تبصرہ :ڈاکٹر شہلا نواب ادیبہ ، صحافیہ و شاعرہ
ایم اے اردو سیاسیات ،ایم ایڈ،پی ایچ ڈی ،ماسٹر ان جرنلزم اینڈ ماس کمیونکیشن اور ایل ایل بی
3359-62کوچہ جلال بخاری ،دریا گنج ،دہلی 110002
shehlanawab@gmail.com
مجھے بہت افسوس ہے یہ مضمون مرحوم کی زندگی میں شائع نہیں ہوسکاان کے انتقال کے چند رو ز پہلے ہی یہ مضمون لکھا تھا ان سے فون پر بات ہوئی مگر تاخیر میں بہت سے حالات بدل گئے اللہ مرحوم کو جنت نصیب کرے۔
اردو دنیا میں شمس رمزی کا نام محتاج ِتعارف نہیں ہے۔وہ ایک شاعر ،ادیب،نقاد ،محقق،اور ماہر ِ عروض کے طور پر جانے پہچانے جاتے ہیں۔شمس رمزی اردو شاعری کے اساتذہ فن کی صف سے تعلق رکھتے ہیں۔’’فلک چھونے کی آرزو ‘‘ان کی غزلیات کا مجموعہ ہے جو 287صفحات پر پھیلا ہوا ہے اس سے قبل ان کی کئی نظم و نثر کی کتابیں منظر عام پر آکر اردو حلقوں سے داد تحسین وصول کرچکی ہیں ۔’’آئینہ در آئینہ ‘‘ان کی تنقیدی کتاب ہے جو ہند وپاک کے ممتاز مشاہیر شعرا کا عروضی تجزیہ ہے۔’’آئینہ در آئینہ‘‘ نے آپ کی شہرت و مقبولیت کو بام ِعروج پر پہنچایا ہے اور جس کے مطالعہ کے بعداردو دنیا آپ کو ایک کامل استاد کے طور پر پہچانی۔
میرے سامنے اسوقت انکا شعری مجموعہ’’ فلک چھونے کی آرزو‘‘ہے ۔مجموعے کی ابتداء حمد باری تعالیٰ سے اس طرح ہوتی ہے
سچ ہے واحد ہے احد ہے تیری ذات
اور اللہ الصمد ہے تیری ذات
تو ہے خالق ہم تری مخلوق ہیں
محترم ہے مستند ہے تیری ذات
حمد باری کے بعد پیغمبر ِاسلام محمدﷺ کے حضور ہدیہ نعت کا نذرانہ پیش کیا ہے کہتے ہیں
میرے گھر کا بچہ بچہ شاہ مدینہ آپ کے نام
ان کا جینا ا کا مرنا شاہ مدینہ آپ کے نام
نعت پاک کے بعد چند مشاہیر قلمکاروں کی آراء شامل ہیں۔جن میں پروفیسر قمر رئیس ،پروفیسر توقیر احمد خان،جناب فاروق ارگلی،ڈاکٹر اسلم حنیف،جناب فصیح اکمل قادری،ان کے بعد ’’میری بات‘‘ کے عنوان سے شمس رمزی نے اپنے بارے میں طویل گفتگو کی ہے پروفیسر قمر رئیس تحریر فرماتے ہیں کہ’’ شمس رمزی دہلی کے اساتذہ فن کی صف سے تعلق رکھتے ہیں۔عروض اور علم بیان کے رموز پر گہری نظر رکھتے ہیں اس لئے شاعری اور فن ِشاعری کی تفہیم و تنقید ان کی شہرت اور توقیر کا وسیلہ بنا۔پروفیسر توقیر احمد خاں تحریر فرماتے ہیں کہ’’ شمس رمزی شخصی اعتبارسے کئی حیثیتوں کے مالک ہیں شعری ،ادبی،سیاسی اور سماجی حلقوں میں پہچانے جاتے ہیں لیکن علم اور فن کی دنیا میں وہ اپنا ایک ممتاز مقام رکھتے ہیں۔ایک قادر الکلام شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ ایک اچھے عروض داں بھی ہیں۔اس غیر معمولی فن پر انہیں کامل دسترس اور عبور حاصل ہے۔جسکی وجہ سے ان کے معاصرین ان سے خائف اور لرزہ بر اندام رہتے ہیں ‘‘۔جناب فاروق ارگلی تحریر فرماتے ہیں ’’ادب کے منظرنامے پر شمس رمزی کی صورت میں ایک چراغ ِ علم و آگہی روشن ہے جس کی تنویریں تنگنائے شعر و سخن کو منور کررہی ہیں ۔دراصل شمس اس دور میں دہلی کے دبستان ِ شاعری کی تاریخ کے سب سے کم عمر لیکن قد آور استاد شاعر ہیں جو عروض و بلاغت اور نکات سخن سے آگاہ ،زبان و فرہنگ پر غیر معمولی دستگاہ رکھنے والے جواں سال بزرگ ہیں ‘‘۔جناب اسلم حنیف تحریرفرماتے ہیں’’شمس رمزی نے اپنے استاد محترم علامہ رمز آفاقی سے معائب و محاسن کے سلسلے میں جو کچھ سیکھا ہے شعوری طور پر وہ اس پر کاربند رہتے ہیںاور جدید شاعری کے میدان سے ہم آہنگی کو ضروری تصور کرتے ہیں‘‘ ۔
شمس رمزی کا اسلوب جن عناصر سے مرتب ہوا ہے ان میں سادگی،ندرت اور عصری حسیت کی آمیزش موجود ہے۔جو انہیں معاصر جدید لا تحریک نئی نسل کے شعراء کی صف میں اہمیت کا حامل بنا دیتی ہے جناب فصیح اکمل قادری تحریر فرماتے ہیں ’’شمس رمزی ادبی کارواں میں تقریباً 1970کے بعد کی نسل تازہ کار میں ایک معروف و معتبر حوالہ بن کر شامل ہوئے اور اپنے فکری جوہر سے انہوں نے غزل کو اپنا رنگ و آہنگ دینے کی مسلسل و متواتر کوشش کی زبان کی اصلاح اور معیار و وقار کو انھوں نے ہمیشہ نظر میں رکھاجہاں جہاں اور جس جس کے یہاں انھیں معیار و وقار ِ زبان مجروح ہوتا نظر آیا انہوں نے بے لاگ اس کا محاسبہ کیا‘‘۔
عروضی باریکیوں ،فنی نکات ،زبان کی نوک پلک کا خیال انھیں ہر نفس رہتا ہے اور یہی اس فن میں ان کا تمغہ امتیاز ہے۔’’میری بات‘‘ کے تحت شمس رمزی نے شاعری کے سلسلے میں کافی طویل گفتگو کی ہے۔ان کی گفتگو کا ایک جملہ یہاں کوڈ کرتے ہیں۔’’شاعری میں خوبصورت الفاظ معنی و مفہوم ،زبان کے لغوی اور مجازی صورتوں آہنگ و بحور کے اصولوں اور فن کے لوازمات سے صرف نظر کرنا ممکن ہی نہیں ہے۔‘‘۔ان ممتاز نقاد ان ادب کے بعد یہ کہنے کی گنجائش نہیں ہے کہ شمس رمزی کس معیار اور درجہ کے شاعر اور ادیب تھے ،یہ تمام دعوے بیکار نہیں ہیں بلکہ ان میں حقیقت ہے کہ واقعی شمس رمزی جیسا صاحب ِ فن دبستان ِ دہلی کے علمی و فنی چراغ کو روشن کررہاتھا اور اس چرا غ سے سیکڑوں چراغ بھی روشن ہورہے تھے۔مگر اب کہیں کہیں ان چراغوں کی لو ٹمٹمارہی ہے۔ مگر ادب میں ان کی خدمات کا اعتراف نہایت ضروری ہے۔
شمس رمزی نے طویل غزلیں بھی کہی ہیںاور نئی نئی زمینوں میں ہر ممکنہ قافیہ باندھنے کی کوشش کی ہے ہم اسے ان کی قادر الکلامی کا نام دیتے ہیں۔
حرمت ِ الفاظ سے پیہم وضو کرتا رہا
میں کتابوں سے ہمیشہ گفتگو کرتا رہا
حرمت الفاظ سے وضو کرنا اور کتابوں سے گفتگو کرنے کا عمل شاید کسی دوسرے شاعر کے یہاں ملے۔اہلِ نظر اس شعر کی حرمت و عظمت کوخوب سمجھتے ہیں۔
یہ پتا کب تھا کہ پیروں سے زمیں بھی جائے گی
میں فلک چھونے کی اکثر آرزو کرتا رہا
شمس رمزی نے نئی اور مشکل زمینوںمیں شعر کہہ کر جس فنی پختگی کا ثبوت دیا ہے۔وہ عہدِ حاضر میں نا پید ہوتا جارہا ہے۔ایک غزل میں بڑے اعتماد کے ساتھ کہتے ہیںکہ
معتبر لفظو ںسے خود کو مستند کرتا رہا
جتنی تحریر یں غلط تھیں مسترد کرتا رہا
حقیقت یہ ہے کہ شمس رمزی نے نئی نئی زمینوں کی ایک کہکشاں بچھادی ہے مثلاً
میرے خواب کی تعبیریں ہیں پتھر دریا ساحل ریت
کتنی بھیانک تصویریں ہیں پتھر دریا ساحل ریت
ان کے چند مشہورزمانہ شعر اسوقت مجھے یاد آگئے ہیں۔آپ بھی ملاحظہ فرمائیں
خامشی چھپاتی ہے عیب اور ہنر دونوں
شخصیت کا اندازہ گفتگو سے ہوتا ہے
٭٭٭
کتنا شرمندہ کرے گی آج پھر بچوں کی بھوک
اشک لیکر آج بھی لوٹا ہوں میں بازار سے
٭٭٭
جہاں خیال کے دریا بھی سوکھ جاتے ہیں
ہم اہل ِ فکر وہاں تشنگی بجھاتے ہیں
٭٭٭
جتنے چہروںکو ہو اآئینہ ہونے کا غرور
میںانھیں کو آئینے کے روبرو کرتا رہا
٭٭٭
فرشتوں آئو مری درسگاہ میں بیٹھو
بیان رتبہء انسان کرنا چاہتا ہوں
٭٭٭
ّٓ اس طرح کے سیکڑوں شعر شمس رمزی کی شعری کائنات میں قاری کو مل جائیں گے ۔شمس رمزی کی شاعری کو پڑھتے ہوئے یہ احساس بھی رہتا ہے کہ ان کے ہاں شعر کہنا کوئی مسئلہ نہیں تھا وہ جب چاہیں اور جس زمین میں بھی چاہیں بہتر سے بہتر شعر کہہ سکتے تھے ۔’’فلک چھونے کی آرزو‘‘، ’’غبار ِ شمس ‘‘اور’’ آئینہ درآ ئینہ ‘‘ان کا مجموعہ کلام اور تنقیدی کتابیں نئی نسل کے شعراء کوپڑھنا چاہئے۔