احمد رشید
گلی رہٹ والا کنواں،سرائے رحمن، علی گڑھ
ذکیہ مشہدی اپنے ڈھب کی الگ فنکار ہیں جن کی قلم میں روانی بھی ہے اور موضوعات کی تازگی بھی۔وہ جن موضوعات پر قلم اٹھاتی ہیں اُس کا پورا پورا حق ادا کرتی ہیں۔ان کے تاہنوز چھہ افسانوی مجموعے اشاعت سے ہمکنار ہوچکے ہیں جو درج ذیل ہیں:
۱۔ پرائے چہرے ۱۹۸۴ء
۲۔ تاریک راہوں کے مسافر ۱۹۹۳ء
۳۔ صدائے بازگشت ۲۰۰۳ء
۴۔ نقش ناتمام ۲۰۰۸ء
۵۔ یہ جہانِ رنگ وبو ۲۰۱۳ء
۶۔ آنکھن دیکھی ۲۰۱۷ء
مندجہ بالا مجموعوں میں شامل افسانوں کی تعداد مجموعی طور پر اکیاسی[۸۱] بنتی ہے ۔ان میں دو ناولٹ ’قصہ جانکی رمن پانڈے‘اور’پارسا بی بی کا بگھار‘بھی شامل ہے۔آخر الذکر ناولٹ الگ سے کتابی صورت میں بھی منظر عام پر آچکی ہے۔ذکیہ مشہدی کا قد ہمعصر افسانے میں بڑھتا ہوا نظر آتا ہے۔انھوں نے مختلف موضوعات پر کئی اہم کہانیاں تخلیق کی ہیں۔ضرورت اس بات کی ہے کہ ان کے تمام افسانوں کا تفصیلی مطالعہ کیا جائے لیکن پھر بھی یہاں چند نمائندہ افسانوں کا تجزیہ پیش کیا جارہا ہے۔
فضلو بابا ٹخ ٹخ
افسانہ ’’فضلو بابا ٹخ ٹخ‘‘ کے عنوان سے جاسوسی کہانیوں جیسی پراسراریت ظاہر ہوتی ہے لیکن سماجی ربط و ضبط اور تہذیبی اقدار کے اظہار پر مبنی کہانی ہمیںایک نئی کائنات کی سیر کراتی ہے۔افسانہ عناصر ترکیبی کی ترتیب میں کہانی ابتدا کچھ اختتامیہ میںہوتی ہے لیکن مذکورہ افسانہ کے وسط میں مستتر ہے۔تکنیکی سطح پرافسانہ در افسانہ کی نہج پرکہانی کی تشکیل کی گئی ہے جو اس کا انفراد ہے ایک انوکھی تکنیک کے ساتھ افسانہ ہمارے سامنے مؤثر انداز میں نمودار ہوتا ہے اس طرح اپنی تکنیکی اور تخلیقی بنیاد پر فن کا بہترین نمونہ بن گیا ہے۔
’’فضلو بابا ٹخ ٹخ‘‘ایک چھوٹے سے شہر سلطان پور(اودھ) کے ارد گرد گھومتا ہے ۔پورا افسانہ او دھی بول چال اور وہاں کی زبان پر منحصر ہے۔خصوصی طور سے فضلو جو افسانہ کابنیادی کردار ہے۔ اس کی چال ڈھال،انداز گفتگو اور بولی تمام تراودھی ہے۔اودھی زبان کے فقرے، کہا وتیں اور محاروں کا برجستہ استعمال سے کرداروں کو زندگی دینے کا فن مصنفہ کو بہت عمدگی سے آتا ہے۔ مذکورہ افسانہ کا کردار اور فضلو جس کے چاروں طرف کہانی گھومتی ہے وہ نہایت متحرک اور جاندار ہے ۔
ذکیہ مشہدی کے افسانوں میں تہذیبی علامت کے پیچھے ان کا پورا ذہنی اور فکری رویہ کام کرتا ہے۔ فضلو باباٹخ ٹخ میں یکہ، بھگی اورگھوڑا تہذیبی امور کی نشاندہی کرتے ہیں ۔بھلے ہی اس جدید دور میں ان کی کوئی اہمیت نہیں لیکن سلطان پور جو او دھ کے علاقہ کا کبھی ایک چھوٹاساشہررہا ہے۔ اس میں ماضی میں تانگہ، بگھی بطور سواری استعمال ہوتے ہیں۔معزز گھرانہ کی مستورات کا تانگہ کے چاروں طرف چادریں باندھ کر سفر کرنے کا رواج تھا جو بعد میں رکشہ میں سواری کرنے کا معمول بنا۔رکشہ کے چاروں طرف پردہ باندھ کر خواتین طبیب اور قریب میں رہنے والے عزیز اقربا کے گھر جانے لگیں ۔یہ وقت کے ساتھ ضرورتوں کے مطابق تہذیبی بدلائو اور تہذیبی تنزلی کے نشانات ہیں:
’’ارے بٹیا سوجھے (سیدھی طرح)بیٹھو۔ابھی جائے کو ہے پانچوں پیرن ،ڈاکٹر تاراچرن کی ماتا جی منت مانے رہیں۔سوجات ہیں چدرلے گئے‘‘
’’ہم بھی چلیں فضلو بابا؟‘‘
’’پانچ موٹکی موٹکی مہراروں ہیں سب جوڑ کے تم کہاں بیٹھیو بیٹا؟‘‘وہ ایکے سے شکر قند کی ٹوکری اتارتے ہیں جو گنوں کی پھاندی کے ساتھ آئی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘(۵۴)
اس افسانہ کا راوی واحد متکلم ہے اور راوی ایک افسانہ نگار ہے ۔افسانہ نگار افسانہ میں افسانہ کی تکنیک ،اس کے ترکیبی عناصر کی تشکیل،اس کی ساخت کے تین حصے ابتدا، وسط اور اختتام کی بنت میں کہانی پن لانے کے عمل کو کار آمد بنانے کی ایک کامیاب سعی کی گئی ہے۔اس لیے تکنیکی سطح پر یہ افسانہ فنکاری کی دلیل بن جاتا ہے۔فضلو اور راوی کے درمیان میں ہونے مکالمہ میں کئی رازوں کا انکشاف ہوتا ہے۔
پہلی بات تو یہ ہے کہ مکالمہ اودھی زبان میں ہے۔دوسرے ڈاکٹر تارا چرن کی ماتا جی نے چدر چڑھانے کی منت مانی ہے۔ یہ گنگا جمنی تہذیب کی علامت ہے کہ ماضی میں ہندو مسلمان دونوں قومیں مل جل کررہتے تھے اور چادر چڑھانے کی منت والی رستم پر ہندو عورتیں بھی یقین رکھتی تھیں۔تیسرے سلطان پور جو ایک چھوٹا سا شہر تھا لیکن دیہاتوں جیسی زندگی بسر کررہا تھا ۔شکر قندی کی ٹوکری اور گنوں کی پھاندی اس کی نشاندہی کررہی ہے۔
یہاں یہ ذکر ضروری ہے ذکیہ مشہدی بنیادی طور سے لکھنؤ کی رہنے والی ہیں ۔اعلیٰ تعلیم لکھنؤ یونیورسٹی میں حاصل کی لیکن ایک زمانے سے پٹنہ میں مقیم ہیں۔ایک تخلیق کار کی حیثیت سے ان کے افسانوں میں اودھ اور مشرقی اترپردیش کی تہذیب کا پس منظر اور بہار کے گردونواح علاقوں کی تہذیب کا ایک حسین امتزاج ملتا ہے۔اس افسانہ میں مصنفہ کا سلطان پور جواودھ کا م ایک چھوٹا سا شہر تھا ،جس میں ان کا بچپن گزرا،اس کا عکس نظر آتا ہے۔افسانے کی ابتدا اس طرح ہوتی ہے کہ مصنفہ بچپن سے کہانی سننے کی شوقین تھی کہ والد کے پرانے دوست شمسی چچا پر نسپل طیبہ کالج سے کہانی کی فرمائش کرتی ہے۔وہ دو پہلو انوں آلتو خاں فالتو خاں چڑاتے خاں مارتے خان دونال خان بے دھڑک اور امیر وخاں طمیر وخاں،لنگڑا چمرچا خاخاں چی وٹی وٹی کی کہانی سناتے ہیں۔دونوں پہلوانوں کے نام بھی عجیب وغریب اسی لیے ہیں کہ پچپنے میں دادادادی ،نانا نانی ایسی کہانیاں سناتے تھے تاکہ بچے اور بڑے حیرت انگیز مسرت سے محفوظ ہوکر کہانی سنیں۔دوسرے کرداروں کا پہلوان ہونا،جن دیو،بھوت پریت ہونا پرانے وقتوں کی تہذیبی علامت بھی ہے۔افسانے کی ارتقائی تاریخ بھی داستانوں سے شروع ہوتی ہے جس کے کردار بھی مافوق الفطرت عناصر ہوا کرتے تھے۔بات دونوں پہلوانوں کے بیچ کشتی لڑکر خود فیصلہ کرنے تک پہنچتی ہے چونکہ دونوں غیر معمولی طاقت کے حامل تھے۔جن کے چلنے پھرنے اور کھانے پینے سے زلزلہ آجاتا تھا ۔نباتات اور جاندار سب ہی ان کی غیر معمولی طاقت سے پریشان تھے۔جنگل کے چرند پرند ،پنکھ پکھیرو، آدمی ان کی روز روز کی دھمکیوں سے عاجز تھے۔ اس لیے کشتی کے فیصلہ کے منتظر بھی تھے تاکہ دیگر مخلوق چین اور امن کی زندگی بسر کر سکیں۔کہانی ابھی پوری بھی نہ ہوئی تھی کہ اسی وقت چچا زوارحسین نازل ہوگئے اور کہانی کی ابتدانے اپنی طرف متوجہ کر لیا تھا اور سننے کا تجسس پیدا ہو گیا تھا۔سامع بے چین ہے کہانی سننے کے لیے ۔یہاں نکتہ بھی ہے کہ کہانی سنی جائے یا پڑھی جائے۔ اس کی ابتدا اس طرح ہو کہ سننے پڑھنے کے انسان بے چین ہوجائے ۔یعنی اس کی دلچسپی شروع سے قائم ہوجائے ۔تجسس بے چین کردے پڑھنے اور سننے کے لیے۔اس وقت کہانی میں ایسا اڑنگا لگاکہ کہانی ادھوری رہی تو رہ گئی۔راوی لکھنوواپس چلاگیا۔بچی اپنی ٹوٹی پھوٹی زبان میں خط لکھتی ہے کہ کہانی پوری کردیں۔جواب ملتا ہے کہ کہانی کہیں خط میں لکھی جاتی ہے بے وقوف راوی کا یہ جملہ بڑا معنی خیزہے ’’کہانی توآس پاس گھومتی رہتی ہے۔اسے پکڑوں تو سنائوں‘‘غور کریں زمانہ ترقی کی دوڑ میں کتناہی بڑھ جائے لیکن کہانی سننے کہنے کا عمل انسان کی فطرت میں داخل ہے کیونکہ کہانیاں ، واقعات، حادثات اس کے ارد گرد گھومتے رہتے ہیں۔نظر چاہیے اس کو پکڑنے کے لیے:
’’بعض واقعات کہیں گہری کسک چھوڑ جاتے ہیں جیسے اس کہانی کا ادھورا پن جو آج بھی بھانس بن کردماغ میں گڑا ہواہے۔اور اب۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اب جبکہ میں خود آس پاس گھومتی کہانیوں کو پکر پکڑ دوسروں کو سناتی رہتی ہوں تو سوچ رہی ہوں کہ اس کہانی کو بھی خود ہی مکمل کر کے اپنے آپ کو سنادوںتاکہ میرے اندر جوننھی بچی چھپی بیٹھی ہے وہ مجھے تنگ کرنا چھوڑ دے‘‘۔(۵۵)
اس اقتباس میں کئی پہلو نکلتے ہیں مثلاً میرے اندر جو ننھی بچی چھپی بیٹھی ہے۔انسان کا کسی بھی عمر میں پچپن سے تعلق نہیں چھوٹتا ۔بچپن تو گزرجاتا ہے لیکن اس کی یادیں ذہن وشعور کے کسی کونے میں پیوست ہوتی ہیں۔ اختر الایمان کی مشہور نظم ’’ایک لڑکا‘‘میں اس موضوع کا اظہار ہے کہ ہر لمحہ ایک لڑکا میرے ساتھ چلتا ہے۔مذکورہ جملہ راوی کو ماضی میں گزرے ہوئے بچپن کی طرح لے جانے میں ایک فنی حربہ ہے اور افسانہ فضلو بابا کی جانب مڑجاتا ہے جواُن کے بچپن سے دیکھے بھالے کردار سے متعلق ہے ۔’’فضلو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اسے فضلو،ہمیں ایک چکر دلاکر لائو‘‘گناختم کرکے وہ فضلو بابا کی آستین پکڑ کر اچھلنے لگتی ہے۔ اس طرح قاری کا فضلو بابا اور ان کے گھوڑے کے ایکہ سے تعارف ہوتا جس کی نسبت سے مذکورہ افسانہ کا عنوان ’’فضلو بابا ٹخ ٹخ‘‘ہے۔ٹخ ٹخ گھوڑا گاڑی کی آواز ہے جو بچوں کا دیا ہوا نام ہے۔
’’وہ دوبارہ ایکے پرسوارہوجاتے ہیں۔ٹخ ٹخ ٹخ ٹخ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔’’فضلو باباٹخ ٹخ۔۔۔۔۔فضلو بابا ٹخ ٹخ‘‘محلے کے دوچار لڑکے تالیاں بجاتے یکے کے پیچھے چل پڑتے ہیں۔ ان میں موٹابیوقوف پریم چند لوہیا سب سے آگے ہے۔پیچھے سے اسماعیل جو اسماعیل پگلا کہلاتا ہے۔اسے لہٹوکادے رہا ہے۔‘‘(۵۶)
افسانہ میں اصل کہانی وسط میں پوشیدہ ہے جہاں فضلو بابا کی ٹخ ٹخ اور اس کی زندگی کے گوشے اجاگر ہوئے ہیں۔اودھ کے تہذیبی منظر نامہ بیان کیا گیا ہے۔اقدار کا بکھرنا ثقافتی نظام کی ٹوٹ پھوٹ ،صحت مند رسمیات کا زوال ہونا،ذکیہ مشہدی کے دیگر افسانوں کی طرح اس فسانہ کا بھی پس منظر ہے۔
’’اس وقت اس چھوٹے سے شہر سلطان پور اودھ میں لوگ باگ چار پانچ کوس کے لیے یکہ تانگاہی استعمال کیا کرتے تھے۔فضلو کی گھوڑی ہمیشہ صحت اور چاق وچوبند رہتی تھی اور یکہ درست۔اس لیے ان کی سواریوں کا حلقہ شہر کے خواص پرمشتمل تھا۔‘‘(۵۷)
اس زمانے میں اشرافیہ طبقہ کی سواری گھوڑاگاڑی ہوتی تھی۔ ان کی پردہ نشین مستورات یکہ میں سفر کرتیں۔ حکیم طبیب یا عزیز واقارب سے ملاقات کرنے کے لیے گھوڑا گاڑی کا استعمال عزت دار ہونے کی نشانی تھی:
’’فضلوسے کہلادی وہ آگیا۔ وقت سے اب کسی سپہ سالار کی ضرورت نہیں کہ ساتھ چلے۔اطمینان سے دور نزدیک جہاں چاہو ہوجائو،ڈاکٹر کے یہاں گھنٹوں کھڑا رکھ لو۔یہ رشتہ اس وقت بھی قائم رہا جب رام پیاری (گھوڑی) مرگئی اور فضلو بابا رکشہ چلانے لگے۔ان کے ایکے کی طرح ان کا رکشہ بھی کبھی اسٹینڈ پرجاکر نہیں لگا۔وہ محلے کے ’’لگے ہوئے گاہکوں‘‘کے یہاںکام کرتے تھے۔‘‘(۵۸)
قسمت بھی عجیب عجیب کھیل کھیلتی ہے۔ فضلو کی گھوڑی جس کا وہ دل وجان سے خیال رکھتا تھا ،اسے بڑے پیار سے رام پیاری کہتا تھا اچانک ان کی موت واقع ہونے کے بعد رکشہ چلانے لگا اور جب قویٰ کمزور ہوئے تو فضلو رکشہ چلانے کے قابل بھی نہ رہے اور وہ بازار میں تر کاری کا ٹھیلہ لگانے لگے۔تین بیٹیاں تھیں تینوں کے بیاہ ہو چکے تھے۔ایک بیٹا تھا بہت عرصہ پہلے وہ ممبئی بھاگ چکا تھا جہاں وہ درزی کاکام کرتا تھا۔ بیوی اللہ کو پیاری ہوچکی تھی۔ ایک اکیلا پیٹ پالنا ایسا بھاری نہیں تھا لیکن کچھ عرصے پہلے ایک دامادان کی بیٹی کو مارپیٹ کر ان کے گھر چھوڑ گیا۔اب اس کا پیٹ تو پالنا ہی تھا۔بیٹی بیڑیاں بناتی تھی پھر بھی انتہائی عسرت میں زندگی بسر ہورہی تھی۔وہ اکثر سبزی تو لتے تولتے خلا میں تکنے لگتا اور دھیرے دھیرے بدبداتے‘‘ٹخ ٹخ ٹخ ٹخ سنبھل کے بیٹا رام پیاری ۔شاید وہ ا پنے ماضی کے عہدزریں میں لوٹ جاتے جب زندگی بڑی خوشگوار تھی۔
ذکیہ مشہدی کی کردار نگاری بہت جاندار ہوتی ہے۔ جس طبقہ سے وہ کردار چنتی ہیں اس کے سماجی اور معاشرتی زندگی پران کی نگاہ بہت گہری ہوتی ہے۔کردارکی شخصیت کے تمام گوشے ابھارنے میں بڑی ہوشیاری سے کام لیتی ہیں۔کرد ار کی نفسیاتی گرہیں کھولنے اور اس کے ایک ایک پہلو کو بڑی کامیابی سے اجاگر کرتی ہیں۔فضلو کے کردار کے علاوہ مذکورہ افسانے کا ایک بہت اہم کردار تائی اماں کا کردار ہے جن کو فضلو اپنے تانگے میں بٹھا کر ڈاکٹر کے پاس لے جانا قرابت داروں کے گھروں پر پہنچانے کا کام وہ مستعدی سے کرتا تھا:
’’طبیعت کم بخت کیا ٹھیک رہے گی۔اس بلڈ پریشر کا ستیاناس ہو۔لگتا ہے لے ڈوبے گا‘‘تائی اماں پردے کے پیچھے سے تفصیل بتانے لگتی ہیں کہ جانا ضروری تھا ورنہ گھر سے نہ نکلتیں ۔‘‘اس وقت بھی سربھاری ہورہا ہے‘‘
’’کاہو،آج سبیرے سبیرے گھاس ناہیں کھائے رہئیو کا ٹھیک سے۔‘‘
’’ارے کم بخت، میں گھاس کھاتی ہوں؟ستیاناسی، تیرابیل کا مونہہ ہو‘‘تائی ماں ہتھے سے اکھڑجاتیں‘‘
’’ہم تورام پیاری کو کہت رہیں بڑ کی اماں،’’فضلو بغیر شرمندہ ہوئے آرام سے جواب دیتے ہیں اور یکا یک یکہ روک کراتر جاتے ہیں۔‘‘(۵۹)
ذکیہ مشہدی کے افسانوں کا غالب موضوع عورتوں کی نفسیات کا مطالبہ ہے ۔خانگی زندگی کے معاملات پر ان کی پکڑ بڑی مضبوط ہے۔مندرجہ بالا مکالمہ میں فضلو اودھی زبان میں گفتگو کرتا ہے اور بڑی اماں مراد آباد کی رہنے والی تھیں اس لیے ان کی زبان اردوہے۔بڑی بات یہ ہے کہ عورتوں کی بولی اور ان کی زبان سے اداہوئے نسوانی محاورات کا وہ برجستہ انداز میں استعمال کرتی ہیں ۔مثلاً ستیاناسی تیرابیل کا مونہہ ہو،اس بلڈ پریشر کا ستیاناس ہو۔لگتا ہے لے ڈوبے گا، تائی ماں ہتھے سے اکھڑ جاتیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔وغیرہ ،فضلو سے تائی اماں کی چیخ چیخ ہمیشہ چلتی رہتی لیکن پھر بھی کہیں جانا ہوتا تو انہیں کو بلاتیں۔زیادہ بوڑھے ہونے کے بعد فضلو بابا اور تائی اماں،دونوں میں اور بھی بے میل خواص ہوگیا تھا۔ تائی اماں بے صبری اور چڑ چڑی ہو گئیں تھیں اور فضلو سست رفتار موڈی اوربکو ہوگیاتھا۔ ایک دن تائی اماں کی طبیعت زیادہ خراب ہوگئی۔فضلو کو ظہر کے بعد بلایا تھا اور وہ عصر کے بعد ہانپتے کانپتے آیا کیونکہ اس نے رکشہ چلانا شروع کردیا تھا گھروں کے بچوں کو اسکول لے جانے لگے تھے۔بچوں کو لے جانے کے چکر میں دیر گئی۔اس دن تائی اماں خوب ناراض ہوئیں پھر رام پیاری کی طرح وہ بھی فضلو بابا کی زندگی سے خارج ہوگئیں۔
جیسا کہ عرض کیا جا چکا ہے کہ مذکورہ افسانہ اپنی تمام ترتخلیقی اور فنی بنیاد پر ایک کامیاب افسانہ ہے۔تکنیکی سطح پر بھی انوکھا ہے واحد متکلم میں لکھی گئی کہانی کاروای خود مصنفہ محسوس ہوتی ہے۔
’’میں تو امیروخاں ‘‘طمیروخاں اور مارتے خاں بے دھڑک کی کہانی سنانے جارہی تھی جو خوف ودہشت پیدا کرتے اور قبروں پر اپناراج سنگھاسن جماتے۔یہ فضلو بابا کہاں سے درمیان میں آگئے میں بھی سٹھیا گئی ہوں۔‘‘(۶۰)
افسانہ کی ابتدایوں ہوتی ہے کہ بچپن گزرے صدیاں بیت گئیں۔ تب میں اپنے بزرگوں کی گود میں گھس کر کہانیاں سناکرتی تھی۔والد کے پرانے دوست اور کلاس فیلوشمسی چچا سے کہانی سننے کی ضد کرتی ہے اور وہ امیروخاں ، طمیروخاں اور مارتے خاں کی کہانی شروع کرتے ہیں کہ اچانک اسی وقت چچا زوار حسین کے آنے پر کہانی کا سلسلہ ٹوٹ گیا:
’’امیروخاں میروخاں تو ایک کبھی نہ ختم ہونے والی داستان کی کردار ہے۔شاید اسی لیے شمسی چچابھی اسے کبھی پورانہ کرسکے۔لیکن ٹھہریئے۔فضلو بابا کی کہانی میں بھی کیسے ختم کروں؟ان سے ملے زمانہ گزرگیا۔تین برس ہوئے کہ میں وطن نہیں گئی ہوں۔وطن جسے عورتیں ا پنی زبان میں مائکہ کہتی ہیں اور جو انہیں بہت عزیز ہوتا ہے۔لیکن کہانی تو مکمل کرنی ہے۔‘‘(۶۱)
مندرجہ بالا اقتباس سے افسانہ کے کئی گوشے کھلتے ہیں۔مصنفہ کے شمسی چچا جو پرانے وقتوں کے تھے ۔ماضی بعید کا حوالہ بن جاتا ہے۔صنف افسانہ کے ارتقائی نقطہ نظر سے کہانی کا سفر جو امیروخاں میروخاں اور مارتے خاں جیسے کردار وں کی داستان سے شروع ہوکر صنف افسانہ کے کردار فضلو بابا تک پہنچتا ہے۔تکنیکی سطح پر کہانی کہنے کا یہ انداز افسانہ کے فن کو سمجھنے میں معاون بنتاہے۔دوسرے اودھ کا علاقہ مصنفہ کے مائکہ ہونے کا ایک اشارہ بھی ہے جو ماضی لکھنؤ کی زوال آمادہ تہذیب کی نشاندہی بھی کرتا ہے۔
مصنفہ اپنے بھتیجے کو فون کر کے فضلو بابا کے بارے میں پوچھتی ہے تو اطلاع ملتی ہے کہ بڑی عسرت میں زندگی گزررہی تھی ۔ادھار قرض لے کر اپنی بیمار بیٹی کو دیکھنے کے لیے گئے ۔بدایوں اسٹیشن پر جو مسافر اردو کے نام پرٹرین سے کھینچ کر مار دئے گئے ان میں فضلو بھی تھا۔لاش بھی گھرنہ آسکی۔مصنفہ کو ایک جھٹکا لگتا ہے، اس کو صدمہ ہوتا ہے اور سوچتی ہے ’’ضرور اس کی حیران وپریشان روح آسمانوں کے درمیان چکراتی ،گھومتی ہوگی اور پوچھتی ہوگی’’ہم کاکا ہے مارئیو بھیا؟ ہم کابگاڑے رہیں تہار؟‘‘
فضلو بابا وہ کردار ہے جس کی تہذیب میں ہندوومسلمان ہو نا کوئی معنیٰ نہیں رکھتا۔پیشہ کے لحاظ سے وہ ایک مزدور ہے جسے گھوڑا گاڑی ہو،رکشہ ہو یاسبزی بیچنا ہو انسانوں کی خدمت کرنا ہے۔ اسے اردو ہندی زبانوں سے کیا لینا دینا؟ ایک بے پڑھا لکھا عام آدمی جس کی زبان بھی اودھی تھی ایک علاقائی زبان جو امن اورآتشی کا پیغام دیتی ہے اور پھر زبان تو کسی بھی قوم ومذہب کی جاگیر ہی نہیں ہوتی۔ پھر زبان کے لیے انسانیت کا خون کیوں بہتا ہے ۔افسانہ کا خاتمہ بھی ماضی کی بازگت پر ہوتاہے:
’’سونے سے پہلے بالی سمیٹ کر ایک چوٹی گوندھ لینا میرے عادتوں میں شامل ہے۔لیکن یہ کیا اچانک آئینے سے میرا چہرا غائب ہوجاتا ہے اور اس کی جگہ شانوں پر فضلو بابا کا چہرہ اگ آتا ہے۔دہشت کی ایک سردمہر میرے جسم میں دوڑ جاتی ہے اور برش ہاتھ سے گرجاتا ہے۔‘‘(۶۲)
انسان زبان کے لیے مارا جائے یا مذہب کے نام پر قتل ہو،بہر حال دہشت گردی ہے اور اس دہشت گردی کا شکار بھی عام آدمی ہی ہوتاہے۔معصوم لوگ ہی بلوائے اور فسادات میں مارے جائے ہیں جن کا تاریخ میں کوئی ذکر بھی نہیں ملتا چونکہ یہ لوگ پنکھ پکھیرو،خرگوش،ہرن اور مینے کی طرح پرنہ کوئی افسوس کرتا ہے اور نہ ہی ان کی موت کی کوئی داد وفریاد ہے۔
٭٭٭٭٭٭
بکسا
ذکیہ مشہدی کے افسانوں کا مرغوب موضوع ہندوستانی عورت اور اس کے بنیادی مسائل ہیں ۔اپنے محبوب موضوع کے لیے انہیں کے خواتین کی نفسیات کا بہت گہرائی سے مطالعہ کیا ہے۔خانگی زندگی کے تعلقات ،رشتوں کی عظمتیں اور ماں کی ممتا اولادوں میں مان کے لیے رغبت اور محبت بہن بھائیوں کے بیچ پیدا ہونے والے مسائل اور پیارو محبت کی نوک جھونک پر انہوں نے بہت عمدہ کہانیاں لکھی ہیں۔بیوی اور شوہر کے درمیان ناہمواری اور خوشگوار رشتوں کی لذتیں انہوں نے اپنے افسانوں میں پیش کرنے کی سعی کی ہے۔
زیر بحث افسانہ’’بکسا‘‘ میں بیوہ عورت کی تکلیفیں اور اولادوں کے لیے اس کی قربانیوں کا ذکر دردمندی اور ہمدردی کے ساتھ کیا ہے۔موصوفہ نے اپنے افسانوں میں انسانی تعلقات کو فکری اور جذباتی بلندی عطا کی ہی ہے۔افسانہ’’بکسا‘‘ بھی فنی سطح اور تخلیقی بنیاد پر بہت عمدہ افسانہ ہے۔بیوہ عورت کے حقیقی جذبات اور انسانی کیفیات کا عکس اس میں نظر آتا ہے۔اپنے بچوں کی پرورش کرنے میں اسے کن کن دقتوں کا سامنا ہوا اس میں اس میںاس کا بخوبی اظہار ہوا ہے۔ذکیہ مشہدی نے حالات وکوائف کا بہترین اظہار مذکورہ افسانہ میں کیا ہے۔ان کے افسانوں میں لکھنؤ کی تہذیب کی چھاپ نظر آتی ہے۔تہذیبی اقدار،صحت مند روایات ،رسم ورواج، شادی بیاہ کے معاملات کا اظہار اس میں ملتا ہے ۔مصنفہ نے لکھنؤ میں آنکھ کھولی اس لیے اودھی تہذیب کو بہت قریب سے دیکھا۔زمانہ کی ستم ظریفی ،تہذیبی عروج وزوال کی کہانی،لکھنو کی معاشرتی زندگی اور مٹتی ہوئی اقدار کا اظہار بہت درد مندی سے کیا ہے۔مذکورہ افسانہ بھلے ہی ایک بیوہ عورت کی درد بھری داستان ہے، پس منظر میں ہندوتانی مسلمانوں کے شاندار ماضی اور اعلیٰ اقدار کی بدلتی تصویر یں ہمارے سامنے ابھر کر آتی ہیں۔ دیگر انہیں لکھنو کی زبان وبیان پر مکمل گرفت حاصل ہے:
’’دن بھر کے سارے کاموں کے باوجود جن میںموسم کے مطابق ہاون دستے میں اچار کے مسالے کوٹنابھی شامل تھا۔ان کی چوڑیاں جلدی ٹوٹتی نہیں تھیں۔چوڑی ٹوٹتے کے لیے وہ ٹوٹنا لفظ کبھی استعمال بھی نہ کرتیں۔کہتیں’’چوڑی مول گئی‘‘ابا کے انتقال کے بعد امی کا چوڑی کا کیس نہ جانے کہاں غائب ہوگیا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔آپا نے ذراکی ذراڈھکن اٹھایا تو جیسے پورے کمرے میں روشنی پھیل گئی۔ایک عورت کے سہاگ کی روشنی۔جگ مگ جگ مگ کرتی فیروز آباد کے شیشہ گروں کے خون پسینے کی روشنی۔‘‘(۶۳)
دیے گئے اقتباس میں الفاظ کی مناسب ترتیب واقعاتی منظر نامہ کا اظہار ہی نہیں بلکہ صاف وشفاف اوردھلی منجھی زبان مصنفہ کے تخلیقی جوہر کا مظہربھی ہے۔موسم کے مطابق ہاون دستے میں اچار کے مسالے کو ٹنا متوسط گھرانے کی گرہستن عورت کی خانگی کی زندگی کی مصروفیت کی طرف نشاندہی کرتا ہے۔ہندوستانی تہذیب کی روایت رہی ہے کہ شوہر کے مرنے کے بعد بیوی کو چوڑیاں توڑدی جاتی ہیں۔ اس لیے زیادہ تر عورتیں اپنے گھریلو کام کرنے کے حق میں بہت احتیاط پسند ہوتی ہیں کہ کہیں چوڑیاں نہ ٹوٹ جائیں۔اگر اتفاق سے ٹوٹ جائیں تو مخصوص الفاظ’’چوڑی مول گئی‘‘کا استعمال کرتی ہیں۔یہ تہذیبی زبان ہی نہیں، شوہر کے مرنے کے بعد امی کا چوڑی کیس کا غائب ہونا اس بات کی علامت ہے کہ اب عورت کا شوق وسنگار سے کوئی واسطہ نہیں رہے گا ۔چوڑیوں کا پہننا بھی عورت کے سنگار اور خوبصورتی کا ایک حصہ ہے۔پرانے زمانے میں یہ بڑی مضبوط روایت رہی ہے جو اس جدید دور میں فرسودہ ہوگئی ہے۔چوڑی کیس کا ڈھکن کھلنے سے کمرے میں روشنی پھیلنے کو عورت کے سہاگ کی روشنی سے مثال دینا ان کی تخلیقی ہنر مندی ہے اور چوڑیوں کی یہ جگ مگ جگ مگ فیروز آباد کے شیشہ گروں کے خون پسینہ کی روشنی ہونا ترقی پسند نظریہ کی باز یافت بھی ہے چونکہ محنت اور مزدوری سے ہی اس کائنات کی خوبصورت قائم ہے۔
افسانہ’’بکسا‘‘عنوان ہی اپنے اندر پراسراریت رکھتا ہے اور وقت ماضی کی علامت ہونے کی نشاندہی بھی کرتا ہے۔پرانے وقتوں میں کپڑے لیے ،قیمتی سامان،ضروری کاغذات ،روپیہ پیسہ اور گنیاں اور سونے چاندی کے زیوارت رکھنے اور سفر میں سفری اشیاء رکھنے کے کام میں آتا تھا۔جدید دور میں سیف الماری،سفری بیگ وغیرہ اس کے بجائے استعمال ہوتے ہیں۔افسانہ کی ابتدابھی’’بکسا‘‘کے ذکر سے ہوتی ہے:
’’بچے جب کم عمر تھے اور اسکول کی ابتدائی کلاسوں میں جایاکرتے تھے تو ایک بار بڑے بھیا نے انہیں ٹوکا تھا’’امی بوکس(box)کہاکرو،یہ بکسا کیا ہوا بھلا؟‘‘
امی نے کہا ’’بکس کہنے سے کیافرق پڑتا ہے ۔چلو کہہ لیا بکس۔اب خوش!‘‘(۶۴)
’’بکسا‘‘خالص تانیثی زبان ہے حالانکہ لفظ بکسا مردوزن دونوں کے لیے زبان زد تھا۔ انگریزی زبان کے تسلط کے بعد صندوق اور صندوقچی کی جگہ بکس اور بکسے نے لے لی۔بکسا تخفیف ہو کر بنات کی زبانوں پر بکسا ہوکر رہ گیا۔مسلم متوسط گھرانوں میں عام طور پر عورتیں اور خصوصی طور سے بزرگ خواتین بکسا اپنے لیے مخصوص رکھتی تھیں جس میں وہ اپنے اجداد ، ساس سسر کی دی گئی چیزیں،زیوارت،لباس ،جوڑے کے علاوہ ضروری کاغذات اور تحائف رکھتی تھیں۔بکسا خود خاندانی نوادرات کا حصہ ہواکرتا تھا۔ اس لیے نسل درنسل چلنے سے اس کی شکل وصورت ہیئتی اعتبار سے پراسرار ہوجاتی تھی:
’’بڑی آپانے بکس کھول رکھا تھا۔اوسط سے بڑا پتیل کے قبضوں والا،امی کے جہیز میں ساتھ آیا۔ بکس جسے وہ بکسا کہنے پر مصر رہا کرتی تھیں اور اب وہ گھر کی وہ واحد شئے تھا جو بلاشرکت غیرے امی کی کہی جاسکتی تھی ورنہ وہ اپنا سارا کچھ بانٹ چکی تھیں۔یہاں تک کہ اپنا وجود بھی۔اس کی ظاہر ی صورت بڑی پراسرار سی تھی یازمانے سے گزرنے کی وجہ سے ایسی ہوگئی تھی جیسے الف لیلہ کی کہانیوں سے نکل کر آیا ہو۔‘‘(۶۵)
افسانہ کاعنوان ’’بکسا‘‘دینے کا راز کہانی کے اختتام میں منکشف ہوتا ہے۔جب بکسا کھولا گیا:
’’آپانے دلائی نکال کر اسے جھاڑا ۔تہوں میں سے نیم کی خشک پتیاں اڑ کر فرش پر بکھرگئیں۔کسی خزاں زدہ درخت کے پیلے پتوں کی طرح ایک زرد پڑتی ،چرمراتی، پرانی تصویر بھی نکل کر اڑی اور پھڑ پھڑاتی ہوئی نیچے آگری ۔یہ ایک نوجوان کی تصویر تھی دھندلے پڑجانے کے باوجود نقوش امی کی نوجوانی کی صورت سے کافی مشابہہ تھے۔پھوپی زاد ماموں زاد کے درمیان مشابہت کوئی حیرت کی بات تو نہیں۔تصویر کے پیچھے لکھے گئے نام پروقت سے اڑی گرد کی ایک موٹی تہہ جم گئی تھی۔شاید لکھا ہوا تھا ’’وسیم ‘‘!‘‘(۶۶)
عورت اپنے پھوپی زاد بھائی وسیم سے دل ہی دل میں محبت کرتی ہے۔بچپن میں ہی پھوپی زاد سے طے کردی گئی تھی۔ وسیم اعلیٰ تعلیم کے لیے علی گڑھ بھیجا گیا۔کسی لڑکی سے دل لگا بیٹھا۔آخر کار گھر کے بزرگوں کے سامنے طے شدہ رشتہ سے شادی کرنے سے انکار کردیا۔پھر بھی وہ وسیم کو آخر تک بھلا نہیں پائی تھی ۔یہ نام ان کے دل میںآج تک محفوظ ہے اور وسیم کی تصویر جو وقت کی گرد میں بوشیدہ ہوگئی تھی ،وہ بھی بکسے میں احتیاط سے رکھی ہوئی ہے۔یہاں عورت کی بے لوث محبت اور اس کی راز دارانہ طبیعت کا اندازہ ہوتا ہے۔پوری زندگی جس کا ذکر اپنے میکہ میں کیا اور اس کی خبروسیم کو بھی ن ہیں ہوئی،سسرال میں تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ۔یہ عورت کی شریفانہ فطرت کی طرف اشارہ ہے ۔عورت یوں ہی مستور نہیں کہلاتی۔ اس کے اندر فطری طور پر اپنے راز کو مستور رکھنے کی قوت اور صلاحیت ہوتی ہے۔
اس کائنات کے خوبصورت ہونے کا راز عورت کے وجود میں پوشیدہ ہے ۔اگر اس کا وجود نہ ہوتا تو تمام عالم بے معنیٰ اور بے مقصد ہوجاتا۔ اس امر سے کوئی ذی شعور انکار نہیں کرسکتا۔ رشتوں کی بنیاد پر اس کے مختلف روپ ہیں۔بہن، بیٹی اور ماں کا رشتہ ،جودنیا کے تمام رشتوں پر فوقیت کا درجہ رکھتا ہے۔ان رشتوں میں ماں کی محبت اور اس کی ممتاکو اولیت حاصل ہے۔ماں اور اولاد کے درمیان ایک بے لوث رشتہ، ورنہ دنیا کا ہر رشتہ بے غرض نہیں ہوتا۔ایک ماں اپنے بچوں کے لیے سب کچھ قربان کردیتی ہے۔ اپنی ممتا کی خاطر ہر تکلیف اوردکھ کو سہتی ہے ۔خود بھوکی رہ کر اپنی اولادوں کا پیٹ بھرتی ہے پھر مذکورہ افسانہ اس کردار کی کہانی ہے جو ایک بیوہ عورت ہے جس کا غریب شوہر داغ مفارقت دے کر غریبی کی آگ میں اپنے خاندان کوجھونک کر چلاگیا۔ایک ایسا کردار جو شوہر پرست بھی ہے اور عورت کی عزت وحرمت کی وارث بھی ہے۔ ایسے حالات میں پس ماندہ پانچ بچوں کو پال پوس کر بڑا کرتی، ان کی تعلیم و تربیت کا پورا پورا خیال رکھتی ہے:
’’لڑکیوں کے بڑے ہونے پرا ن کے لیے لڑکے والوں کا آنا اور شادی ہوجانے کے بعد دامادوں کی آمدورفت خاص ہی نہیں ،خاص ا لخاص موقعوں میں شامل تھے۔ بڑے جتن سے ان مواقع کے لیے رقم پس انداز کر کے رکھا کر تی تھیں۔ان کے بچت کرنے کے طریقوں میں گھر کے سارے کام خود کرنے حتی کہ بچوں کے کپڑے اور شوہر کے کرتے پاجامے سینے،فصل پر سال بھر کا غلہ گائوں سے ننگا رکھنے کے علاوہ خود اپنی ذات پر کوئی خرچ روانہ رکھنا ایک بڑا طریقہ تھا۔کتنی تکلیف ہوخاموشی سے جھیل جاتیں۔‘‘(۶۷)
گذشتہ زمانے کی متوسط گھرانے کی عورت کا حقیقی خاکہ مصنفہ نے بیان کیا ہے۔ذکیہ مشہدی نے اپنے عہد کی عورت، اس کے معاشرے اور روز مرہ زندگی کی جزئیات اپنے افسانوں میں اظہار کرنے کی سعی کی ہے۔ ان کے افسانوں میں متوسط گھرانوں کے عزت دار معاشرہ کاپس منظر دکھائی دیتا ہے۔ ان کے افسانوں کے نسوانی کردار بہ یک وقت اپنی ذات کی نمائندگی کی ساتھ ساتھ اپنے سماج کی بھی بھرپور نمائندگی کرتے ہیں۔ذکیہ مشہدی نے عورت کے مسائل اور مسلم معاشرے کی قیدوبند میں رہنے والی عورت کے جذبات کی عکاسی کی ہے۔ان کے عہد میں جینے والی عورت جو کسی بھی طبقہ،گروہ،یا مذہب کی ہو، سب کی ہو پر گزرنے والے معاملات کو پیش کرنے میں نہیں چوکتیں۔اس لیے ان کے افسانے ہمارے سماجی نظام اور معاشرے سے جڑی حقیقی کہانیاں ہیں:
’’اس نے کچے آنگن والے کھپر پوش گھر پر کچھ کچھ پریشان نظر یں ڈالیں اور تنہائی میں بہن سے بولا’’آپا ایسے گھروں میں تو ہمارے یہاںمویشی باندھے جاتے ہیں۔میاں نے کیا دیکھ کے۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔‘‘ امی نے اسے جملہ پوار نہیں کرنے دیا۔ کس کرہاتھ سے اس کا منھ دبا دیا۔’’خبر دار‘‘آگے ایک لفظ موہنہ سے نہ نکلے۔اور اگر گھر جاکر میاں سے کچھ کہا تو میرا مرامنھ دیکھوگے۔‘‘(۶۸)
ایک صاحب ثروت تہذیب یافتہ خاتون کی شادی غریب گھرانہ میں ہوتی ہے ۔سسرال کے گھرو مکان کے نقشہ سے قاری کو محسوس ہوتا ہے کہ شہری خاتون کا بیاہ دیہی علاقہ میں کردیا گیا ہے اور وہ بغیر چوں چراں کے والدین کے فیصلے کو قبول کر لیتی ہے۔ اس کے تمام خواب چکنا چور ہوجاتے ہیں اور وہ اُف بھی نہیں کرتی نہ کوئی اعتراض اور نہ ہی کوئی احتجاج ۔عورت کو گائے کی طرح جس کھونٹے سے باندھ دیا جائے۔والدین کی عزت پر کوئی حرف نہ آئے۔پہلی بار بھائی سسرال جاتا ہے اور حیر ت زدہ ہوکر کہتا ہے ’’میاں نے کیا دیکھ کے۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘لیکن امی نے فوراً بھائی کا منہ دبادیا اور ہدایت کی کہ اگر گھر جاکر میاں سے کچھ کہا تو میرا مرا منھ دیکھوگے‘‘۔ذکیہ مشہدی کے کردار ہمارے سماج سے الگ نہیں ہوتے۔انہوں نے عورت کے ان مسائل کو نمایاں کیا ہے جو مسلم معاشرے کے گھٹن میں ان کے دور کی عورت اپنی زندگی گزاررہی ہے۔عورت کے دکھ درد اپنے افسانوں میں سمیٹنے کی کوشش کی ہے۔
افسانہ ’’بکسا‘‘واحد متکلم کی کہانی ہے۔ راوی اپنی امی کی پوری زندگی کی قربانیوں اور نیک کارناموں سے بھر پور کہانی سناتا ہے جس میں بہن بھائیوں کے خوشگوار لمحوں کے علاوہ دردوالم میں ڈوبے ہوئے وہ لمحات بھی ہیں جن کو سن کر آنکھیں آنسوئوں میں ڈوب جاتی ہیں:
’’وہ کمینہ وسیم ‘‘بھائی نے دانت پیس کرپہلے وقتوں کی حدادب کا لحا ظ کرکے کوئی گندی گالی نہیں بکی تھی۔ پھر بھی شبنم جیسی امی نے شعلہ برساتی آنکھوں سے بھائی کو دیکھا ۔’’گالیاں مونہہ سے نکالنا شریفوں کا شیوہ نہیں ہے اور وہ تمہارے سگے پھوپھی زاد بھائی ہیں۔‘‘(۶۹)
ذکیہ مشہدی لکھنو میں پیدا ہوئیں اور یہیں تعلیم حاصل کی۔اس لیے لکھنوی تہذیب وتمدن کو بہت قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔وہاں کی اخلاقیات اور تہذیبی پس منظر انہیں ورثہ میں ملا۔شرفاء خاندان سے تعلق رکھتی ہیں۔ان کے دل و دماغ میں مسلمانوں کے شاندار اور تہذیب یافتہ ماحول کی جو تصویر یں نقش ہیں وہ چلتی پھرتی افسانوں میں نظر آتی ہیں۔ان کے کردار اعلیٰ اقدار کے حامل ہوتے ہیں یہی وجہ ہے اپنے ارد گرد جو کچھ انہوں نے دیکھا محسوس کیا بڑی فنکاری سے اپنے افسانوں میں ڈھال دیا۔
٭٭٭٭٭٭