پروفیسرشہاب عنایت ملک
94191-81351
ریاستی کلچرل اکیڈمی نے ہمالین ایجوکیشن سوسائٹی کی ادبی شاخ دبستان ہمالہ کے اشتراک سے ہمالیہ کالج کیمپس میں دوروزہ ثقافتی وادبی میلہ کاانعقاد 4 اور5 مئی 2018 کوکرکے کئی اعتبارسے اس دوروزہ سرگرمی کوتاریخی حیثیت بخش دی۔ ریاستی کلچرل اکیڈمی نے پیرپنچال میں اس قسم کاتہذیبی اورادبی جشن منعقدکرکے اس خطے کی تاریخ میں اپنے نام کوہمیشہ کے لیے رقم کرلیاہے ۔ اس دوروزہ ادبی میلے کی سب سے بڑی خصوصیت یہ رہی کہ جہاں اس جشن میں مقامی ادیبوں، شاعروں، فنکاروں اورفنون لطیفہ سے تعلق رکھنے والے کئی اہم افرادنے شرکت کرکے اس میلے کی رونق کودوبالا کیاوہیں ریاست بھرجموں ،لداخ اورکشمیرکے ادباء وشعراء کے علاوہ ملکی سطح کے کئی ایسے شعرا نے بھی راجوری میں تشریف فرماہوکر اس ادبی اورثقافتی جشن کو کامیاب بنانے میں اہم رول ادا کیا۔راجوری کے ادب نواز عوام نے میلے کوکامیاب بنانے میں منتظمین کوجوتعاون دیا اُس سے یہی اندازہ لگایاجاسکتاہے کہ اس سرحدی ضلع میں عوام ادبی جمود کوختم کرکے اس قسم کی سرگرمیاں منعقدکرکے امن اورآپسی بھائی چارہ کادرس دینے کے متمنی ہیں ۔سرحدی ضلع میں چھائے ہوئے ادبی جمود کوجس طرح سے ریاستی کلچرل اکیڈمی نے توڑا ہے اس کے لیے ریاستی کلچرل اکیڈمی کے سیکریٹری جناب عزیزحاجنی اور دبستان ہمالہ کے سرپرست اعلیٰ جناب فاروق مضطر کی جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہے۔اکیڈمی کے اہلکارڈاکٹر شاہنوازچودھری نے بھی اس تقریب کومنعقدکرنے میں بنیادی کردارادا کیا۔میرے نزدیک اُن سرحدی اضلاع میں اس قسم کی تقاریب کااہتمام اس لیے بھی لازمی بن جاتاہے کیونکہ پونچھ اور راجوری دونوں اضلاع سرحدکے بالکل قریب ہونے کی وجہ سے آئے دن پاکستانی گولہ باری کانشانہ بن کرپریشانیوں اورمصیبتوں میں مبتلاہوتے رہتے ہیں ۔عوام کوپریشانیوں اورمصیبتوں سے تھوڑی دیرکے لیے اگرکوئی چیز خوشی اورسکون فراہم کرتی ہے تووہ فنون لطیفہ ہے ۔اس رازکوپاکر ریاستی کلچرل اکیڈمی نے ایک نئی پہل راجوری سے شروع کرکے نہ صرف ایک کامیاب تجربہ کیاہے بلکہ اس خطے سے تعلق رکھنے والے فنکاروں کوایک نیا حوصلہ بھی عطا کیاہے۔راجوری کے اس دوروزہ میلے میں ملکی سطح کے جن شاعروں نے شرکت کرکے اپنی شاعری سے راجوری کے عوام کومحظوظ کیا ان میں راجیش ریڈی ،محشرآفریدی ،شکیل اعظمی ،مدن موہن دانش اور جاویدانور کے اسمائے گرامی قابل ذکر ہیں ۔ ریاستی سطح کے چند نامورشعراء نے مشاعرہ میں شرکت کرکے کل ہند مشاعرہ کی رونق کودوبالا کیاان میںعرش صہبائی ،رفیق راز ،احمدشناس ، لیاقت جعفری، شفق سوپوری ،رخسانہ جبین، شبنم عشائی ،بلراج بخشی ، شمس کمال انجم وغیرہ وہ نام ہیں جنھوں نے صف سامعین سے خوب داد حاصل کی۔
منتظمین نے اس دوروزہ ادبی اورثقافتی میلے کوکئی حصوں میں تقسیم کیاہواتھا ۔ پہلے دن صبح ایک کثیراللسانی مشاعرہ کاانعقاد کیاگیاجس میں خطہ پیرپنچال کے مقامی شعراء نے پنجابی،اُردو،ڈوگری ،گوجری،پہاڑی اورکشمیری میں اپنے اشعارپیش کرکے سامعین سے خوب داد وصول کی۔ ان مقامی شعراء کے کلام سے یہ اندازہ بخوبی لگایاجاسکتاہے کہ اگر ان شاعروں کوتھوڑی سی تربیت اور پلیٹ فارم مہیاکیاجائے تو یہ ریاستی اورملکی سطح پر اپنے آپ کومنوانے میں ضرورکامیاب ہوں گے اوریہ پہلا پلیٹ فارم انہیں عزیزحاجنی اورفاروق مضطر نے فراہم کرکے یہ ثابت کردیاکہ ’ذرانم ہوتویہ مٹی بڑی زرخیزہے ساقی‘ اس کثیراللسانی کل ریاستی مشاعرے میں جن شعراء نے اپنے کلام سے سامعین کی داد بٹوری ان میں فداراجوروی ، شاہبازراجوروی ، ڈاکٹروقار، ڈاکٹرلیاقت نیر، روبینہ میر ،سوامی انتریامی وغیرہ کے نام قابل ذکرہیں ۔دوپہر کے بعدکل ہند مشاعرہ منعقدہوا جس کا ذکراوپر کرچکاہوں ۔ کل ریاستی کثیراللسانی مشاعرہ میں مقامی ایم ایل سی جناب وبودھ گپتااورپہاڑی ایڈوائزری بورڈ کے وائس چیئرمین کلدیپ راج گپتا بھی بطورمہمان خصوصی اورمہمان ذی وقارموجودتھے جبکہ کل ہندمشاعرے میں مقامی ایم ایل اے چودھری قمر نے مہمان خصوصی کے فرائض انجام دیئے جبکہ اس موقعہ پر ایس ایس پی راجوری جناب جگل منہاس مہمان ذی وقارتھے۔ پہلے دن محفل موسیقی کاانعقاد بھی کیاگیا جس میں ریاست کے معتبرگلوکاروں شازیہ بشیر اورزلیخافرید نے اپنی مترنم اورپُرسوزآواز میں گلوکاری کے جوہردکھاکر سامعین کے دِلوں میں اپنے لیے ایک الگ گھربنالیا اور خوب داد وصول کی ۔جب یہ دونوں گلوکارائیں اپنی پُرسوز آوازکاجادوجگارہی تھیں توہمالین کالج کاپوراپنڈا ل خوشی اورتالیوں سے جھوم اورگونج رہاتھا۔
4 تاریخ کوہی شام سات بجے تقسیم اعزازات کاانعقاد کیاگیاجس میں دبستان ہمالہ کی طرف سے مقامی اورریاستی ادیبوں کوفخرپیرپنچال کے اعزازسے نوازاگیا۔یہ اعزازات جموں یونیورسٹی کے صدرشعبہ اُردوپروفیسرشہاب عنایت ملک ، ایس ایس پی راجوری جناب جگل منہاس ،دبستان ہمالہ کے سرپرست اعلیٰ جناب فاروق مضطر اورسیکریٹری کلچرل اکیڈمی ڈاکٹرعزیزحاجنی نے ادباء اورشعراء کوپیش کئے جن ادباء اورشعراء کویہ اعزازات پیش کئے گئے ان میں عرش صہبائی ،خالدحسین ،احمدشناس ، طارق میر، فاروق نازکی، ڈاکٹرعزیزحاجنی، فداراجوروی ، ڈاکٹرایم کے وقار، جناب نثارراہی ، جناب ایم این قریشی کے اسمائے گرامی قابل ذکرہیں۔اس کے علاوہ کشمیریونیورسٹی کے سابقہ صدرشعبہ اُردواورنامورناقد پروفیسرقدوس جاوید کولائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈسے بھی نوازا گیا۔ میلے کے دوسرے دن یعنی 5 مئی کو ایک ادبی کانفرنس کاانعقاد کیاگیا جس کے دواجلاس منعقدہوئے ۔پہلے اجلاس کی صدارت کشمیری زبان کے معروف قلمکارجناب غلام حسین آتش نے کی ۔اس اجلاس میں لوک ادب پربحث کی گئی ۔لوک ادب پر پروفیسراسداللہ وانی ،پروفیسرفاروق فیاض اورپروفیسرشادرمضان نے موضوع سے متعلق گفتگو کی ۔ اس کے بعد مختلف شرکاء نے لوک ادب سے متعلق اپنے خیالات کااظہاربھی کیااورمعززدانشوروں سے مختلف سوالات بھی پوچھے جن کے جوابات معززماہرین نے تسلی بخش طریقے سے دیئے ۔لوک ادب سے متعلق جناب غلام حسن آتش نے پرمغز صدارتی خطبہ بھی پیش کیا۔ انہوں نے لوک ادب کومحفوظ کرنے کیلئے ریاستی کلچرل اکیڈمی کومبارکباد بھی پیش کی۔ دوسرے اجلاس کاموضوع ’ریاست جموں وکشمیرمیں اُردوزبا ن وادب کامنظرنامہ ‘‘ تھا جس میں پروفیسرقدوس جاوید ،پروفیسرشہاب عنایت ملک اورڈاکٹرنذیرآزاد ماہرین کے طورپرشریک ہوئے۔تینوں ماہرین نے اس موضوع پرگفتگو کرتے ہوئے یہ بتایاکہ ریاست میں مختلف ادوارمیں مختلف موضوعات پرجوادب تحریرکیاگیا وہ کسی سے کم نہیں ہے۔ہمارے ادیب ملکی تحریکات سے متاثربھی ہوئے ۔اس اجلاس میں ڈاکٹرعزیزحاجنی کے اس سوال نے کافی گرماگرمی پیداکردی کہ آخرریاست کے کسی اُردوادیب کوآج تک ساہتیہ اکیڈمی کاایوارڈ کیوں نہیں دیاگیا۔ اس سلسلے میں پروفیسرشہاب ملک اورڈاکٹرنذیرآزاد نے ایوارڈ وں کی بندربانٹ کے سلسلے میں گروہ بندی کوموردالزام ٹھہرایا۔ پروفیسرشہاب ملک نے کہاکہ جموں وکشمیرایک الگ ادبی دبستان کی حیثیت کے طورپراُبھر کرسامنے آیا ہے اورریاستی اکیڈمی نے جس طرح اس دبستان کے ادیبوں کیلئے 10لاکھ کاایوارڈ قائم کیاہے وہ ایک بڑی بات ہے۔
دوروزہ ادبی اورثقافتی میلہ کی ایک اورتاریخی حیثیت کتابوں کی ایک نمائش بھی تھی جوتقریباً ساٹھ ہزارمختلف موضوعات پرمشتمل تھی۔یہ وہ کتابیں تھیں جوہمالہ کالج کی لائبریری کی زینت تھیں۔ ریاست جموں وکشمیرکے اس سرحدی ضلع میں ایک ہی جگہ اتنی تعدادمیں کتابیں ہوناایک بڑی بات ہے اس کے لیے جناب فاروق مضطر مبارکبادکے مستحق ہیں۔
راجوری میں منعقدہ دوروزہ میلہ میں ہرکوئی خوشی سے سرشارتھا۔نظامت کرنے والے افراداس قدرخوش تھے کہ انہوں نے کسی کوگوجری کاپریم چندقراردیاتو کسی کواُردوکاکرشن چندر بغیریہ دیکھتے ہوئے کہ وہ جوبات کہہ رہے ہیں اس میں وزن ہے بھی یانہیں۔ بہرحال ادب میں جوش کے ساتھ ہوش رکھنے کی بے حد ضرورت ہوتی ہے اوریہ ہوش دبستان ہمالہ کے اہلکاران خاص کرمسلم وانی اورسلیم وانی نے ضروررکھا جنھوں نے مہمان نوازی کی ایک مثال قائم کرکے یہ ثابت کردیا کہ راجوری اورپونچھ کے عوام مہمان نوازی میں کسی سے کم نہیں ۔ اگرچہ کہ راقم اس عصرانے سے محروم رہا جوخفیہ طور انہوں نے شاعروں کے اعزازمیں گھرمیں دیا لیکن اس کے باوجودمیں ان کی مہمان نوازی کوسلام پیش کرتاہوں اورمیلے کے انعقاد کے لیے منتظمین کودِل کی گہرائیوں سے مبارک باد پیش کرتاہوں۔ یہ میلہ شاید اتناکامیاب نہیں رہتااگرریاستی کلچرل اکیڈمی کے سیکریٹری جناب عزیزحاجنی اورڈاکٹرشاہنواز اتنی محنت نہ کرتے۔دونوں حضرات نہ صرف بہ نفس نفیس موجودرہے بلکہ اسکی کاروائیوں میں حصہ لے کر اس کوایک مثالی میلہ بنانے میں بھی کامیاب ہوئے۔امید ہے کہ یہ سلسلہ آگے بھی جاری رہے گا۔