تحریر : سعدیہ سلیم شمسی آگرہ ۔
ایک عہد تھا جو تمام ہوا
ایک آفتاب تھا جو شام ہوا
ابھی ابھی تو ہم بے خودی کے عالم میں انہی کے اشعار گنگنا رہے تھے ۔۔
اور ابھی یہ خبر ہمارے پردہِ سماعت میں ارتعاش پیدا کر گئی کہ ڈاکٹر راحت اندوری صاحب اب اس جہانِ بے ثبات میں نہیں رہے اور بہت سارے گنگناتے لبوں ، دھڑکتے دلوں اور مچلتے منچلوں کو اور اپنے انگنت چاہنے والے کو داغ مفارقت دے گئے۔
وقت تو سبھی کو اس جہاں آب و گل میں ایک جتنا ہی ملتا ہے مگر کچھ لوگ وقت سے بھرپور مستفید ہوتے ہیں اور کچھ لوگ وقت کی تیز دھار کے ہاتھوں ترنوالہ بنتے ہیں ۔
ڈاکٹر راحت اندوری صاحب بھی وہ شخصیت تھے جنہوں نے اپنے وقت سے بھرپور استفادہ کیا اور بہت قلیل وقت میں آسمان ادب میں عروج بام حاصل کیا ، یقیناً روح تو قفس عنصری سے پرواز کر گئی جو کہ ایک قانون قدرت بھی ہے اور جیسا کہ انہوں نے خود اپنے ایک شعر میں فرمایا تھا۔
یہ سانحہ تو کسی دن گزرنے والا تھا
میں بچ بھی جاتا تو اک روز مرنے والا تھا
مگر وہ ہمیشہ اپنی شاعری کی صورت لوگوں کے دلوں میں زندہ رہیں گے ۔
ڈاکٹر راحت اندوری صاحب 1 جنوری 1950 میں اندور(مدھیہ پردیش) ، انڈیا میں پیدا ہوئے۔
ابتدائی تعلیم نوتن اسکول اندور ہی میں حاصل کی۔ اسلامیہ كريميہ کالج اندور سے 1973ء میں اپنی بیچلر کی تعلیم مکمل کی۔ اس کے بعد 1975ء میں راحت اندوری صاحب نے بركت اللہ یونیورسٹی، بھوپال سے اردو ادب میں ایم اے کیا۔ 1985ء میں انہوں نے مدھیہ پردیش کے مدھیہ پردیش بھوج اوپن یونیورسٹی سے اردو ادب میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ آپ ایک منفرد لب لہجے کے شاعر اور گیت کار تھے ۔ آپ نے کئی بالی وڈ فلموں کے لیے نغمے لکھے ہیں جو مقبول اور زبان زد عام ہوئے۔
آپ ہندی اور اردو کے معروف شاعر اور کہنہ مشق استاد تھے آپ نے دیوی اہلیہ یونیورسٹی اندور میں بطور پروفیسر بھی خدمات انجام دیں۔
آپ دو دن پہلے کرونا پازیٹیو پائے گئے تھے اور اس موذی مرض سے جاں بر نہ ہوسکے اور راہی ملک عدم ہوگئے ۔
آپ کی اچانک رحلت سے شرق و غرب میں ہر شخص ہی پریشان ہے ۔کیا شعراء کیا ، کیا عوام کیا خواص سبھی سکتے کے عالم میں ہیں ۔
موت اس کی ہے کرے جس کا زمانہ افسوس
یوں تو دنیا میں سبھی آئے ہیں مرنے کے لیے
محمود رام پوری
شعر کا سُونا چمن کچھ اور خالی ہوگیا
ہائے کیسے شخص سے اِندور خالی ہوگیا
رحمان فارس۔
آپ کی شاعری میں رب سے مناجات، مدح رسول ، معاشرے کے مسائل پر کڑھن ، امید کی کرن اور ہجر و وصال بدرجہ اتم پایا جاتا ہے ۔
چند اشعار ملاحظہ فرمائیں۔
عاجزی ، منت ، خوشامد ، التجا
اورمیں
کیا کیا کروںمرجاؤں کیا؟
زم زم و کوثر تسنیم نہیں لکھ سکتا
یا نبی آپ کی تعظیم نہیں لکھ سکتا
میں اگر سات سمندر بھی نچوڑوں راحت
آپ کے نام کی اک میم نہیں لکھ سکتا
ہاتھ خالی ہیں تیرے شہر سے جاتے جاتے
جان ہوتی تو مری جان لٹاتے جاتے
اب تو ہر ہاتھ کا پتھر ہمیں پہچانتا ہے
عمر گزری ہے ترے شہر میں آتے جاتے
دوستی جب کسی سے کی جائے
دشمنوں کی بھی رائے لی جائے
کس نے دستک دی یہ دل پر، کون ہے؟
آپ تو اندر ہیں، باہر کون ہے
افواہ تھی کے میری طبیعت خراب ہے
لوگوں نے پوچھ پوچھ کر بیمار کر دیا
دو گز ہے سہی مگر یہ میری ملکیت تو ہے
اے موت تو نے مجھے زمیندار کر دیا
راحت اندوری
بلاشبہ آپ کی شاعری دیگر شعرا سے یکسر مختلف ہے آپ کا تخیل ، آپ کا انداز انداز بیاں آپ کا لب لہجہ سب اپنی الگ ہی شناخت قائم کر چکا ہے جسے اہل ادب ہمیشہ یاد رکھیں گے۔
آپ کی اہم تصانیف درجہ ذیل ہیں ۔
دھوپ دھوپ ، میرے بعد ، پانچواں درویش ، رت بدل گئی ، ناراض ، موجود وغیرہ ۔
پروفیسر راحت اندوری صاحب کا انتقال اردو ادب کے لیے بہت بڑا سانحہ ہے وہ ہماری اس نسل کی نمائیندگی کرتے ہیں جو انتہائی سنجیدہ ہے یقیناً آپ کا اچانک انتقال اہل ادب کے لیے وہ خلا ہے جسے کبھی پر نہیں کیا جاسکے گا ، تشنہ گان علم و ادب اور آپ کی شاعری کے چاہنے والے ہمیشہ آپ کی کمی محسوس کریں گے۔
آئیے اس دعا کے ساتھ انہیں سفر ہجر میں روانہ کرتے ہیں
کہ اے مالک لم یزل تیرے حبیب کا یہ سچا متوالا اپنے دائمی سفر پر کوچ کر چکا ہے اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کے صدقے انہیں اس آنے والے سفر میں کروٹ کروٹ راحت ، سکون ، فرحت و اطمینان بخش دیجیے اور کامل مغفرت فرمائیے ۔ آمین ثمہ آمین
٭٭٭٭٭