سر سید احمد خان کی یوم پیدائش پرخصوصی پیش کش
٭ڈاکٹر عبدالحی
نائب مدیر ماہنامہ \”اردو دنیا\”
نائب مدیرسہ ماہی \”فکر و تحقیق \”
این سی پی یو ایل، نئی دہلی۔
سرسید احمد خان ایک ایسی عظیم شخصیت کا نام ہے جس نے ہندوستانی مسلمانوں پر اپنی تعلیمی تحریک سے احسان عظیم کیا ہے۔انھوں نے اردو زبان و ادب اور اردو صحافت کو ترقی و کامرانی عطا کی۔انھوں نے اردو صحافت کو ایک نیا وقار عطا کیا اور ایک نئی شناخت دی۔ انھوں نے نہ صرف یہ کہ صحافت کے معیار متعین کیے بلکہ یہ بھی بتایا کہ اردو صحافت کو کیسا ہونا چاہئے۔ یوں تو صحافت کا مقصد لوگوں کو، عوام کو باخبر کرنا ہوتا ہے لیکن سر سید نے صحافت کو اپنا آرگن بنایا اور لوگوں تک اپنی تحریک اور اپنی باتوں کو پہنچانے کا ذریعہ بنایا۔ انھوں نے ایک اصلاحی مقصد کو سامنے رکھتے ہوئے صحافت کا آغاز کیا اور ہندوستانی مسلمانوں میں نئی جان پھونکی۔ ہندوستان کی پہلی جنگ آزادی کے بعد مسلمانوں کا جو حال تھا وہ اور برا ہوتا اگر سر سید جیسی عظیم شخصیت نے اپنی دوراندیشی اور کوششوں سے مسلمانوں میں تعلیم و تربیت کی ترغیب نہ دی ہوتی۔سر سید احمد خاں نے اپنی صحافتی زندگی کی شروعات اپنے بڑے بھائی سید محمد خان کے اخبار سید الااخبار سے کی تھی۔اس ہفتہ وار اخبار کا آغاز 1841 میں ہوا تھا۔ سید محمد خاں چونکہ سرکاری ملازم تھے ۔ اس لیے ادارت کی ذمہ داری مولوی عبدالغفور کے سپرد تھی اور اس میں زیادہ تر مضامین سرسید خود ہی لکھا کرتے تھے۔ مولانا حالی ’حیات جاوید ‘میں لکھتے ہیں :
’’ سرسید کے بڑے بھائی کا انتقال ہوچکا تھا۔ جس سے سوروپئے ماہوار کی آمدنی کم ہوگئی تھی۔ قلعہ کی تنخواہیں تقریباً کل بند ہوگئی تھیں۔ باپ کی املاک بھی بسبب حین حیات ہونے کے ضبط ہوگئی تھی۔ کر ایہ کی آمدنی بہت قلیل تھی۔ صرف سرسید کی تنخواہ کے سو روپئے ماہوار تھے اور سارے کنبے کا خرچ تھا۔ سرسید ابتدا سے نہایت فراخ حوصلہ اور کشادہ دل تھے۔ خرچ کی تنگی کے سبب اکثر منقبض رہتے تھے۔ لہذا ان کو یہ خیال ہوا کہ کسی تدبیر سے یہ تنگی رفع ہو۔ سیدا لاخبار جو ان کے بھائی کا جاری کیا ہوا اخبار تھا کچھ تو اس کو ترقی دینی چاہی اور کچھ عمارات دہلی کے حالات ایک کتاب کی صورت میں جمع کرکے شائع کرنے کا ارادہ کیا۔ سیدا لاخبار کا اہتمام اگرچہ برائے نام ایک اور شخص کے سپرد تھا مگر زیادہ تر سرسید خود اس میں مضامین لکھاکرتے تھے۔ ‘
(مولانا الطاف حسین حالی۔ حیات جاوید۔ ترقی اردو بیورو، نئی دہلی۔ ۱۹۷۹ء۔ ص۔ ۶۵۔۶۴)
سید الاخبار کو دہلی کے لوگ دم الاخوان بھی کہا کرتے تھے۔ یہی وہ اخبار تھا جس سے سرسید نے پہلی بار صحافت کی دنیا میں قدم رکھا اور آگے چل کر اخبار نویسی میں انھیں ایک معتبر مقام حاصل ہوا۔اس اخبار کے مضامین وکلاء،عام لوگوں کے مسائل ،روزمرہ کے کام کاج کے متعلق بھی ہوتے تھے ۔ کبھی کبھی اخبار میں فن تعمیر ، مختلف تاریخی عمارات کا بھی ذکر کیا جاتا تھا۔ خاص طور سے اس اخبار میں جون پور کی تاریخی عمارتوں پر لکھے مضامین ہوتے تھے۔
یہ اخبار ۱۸۴۹ء میں سرسید احمد خاں کی مصروفیت کی وجہ سے بند ہوگیا تھا۔ جیسا کہ نادر علی خاں لکھتے ہیں:
’’ سرکاری ملازمت کے ساتھ ساتھ ڈیڑھ برس کی قلیل مدت میں آثارالصنادید ایسی ضخیم ، معتبر اور قابل سند کتاب کی تالیف وترتیب بذات خود ایک زبردست کارنامہ ہے اور سرسید کی غیر معمولی مصروفیت ، محنت ولیاقت کی غماز ہے۔ ایسی حالت میں دعویٰ کرنا کہ سرسید اس عرصے میں ایک ہفتہ وار اخبار کی ادارت کے فرائض بھی انجام دیتے رہے ۔ یقینا صحیح نہیں ہے بلکہ میراخیال تو یہ ہے کہ سید محمد خاں کا وصال ہونے کے بعد سرسید کی غیر معمولی مصروفیت اور اخبار کی طرف سے بے توجہی کے سبب سے سیدالاخبار بند ہوا تھا۔
(نادر علی خاں۔ اردو صحافت کی تاریخ۔ ایجوکیشنل بک ہاؤس، علی گڑھ۔ ۱۹۶۷ء۔ ص۔ ۱۳۲)
سید الاخبار کے علاوہ سرسید کے مضامین اس وقت کے دوسرے اخباروں اودھ پنج وغیرہ میں بھی شائع ہوتے تھے۔ سرسید احمد خاں نے اردو صحافت کو ایک نیا رخ اورنئی زمین عطاکی اور صحافت کو ایک مشن کی طرح استعمال کیا۔ ایسا بھی نہیںہے کہ انھوں نے اپنے اس مشن کی وجہ سے صحافت کے فن سے کبھی روگردانی کی ہو۔ ان کاصحافت سے متعلق ایک تعمیری نظریہ تھا ایک خاص مقصدتھا اور اپنے اس مقصد کی تکمیل میں وہ پوری طرح سے کامیاب ہوئے۔ ان کی اخبارنویسی کی بعد کے اخبار نویسوں نے تجدید کی اور اردو اخبار نویسی کو صحافت میں ایک اہم مقام عطا کیا۔
ہفتہ وار اخبار رفیق ہند لاہور جو ۵ ؍ جنوری ۱۸۸۴ء کو شروع ہوا تھا۔ اس اخبار کی پہلی اشاعت میں سرسید احمد خاں کا ایک مضمون ’’اخبار ات کیسے ہونے چاہئیں‘‘ شائع ہوا تھا۔ اس اخبار کو مولوی محرم علی چشتی نے شروع کیا تھا۔ یہ مولوی صاحب بعد میں سرسید کے کٹر مخالف بن گئے تھے ، لیکن انہوں نے اپنے اخبار کی شروعات سرسید کے مضمون سے کی تھی۔ یہ مضمون اداریے کے طور پر شائع ہوا تھا۔ اس مضمون سے ظاہر ہوتا ہے کہ سرسید کے پاس اس زمانے میں بھی اخبار نویسی کا جواز موجو دتھا اور ایک اہم مقصد کی تکمیل اور وقت کی ضرورت نے اخبار نویسی کی طرف انہیں مائل کیا تھا۔ ملاحظہ ہو
’’کہتے ہیں اخبار ایک نہایت عمدہ ذریعہ قومی ترقی، ملکی بھلائی ، عوام کی رہنمائی ، خواص کی دلچسپی ، حکام کی ہدایت اور رعایا کی اطاعت کا ہے۔ مگر اس کے دوسرے پہلو پر نظر کمتر کی جاتی ہے ۔ اخبار جیسا ذریعہ ان بھلائیوں کا ہے ویساہی ذریعہ بہت سی برائیوں کا بھی ہے بلکہ افسوس ہے کہ ہمارا ملک ابھی پہلی قسم کے اخباروں کا نہایت محتاج ہے۔ ایسے اخباروں کی کمی سے اور زیادہ تر اخباروں کے پڑھنے والوں کے نہ ہونے سے ملک میں جہالت وناخواندگی اس قدر پھیلی ہوئی ہے کہ کسی شہر وقصبہ میں فی صدی پانچ آدمی بھی اخبار پڑھنے کے لائق نہ نکلیں گے اور جو نکلیں گے وہ اخبار پڑھنے کو تضیع اوقات اور حرکت بے سود سمجھیں گے۔ ۔۔۔۔ نہایت خوشی کی بات ہے کہ ان عمدہ اخباروں میں ایک اور اخبار ’’رفیق ہند‘‘ (کا) اضافہ ہوتا ہے۔ جس کی نسبت توقع ہے کہ نیو ایرز ڈے (سال کے پہلے دن) کو نیا پیدا ہونے والا ہے۔ ہمارے شفیق مولوی محرم علی چشتی جن کی ذہانت، جودت طبع، تیزی خیالات اور ہمدردی قومی مشہور ومعروف ہے اس اخبار کو نکالتے ہیں۔ ہم کو خدا سے امید ہے کہ وہ اخبار ان تمام صفتوں کے ساتھ سلیم الطبع اور متحمل المزاج بھی ہوگا ا ور جس قدر ممکن ہے ملک کو فائدہ پہنچائے گا۔ اور خدا! تو ایسا ہی کر !! آمین !!! ۔ ‘‘راقم ۔سید احمد۔ مقام علی گڑھ)
( محمد اسمعیل پانی پتی۔ مقالات سرسید۔ زریں آرٹ پریس، لاہور۔ ۱۹۶۲ء۔ ص۔ ۷)
یہ مضمون بہت طویل ہے اس لیے یہاں اس کے صرف ایک اقتباس پر اکتفا کیا گیا ہے جس سے سرسید احمد خاں کا صحافتی نظریہ ابھر کر سامنے آتا ہے۔ سرسید احمد خاں کے خیال میں صحافی کو قوم کا ناصح ہونا چاہیے اسے روزمرہ کے حالات ، ملکی وغیر ملکی مسائل کی مکمل جانکاری ہونی چاہیے۔ تبھی وہ صحافت کے میدان میں کامیاب ہوسکتا ہے۔ سرسید احمد خاں نے ایسے پرآشوب دور میں جب مسلمانوں پر ہر طرف سے زوال آیا ہوا تھا۔ قوم کے نشیمن کی تعمیر کاخواب دیکھا تھا اور اپنے صحافتی کاموںسے اپنی تحریک سے اسے پورا بھی کیا۔وہ صحافت کو تعمیری کاموں کا ذریعہ سمجھتے تھے، ان کا صحافتی نظریہ ملک و قوم کی خدمت اور ان کی اصلاح کرنا تھا۔سرسید نے انہیں اصولوں پر کاربند رہ کر صحافت میں اپنا ایک رخ متعین کیا اور آج بھی کتنے ہی اخبار نویس سرسید کے اصولوں پر کاربند ہوکر اردوصحافت کے میدان میں پرچم بلند کررہے ہیں۔
سرسید کی صحافت کے دوسرے دور کو ہم دورزریں یا ان کی صحافت کا سنہر ا دور کہہ سکتے ہیں ۔ سرسید پہلے بھائی کے اخبار میں طبع آزمائی کررہے تھے اور دوسرے اخبارات میں لکھ رہے تھے لیکن پھر انھوں نے اپنا اخبار شروع کیا اور صحافت کے میدان میں اپنی فتح کا نشان لہرادیا۔
۱۸۵۷ء کی بغاوت نے مسلمانوں کو جاہلیت اور پسماندگی کے پرآشوب دور میں لا کھڑا کیا تھا اور مسلمان اس تباہی سے نکل نہیں پارہے تھے۔اس وقت ایسے حالات بن چکے تھے جب کہ انگریز مسلمانوں کو ہی اس بغاوت کاذمہ دار سمجھ رہے تھے۔ ایسی حالت میں سرسید ایسا مرد مجاہد کھڑا ہوتا ہے اور انگریزوں کے سامنے صفائی پیش کرتا ہے کہ مسلمان اس بغاوت کے ذمہ دار نہیں تھے۔ سرسید نے رسالہ اسباب بغاوت ہندلکھا اور انگریزوں کو بغاوت کی وجوہات بتانے کی کوشش کی۔ چپاتیوں کی تقسیم ، روس وایران گٹھ جوڑ، حکومت کا تختہ پلٹنے کی کوشش ، ان سب معاملوں کے تعلق سے انگریزوں کے خیالات میں تبدیلی لانے کی کوشش کی ۔ اس بات کو بھی غلط ثابت کیا کہ مسلمانوں نے انگریزوں کے خلاف جہاد کا اعلان کیا اور اس سلسلے میں باغیوں کا جو جہاد کا فتویٰ چھپا تھا وہ بھی غلط تھا۔
سرسید کا خیال تھا کہ انگریزی حکومت کئی خصوصیات اور کئی صفات کی حامل ہے۔ ان صفات کو عام لوگوں تک پہنچانے کے لیے اور انگریزی تعلیم اور نئے خیالات کو عام کرنے کے لیے انھوں نے اس اخبار کو شروع کیا اور سب سے بڑھ کر یہ کہ یہ پہلا اخبار تھا جس نے آزادی کے ساتھ اظہار را ئے کیا۔
۳۰؍ مارچ ۱۸۶۶ء کا دن اخبار سائنٹفک سوسائٹی کے جاری ہونے کا پہلا دن تھا۔ اخبار کے پہلے ورق پر اردو میںسائنٹفک سوسائٹی اور نیم دائرے میں The Aligarh Institute Gazatte چھپا ہوتا تھا۔ اخبار کے نام کے بعد انگریزی اور اردو میں اخبار کا ماٹو چھپا ہوتا تھا۔
’’آزادی چھاپہ کی ہے۔ ایک بڑا فرض گورنمنٹ کا اور ایک اصلی اور جبلی حق رعیت کا ‘‘۔
بعد میں اس سطر کو تھوڑا تبدیل کرکے اس طرح سے کردیا گیا۔
’’جائز رکھنا چھاپہ کی آزادی کا ہے کام ایک دانا گورنمنٹ کا اور برقرار رکھنا اس آزادی کا کام ایک آزاد رعیت کا‘‘۔
ایک ایسے وقت میں جب کہ غیر ملکی حکومت نے ۱۸۵۷ء کی بغاوت کو بڑی مشکلوں سے دبایا تھا اور ملک میں ایک خوف ودہشت کی فضا بن گئی تھی۔ اس حالت میں اس طرح کا مالؤ اور حکومت کی کوتاہیوں اور غلطیوں کی نشاندہی کرنا بڑی جواں مردی کا کام تھا۔ یہیں سرسید دوسرے صحافیوں سے آگے نظر آتے ہیں۔
’’گو مطابع کی آزادی کی آواز قدیم ’’کوہ نور‘‘ میں بھی سنی گئی تھی۔ لیکن علی گڑھ انسٹی ٹیوٹ گزٹ پہلا اخبار تھا جس نے اپنے سرورق کو اس کے اعلان سے ذہنیت بخشی۔ کافی دنوں تک یہ اخبار ہفتہ وار ہی نکلتا رہا لیکن بعدمیں یہ سہ روزہ ہوگیا۔ اخبار کا ایک کالم انگریزی میںاور ایک کالم اردو میں ہوتا تھا۔ بعض مضامین اردو اور انگریزی دونوں زبانوں میں شائع کیے جاتے تھے۔ سرسید احمد کامنشا یہ تھا کہ ملک کی دو بڑی قومیں ایک دوسرے کے زیادہ سے قریب آئیں اور باہمی افہام وتفہیم کا سلسلہ دراز ہو۔
دس سالوں کے بعد اخبار میںبڑی تبدیلی رونما ہوئی۔ ستمبر ۱۸۷۶ء میں راجہ جگت سنگھ نے اپنا پریس اور انگریزی اخبار ’’پروگرس ـــــــ‘‘سائنٹفک سوسائٹی کو سونپ دیا تو اردو میں ’’اخبار سائنٹفک سوسائٹی علی گڑھ جس میں اخبار پروگرس مل گیا ہے ‘‘ لکھاجانے لگا۔ لیکن جو ن ۱۸۷۷ء میںانگریزی اور اردو دونوں زبانوں میں اس کا نام’’ علی گڑھ انسٹی ٹیوٹ گزٹ ‘‘کردیا گیا اور قارئین کی اطلاع کے لیے لکھا جانے لگا۔’’ جس میںاخبار پروگرس مل گیا ہے‘‘۔
یہ اخبار سولہ صفحات کا ہوتا تھا اور جمعہ کا دن اس کی اشاعت کے لیے مقرر تھا۔ لیکن ہفتے میںدوبارہونے کے بعد ایک سنیچر کواور دوسرا منگل کو نکلنے لگا۔ منگل والا اخبار ۱۲ صفحے کا ہوتا تھا۔یہاں یہ بھی بتادینا ضروری ہے کہ سرسید سرکاری ملازمت میں تھے اس لیے ان کا نام بطور ایڈیٹر شائع بھی نہیں ہوسکتاتھا۔ اخبار کے پہلے ایڈیٹر محمد یار خاں تھے۔ ان کے بعد مولوی اسمٰعیل کے ذمہ ادارت سونپی گئی۔ مئی ۱۸۷۷ء میں سرسید جب علی گڑھ آگئے تو وہ گزٹ کے اعزازی ایڈیٹر ہوگئے۔ بعد میں ۱۸۷۸ء میں انھوں نے یہ ذمہ داری چھوڑدی۔ اس کے بعد بابو درگا پرشاد، خواجہ محمد یوسف اور مولوی سمیع اللہ خاں نے گزٹ کی ادارت کی۔ ساتھ ہی ساتھ سرسید بھی اخبار میںمضامین ، اداریے اور خبروں پر کافی گہرائی سے نظرثانی کرتے تھے۔
ایک ایسے دور میں نہ تو جدید پرنٹنگ مشین اور نہ ہی ضروری وسائل مہیا تھے اتنی کامیابی کے ساتھ ایک لمبے عرصے تک اردو اخبار نکالتے رہنا اپنے آپ میں جوئے شیر لانے کے برابر ہے۔ اردو صحافت جو اس اخبار سے پہلے گھٹنوں کے بل چل رہی تھی۔ سرسید کے اس اخبارنے جیسے اردو صحافت میں جان پھونک دی اور ایک ہی زقند میں اس نے میلوں کا فاصلہ طے کرلیا۔
اخبار سائنٹفک سوسائٹی یا انسٹی ٹیوٹ گزٹ میںسرسید کی صحافتی کا وشوں کو دیکھ کر یہی اندازہ ہوتا ہے کہ وہ درد مند ، سیکولر ، وسیع النظر اور پختہ شعور رکھتے تھے۔ ایک سچا اخبار نویس وہی بن سکتا ہے، جو عوام اور حکومت کے درمیان کے فاصلوں کو کم کرنے کی کوشش کرے اور اس کام میںسرسید دوسرے اخبار نویسوں سے بہت آگے نظر آتے ہیں۔
یوں تو اداریہ نویسی کی ابتدا سرسید کے انسٹی ٹیوٹ گزٹ سے پہلے ہی ہوچکی تھی لیکن باضابطہ طور پر اداریہ کا ارتقاء سرسید کے اخبار سے ہی ہوا۔ انسٹی ٹیوٹ گزٹ کے مختلف اداریوں کو دیکھنے کے بعد جو سب سے اہم بات نکل کر سامنے آتی ہے وہ یہ ہے کہ سرسید نے ان اداریوں کے ذریعے جہاں تعلیم ، مذہب، معاشی مسائل وپسماندگی ، غربت کا رونا رویا ہے وہیں انگریزوں کو ہمیشہ عزت دینے کی کوشش کی ہے۔ یہ عزت اس لیے تھی کہ وہ چاہتے تھے کہ انگریز ہندوستانیوں کو اپنا سمجھیں اور یہی وجہ ہے کہ سرسید نے انگریزوں کے لیے صاحب، صاحب بہادر، بڑے صاحب جیسے الفاظ زیادہ استعمال کیے ہیں۔ سرسید کے اداریوں کو اگر ایک جمع کردیا جائے تو اس وقت کے ہندوستان کی ایک واضح شبیہہ ابھر کر سامنے آئے گی۔ کالے گورے کا فرق ہو، اردو ہندی کا مسئلہ ہو، تہذیب وتمدن ، سچ ، جھوٹ یا پھر کوئی دلدوز واقعہ ہو۔ سرسید نے سبھی کو اداریے میں بیان کیا ہے یہاں یہ بھی واضح کردینا ضروری ہے کہ ان کا اخبار صرف مسلمانوں کی طرف ہی توجہ نہیںدیتا تھا بلکہ دوسرے مذاہب کے لوگوں سے بھی انھیں کافی محبت تھی اور اس طرح سرسید کا ایک سیکولر خاکہ نظر آنے لگتا ہے۔
سرسید احمد خاں نے اردو صحافت کو بامقصد اور مفید بنانے میں بڑا کام کیا ہے۔ انھوں نے اعتدال پسندی اور حکومت کی پالیسیوں کو ماننے کے ساتھ ساتھ مناسب تنقید کا حق ادا کیا۔ سرسید کی کوششوں نے ایک طرف لوگوں میں عام سیاسی اور تعلیمی شعور پیدا کیا اور دوسری طرف اردو زبان وادب کی اصلاح کرکے اسے زندگی سے ہم آہنگ کیا۔ سرسید احمد خاں کی صحافت کے دوش بدوش اردو صحافت کو ایک نیا نقطہ نظر ، ایک نظریہ عطا ہوا اور سرسید کی صحافتی کوششوں سے ہی اردو صحافت ۱۸۵۷ء کی خونی فضا کے بعد بھی بڑی تیزی سے پھلی پھولی۔
ایک صحافی کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ عوام کو قاری کو تمام باتوں سے باخبر رکھے اور اس کے علاوہ دوسری دلچسپیوں پر بھی اخبار کا نظر رکھنا ضروری ہوتا ہے۔ سرسید نے اپنے اخبار میںان باتوں کو بھی ملحوظ خاطر رکھااور روزمرہ کے کام میں آنے والی باتوں پر بھی انھوں نے مضامین لکھے، ضروری اطلاعات بہم پہنچائی ۔ غلے کا نرخ ، تار برقی کا محصول ، علاج معالجے ، گھریلو روزگار ، فنائل بنانا، ہیئر آئل اور اس طرح کے دوسرے کارآمد اور آزمودہ نسخے بھی سرسید کے اخبار میں نظر آجاتے ہیں۔ کبھی کبھی سرسید نے کوئی خبر شائع کی ہے اور ساتھ ساتھ اپنا نظریہ یا اپنا خیال بھی پیش کردیا ہے۔ وہیں موت کی خبر ہے یا ناگہانی آفت کی خبر ہے تو اسے بھی ایسے انداز میںپیش کیا ہے جیسے اخبار والے کو بھی اس ناگہانی آفت سے کافی صدمہ پہنچا ہو ۔
سر سید کے دوسرے اخبار تہذیب الا اخلاق کا آغاز ۲۴ دسمبر ۱۸۷۰ کو ہوا تھا۔یہ وہ رسالہ تھا جس میں سرسید کی صحافت اپنے عروج پر دکھائی دیتی ہے اور اسی اخبار نے ہندوستان کے مسلمانوں کے مستقبل کا خاکہ متعین کردیا تھا۔ تہذیب الااخلاق اخلاقی، تہذیبی، سیاسی، معاشرتی ،مذہبی اور دیگر موضوعات پر مضامین شائع ہوتے تھے۔تہذیب الاخلاق کے مضامین میں آزادی رائے نظر آتی ہے۔ مضامین کو سلسلے وار بھی پیش کیاجاتا تھا تاکہ پڑھنے والوں کی دلچسپی برقرار رہے۔ کبھی کبھی تو ان مضامین کی طوالت کی وجہ سے اطلاع اور خریداری وغیرہ کی اطلاعات بھی شائع نہیںہوتی تھیں۔ ملاحظہ ہو یکم شعبان ۱۳۱۲ھ کا پرچہ جس میں ’ھوالموجود‘ مضمون سے ہی پرچہ شروع کیا گیا ہے۔ قارئین کو جوڑے رکھنے کے لیے صحافت کا اصول ہے جسے پیشہ ور صحافتی ضرور اپناتے ہیں کہ قارئیں کو پڑھنے والوں کو اخبار یا جریدے سے جوڑ دیا جائے اور اسی کے وہ مضمون نگاری کے مقابلے ، انعامی مقابلے یا دوسرے اور کوئی شعروشاعری کے مقابلے اپنے جریدے میں رکھتے ہیں اسی طرح سرسید نے بھی اپنے رسالے میں خط وکتابت کاسلسلہ رکھا تھا اور جو بھی مراسلے موصول ہوتے تھے ان کا مفصل جواب دیا جاتا تھا اور وہ شائع ہوتے تھے۔
اگر یہ کہا جائے تو شاید صحیح ہوگا کہ سرسید کے مضامین کا بنیادی مقصد قوم کی بھلائی اور فلاح تھا نہ کہ اردو زبان وادب کی اصلاح تہذیب الاخلاق کے مضامین میں بھی خیالات کو من وعن بیان کردیا جاتا تھا۔ ایک صحافی کی یہی خصوصیت ہے کہ وہ الفاظ اور تحریر کی خوبصورتی سے پہلے اپنے خیالات کی ترسیل چاہتاہے۔ ایک صحافی کی یہی خصوصیت ہے کہ وہ الفاظ اور تحریر کی خوبصورتی سے پہلے اپنے خیالات کی ترسیل چاہتا ہے۔ اس طرح دیکھا جائے تو تہذیب الاخلاق نے اردو صحافت نگاری میں ایماندارانہ صحافت کا معیار قائم کیا اور سرسید نے ایک سچے صحافی کا حق ادا کیا ہے۔
امداد صابری لکھتے ہیں۔
’’تہذیب الاخلاق نے حقیقتاً علمی ، مذہبی معلوماتی اور سیاسی مسائل سے لوگوں میں بڑی کایا پلٹ کی تھی اور سرسید نے اس اخبار کے ذریعہ اپنے خیالات سے علمی طبقے کو روشناس کرایا تھا اور تعلیم کی طرف توجہ دلائی تھی۔ تہذیب الاخلاق اپنے دور میں اپنا نظیر آپ تھا۔ اگر سرسید مذہبی معاملات میں نہیں الجھتے تو اس اخبار کی مقبولیت بے پناہ ہوتی اور مخالفت کا سیلاب نہ اٹھتا۔ ‘‘
( امداد صابری۔ روح صحافت۔ مکتبہ شاہراہ ۔ اردو بازار ۔ دہلی۔۶۔ ۱۹۶۸ء۔ ص ۵۱؎
انجمن پنجاب لاہور نے تہذیب الاخلاق پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا تھا۔
’’مضمون وبیان کے بلند معیار کی وجہ سے تہذیب الاخلاق قابل ستائش ہے یہ اخبار ہر حیثیت سے فرد افروز ہے۔ ‘‘
( امداد صابری۔ روح صحافت۔ مکتبہ شاہراہ ۔ اردو بازار ۔ دہلی۔۶۔ ۱۹۶۸ء۔ ص ۵۲)
تہذیب الاخلاق نے مسلمانوں کی زندگی کے ہر گوشے کو متاثر کیا اور یہاں تک کہ قوم کو لکھنا پڑھنا سوچنا سمجھنا سکھایا ۔ سرسید نے ایک عام ادیب کی طرح دل ودماغ کے لیے فرحت بخش تحریریں نہیں تخلیق کیں تفریح اور ذہنی سکون کے سامان نہیں مہیا کیے بلکہ ایک بے باک صحافی کی حیثیت سے دل ودماغ اور فکر کے گوشے گوشے میںتبدیلی لادی۔ ان کے طرز تحریر اور تہذیب الاخلاق پر کافی انگلیاں اٹھیں اور اعتراضات کیے گئے یہاں تک کہ ان کی تحریر اور ان کے پرچے کو ادب سے باہر قرار دیا گیا لیکن دھیرے دھیرے مخالفت کے بادل چھٹتے گئے اور اردو ادب اور صحافت کا ایک نیا سورج طلوع ہوا جہاں ادب اور صحافت ایک دوسرے سے مشترک ہوگئے۔ یہ سرسید کی بطور صحافی اور بطور ادیب سب سے بڑی کامیابی ہے۔ اردو صحافت کی تاریخ میں تہذیب الاخلاق کو اس لیے بھی اہم مقام دیا جائے گا کہ پہلی بار خالص مقصدی صحافت کا آغاز اس پرچے سے ہوتا ہے۔ آج کے صحافی حضرات اس پیشے میں صرف اور صرف پیسے کے لیے آتے ہیں جب کہ آج کے حالات بھی ایسے ہی ہیں کہ سرسید کی کوششیں اور ان کی حکمت عملی یاد آتی ہے۔ آج بھی ملک کو ویسے ہی حالات درپیش ہیں اور پھر سے سرسید جیسے ایک صحافی کی ضرورت ہے جو صحافت کے اعلیٰ معیار کے ساتھ ساتھ ملک اور قوم کی اصلاح کا بیڑا اٹھا سکے۔ سرسید نے جس طرح سے قوم کی اصلاح کی اور ساتھ ہی ساتھ صحافت کے قوانین سے کبھی خلاف ورزی بھی نہیں کی ۔ یہ یقینا سرسید کی صحافت کا درخشاں باب ہے اور تہذیب الاخلاق ان کی صحافت کا چمکتا ہوا ستارہ جس کے مضمون آج بھی ہمارے دلوں کو گرمادیتے ہیں اور بے اختیار سرسید کی کوششیں یاد آجاتی ہیں۔
٭٭٭