”سرسیداحمدخان اورپنجاب “جزیرہ امن میں دوروزہ قومی سیمینار

\"\"
پروفیسرشہاب عنایت ملک

94191-81351

\"\"
مالیرکوٹلہ کاشمارہندوستان کے اُن شہروں میں ہوتاہے جواُردوادب کے لحاظ سے بے حدزرخیز ہیں۔ادبی سرگرمیوں کی وجہ سے بھی یہ شہراپنی پہچان بناچکاہے ۔مالیرکوٹلہ کوجزیرہ امن بھی کہاجاتاہے وہ اس لیے کہ 1947ءمیں ملک کی تقسیم کے وقت یہاں کسی قسم کانہ توخون ہی بہا اورنہ ہی کسی نے یہاں سے ہجرت کی اورشایدکشمیرکے بعدمالیرکوٹلہ ہی پورے ہندوستان میں ایک ایساشہررہا جوخون خرابے سے محفوظ رہا۔ صنعت وحرفت کے اعتبارسے بھی یہ ایک مشہور شہر ہے ۔پورے پنجاب میں یہ واحدایساعلاقہ ہے جہاں مسلمانوں کی تعداد65% ہے ۔امن کے اسی جزیرہ میں پنجاب اُردواکیڈمی کادفتربھی حکومت پنجاب نے قائم کیاہواہے ۔ اسی ادارہ کی طرف سے 9اور10 مئی کو دوروزہ قومی سیمی نارکاانعقاد کیاگیا۔سیمی نار کاموضوع ”سرسیداورپنجاب“ تھا۔واضح رہے کہ سرسیداحمدخان نے اپنی زندگی میں 5دفعہ پنجاب کادورہ کیا۔یہاں انہیں اپنی تحریک کوچلانے کے لئے ہندومسلمانوں اورسکھوں سے جو مالی اوراخلاقی تعاون ملاوہ پنجاب کی تاریخ میں ایک روشن باب کی حیثیت رکھتاہے ۔سرسیدنے جالندھر ،لدھیانہ ،گرداس پور،امرتسر،لاہور ،انبالہ وغیرہ شہروں میں عوام کواپنے خطبات سے محظوظ کیا۔ اہلیان پنجاب نے جس طرح سرسیدکااستقبال کیااسے پڑھ کرمعلوم ہوتاہے کہ اہل پنجاب نے سرسیدکے خوابوں کوپوراکرنے کے لئے نہ صرف انہیں چندوں سے نوازابلکہ عورتوں نے انہیں اپنے مشن کوپورا کرنے کے لیے زیورات بھی نچھاورکئے۔یہ تمام معلومات دوروزہ قومی سیمینار بعنوان ”سرسیداورپنجاب“سے حاصل ہوئیں۔ اس دوروزہ قومی سیمینار میں ملک کے مختلف علاقوں سے آئے ہوئے اُردواسکالرز نے موضوع سے متعلق مقالات پیش کرکے سرسیداحمدخان کوزبردست خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے انہیں قوم کامسیحا بھی قراردیا۔مقررین نے پنجابیوں کے خلوص اورسرسیدکے تئیں اُن کی عزت کواُجاگر کرکے سرسید تحریک کوپروان چڑھانے میں پنجابیوں کے کردار پربھرپورروشنی بھی ڈالی۔اس دوروزہ قومی سیمینار کے مقالہ خوانی کے تین سیشن منعقد ہوئے جن میں تقریباً 15 مقالہ نگاروں نے سرسیداورپنجاب کے مختلف گوشوں پرمقالات پیش کرکے سرسیدسے متعلق پوشیدہ گوشوں کوسامعین سے روشناس کرایا۔سیمی نارکی سب سے بڑی کامیابی یہ رہی کہ پورے دودن اہلیان مالیرکوٹلہ کی ایک کثیرتعدادنے اُردواکیڈمی پنجاب کے سیمی نار ہال میں نہ صرف مقالات کوتوجہ سے سنابلکہ مختلف سوالات قائم کرکے سیمی نارمیں بحث ومباحثہ کرکے کافی گرماگرمی بھی پیدا کی۔ دوران سیمی نار پروفیسرشہاب عنایت ملک صدرشعبہ اُردو جموں یونیورسٹی اورپروفیسرصغیرافراہیم صدرشعبہ اُردومسلم یونیورسٹی علی گڑھ کے علاوہ ڈاکٹرروبینہ شبنم سیکریٹری پنجاب اُردواکیڈمی پنجاب کے ہاتھوں متعددکتابوں کارسم اجراءبھی کیاگیاجن میں بنارس سے شائع ہونے والاسہ ماہی مجلہ ’تحریک ادب ‘اورڈاکٹرحناخان کی مرتب کردہ کتاب ”جہانِ صغیرافراہیم “قابل ذکرہیں۔منتظمین نے اس موقعہ پرپروفیسرصغیرافراہیم ،پروفیسرشہاب عنایت ملک اورپروفیسرسرجیت سنگھ ڈھلوں کواُن کی علمی اورادبی خدمات کے اعتراف میں اعزازسے بھی نوازا۔ سیمی نارکاافتتاحی اجلاس 8 مئی کو بوقت گیارہ بجے صبح منعقد ہوا جس کی صدارت صدرشعبہ اُردوجموں یونیورسٹی پروفیسر شہاب عنایت ملک نے کی۔ سیکریٹری اُردواکیڈمی نے مہمانوں کااستقبال کرتے ہوئے اُردواکیڈمی پنجاب کی اب تک کی کارکردگی پر روشنی ڈالتے ہوئے ان تقریبات کاذکرکیاجن کاانعقاداکیڈمی اب تک کرچکی ہے۔پروفیسرصغیرافراہیم نے سیمی نارکاپرمغز کلیدی خطبہ پیش کیا جس میں انہوں نے سرسیداورپنجاب کے رشتوں کاذکر کرتے ہوئے بعض اہم نکات پربڑی باریک بینی سے روشنی ڈالی۔انہوں نے پنجاب کوصوفیوں ،سنتوں اوررشی منیوں کی زمین قراردیتے ہوئے کہاکہ سرسیدکامتبرک مشن اسی سرزمین پرپروان چڑھا۔ عہدسرسیدمیں پنجاب 24 ریاستوں پرمشتمل تھا جس میں مالیرکوٹلہ ایک اہم ریاست تھی۔ پروفیسرصغیرافراہیم نے مہاراجہ کپورتھلہ کاذکرکرتے ہوئے کہاکہ سرسیدنے ان کی رہائش گاہ میں قیام کرکے مستقبل کے لائحہ عمل کوترتیب دیا۔ سرسیدپنجاب کوقومی یکجہتی کاگہوارہ سمجھتے تھے۔اہل پنجاب نے سرسیدکومنظم طریقے سے تعصب سے لڑنے کی قوت بھی بخشی۔

پروفیسرسرجیت سنگھ ڈھلوں نے اپنی تقریر میں اُن یادوں کوپیش کیا جوعلی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے وابستہ تھیں۔ انہوں نے کہاکہ اگرچہ وہ آگرہ تاج محل دیکھنے کی غرض سے گئے تھے لیکن وہاں سے جب وہ علی گڑھ یونیورسٹی گئے توان کے دِل کویہ یونیورسٹی بہت بھائی پھرانہوں نے ایم ایس سی میں اُسی وقت داخلہ لیا اوروہیں پرلیکچرار بھی تعینات ہوئے۔ 1968ءمیں انہوں نے علی گڑھ یونیورسٹی کوخیرآباد کہہ کرپنجابی یونیورسٹی پٹیالہ میں نوکری اختیارکی۔ پروفیسرڈھلوں نے جمال ہوسٹل اورآفتاب ہوسٹل کاذکرکرتے ہوئے ڈاکٹرذاکرحسین کی بیٹی کی اُس شادی کاذکر بھی کیا جس میںوہ ایک نقلی دعوت نامے پرشریک ہوئے۔سرسید تحریک سے متعلق خیالات کااظہارکرتے ہوئے پروفیسرسرجیت سنگھ ڈھلوں نے کہاکہ سرسیدنے قوم کوآگے بڑھانے کےلئے مغرب کی بعض اچھی روایتوں کواپنانے پرزوردیا۔ انہوں نے کہاکہ علی گڑھ نے انہیں محبت کے علاوہ بہت کچھ دیا۔علی گڑھ آپسی بھائی چارہ کاایک بہت بڑا گہوارہ بھی ہے۔
اس موقعہ پر خیالات کااظہارکرتے ہوئے پروفیسراخترمحمودپروفیسر ایمریٹس پنجاب یونیورسٹی چندی گڑھ نے اپنے خیالات کااظہارکرتے ہوئے کہاکہ انہوں نے علی گڑھ سے بائیوکیمسٹری میں ایم ایس سی کی ڈگری حاصل کی۔پنجاب اُردواکیڈمی کوپہ درپہ تقاریب کے انعقاد کے لئے انہوں نے کہاکہ اُردواکیڈمی کافرض ہے کہ وہ اُردوکاموازنہ دوسری زبانوں سے بھی کرائے تاکہ دوسری زبانوں کابھی پتہ چل سکے کہ وہ کہاں کھڑی ہیں ۔اکیڈمی کایہ بھی فرض ہے کہ وہ طالب علموں کوسول سروسزکے لئے بھی تیار کرے ۔اس سلسلے میں اکیڈمی بیداری پروگراموں کاانعقادکرے۔
اپنے صدارتی خطبے میں پروفیسرشہاب عنایت ملک نے پنجاب کومتبرک زمین قراردیتے ہوئے مجموعی طورپر سرسید کی خدمات کاتفصیلی جائزہ لیا۔ انہوں نے کہاکہ سرسید ایک ہمہ جہت شخصیت کے مالک تھے۔وہ ایک ادیب،مفکر،سیاست دان اورقوم کے ایک بڑے مصلح بھی تھے جنھوں نے مسلمان قوم کی بہتری کے لئے وہ وہ کارنامے انجام دیئے کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے ۔پنجاب کے ساتھ ان کاگہرا رشتہ تھا۔ وہ پنجابیوں کی عزت دِل کی گہرائیوں سے کرتے تھے۔ اسی لئے اس تحریک کوکامیاب بنانے کے لئے وہ پنجاب باربارآئے۔پنجاب نے انہیں الطاف حسین حالی جیسا جیالاساتھی دیا جنھوں نے نظم جدید کی بنیادڈالنے میں اہم کردار ادا کیا ۔آخرمیں سیکریٹری پنجاب اُردواکیڈمی ڈاکٹرروبینہ شبنم نے مہمانوں کاشکریہ ادا کیاجبکہ بصیرالحسن نقوی نے نظامت کے فرائض انجام دیئے۔
اس دوروزہ قومی سیمی نار کاپہلااجلاس اسی دن ظہرانے کے بعدٹھیک 3 بجے شروع ہوا ۔اس اجلاس کی صدارت پروفیسرشہاب عنایت ملک صدرشعبہ اُردوجموں یونیورسٹی نے کی۔ڈاکٹرحنا آفریں ،ڈاکٹرسیماصغیر،سیدمظفرحسین اورڈاکٹرعلی عباس نے موضوع سے متعلق مقالات پیش کرکے سرسیداورپنجاب کے مختلف گوشوں کواُجاگرکرکے سامعین سے اچھی خاصی دادوصول کی۔ مقالہ نگاروں نے سرسیدکے تعلیم نسواں اور تصورتعلیم کے علاوہ پنجاب کے غیرمسلموں کے سرسیدسے تعلقات کے بارے میں بھی بات کی ۔اس اجلاس کی نظامت جاویدانورنے انجام دی۔ اسی دن شام 5 بجے اُردواکیڈمی کی طرف سے ایک اُردومشاعرہ کاانعقاد بھی کیاگیا جس میں سرزمین مالیرکوتلہ کے اہم شاعروں نے اپنے کلام سے سامعین کومحظوظ کرکے خوب دادحاصل کی۔ پروفیسرشہاب عنایت ملک نے موجوددورمیں سرسیدکے خیالات کوعام کرنے پرزوردیا تاکہ معاشرے میں امن وامان پیداہوسکے ۔
سیمی نار کادوسرااجلاس 9 مئی 2018ءکوصبح 11 بجے منعقد ہوا ۔اس موقعہ پر پروفیسرشہاب عنایت ملک نے صدارت کے فرائض انجام دیئے جبکہ ڈاکٹرسیماصغیر مہمان خصوصی کے طورپرایوان صدارت میں موجودتھیں۔ جگموہن،محمدعباس، راشداقبال اورڈاکٹرچمن لال نے اس موقعہ پر موضوع سے متعلق مقالات پیش کئے۔ انہوں نے سرسید،پنجاب اورقومی یکجہتی کے علاوہ سرسیدکی شخصیت اورصحافت پربھی بعض اہم نکات اُبھارے ۔سیمینارکاتیسرااجلاس ظہرانے کے بعددوپہردوبجے اکیڈمی کے سیمی نار ہال میں ہی منعقد ہوا ۔اس اجلاس کی صدارت پروفیسرصغیرافراہیم نے انجام دیں جبکہ پرنسپل درشن خاں کے علاوہ ڈاکٹرروبینہ شبنم بھی ایوان صدارت میںموجودتھیں۔اس اجلاس میں طارق احمدکے علاوہ جاویدانور ،ڈاکٹرراحت ابراراورمظفرحسین سیدنے موضوع سے متعلق اپنے مقالہ جات پیش کرکے سرسید اورپنجاب کے رشتے پرروشنی ڈالتے ہوئے پنجاب کوسرسیدکا سب سے بڑا ساتھی بھی قراردیا۔
اختتامی تقریب میں مختلف مندوبین نے اپنے خیالات کااظہارکرتے ہوئے سیمی نارکی کامیابی پرسیکریٹری پنجاب اُردواکیڈمی ڈاکٹرروبینہ شبنم کومبارکبادپیش کی۔ مظفرحسین سیدنے اس موقعہ پر اظہارخیال کرتے ہوئے مالیرکوٹلہ کے عوام کی مہمان نوازی کاذکرکرتے ہوئے اس سرزمین کوشاعروں اورادیبوں کی دھرتی قراردیاجہاں علمی،ادبی اور شعری روایات کافی مستحکم ہیں۔اس پر امن شہرمیں 1947ءکے پرآشوب دورمیں بھی آپسی بھائی چارے کی روایت برقراررہی اوریہ روایت آج بھی اُسی طرح برقرارہے۔ پروفیسرصغیرافراہیم کے صدارتی خطبے اورڈاکٹرروبینہ شبنم کے اظہارتشکرکے ساتھ ہی یہ دوروزہ معلوماتی سیمی نار اختتام پذیرہوا۔ سیمی نارکے انعقاد کی وجہ سے سرسید احمدخان کی زندگی اورپنجاب سے متعلق اُن کی محبت کے نئے نئے گوشے سامنے آئے جن پرکام کرنے کی مزیدضرورت ہے ۔یہ سب کچھ اُردواکیڈمی کے اہلکاروں اوراہلیان مالیرکوٹلہ کی وجہ سے ممکن ہوسکا جس کے لئے مالیرکوٹلہ کوہمیشہ یادرکھاجائے گا۔
\"\" \"\"

Leave a Comment