ذکیہ مشہدی کے نمائندہ افسانوں کا تجزیاتی مطالعہ

\"\"
احمد رشید

گلی رہٹ والا کنواں،سرائے رحمن، علی گڑھ
\"\"
ذکیہ مشہدی اپنے ڈھب کی الگ فنکار ہیں جن کی قلم میں روانی بھی ہے اور موضوعات کی تازگی بھی۔وہ جن موضوعات پر قلم اٹھاتی ہیں اُس کا پورا پورا حق ادا کرتی ہیں۔ان کے تاہنوز چھہ افسانوی مجموعے اشاعت سے ہمکنار ہوچکے ہیں جو درج ذیل ہیں:
۱۔ پرائے چہرے ۱۹۸۴ء
۲۔ تاریک راہوں کے مسافر ۱۹۹۳ء
۳۔ صدائے بازگشت ۲۰۰۳ء
۴۔ نقش ناتمام ۲۰۰۸ء
۵۔ یہ جہانِ رنگ وبو ۲۰۱۳ء
۶۔ آنکھن دیکھی ۲۰۱۷ء
مندجہ بالا مجموعوں میں شامل افسانوں کی تعداد مجموعی طور پر اکیاسی[۸۱] بنتی ہے ۔ان میں دو ناولٹ ’قصہ جانکی رمن پانڈے‘اور’پارسا بی بی کا بگھار‘بھی شامل ہے۔آخر الذکر ناولٹ الگ سے کتابی صورت میں بھی منظر عام پر آچکی ہے۔ذکیہ مشہدی کا قد ہمعصر افسانے میں بڑھتا ہوا نظر آتا ہے۔انھوں نے مختلف موضوعات پر کئی اہم کہانیاں تخلیق کی ہیں۔ضرورت اس بات کی ہے کہ ان کے تمام افسانوں کا تفصیلی مطالعہ کیا جائے لیکن پھر بھی یہاں چند نمائندہ افسانوں کا تجزیہ پیش کیا جارہا ہے۔
منظوروا
افسانہ ’’منظوروا‘‘ تخلیقی اور فنی نقطۂ نظر سے بہت اہم افسانہ ہے جس کا پس منظر تاریخی اور سیاسی نوعیت کا ہوتے ہوئے ذکیہ مشہدی کی فنی ہنر مندی کا نمونہ ہے۔عام طور پر واقعاتی اور عصری نوعیت کے افسانے تخلیقی منہاج پانے میں ناکام ہوجاتے ہیں۔ چونکہ فنکار کی نگاہ مقصداور واقعہ پر مرکوز ہونے کے سبب اس کی تخلیقیت فناہونے کے امکانات قوی ہوتے ہیں۔اس موقع پر تخلیقی فاصلہ (Creative Distance) برقرار رکھنا مشکل ہوتا ہے۔اس لمحہ تخلیقی فاصلہ قائم ہوجائے تو ’’منظوروا‘‘جیسی کہانی تخلیق ہوتی ہے جو مصنفہ کی فنی چابک دستی کی عمدہ مثال ہے۔
بابری مسجد مسمار کئے جانے سے تقریباًدو مہینہ قبل ملک کے جوسیاسی حالات بنے اور جس کو بنانے کے لیے فسطائی طاقتوں نے برسوں اپنا زور صرف کیا۔ اس نے ہندوستان کے سماجی ڈھانچہ کو ایسا بگاڑا کہ آج تک اس کے حالات نہیں سدھرے۔۶؍دسمبر ۱۹۹۲ء کا ہندوستان کی تاریخ کا ایک ایسا سیاہ دن ہے جس نے یہ صرف آئین کے دھجیاں اڑادیں بلکہ ملک کے سیکولر نظام کو بکھیر کر رکھ دیا۔پورے ملک میں قتل وغارت گری کابازار گرم ہوگیا۔ہندو مسلم بھائی چارہ، قومی اتحاد، اکثریت میں وحدت کا تصور ٹوٹ گیا۔بابری مسجد کو ڈھانا بظاہر سیاسی نوعیت کا واقعہ ہے لیکن اس حادثہ نے ملک کے دیرینہ یکجہتی اور امن وامان کے تانے بانے کو توڑدیا،ہماری گنگا جمنی تہذیب اور ثقافتی اقدارکوپاش پاش کردیا۔ہندو اور مسلمانوں کے دلوں میں نفرت کا بیج بودیا اور فاصلے پیدا کر دیے۔سیاسی اور معاشرتی نظام کو چوٹ پہنچائی۔بدنصیبی یہ ہے کہ تاریخی صداقتوں کو ملیا میٹ کردیا:
’’ترپاٹھی جی کی بہو کے کان کھڑے ہوگئے۔’’ارے منجوروا کس پاپی کو صوفی‘‘پیر کہہ رہا ہے۔نہ جانے کتنے مندر ڈھادیئے۔کتنے ہندوئوں کو مروادیا۔باہر سے آنے والا بدیسی آکرانتا۔کئی بار کہا اماں جی سے کہ اس میاں کو گھر میں رکھ لیا ہے ،نکالیے اسے سنتی ہی نہیں ہیں۔ جب کہوبس ایک ہی جواب کہ تمہارا کیابگاڑ رہا ہے۔کام کررہا ہے۔پوجاگھر میں تمہارے کہنے پر ہم اسے جانے نہیں دیتے۔پھر کیا اعتراض ہے۔‘‘(۷۰)
منظوروا ایک معمولی انسان ہے۔سماج میں اس کا سماج میں نہ کوئی مرتبہ ہے نہ وقعت۔ایک بے پڑھا لکھا بیوقوف ساغریب آدمی سماجی اعتبار سے نچلے درجے کا آدمی ،گھریلو کام کاج کرکے دوسروں کے ٹکڑوں پرپلتاہے۔اسے سیاست ،معاشرت اور تہذیب سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔تاریخ اور مذہب اس کے لیے کوئی معنیٰ نہیںرکھتے۔ بس نام کا مسلمان ،مسلم گھر انہ میں پیدا ہوا اس لیے مسلمان کہلاتا ہے ۔افسانہ میں گھروٹھکانہ کا کوئی حوالہ نہیں ہے ۔اس کا مطلب پوری بستی اس کا گھر اور بسی میں رہنے والے اس کے رشتہ دار،کوئی چچی،بھابی،امی،بھائی ہیں چاہے وہ ہندو ہو یا مسلمان مذہب کی کوئی قید نہیں ۔صحیح معنوں میں اس کا مذہب محنت ومزدوری کرنا لوگوں کی بیگار اور خدمت گزاری کر کے پیٹ بھرنا ہے۔ اس پر بھی سارا دن لوگوں کی دھتکارکھانا اور اس پر بھی خوش رہنا۔یہی سب ہے ۔نام منظورہے کم وقعت ہونے پر منظوروا ہوگیا۔
ایک دن اکتوبر کے آخری ہفتے کی شفاف اور نرم دھوپ میں سارے بچوں کو بٹور کر آنگن میں گھوم گھوم کرناچ رہا تھا اور تالیوں کی تال پر کہہ رہا تھا’’تیل لگائو ڈابر کا نام مٹائو بابر کا ‘‘اور ’’بابر کی اولادو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ہندوستان چھوڑدو‘‘یہ خطرناک اور زہر یلے نعرے جو مسلمانوںکے خلاف ہیں۔فسطائی طاقتوں کی ایجادہیںجنہوں نے ہندوستان کے سیکولر مزاج کو مکدّر کردیا۔خصوصی طور سے ہندونوجوانوں کے ذہنوں کو مسلمانوں کے خلافPolariseکر کے صف آراء کردیا اور ملک کی سب سے بڑی اقلیت کی مخالفت میں اتاردیا اور بابری مسجد گرانے کے لیے نہ صرف فضاہموار کی بلکہ اسے ڈھانے کے لیے آمادہ کردیا۔افسانہ کار مزیہ پہلو یہ ہے کہ منظوروا جیسا کم دماغ کی زبان پر بھی زہر میں ڈوبے نعرے سے گونجنے لگے۔ جس کے معنیٰ ومفاہم سے نا بلد تھا جو تاریخ کی اے بی سی سے بھی ناواقف ہے۔افسانے کی زبان کے پس منظر وہ معنیٰ پوشیدہ ہیں کہ معصوم لوگ اور عام انسان جو بابری مسجد بابر اور تاریخ ہند سے ناواقف تھے اور آج بھی ہیں۔ان کی زبانوں پر بھی زہریلے نعرے آنے لگے جس نے پورے ملک کے ماحول کو گندہ کر کے رکھ دیا۔یایوں کہہ لیجئے اس طرح کے بیہودہ نعرے پاگلوں کے سوا کچھ بھی نہیں ہے جس کو پیش کرنے کا ذریعہ منظوروا بنا۔یہ افسانے کا ایمائی پہلو بھی معلوم ہوتا ہے ۔
انور بھیا نے جب یہ سناتو غصہ آگیا اور انہوں نے منظوروا کو بتایا بابر پیر فقیرنہیں تھے، بادشاہ تھے۔بڑے منصف ، عادل، صوفی منش،پڑھنے لکھنے کے شوقین تھے۔عالموں کی قدر کر تے تھے۔’’غریبو ں کا خیال بھی کرتے ہوں گے تب تو۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔منظوروا نے لقمہ دیا۔کیا اچھا ہوتا جو ہم ان کے وقت میں پیدا ہوئے ہوتے۔پھر تو ہماری شادی بھی ہوگئی ہوتی‘‘یہ اس معصوم کا جواب تھا۔انور کی کہی ہوئی باتیںاس نے ترپاٹھی جی کے پوتوں کو دہرادی‘‘خبردار جوباہر بادشاہ کانام مٹانے کی بات کرتا ہے اسے پاپ چڑھے گا جہنم میں جائے گا۔ظاہر ہے یہ سن کر ترپاٹھی جی کی بہو کے کان کھڑے ہوگئے پھر تو اس نے تاریخ کو جھٹلانے والی غلط بیانی شروع کردی۔
وہ نہ جانے کتنے مندر ڈھادیے، کتنے ہندوئوں کو مروادیا،باہر سے آنے والا بدیسی’’ آکرانتا‘‘یہ زبان ہندو نوجوانوں کو آرا یس ایس اور انتہا پسند سیاسی جماعتوں کی دی ہوئی ہے۔یہاںمنظوروا سوچنے پر مجبور ہوجاتا ہے کہ تب انوربھیا ایسا کیوں کہہ رہے تھے۔بھیا بھی پڑھے لکھے ہیں اور یہ بھوجی بھی پڑھی لکھی ہیںمنظوروا کے دماغ میں جالے سے پڑگئے جو افسانے کے اختتام تک پڑے۔
’’منظوروا‘‘ کچھ دن کیا،پھر کبھی نہیں آیا۔ایک تنگ گلی میں اس کی گردن ریتی لاش پائی گئی۔مرتے وقت بھی اس کے دماغ میں جالے لگے ہوئے تھے۔ اس کی سمجھ میں قطعی نہیں آیا تھا کہ بابر سے اس سے کیا رشتہ تھااور کیوں تھا اور اس کا باپ زمانہ قبل مسیح میںپیدا ہونے والا ہینگن مستری تھا یا 1526ء میں ہندوستان آنے والا ظہیر الدین محمد بابر،زمان ومکان سے اوپر اٹھ چکا تھا۔‘‘(۷۱)
فرقہ وارانہ فسادات ،سیاسی جماعتوں اور ان کے خریدے ہوئے مورخین کا گھنائونا کھیل ہے جس میں عام انسانوں کی بربادی اور جانوں کا زیاں ہوتا ہے۔جہاں ایسے ہی معصوم انسانوں کے گھراجڑتے ہیں جن کو یہ بھی نہیںمعلوم ہوتا کہ ان کے آبائو اجداد کب ہندوستان آئے اور کون سی نسل یا طبقہ سے ان کا سلسلہ جڑتا ہے۔بظاہر افسانہ کا اختتام المیہ ہے لیکن زماں ومکاں قید سے آزاد ہونے والا منظوروا آج بھی یہ سوال کررہا ہے کہ مجھے کیوںمارا گیا؟میرا کیا قصور ہے؟
جوبات بڑے بڑے پڑھے لکھوں کی سمجھ میں نہیں آتی آخر کار اس سیدھے سادے منظوروا کی زبان کاٹ دار طنزیہ جملے سنیں:’’یہ تو اچھی بات نہیں بھوجی۔مارنا تو ایک آدمی کا بھی برانہ کہ لاکھوں آدمی۔مندر بھی کیوں ڈھایاجائے ۔وہاں تو لوگ پوجا کرتے ہیں۔‘‘
غور کرنے کی بات یہ ہے کہ مندر یا کسی مذہبی مقام کوڈھانے کا تصور تو کبھی منظوروا جیسے جاہل اور بیوقوف آدمی کے ذہن میں بھی نہیں آسکتا ۔یہ تو تعلیم یافتہ لوگوں کی ذہنی اپج ہے جو تعلیم کا استعمال تخریبی کار ناموں کو انجام دینے کے لیے کرتے ہیں۔
ذکیہ مشہدی کو کردار نگاری پر ملکہ حاصل ہے ۔وہ آس پاس کی زندگی سے کردار منتخب کرتی ہیں اور اس کے اندر حرکی کیفیت اور فعلیت پیدا کرکے اسے زند ہ کردیتی ہیں۔منظوروا جیسے نیک اور کم دماغ انسان کو بھی انہوں نے روزانہ زندگی سے اٹھایا۔اس کی شخصیت کے ایک ایک گوشے کو اپنے افسانہ’’منظوروا‘‘میں اجاگر کیا ہے۔منظوروا مذکورہ افسانہ کا مرکزی کردار ہے اور بابری مسجد کی مسماری اس کا بنیادی موضوع ۔افسانہ کی تکنیکی خوبی یہ ہے کہ ضمنی کرداروں کے ربط و ضوابط سے بابری مسجد کے موضوع کو کہانی کی یافت میں پیوست کیا گیا ہے۔مصنفہ نے منظوروا کاتعارف افسانہ کی ابتداہی میں کرادیا ہے:
’’پٹنہ والی چچی اسے موگا کہتی تھیں،امرونی ممانی میلا اور مقامی عورتیں مہیندرا،یہ تینوں القاب ہم معنیٰ تھے۔جہاں کام دھام سے فارغ ہوا بس عورتوں کے درمیان گھسا اور ہاتھ مٹکا مٹکا کے گپیں ہانکنی شروع کیں’’اے بھوجی سنیو؟‘‘’’اے باجی اللہ قسم ہم کہین‘‘’’ہائے دیا چچی،مہاگن ہوئے کے سفید ڈوپٹہ لائو ہم رنگ دیتے ہیں۔‘‘(۷۲)
منظوروا ایک نیک اور بے ضرر قسم کا انسان تھا۔ گھر کی جو ان بہوئیں تک اسے بلاتکلف چھیڑ تیں بیسیویں بالٹی پانی بھرنے کے بعد بھی تروتازہ اور شاداب ہنستا،مذاق کرتا، بازوئوں کی مچھلیاں اس کی محنت کشی کی گواہ تھیں اور پھٹے کپڑے اس کی زبوں حالی کی نشاندہی کرتے تھے۔منظور کسی بات کا مبرا نہیں مانتا تھا۔انور دلی زبان سے کہتے’’زنخہ کہیں کا‘‘پھر بھی اس کی موٹی عقل کو کوئی بات اہانت انگیز نہیں معلوم ہوتی تھی۔
ہندواور مسلمان کے لیے اس کے دل میں کوئی فرق نہیں تھا۔مذہب کا اور مذہبی معاملات کا تصورتو اس کے ذہن میں دور دور تک نہیں تھا لیکن انسانی درد اور ہمدردی اس کی فطری کمزوری تھی اسی لیے بلامذہب وملت کی تخصیص کے وہ سب ہی خدمت گزاری میں حاضر باش رہتا۔ ایک دن جب وہ بازار سے گزررہا تھا تو معلوم ہوا کہ دیو کی نندن بابو کی بڑی بی بی کو کسی نے ماردیا ہے۔تو اس خبر سے وہ بے چین ہوگیا اور کام کے تئیں اس کے بے دلی اور خاموشی تو جی طلب ہے:
’’وہ بالٹیاں اٹھاتے پلٹا۔اس کی آنکھوں میں خوف تھا اور حیرت اور ہمدردی اور بہت سے ایسے جذبات جنہیں گونگی آنکھیں کھل کر کہہ نہیں پاتیں بس خلط ملط کر کے رکھ دیتی ہیں۔‘‘(۷۳)
منظوربھلے ہی احمق وجاہل تھا لیکن اس کے اندر انسانیت تھی،انسانی درد تھا،منظور باتونی خوش مزاج ہر وقت مسخرہ پن کر کے سب کو ہنسانے والا تھا مگر بابر اور بابری مسجد کے قضیے نے اس کو اداس کردیا تھا۔وہ سو چنے پر مجبور تھا کہ جب وہ ترپاٹھی جی کے گھر جاتا تو اسے نئی نئی باتیں سننے کو ملتیں جو اس کی عقل وشعور سے بہت دور تھیں۔ترپاٹھی جی کی بہو اس سے ترش لہجہ میں کہتی تیرے بابر نے مندرہی نہیں توڑا بلکہ ہمارا مندر توڑ کروہاں اپنی مسجد بھی بنوائی۔’’خبر ہم اپنا مندر تو واپس لے ہی لیںگے مگر تو کان کھول کر سن لے۔یہاں کام کرنا ہے تو خبردار جو اس چنڈال کانام لیا۔لٹیرا کہیں کا‘‘اور ہندوئوں کی ہٹ دھرمی کو وہ برداشت کرتا ادھر مسلمانوں کی تاریخی دلیلوں کو سنتا کہ ’’بابر پیر فقیر نہیں ،بادشاہ تھے، بڑے منصف ،عادل صوفی منش‘‘دونوں طبقوں کی جھاڑ اس پر پڑتی:
’’جھاڑ تو منظور وا کو اکثر یہاں بھی پڑتی تھی لیکن آج بہوجی کے لہجے میں جو تحقیر اور چہرے پر جو خشونت تھی وہ اسے کہیں اندر تک کچوٹ گئی۔پہلی سادی ڈانٹیں و ہ شربت کے گھونٹ کی طرح گٹک گیا تھا ۔ان میں نہ ایسی تحقیر تھی نہ ایسی دھمکی، نہ ایسی نفرت۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔وہ اس گھر کا ایک ناگزیر حصہ ہے لیکن آج گھر کی بہو کا مسخ چہرہ ایسا دھار دار خنجر تھا،جس نے اس گھر سے اس کی ڈورکاٹ دی تھی۔‘‘(۷۴)
بابری مسجد کی مسماری سے پہلے ایسے حالات نہیں تھے دونوں قومیں آپس میں مل جل کر رہتے تھے۔ ایک دوسرے کے میلوںٹھیلوں میں شریک ہوتے۔ایک ساتھ تیوہار مناتے ۔آپس میں بھائی چارگی اور رواداری تھی۔ منظور ترپاٹھی خاندان کے بچوں کو کندھے پر چڑھاکے رام لیلا دکھانے لے جاتا۔ اب امن ،اتحاد اور یکجہتی خطرے میں آگئی۔پورے ملک میں انتہا پسند جماعتوں کا بول بالا ہوگیا۔انسانیت کے سرپر حیوانیت کا ننگا ناچ ہونے لگا۔۶؍دسمبر کو بابری مسجد کو شہید ہونے سے پہلے ہندونوجوانوں کے دل میں مسلمانوں کے خلاف نفرت کا بیج بویا کہ ’’میاں مسلمان چرب زبان ،دل میں کچھ،زبان پر کچھ،پوری قوم ہی مکارہے۔مکار اور دغاباز‘‘اس قسم کے غلیظ الفاظ مسلمانوں کے لیے بولے جانے لگے ۔حقارت اور نفرت کی فضاہموار کی گئی اور خاص طور سے ہندونوجوانوں کا ذہن گندہ کیاگیا اور آخر کار بابری مسجد شہید ہونے کا حادثہ رونماہوا اور انتہا پسند سیاسی جماعتوں نے ہندوستان کی سیکولر تاریخ میں ایک سیاہ ورق جوڑ دیا۔ یہی کہانی کا مرکزی خیال ہے جسے منظوروا کے حوالے سے بیانیہ میں تانے بانے کی مانند بناگیا ہے۔کمال فن یہ ہے کہ مصنفہ کی زبانی منظور کی شخصیت کا ی پہلوبھی سنئے:
’’دراصل منظوروا کو بسنت کی خبر نہیں ہے۔اپنی دنیا میں رہتا ہے۔دنیا کہاں سے کہاں پہنچ گئی۔کمپیوٹر اور اسپیس کرافٹ اور لوگوں کو مارنے کی اعلیٰ درجے کی تکنیکیں ،نسل کشی کے منصوبے اور پھر نسل کشی کو فساد قرار دلوانے کی گھاتیں۔ابے منظوروا ،احمق الذین،پائی بھر،تیرے میرے گھر کا بجا کچھا کھانا کھااور ایک دن بغیر نالہ وشیون،نوحہ وماتم کس اندھیری گلی میں مارا جاتب تو دیو کی نندن بابو کی بڑھی بی بی کے قتل پر افسوس کرنا بند کردے گا۔‘‘(۷۵)
سائنسی دور میں انسان کی زندگی کی کوئی قیمت نہیں بلکہ اس کو مارنے کے لیے نئے طریقے ایجاد ہوگئے ہیں اب تو نسل کشی منصوبہ بند طریقے سے ہوتی ہے۔نسل کشی کو فساد قرار دلوانے کی وجہ قانونی وجوہات ہیں تاکہ دفعات، قتل اور ارادہ قتل کی نہ لگیں جو نہایت سنگین ہوتی ہیں۔صارفیت کے اس دور میں انسان،ریاکاری،خود غرضی اور مکروفریب کا شکار ہوگیاہے۔ بے غرض، لہجے اور پر خلوص انسان کی حیثیت منظوروا جیسی ہوکر رہ گئی ہے جو انسان کی فطری سچائیوں کے ساتھ جینا چاہتے ہیں ان کا انجام بھی منظوروا کی طرح اندھیری گلی میں بڑا ہی ہولناک ہوتا ہے جس کو یاد کرنے والا کوئی نہیں ہوتا۔ نہ ہی ایسے بے لوث سیدھے سادھے افراد کا تاریخ میں کوئی ذکر ملتا ہے۔جب کہ یہ کائنات ایسے ہی کاندھوں پر ٹکی ہے ورنہ بہت پہلے فنا ہوچکی ہوتی!
٭٭٭٭٭٭
اجّن ماموں کا بیٹھکہ
افسانہ کا عنوان’’اجّن مامو کا بیٹھکہ‘‘بڑاہی عجیب اور مضحکہ خیز لگتا ہے لیکن عنوان کی معنویت کا اندازہ افسانہ کی قرأت کے بعد ہوتا ہے۔مصنفہ موضوع کی مناسبت اور کرداروں کی کیفیت کے مطابق منتخب کرتی ہیں۔پرانی طرز کے مکانات میں مہمانوں کی آمدورفت بیٹھنے اٹھنے گفتگو کرنے کے لیے ایک کمرے کی تعمیر کی جاتی تھی جو خصوصی طور سے مکان کے صدر دروازے کے آس پاس ہوتی تھی جہاں صرف مردوں کے لیے نشست وبراخاست کا انتظام ہوتا۔اسے مردان خانہ بھی کہہ سکتے ہیں۔مستورات کا وہاں گزر کم ہوتا یا ضرورتاً ان کا وہاں گزرہوتا ۔وہ کمرہ جسے بیٹھک یا بیٹھکہ کہتے زنان خانہ سے نسبتاً فاصلے پرہوتا۔اگر اس کی شکل چھوٹی رہتی تو اسے بیٹھک اور اگرذرا بڑی ہوتی تو اسے بیٹھکہ کہاجاتا۔زمینداروں ،جاگیرداروں اور دولت مندوں کی حویلیوں میںزنان خانہ اور مردان خانہ کا باقاعدہ الگ الگ انتظام ہوتا جو ان کی حیثیت کی نمائندگی کرتا۔اور متوسط گھرانوں کے مکانوں میں اسے بیٹھک یا بیٹھکہ کے نام سے موسوم کیا جاتا۔ یہ ایک طرح کا مہمان خانہ بھی کہلاتا ہے جو صرف مردوں کے لیے ہوتا ہے جدید دور میں اس نے ڈرائینگ روم کی شکل اختیار کرلی ہے ۔زمانہ کے مطابق مردوعورتیں ڈرائینگ روم میں نشست وبرخاست ایک ساتھ کرسکتی ہیں جب کہ گزشتہ دور میں پردے کی پابندی ہونے کے سبب مرد وعورتوں کو ایک ساتھ بیٹھنے کی اجازت شاذونادر ہی ہوتی۔’’اجّن مامو کا بیٹھکہ‘‘میں انوکھے لال کے ساتھ بیٹھے لالہ ہرپرساد کے قتل کے موضوع پر باتیں کررہے ہیں:
’’دوچارلوگ اور آگئے۔اس دن اتفاق سے اتوار تھا،کچہری بند تھی اور زیادہ تردوکانیں بھی ۔اجن ماموں کے بیٹھکے میں احباب کا جمگھٹ ہر چھٹی کا معمول تھا لیکن آج کسی نے نہ پنڈت نہرو کی حالیہ تقریر پر گفتگو کی نہ سیاست اور قومی آواز کے ایڈٹیوریل زیر بحث آئے نہ کسی بزرگ نے طلباء میں بڑھتی بے راہ روی پر تشویش کا اظہار کیا نہ ہی روئی کے مقامی تاجر میاں عبدالسلام پرچھینٹے کسے گئے جو ایک میونسپلٹی کے الیکشن میں کامیاب ہوگئے تھے تو ایم۔پی بننے کے خواب دیکھنے لگے تھے۔ جاہل نمبر ایک،مستیاکبابی کی دوکان کے تھڑے پر بیٹھ کر کباب کھاتے اور چائے سڑکتے۔‘‘(۷۶)
مندرجہ بالا اقتباس سے کئی پہلو ظاہر ہوتے ہیں۔ اول یہ کہ اجن میاں کی جوانی کے دور میں پنڈت نہرو جمہوریہ ہند کے وزیراعظم تھے۔ان کا جاری کردہ اخبار’’قومی آواز‘‘لوگوںکا پسندیدہ اخبار تھا جس کے ایڈیٹوریل مباحثہ کاموضوع بنتے تھے۔اس وقت بھی طلباء کی بے راہ روی بھی چرچہ کا مضمون ہوتا یعنی انگریزوں کے جانے کے بعد مغربی تہذیب کے غالب ہونے کے اثرات دکھائی دینے لگے تھے جنہوں نے آج سنگین شکل اختیار کر لی ہے۔ تیسری اہم بات سیاسی نوعیت کی ہے کہ مقامی تاجر میاں عبدالسلام جاہل نمبر 1 ہونے کے باوجودمیونسپلٹی کے الیکشن میںکامیاب ہوگئے تھے اور ایم۔پی بننے کا خواب دیکھنے لگے تھے۔جب کہ وہ شخص شرابی کبابی،مزاجاً فتنہ پرداز اور احمق پیسے والا تھا۔آج کے دور میں نیتا بننے کے لیے یہ خوبیاں اور بھی مضبوط ہوگئی ہیں۔یہی وجہ ہے کہ ہندوستان کی سیاست نے ملک کا معاشی،معاشرتی اور سماجی نظام تباہ وبرباد کر کے رکھ دیا ہے۔چاروں طرف قتل و خون،غارت گری، غنڈہ گردی کابازار گرم ہے۔
افسانہ کا مرکزی موضوع بھی قتل وخون کی واردات کا ہونا ہے ۔گذشتہ دور میں شہر گائوں اور قصبہ میں اتفاق سے کوئی قتل ہوجاتا تو پوری آبادی میں ہیجان طاری ہوتی،ہفتوں ،مہینوں اس کی چرچہ ہوتی،غم والم کا چرچہ ہوتا،مختلف انداز میں اظہار افسوس ہوتا،انسانی ہمدردی، رواداری اور امن وآشتی سے رہنے کی کوششیں ہوتی تھی لیکن جب زمانہ نے کروٹ بدلی تو قتل وخون کی وارداتیں عام ہوگئیں ہیں۔اخبارات غنڈہ گردی ،فسادات، انسانی اتلاف سے بھرے ہوتے ہیں لیکن کانوں پر جوں بھی نہیں رینگتی۔کوئی چرچہ نہیں،کوئی غم نہیں۔ اظہار ی ہمدردی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ہے۔جیسے ایسی واردات اور حادثات کو دیکھنے اور سننے کے لوگ عادی ہوگئے ہیں،انسانیت دم توڑ چکی ہے لوگوں کے ضمیر مرچکے ہیں۔سفاکیت اور ظلم وستم کھلے عام ہورہے ہیں۔اس کے قصور وار قومی رہنما، مردہ ضمیر نیتا اور انتظامیہ ہے کہانی کی ابتدا اس طرح ہوتی ہے کہ بابو انوکھے لال شری واستو ایڈوکیٹ اجن مامو کو ایک منحوس خبر کی اطلاع دیتے ہیں کہ’’بابو رام پرشاد کی حویلی میں قتل ہوگیا‘‘بابو انوکھے لال خو ف زدہ ،گھبرائے ہوئے اور حواس باختہ تھے اس وقت اجن ماموں اپنے بیٹھکہ میں حقہ گڑگڑا رہے تھے۔ خبر سنتے ہی وہ چونکے اورحقہ کی نے ہاتھ سے چھوٹ گئی۔تفتیش کرنے پر معلوم ہوا’’قتل ہر پرشاد بابو کا ہوا ہے جو ایک بوڑھا شخص ہے ۔اس وقت اجن ماموں کے منہ سے نکلا کہ وہ بے چارہ بزرگ،بے ضرر انسان سے کسی کی کیادشمنی ہوسکتی تھی۔ماموں کے بیٹھکے میں آنے والے ہر مرد کی گفتگو ‘‘کیازمانہ آن گیا‘‘ٹیپ کے بندسے شروع ہوتی اور اسی پر ختم ہوتی تھی۔
بھلے ہی کائنات فساد سے بھری ہو، پھر بھی جب کوئی شریف اور بے ضرر انسان مرتا ہے تو دکھ اور تکلیف کا احساس بھی انسان ہی کوہوتا ہے۔ وہ چاہے کسی بھی مذہب یا طبقہ سے تعلق رکھتا ہو۔پھر ہندوستان کی گنگاجمنی تہذیب کی یہ خصوصیت بھی ہے۔اس معاملے میں چھوٹے شہروں اور قصبوں کا ماحول بڑے شہروں سے مختلف ہے۔کم آبادی والے شہروں اور قصبوں میں محبت، ہمدردی اور رواداری بڑے شہروں کے مقابلے میں زیادہ ملتی ہے ۔ یہی سب ہے ہری پرشاد قتل کی واردات ہونے پر پورے قصبہ میں ماتم طاری ہوگیا ہر شخص حیرت زدہ اور غم زدہ ہوگیا۔ پوری آبادی میں چرچہ کاموضوع بن گیا۔ یہ گذشتہ ہندوستان کی روایت کی نشاندہی کرتی ہے کہ انسانوں کے اندر ملنساری ،ہمدردی کا جذبہ بہت قومی ہے۔زمانہ کی بدلتی ہوئی شکل کو مصنفہ بیان کرتی ہیں۔
’’پھر یہ گردان کرتے کرتے اجن ماموں کا زمانہ ختم ہونے لگا۔ان کے بیٹھکے کا پلاسٹر اور ان کے تمام ساتھیوں کا کلف جھڑگیا ۔وہ سب کے سب ڈھیلے ڈھالے سے گردن لٹکائے بیٹھے اپنی دھندلی ہوتی ہوئی آنکھوں کے سامنے کی دنیا کامنظر دیکھ رہے تھے۔دنیا جو قتل وغارت گری کا ایک مہیب کو لاج بنتی جارہی تھی اور جس سے انہوں نے غدار کو دور رکھنا چاہا تھا ۔قصبے میں بیک وقت ایک ہی کنبے کے گیارہ افراد قتل ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔پچھلے چند ماہ کی کل تعداد ایک سوساٹھ ۔گھاٹی میں آج پولس کے دوجوانوں سمیت بتیس آدمیوں کی موت۔۔۔۔۔۔۔‘‘(۷۷)
صورت حال کا بدلائو دیکھیں جودرج بالا اقتباس ذکیہ مشہدی کی تخلیق اور فنکاری کی بہترین مثال ہے ۔کفایت لفظی میںجو معنیٰ خیز ی ہے۔غور طلب کہ قصبہ کی منظر کشی میں ہندوستان کی موجودہ صورت حال کا منظر نامہ پوشیدہ ہے۔ماموں کی عمر کے ذریعہ زمانے کی کروٹ پرروشنی ڈال کر افسانہ نے سماجی اعتبار سے دوزمانوں کا سمیٹ لیا ہے۔زمانہ کے بدلائو کے سلسلے میں ان کی تخلیق جوہر اور فنی حربہ قابل تحسین ہے۔’’پھر یہ گردان کرتے کرتے اجن ماموں کا زمانہ ختم ہونے لگا۔ان کے بیٹھکے کا پلاسٹر اور ان کے تمام ساتھیوں کا کلف جھڑگیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘پرانے زمانے میں ایک قتل ہونے پر انسان حیرت زدہ اور غم زدہ ہوجا تا تھا۔آج دنیا جو قتل وغارت گری کا ایک مہیب کو لاج بنتی جارہی ہے ۔قصبہ میں ایک ہی کنبے کے گیارہ افراد قتل ہوتے ہیں۔بغل کے ضلع کے گائوں میں ایک ہی ذات سے تعلق رکھنے والے چوبیس آدمی مارے جاتے ہیں۔مخصوص قبیلے کے پورے گائوں کا صفایا ہوتا ہے ۔گھاٹی میں پولس کے دوجوانوں سمیت بتیس آدمیوں کی موت واقع ہوتی ہے۔قتل وغارت گری کے واقعات سے اخبارات بھرے پڑے ہیں۔ ان کے تراشے دھرتی سے آسمان تک پہنچ رہے ہیںلیکن اس زمانہ کا انسان قتل وغارت گری کی خبریں پڑھنے،سننے اور دیکھنے کا جیسے عادی ہوچکا ہے۔ایسی وارداتوں کے رونماہونے سے اس کی صحت پر کوئی اثر نہیں پڑتا جب کہ اجن مامو ں جیسے لوگوں کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگتے ہیںاور مخدوش اور خوف زدہ ہوکر وہ اپنی بھانجی عذرا کے بچے جوجوان ہوچکے ہیں کو ایسے دہشت ناک ماحول سے بچانے میں اپنی عافیت سمجھتے ہیں:
’’کہاں سے چلے آرہے ہومیاں۔برف کٹ رہی ہے اور موٹر سائیکل پراڑے اڑے پھرتے ہو۔اور ہلمٹ کہاں ہے تمہارا؟‘‘
’’ماموں میں ابھی سلام چوک کی طرف سے آرہا ہوں‘‘اس کی آواز کچھ سنجیدہ تھی۔دانت کٹکٹا ئے ۔کوئی سلام چوک کا نام لیتا تو ان کے اندر کچھ ایسا ہی رد عمل پیدا ہوتا تھا۔میاں عبدالسلام کا بیٹا بیوقوف فتّین نہیں تھا۔فتنہ اس نے باپ سے ورثے میں پایا تھاا ور چالا کی گردوپیش کے تیزی سے تبدیل ہوتے منظر نامے سے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اس نے اور بھی کامیابیاں حاصل کیں۔جن میں ایک یہ بھی تھی کہ باپ کو ایک عظیم ہستی ثابت کر کے ان کے نام پر شہر کے چوک کا نام رکھوایا‘‘۔(۷۸)
اجن ماموں کی جوانی کے دلوں میں لالہ ہر ی پرشاد کے قتل کا واقعہ ہوا تھا تو گھر گھر اس کی چرچہ عام ہوگئی تھی لیکن قتل کا واقعہ بڑوں کی زبان پر تھا۔ایسے بھیانک واقعات بچوں سے چھپائے جاتے تھی تاکہ ان کے اوپر غلط اثرات نہ پڑیں۔ اس سماجی حقیقت کو مصنفہ نے مکالموں کی صورت میں پیش کیا ہے اس زمانہ میں برائی سے بچانے کے لیے بچوں کی نفسیاتی اور جذباتی تربیت بھی بڑی احتیاط سے کی جاتی تھی جو اس جدید دور میں ناپیدہے بلکہ زندگی کی تیز رفتاری میں بچوں کی صحیح تربیت کہیں چھوٹ گئی ہے ۔صارفیت کے اس زمانے میں انسان دولت کے پیچھے بھاگ رہا ہے اور اس کے پاس بچوں کی تہذیب وتربیت کی تعمیرو تشکیل کے لیے فرصت ہی نہیں ہے۔مذکورہ افسانہ میں اس پہلو کی طرف مصنفہ نے مکالماتی انداز میں اشارہ کیا ہے:
’’عذرا کی ممانی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘وہ دوڑی ہوئی آئیں۔‘‘ آگئے آپ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔سناہے بابو رام پرشاد کی حویلی میں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘’’ارے بھئی پھر پوچھ لینا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔بچوں کے سامنے یہ قتل وغارت گری کی باتیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جائو جائو اپنا کام کرو۔اور کھانا لگوائو۔عذرا بھوکی ہوگی‘‘ پھر زیر لب لولے’’گرچہ کیا کھانا کھایا جائے وہ معلوم ہے ایسا جی خراب ہوا ہے سن کر۔‘‘(۷۹)
مصنفہ نے سماجی حقیقت کو اس طرح پیش کیا ہے کہ اس کا نقشہ ہماری آنکھوں کے سامنے گھومنے لگتا ہے۔کرداروں کے تعلق سے جو واقعات ہماری روزانہ زندگی میں دیکھنے کو ملتے ہیں ان پر بھی ان کی نظر گہری ہے۔مثلاً اجن میاں نے اپنی بھانجی عذرا کو پال لیا تھا۔ اس نسبت سے نسبتی میں اجن ماموں کے نام سے مشہور ہوگئے تھے۔اجن ماموں جگت ماموں تھے۔ اس معاملہ میں ان کے مزاج کی کیفیت اس طرح تھی کہ چھوٹے انہیں ماموں کہتے تھے تو پسند تھا لیکن برابر کایاردوست یا بڑا ماموں کہتا تو انہیںزور کا غصہ آجاتا۔ اسی طرح اجن ماموں کے بے تکلف دوست حافظ صدرالزماں محلے میں حافظ بھنڈی کے نام سے مشہور تھے:
’’وہ اجن ماموں کے بے تکلف دوستوں میں سے تھے۔سیدھے گالی سے بات کرتے لیکن اس وقت نہایت وحشت زدہ تھے۔گالی کیا،مہذب الفاظ منھ سے نکالنے میں دقت ہورہی تھی۔‘‘(۸۰)
جہاں یہ ہماری روزانہ زندگی معمولات کا مظہر ہے وہیں مصنفہ کی کردار نگاری کی مثال بھی ہے۔مذکورہ افسانہ میں اس طرح کی مثالیں اور بھی مل جائیںگی جوذ کیہ سلطانہ کی حقیقت پسندی کا اعتراف کرتی ہیں۔یہ افسانہ بھی ان کی تخلیقی اور فنی صلاحیتوں کی غمار ہے۔
٭٭٭٭٭٭

Leave a Comment