماہرین اور مواقع بھی دستیاب نہیں کہ اس جگہ کی حفاظت سے کھدائی کرکے یہاں سے ان تہذیبی اور تاریخی نوادرات ہی نکال کر محفوظ کرسکیں ۔
شہر سے برآمد ہونے والی اشیاء اور ان کی باقیات کی نمائش کے لیے ایک میوزیم بھی وہاں موجود ہے۔اُس میوزیم میں اس انداز میں شیشے لگائے گئے تھے کہ کوئی بلب وغیرہ جلانے کی ضرورت پیش نہ آتی تھی۔شیشے کے بڑے بڑے شوکیسوں میں اشیاء رکھی گئی تھیں۔میوزیم میں ایک گائیڈ بھی موجود تھا جس نے ہماری رہنمائی کی۔ایک دیوار پر موہنجوڈرو شہر کی تصویر بنائی گئی تھی کہ وہ اس دور میں یعنی ہزاروں سال پہلے جب موجود تھا تو کیسا رہا ہوگا۔
وہاں پر مٹی کے مختلف چھوٹے بڑے برتن ،ہانڈیاں، گلاس، پیالے، ہیٹر،موجود تھے۔ کچھ برتنوں پر جانوروں کی تصاویر بھی بنی تھیں۔کلہاڑی اور چھری نما چھوٹے بڑے سائز کے کئی اوزار بھی تھے جن میں سے بیشتر پتھر یا تانبے کے بنے ہوئے تھے۔ تانبے ہی کی بنی ہوئی سوئی بھی تھی جس میں دھاگہ ڈالنے کے لیے سوراخ بھی تھا۔بچوں کے کھلونے بھی تھے جن میں بیل گاڑی تھی جس پہ چھوٹی چھوٹی مٹی کی ہانڈیاں رکھی ہوئی تھیں۔مٹی کا ایک چھوٹا سا پانی کاتالاب بھی تھا اور چھوٹے چھوٹے مٹی کے بنے ہوئے جانور بھی تھے۔اس کے علاوہ چھوٹے چھوٹے اور دوسرے جانداروں کے کھلونا نما بت بھی بنائے گئے تھے۔مٹی کے برتنوں میں کچھ برتن بڑے اور کھلے منہ کے تھے جبکہ کچھ تنگ منہ کے تھے ۔مٹی کے پیالے اور مختلف انداز کے گلاس بھی تھے جن کی لمبائی چوڑائی بھی مختلف تھی۔اور یہ سب بڑی نفاست اور مہارت سے بنائے گئے تھے۔تھال نما برتن بھی تھے جو کہ آج کل گھروں میں آٹا وغیرہ گوندھنے میں استعمال ہوتے ہیں۔مصالحہ پیسنے کے لیے سل بھی موجود تھی جو کہ پتھر کی تھی۔آج کل جو سل استعمال ہوتی ہیں وہ ان سے اس حوالے سے مختلف تھی کہ اس کے سرمیان کی جگہ ہموار نہیں تھی بلکہ درمیان سے وہ کونڈی کی شکل میں تھی اور اس میں مسالحہ پیسنے میں استعمال ہونے والا پتھر بھی رکھا گیا تھا۔ایک مٹی کے برتن میں اس دور کے گندم کے دانے بھی رکھے تھے جن کا رنگ سیاہ ہوچکا تھا۔اور ساتھ ہی اس سٹور کا نقشہ بھی تھا جس سے وہ گندم برآمد ہوئی تھی۔ایک مٹی کا بہت بڑا برتن بھی موجود تھا جس کے منہ پر کسی جانور کی کھال منڈھ کر اسے میدان جنگ میں نقارے کے طور پر استعمال کیاجاتا رہا ہوگا۔
انھی اشیاء میں ایک ترازو بھی تھا جو کہ بہت چھوٹا اور نفیس تھا جیسا کہ آج کل سونا تولنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ساتھ چھوٹے بڑے مختلف رنگوں کے پتھروں کے بنے ہوئے بہت سے باٹ بھی تھے۔ایک شوکیس میں اس دور کے انسان کے ڈھانچے کی کچھ ہڈیاں بھی رکھی گئی تھیں۔ اور ایک تصویر کے ذریعے یہ بتایا گیا تھا کہ ایک کمرے سے کئی لوگوں کی لاشوں کی باقیات ہڈیوں کی شکل میں ملیں، جس سے یہ ظاہر ہوتا تھا کہ انھیں کوئی حادثہ پیش آیا ہوگا جس کی وجہ سے وہ باہر بھی نہ نکل سکے ۔
عورتوں کے پہننے کے لیے زیورات بھی تھے جو کہ پتھر یا پھر مٹی کے بنے ہوئے تھے۔پتھر کے بنے ہوئے ہار کی طرح کے کئی زیور تھے۔چھوٹی چھوٹی مہریں بھی تھیں جن پر مختلف تصاویر کھدائی سے بنائی گئی تھیں۔
موہنجوڈرو اور ہڑپہ کی کھدائی اور ان شہروں کی تہذیب دیکھنے اور یہاں کے لوگوں کے رہن سہن کو دیکھنے کے بعد اس بات کا پتہ چلتا ہے کہ یہاں ہزاروں سال پہلے وہ قومیں آباد تھیں جو نہ صرف مہذب تھیں بلکہ ان کے ہاں ریاست کے خدوخال بھی موجود تھے۔ برصغیر کا شمار ان علاقوں میں کیاجاسکتا ہے جہاں تمدن اور تہذیب نے کئی رنگ دیکھے یہاں دریاؤں کے کنارے کئی تہذیبوں نے آنکھ کھولی اور پروان چڑھیں۔یہاں لوگوں میں باہم رابطے کے لیے ایک ایسی زبان موجود تھی جس مین وہ نہ صرف اپنے خیالات وجذبات کا اظہار کرتے تھے بلکہ علوم وفنون اور مہارتوں مین بھی اسے استعمال کرنے کے فن سے آگاہ تھے۔ موہنجوڈرو کی زبان کو سمجھنے کی کوششیں جاری ہیں کئی ماہرین لسانیات اس حوالے سے کام کرچکے ہیں۔امید ہے کہ کبھی یہ عقدہ وا ہوجائے گا، پھر اس قوم کے بارے میں زیادہ بہتر معلومات مل سکیں گی جو کہ اس وقت موجود تھی ۔بہرحال تصاویر اور اشیاء کی بھی زبان ہوتی ہے ان اشیاء کی زبان سے بھی ہمیں بیش قیمت معلومات ملتی ہیں ۔

موہنجوڈرو اورپاکستان کی زبانیں
برصغیر کی تاریخ بہت پرانی ہے۔ اس میں ہزاروں تہذیبوں سے تعلق رکھنے والے لوگ آتے رہے اور آباد ہوتے رہے۔ یہاں ہزاروں زبانیںبولی جاتی ہیں ۔ہر زبان کی کئی بولیاں رائج ہیں۔
عین الحق فریدکوٹی آرین کے بارے میں لکھتے ہیں:
ہم بڑے وثوق سے کہہ سکتے ہیں کہ جن قبائل سے نووارد آریاؤں کو دوچار ہونا پڑا وہ ہڑپہ اور موئن جودڑو کے باشندے تھے اور ان دونوں کی زبانوں کی باہمی آمیزش کے نتیجے میں نئی بولیوں نے جنم لیا جو کہ موجودہ زبانوں کا پیش خیمہ ثابت ہوئیں۔(اردو زبان کی قدیم تاریخ،لاہور، اورئینٹ ریسرچ سنٹرطبع سوم ۱۹۸۸ء،ص۱۳۲)
آریا قوم سے پہلے برصغیر پاک وہند میں کولاری اور دراوڑی اقوام کا دور دورہ رہا اور کوہ ہمالیہ کے دامن میں منگولی نسل کے قبائل آباد تھے۔عین الحق فریدکوٹی کے مطابق دراوڑ بھی یہاں کے باشندے نہیں تھے بلکہ وہ آرین سے ڈیڑھ ہزارسال قبل مسیح آئے تھے اور ان سے پہلے یہاں مُنڈا قبائل موجود تھے جو قدیم آسٹریلوی نسل سے تعلق رکھتے تھے۔ منڈا قبائل کو برصغیر کے قدیم ترین باشندے قرار دیا جاتا ہے۔(ص۹۶)
ہڑپہ اور موہنجودڑو کے آثار برآمد ہونے کے بعد مزید تحقیق سے یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچی کہ ان سے پہلے بھی یہاں کوئی تہذیب موجود تھی،موہنجو دڑو کے قریب واقع ’آمری‘اور بلوچستان میں ’نال‘ کے مقام پر دریافت ہونے والے آثار قدیمہ اور پھر سندھ میں کوٹ ڈیجی کے کھنڈرات اس سلسلے کی اہم کڑیاں ہیں اسے آمری نال تہذیب کا نام دیا گیا ہے ۔(اردو زبان کی قدیم تاریخ،ص۹۷)ان کے آثار ۲۲۰۰ قبل مسیح تک موجود تھے پھر یہ ہڑپہ تہذیب میں مدغم ہوگئے۔اس تہذیب کا سرا حجری عہد اور کانسی کے دور سے بھی جوڑا جاتا ہے۔
موہنجوڈرو سے جوچھوٹی چھوٹی مہریں برآمد ہوئی ہیں ان مین بعض جگہ رسم الخط بائیں سے دائیں ہے اور بعض میں دائیں سے بائیں۔ان مہروں پر جو علامتیں ہیں ان مین جانوروں انسانوں، کیکڑوں ،پرندوں ،مچھلیوں اور پہاڑوں کی تصاویر کے علاوہ گنتی کے حوالے سے کچھ لکیریں بھی ہیں۔محققین کے خیال میں ۷۵۰ سے زیادہ اس قسم کے اندراجات ہیں جنھیں زبان کے حروف کے طور پر استعمال کیاجاتا رہا ہوگا۔اگرچہ ان تحریروں کا پڑھا نہیں جاسکا مگر یہ طے کہ ان تحریروں کا سنسکرت سے کوئی تعلق نہیں۔اور یہ سنسکرت سے بہت پہلے کی تحریریں ہیں۔۔ممکن ہے وادیٔ سندھ کی زبان عراق کی سمیری زبان مین تعلق رہا ہو۔وادیٔ سندھ کا رسم الخط موجودہ رسم خط اینم(موجودہ خوزستان) کے رسم خط سے مشابہ تھا اور سمیری سے نسبتاً کم۔(فن تحریر کی تاریخ از محمد اسحاق صدیقی ، نگار کراچی ستمبر ۱۹۵۳،ص۳۲)
بعض محققین براہوی زبان کا تعلق موہنجودڑو سے جوڑتے ہیں۔
براہوی زبان کا تعلق دراوڑی زبانوں سے ہے ۔یہ پاکستان کی ایک قدیم زبان ہے۔اس زبان کے بولنے والوں کی ایک کثیر تعداد بلوچستان میں رہتی ہے۔براہوی فارسی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی پہاڑی آدمی کے ہیں۔
یہ قیاس ہے کہ براہوی وادی سندھ کی قدیم تہذیب موہنجودڑو کے بانیوں میں سے ہیں۔جسے ہم براہوی میں موننا دڑو کہہ سکتے ہیں جس کے معنی پرانے ٹیلے یا کھنڈر کے ہیں۔اور وہ یہ تہذیب میسو پوٹامیہ (عراق) ایشیائے کوچک اور مشرقی بحیرہ روم سے لائے۔وادی سندھ کی قدیم زبان اب تک مکمل طور پر پڑھی نہیں جاسکی ہے۔(عبدالرحمٰن براہوی‘ڈاکٹر،براہوی زبان وادب کی مختصر تاریخ، لاہور، مرکزی اردو بورڈ، ۱۹۸۲ء،ص۴۶)
ڈنمارک کے ڈاکٹر آسکوپرپولا کہتے ہیں کہ موہنجودڑو کی زبان براہوی سے ملتی ہے۔ اس لیے ہم یہ کہنے میں حق بجانب ہوں گے کہ یہ قدیم براہوی کی شکل ہوگی۔(عبدالرحمٰن براہوی‘ڈاکٹر،براہوی زبان وادب کی مختصر تاریخ،ص۴۶)
مختلف قیاس آرائیوں کے نتیجے میں یہ کہا جاتا ہے کہ یہ قدیم براہوی کی شکل ہوگی۔اور موہنجودڑو کے لوگ بھی دراوڑی بولتے تھے۔براہوی نے بلوچی، فارسی، جٹکی، سندھی الفاظ کو جذب کیا ہے۔
براہوی قدیم دور میں ہیرو غلفی رسم الخط میں لکھی جاتی تھی،یہ بھی کہا جاتا ہے کہ موہنجودڑو کا رسم الخط براہوی کا قدیم ترین رسم الخط تھا۔(عبدالرحمٰن براہوی‘ڈاکٹر،براہوی زبان وادب کی مختصر تاریخ،ص۵۵) دو ہزار سال قبل اس کے نمونے خروشتی رسم الخط میں بھی ملے ہیں، ہم کہہ سکتے ہیں کہ دو ہزار سال پہلے جو زبان سندھ اور جہلم کی وادی میں بولی جاتی تھی وہ براہوی زبان تھی۔گندھارا تہذیب کا بڑا حصہ اسی زبان پر مبنی تھا۔
صوبہ سندھ میں بولی جانے والی زبان کو سندھی کہاجاتا ہے۔لاڑ زیریں سندھ، وچولو وسطی سندھ سرو یونی بالائی سندھ میں یہ علاقہ منقسم ہے۔ سندھی میں چھ بولیاں پائی جاتی ہیں۔
۱۔سریلی(سندھ کے شمالی حصے میں)
۲۔وچولی(سندھ کے وسطی حصے میں)
۳۔لاڑی(سندھ کے جنوبی حصے میں)
۴۔لاسی(ریاست لس بیلا وغیرہ)
۵۔تھری یا تھریلی(سندھ کے مشرقی حصے مین اور سندھ وراجستان کے سرحدی علاقوں میں)
۶۔کچھی(سندھ کی جنوبی سرحد پر گجرات کے اوپر علاقۂ کچھ میں)
ان تمام بولیوںمیں سے وچولی کو معیاری بولی ہونے کا شرف حاصل ہے۔یہ ادب اور پڑھے لوگوں کی زبان ہے۔سندھی وادیٔ سندھ کی قدیم ہند آریائی زبان ہے۔سنسکرت اور سندھی بلکہ تمام جدید ہند آریائی زبانوں میں گہرا تعلق ہے ۔(شرف الدین اصلاحی، اردو سندھی کے لسانی روابط، لاہور، نیشنل بک فاؤنڈیشن، بار دوم،۱۹۷۶ء،ص۵۵)ڈاکٹر بلوچ کے خیال میں سندھی سنسکرت سے براہ راست نہیں نکلی بلکہ یہ وادیٔ سندھ کی قدیم زبان ہے ۔جس کا تعلق ماقبل تاریخ سے ہے جس کے باقیات موئن جودڑو کی کھدائی سے مہروں کی شکل میں حاصل ہوئے ہیں۔ان کے خیال میں سندھ کا تاریخی رشتہ سنسکرت سے پہلے کی کسی مقبول عام پروٹو پراکرت سے ملتا ہے۔خاص سندھ کی قدیم زبان کی تشکیل میں سمیر اور بابل کے تمدن والی زبانوں اور سامی صفت زبانوں کے اجزا شامل ہیں۔(سندھی بولی جی مختصر تاریخ،حیدرآباد سندھ،۱۹۶۲ء،ص۱۸،۶۲)یعنی سندھ کی قدیم زبان سامی صفت اور موجودہ سندھی زبان کے ہند آریائی ہونے میں کوئی تضاد نہیں ۔(شرف الدین اصلاحی،ص۵۶)
رشید اختر ندوی کے مطابق سندھ میں بولے جانے والی موجودہ سندھی اور اس سے ملحقہ علاقوں میں بولے جانے والی پنجابی بھی ڈراویڈن یا تورانی الاصل ہے اور وہ زبان ہے جو ہنٹر نے موہنجوڈرو،وادی ژوب اور بعض دوسرے مقامات سے برآمد ہونے والی مہروں پر کندہ ملی ہے۔یہ سب زبانیں پانچچ ہزار سال قبل مسیح سندھ اور بلوچستان میں آنے والے ڈراویڈن کی زبان سے نکلی ہیں ۔(رشید اختر ندوی، ارض پاکستان کی تاریخ، اسلام آباد،ص۷۱)
موہنجوڈرو کی تہذیب اور زبان لا محاملہ طور پر اس علاقے کی تہذیب وثقافت اور زبانوں پر کسی نہ کسی انداز میں موجود ہے۔آنے والا وقت اور جدید تحقیق ضرور اس حوالے سے نئے حقائق سامنے لائے گی۔

Leave a Comment